احکامات قرآنیہ کواپنے تابع کرنے والوں کاانجام بد
{وَیَقُوْلُوْنَ لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلہِ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ}(۲۰)
ترجمہ کنزالایمان:اور کہتے ہیں ان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری تم فرماؤ غیب تو اللہ کے لیے ہے اب راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ راہ دیکھ رہا ہوں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اورکفارمکہ کہتے ہیں ، اس نبی(ﷺ) پر ان کے رب تعالی کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی ؟ اے حبیب کریمﷺ!آپ فرمائیں کہ غیب تو صرف اللہ تعالی کے لیے ہے، تو تم انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کررہاہوں۔
کفارمکہ کااعتراض
اعْلَمْ أَنَّ ہَذَا الْکَلَامَ ہُوَ النَّوْعُ الرَّابِعُ مِنْ شُبُہَاتِ الْقَوْمِ فِی إِنْکَارِہِمْ نُبُوَّتَہُ،وَذَلِکَ أَنَّہُمْ قَالُوا: إِنَّ الْقُرْآنَ الَّذِی جِئْتَنَا بِہِ کِتَابٌ مُشْتَمِلٌ عَلَی أَنْوَاعٍ مِنَ الْکَلِمَاتِ، وَالْکِتَابُ لَا یَکُونُ مُعْجِزًا، أَلَا تَرَی أَنَّ کِتَابَ مُوسَی وَعِیسَی مَا کَانَ مُعْجِزَۃً لَہُمَا، بَلْ کَانَ لَہُمَا أَنْوَاعٌ مِنَ الْمُعْجِزَاتِ دَلَّتْ عَلَی نُبُوَّتِہِمَاسِوَی الْکِتَابِ وَأَیْضًا فَقَدْ کَانَ فِیہِمْ مَنْ یَدَّعِی إِمْکَانَ الْمُعَارَضَۃِ،کَمَا أَخْبَرَ اللَّہ تَعَالَی أَنَّہُمْ قَالُوا:لَوْ نَشاء ُ لَقُلْنا مِثْلَ ہَذَا (الْأَنْفَالِ:۳۱)وَإِذَا کَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ لَا جَرَمَ طَلَبُوا مِنْہُ شَیْئًا آخَرَ سِوَی الْقُرْآنِ، لِیَکُونَ مُعْجِزَۃً لَہُ، فَحَکَی اللَّہ تَعَالَی عَنْہُمْ ذَلِکَ بِقَوْلِہِ:وَیَقُولُونَ لَوْلا أُنْزِلَ عَلَیْہِ آیَۃٌ مِنْ رَبّہِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ کلام حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت شریفہ کے انکارمیں کفارمکہ کے شبہات میں چوتھی نوع ہے ، وہ یوں کہ وہ کہاکرتے تھے کہ قرآن کریم جو آپﷺہمارے پاس لائے تھے وہ ایسی کتاب ہے جو کلمات کی انواع پرمشتمل ہے اورکتاب معجزہ نہیں ہوتی، کیاتم نہیں جانتے کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام اورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی کتابیں ان کے لئے معجزہ نہ تھیں ، بلکہ ان کی نبوت پرکتاب کے علاوہ دیگرمعجزات دلیل بنے ، پھریہ بھی ہے کہ ان میں معارضہ کے امکان کادعوی کرنے والے بھی تھے ۔
جیسے اللہ تعالی نے یہ خبردی کہ وہ کہتے ہیں کہ {لَوْ نَشاء ُ لَقُلْنا مِثْلَ ہَذَا }اگرہم چاہتے توایسا ہم بھی کہہ دیتے ۔ اگرمعاملہ اسی طرح ہوتوضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کے علاوہ کسی اورشئی کامطالبہ کریں تاکہ وہ آپ ْﷺکامعجزہ بنے ۔ تواللہ تعالی نے ان کایہ قول نقل فرمایا: {وَیَقُولُونَ لَوْلا أُنْزِلَ عَلَیْہِ آیَۃٌ مِنْ رَبّہ}اورکہتے ہیں کہ ان پران کے رب تعالی کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری ؟۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۷:۲۳۰)
کفارکورب تعالی کی طرف سے جواب
فَأَمَرَ اللَّہ رَسُولَہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَنْ یَقُولَ عِنْدَ ہَذَا السُّؤَالِ إِنَّمَا الْغَیْبُ لِلَّہِ فَانْتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِینَ وَاعْلَمْ أَنَّ الْوَجْہَ فِی تَقْرِیرِ ہَذَا الْجَوَابِ أَنْ یُقَالَ:أَقَامَ الدَّلَالَۃَ الْقَاہِرَۃَ عَلَی أَنَّ ظُہُورَ الْقُرْآنِ عَلَیْہِ مُعْجِزَۃٌ قَاہِرَۃٌ ظَاہِرَۃٌ لِأَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بَیَّنَ أَنَّہُ نَشَأَ فِیمَا بَیْنَہُمْ وَتَرَبَّی عِنْدَہُمْ، وَہُمْ عَلِمُوا أَنَّہُ لَمْ یُطَالِعْ کِتَابًا، وَلَمْ یُتَلْمِذْ لِأُسْتَاذٍ بَلْ کَانَ مُدَّۃَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً مَعَہُمْ وَمُخَالِطًا لَہُمْ، وَمَا کَانَ مُشْتَغِلًا بِالْفِکْرِ وَالتَّعَلُّمِ قَطُّ، ثُمَّ إِنَّہُ دَفْعَۃً وَاحِدَۃً ظَہَرَ ہَذَا الْقُرْآنُ الْعَظِیمُ عَلَیْہِ، وَظُہُورُ مِثْلِ ہَذَا الْکِتَابِ الشَّرِیفِ الْعَالِی، عَلَی مِثْلِ ذَلِکَ الْإِنْسَانِ الَّذِی لَمْ یَتَّفِقْ لَہُ شَیْء ٌ مِنْ أَسْبَابِ التَّعَلُّمِ، لَا یَکُونُ إِلَّا بِالْوَحْیِ فَہَذَا بُرْہَانٌ قَاہِرٌ عَلَی أَنَّ الْقُرْآنَ مُعْجِزٌ قَاہِرٌ ظَاہِرٌ،وَإِذَا ثَبَتَ ہَذَا کَانَ طَلَبُ آیَۃٍ أُخْرَی سِوَی الْقُرْآنِ مِنَ الِاقْتِرَاحَاتِ الَّتِی لَا حَاجَۃَ إِلَیْہَا فِی إِثْبَاتِ نُبُوَّتِہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ،وَتَقْرِیرِ رِسَالَتِہِ،وَمِثْلُ ہَذَا یَکُونُ مُفَوَّضًا إِلَی مَشِیئَۃِ اللَّہ تَعَالَی، فَإِنْ شَاء َ أَظْہَرَہَا، وَإِنْ شَاء َ لَمْ یُظْہِرْہَا، فَکَانَ ذَلِکَ مِنْ بَابِ الْغَیْبِ، فَوَجَبَ عَلَی کُلِّ أَحَدٍ أَنْ یَنْتَظِرَ أَنَّہُ ہَلْ یَفْعَلُہُ اللَّہ أَمْ لَا؟ وَلَکِنْ سَوَاء ٌ فَعَلَ أَوْ لَمْ یَفْعَلْ،فَقَدْ ثَبَتَتِ النُّبُوَّۃُ، وَظَہَرَ صِدْقُہُ فِی ادِّعَاء ِ الرِّسَالَۃِ،وَلَا یَخْتَلِفُ ہَذَا الْمَقْصُودُ بِحُصُولِ تِلْکَ الزِّیَادَۃِ وَبِعَدَمِہَا، فَظَہَرَ أَنَّ ہَذَا الْوَجْہَ جَوَابٌ ظَاہِرٌ فِی تَقْرِیرِ ہَذَا المطلوب۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکواس موقع پریہ جواب دینے کاحکم دیا:اس جواب کی تفصیل یوں ہے کہ اللہ تعالی نے اس پرغالب دلائل قائم فرمائے کہ قرآن کریم کاظہورآپﷺپرظاہروغالب معجزہ ہے ، اس لئے کہ آپﷺانہیں کے درمیان پلے بڑھے ، اورزندگی بسرکی اوروہ جانتے ہیں کہ آپﷺنے کسی کتاب کامطالعہ نہیں کیا، کسی استاد کے شاگردنہیں بنے ، بلکہ چالیس سال کی مدت انہیںکے ساتھ بھرپورزندگی گزاری،اورآپﷺفکروتعلیم میں ہرگزمشغول نہیں ہوئے تواچانک بیک وقت یہ قرآن کریم آپﷺپرظاہرہوا، اس عالی مرتبت کتاب کاظہورایسے انسان پرجسے اسباب تعلیم میں سے کوئی بھی شئی حاصل نہ ہو، یہ وحی کی بنیادپرہی ہوسکتاہے ، یہ قاہربرہان اس پرہے کہ قرآن کریم ظاہروباہرمعجزہ ہے ۔
جب یہ ثابت ہے توقرآن کریم کے علاوہ کسی اورنشانی کامطالبہ ان تعصبات میں سے ہے جس کی آپﷺکی نبوت کے اثبات اوررسالت کی پختگی کے لئے کوئی ضرورت نہیں تواسی طرح کامعاملہ اللہ تعالی کی مشیت کے سپردہے ، اگروہ چاہے توان نشانیوں کوظاہرکرے اوراگرچاہے توظاہرنہ کرے ، یہ باب غیب سے ہے اورہرایک پرلازم ہے کہ وہ انتظارکرے کہ اللہ تعالی ایسے کرتاہے یانہیں کرتا!لیکن خواہ وہ کرے یانہ کرے نبوت ثابت ہے اوردعوی رسالت کاصدق ظاہرہے ، یہ مقصود میں اضافہ اوراس کے عدم کی وجہ سے مختلف نہیں ہوسکتاتوواضح ہوگیاکہ اس مطلوب کی پختگی میں یہ وجہ بڑاواضح جواب ہے ۔
( التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۷:۲۳۰)
حکم قرآن کو حقیرجاننے والااورحاکم کے حکم کوبڑاجاننے والاذلیل ہوکرمرا
آوردہ اند کہ سپہ سالاری بود ظالم وبا اتباع خود بخانہ یکی از مشایخ کبار فرود آمد خداوند خانہ گفت من منشوری دارم بخانہ من فرود میا گفت منشوری بنمای شیخ در خانہ رفت ومصحفی عزیز داشت ودر پیش بیاورد وباز کرد این آیت بر آمد کہ یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلی أَہْلِہا سپہسالار گفت من پنداشتم کہ منشور امیر داری بدان التفات نکرد ودر خانہ شیخ فرود آمد آن شب قولنجش بگرفت وہلاک شد)
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک فوج کاآرمی چیف بڑاظالم تھا، اپنے لشکرسمیت ایک ولی کامل کی خدمت میں حاضرہوا، بزرگ نے فرمایاکہ میرابھی ایک منشورہے ، میں تجھے اپنے گھرمیں حاضری کی اجازت نہیں دیتا، اس ظالم آرمی چیف نے کہاکہ مجھے اپنامنشوردکھائیں !اس بزرگ نے اپنے گھرسے قرآن کریم اٹھایااوراس میں یہ آیت کریمہ{ یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلی أَہْلِہا}پڑھ کرسنائی (اے ایمان والو!اجازت کے بغیرکسی کے گھرمیں نہ جائو۔ اس ظالم آری چیف نے کہا: میں نے سمجھاکہ تیرے پاس بادشاہ کاحکم نامہ موجودہے ۔ اورقرآن کریم کو اس نے کچھ نہ سمجھااورجبراًاس بزرگ کے گھرمیں داخل ہوگیا۔ اس کی نحوست پڑی کہ اسی رات قولنج کی بیماری میں مرگیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۸)
احترام قرآن کریم سے ہی مقامات رفیعہ حاصل کئے جاسکتے ہیں
وفیہ اشارۃ الی ان حضرۃ القرآن لیس کسائر الآیات فمن ردہ واستحقرہ فقد تعرض لسخط اللہ تعالی أشد التعرض کما ان من قبلہ وعظمہ صورۃ بالرفع والمس علی الطہارۃ ونحو ذلک ومعنی بالعمل بما فیہ والتخلق بأخلاقہ نال من اللہ کل ما یتمناہ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس سے واضح ہواکہ قران کریم بلندمقام کامالک ہے ، دوسری کتابوں کی طرح اسے نہ سمجھناچاہئے ، جواسے حقیرجان کرردکرتاہے تواللہ تعالی اس کی سخت گرفت فرماتاہے ، جیسے کوئی اس کی دل وجان سے عزت واحترام کرتاہے تومن جانب اللہ اس کو بہت بڑاجروثواب ملتاہے ۔قرآن کریم کی ظاہری عزت واحترام یہ ہے کہ اسے اٹھائیں توادب کے ساتھ اورباوضوہوکرہاتھ لگائیں اورمعنوی عزت واحترام یہ ہے کہ اس کے احکامات کی پابندی کریں اوراس کے ارشادات پرزندگی بسرکریں ، پھراللہ تعالی سے جومرتبہ چاہیں پالیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۸)
سلطنت عثمانیہ کوعروج قرآن کریم کوفوقیت دینے کی وجہ سے حاصل ہوا
حکی ان عثمان الغازی جد السلاطین العثمانیۃ انما وصل الی ما وصل برعایۃ کلام اللہ تعالی وذلک انہ کان من أسخیاء زمانہ یبذل النعم للمترددین فثقل ذلک علی اہل قریتہ ونغصوا علیہ فذہب لیشتکی من اہل القریۃ الی الحاج بکتاش او غیرہ من الرجال فنزل بیت رجل قد علق فیہ مصحف فسأل عنہ فقالوا ہو کلام اللہ تعالی فقال لیس من الأدب ان نقعد عند کلام اللہ تعالی فقام وعقد یدیہ مستقبلا الیہ فلم یزل قائما الی الصبح فلما أصبح ذہب الی طریقہ فاستقبلہ رجل وقال انا مطلبک ثم قال لہ ان اللہ تعالی عظمک واعطاک وذریتک السلطنۃ بسبب تعظیمک لکلامہ ثم امر بقطع شجرۃ وربط برأسہا مندیلا وقال لیکن ذلک لواء ثم اجتمع عندہ جماعۃ فجعل أول غزوتہ بلاجک وفتح بعنایۃ اللہ تعالی ثم اذن لہ السلطان علاء الدین فی الظاہر ایضا فصار سلطانا ثم بعد ارتحالہ صار ولدہ اورخان سلطانا ففتح ہو بروسۃ المحروسۃ بالعون الإلہی فمن ذلک الوقت الی ہذا الآن الدولۃ العثمانیۃ علی الازدیاد بسبب تعظیمہ کتاب اللہ وکلامہ القدیم کذا فی الواقعات المحمودیۃ فلیلازم العاقل تعظیم القرآن العظیم لیزداد جاہہ ورتبتہ ولیحذر من تحقیرہ لئلا ینتقص شأنہ وہیبتہ ألا تری ان السلطان محمد الرابع وأعوانہ لما رفضوا العمل بالقرآن وأخذوا بالظلم والعدوان سلط اللہ علیہم وعلی الناس بسببہم القحط والخوف فخرج من أیدیہم اکثر القلاع المعموریۃ الرومیۃ واستولی الکفار الی ان طمعوا فی القسطنطینیۃ واشتد الخوف الی ان قال الناس این المفرّ وکل ذلک وقع من القرناء السوء فانہم کانوا یحثون السلطان علی الجریان بخلاف الشرع۔
ترجمہ :سلاطین عثمانیہ کے جداعلی اورمورث اول نے مرتبہ بلندپایاتواسی قرآن کریم کی عزت وتکریم سے ، چنانچہ واقعات محمودیہ میں ہے کہ سلطان معظم حضرت عثمان رحمہ اللہ تعالی ابتداء ًبہت سخی تھے ، ان کالنگرہرآنے والے ہرمسافرکے لئے ہمہ وقت جاری رہتا، دوردورتک ان کی سخاوت کاشورتھا، بہت بڑی مخلوق ان کے لنگرخانے میں ہروقت موجود رہتی تھی ، ان سے ان کے ہمسائے گان تنگ ہوئے جس کی وجہ سے انہیں بہت ستاتے ، ان کی شکایت الحاج بکتاش یاکسی اورحاکم وقت کو سنانے کے لئے گھرسے روانہ ہوئے ، ایک اجنبی کے گھررات کو قیام پذیرہوئے ، اس کے گھرمیں قرآن کریم لٹکاہوادیکھ کرصاحب خانہ سے فرمایاکہ قرآن کریم کے آداب کے خلاف ہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کو نہایت ادب کے ساتھ اٹھایاجائے ، چنانچہ انہوں نے خود اٹھ کرقرآن کریم کو سرپراٹھالیااورصبح تک نہایت ادب سے اٹھائے رکھا، جب صبح ہوئی تووہ اپنے مقصدکے لئے روانہ ہوئے توراستے میں ان کو ایک حسین وجمیل انسان ملااورفرمایاکہ میں تیرامطلب ہوں اوراللہ تعالی نے تجھے اورتمھاری اولادکو بہت بڑااعزاز سلطنت کابخشا، وہ صرف اسی لئے کہ تونے قرآن کریم کی تعظیم وتکریم کی ہے ، پھراس شخصیت نے فرمایاکہ ایک بڑی لکڑی پرجھنڈابنالیں اوراسے کھڑاکردیں تویہی تمھاراشاہی جھنڈاہے ، اس کے بعد بہت سے لوگ جمع ہوگئے اورپہلی جنگ لاجک میں ہوئی ، اسے اللہ تعالی نے فتح ونصرت سے نوازا، اس پرسلطان علائوالدین نے اپنی ایک سلطنت ریاست قائم کرنے کی اجازت دے دی ، سلطان علاوء الدین رحمہ اللہ تعالی کے فوت ہونے پریہ مستقل بادشاہ ہوئے ، پھراورخان ان کاجانشین ہوکراس نے برووسہ مہروسہ کواللہ تعالی کے فضل وکرم سے فتح کیااوراس وقت تاحال سلطنت عثمانیہ کامیابی پرہے ، وہ صرف اسی لئے کہ آل عثمان کے جداعلی نے قرآن کریم کی عزت وتکریم کی ۔
داناکے لئے لازم ہے کہ وہ قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ عزت وتکریم کرے تاکہ اس کی برکت سے اعزازواکرام نصیب ہواوراس کی بے حرمتی اوربے ادبی سے بچے تاکہ اس کی نحوست سے مارانہ جائے جیسے سلطنت عثمانیہ کاسلطان محمدرابع کاحشرہواکہ اس نے جب سے قرآن کریم کے احکام کی خلاف ورزی کی اورظلم وستم کواپناطریقہ کاربنایاتواللہ تعالی نے ان کی نحوست سے ان پراوردیگرلوگوں پرقحط مسلط فرمایا اوران پرخوف وہراس پھیلاگیا، اوراس بدقسمتی سے روم کے علاقوں کے کئی قلعے اس کے قبضے سے نکل گئے اورکفارکااس پرغلبہ ہوگیایہاں تک کہ کفارقسطنطنیہ جو ان کادارالخلافہ ہے چھیننے پرآمادہ ہیں اوراس کی تمام سلطنت میں اتنی بے قراری چھاگئی ہے کہ لوگ کہتے ہیں این المفریعنی بھاگ کرکہاں جائیں !یادرہے کہ بادشاہ کے ساتھ جوکچھ ہورہاہے برے مشیروں کی وجہ سے ہورہاہے کیونکہ یہی نالائق اسے ظلم وستم پراکستاتے اورمشورہ دیتے ہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۸)
معارف ومسائل
اس آیت میں اہلِ باطل کا جو طریقہ بیان ہوا ا س کی کچھ جھلک بعض اوقات ان افراد میں بھی نظر آتی ہے جو خود کو اہلِ علم مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود مسلمانوں کے عقائد و نظریات پر انتہائی شاطرانہ طریقے سے وار کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے اور انہیں کفر و گمراہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب خوفِ خدا رکھنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کی فکر کرنے والے علماء کی طرف سے ان کی علمی گرفت کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر لوگوں کی نظروں میں اس کی وقعت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس گرفت کی کوئی ایسی اہمیت نہیں جس کا جواب دے کر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا جائے۔ اے کاش! یہ اس بات پر غور کر لیں کہ علم کے باوجود ان کا مسلمانوں کے مُسلَّمہ عقائد و نظریات سے جدا راستے پر چلنا کہیں ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر تو نہیں۔(تفسیرصراط الجنان(۴:۳۰۱)