تفسیرسورۃیونس آیت ۲۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ

کفارمکہ کی طرف سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت شریفہ کے انکاراورلبرل وسیکولر طبقہ کی طرف سے دین متین کے انکارمیں قدرمشترک ’’مادیت پرستی ہے‘‘

{اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ ؔ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ }(۲)

ترجمہ کنزالایمان:کیا لوگوں کو اس کا اچنبھا ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد کو وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈر سناؤ اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے کافر بولے بیشک یہ تو کھلا جادوگر ہے۔

ترجمہ ضیاء الایمان: کیاکفارمکہ کو اس بات پر تعجب ہورہاہے کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد کی طرف یہ وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈر سنائیںاور ایمان والوں کو خوشخبری دیں کہ ان کے لیے ان کے رب تعالی کے پاس سچ کا مقام ہے۔ کافربولے:بیشک یہ تو کھلا جادوگر ہے۔

شان نزول
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْکُفَّارَ قَالُوا لَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ:إِنَّ اللَّہَ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ یَکُونَ رَسُولُہُ بَشَرًا وَقَالُوا:مَا وَجَدَ اللَّہُ مَنْ یُرْسِلُہُ إِلَّا یَتِیمَ أَبِی طَالِبٍ،فَنَزَلَتْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کاشان نزول یہ ہے کہ کفارنے اس وقت کہاجب حضورتاجدارختم نبوتﷺکو اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا، بے شک اللہ تعالی اس سے عظیم ترہے کہ اس کارسول کوئی بشرہو۔ اورانہوںنے یہ کہاابوطالب کے یتیم کے سوااللہ تعالی نے کوئی نہیں پایاکہ جسے وہ رسول بناکربھیجے۔ تب اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۳۰۶)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت کے انکارکی وجہ ؟

فأنہم کانوا یتعجبون من إرسال البشر ولم یتعجبوا من ان یکون الا لہ صنما من حجر او ذہب او خشب او نحاس او ممن لا یعرف بکونہ ذا جاہ ومال وریاسۃ ونحو ذلک مما یعدونہ من اسباب العز والعظمۃ فانہم کانوا یقولون العجب ان اللہ تعالی لم یجد رسولا یرسلہ الی الناس الا یتیم ابی طالب وہو من فرط حماقتہم وقصر نظرہم علی الأمور العاجلۃ وجہلہم بحقیقۃ الوحی والنبوۃ فانہ علیہ السلام لم یکن یقصر عن عظمائہم فی النسب والحسب والشرف وکل ما یعتبر فی الریاسۃ من کرم الخصال الا فی المال ولا مدخل لہ فی شرف النفس ونجابۃ جوہرہا الا انہم لعظم الغنی فی أعینہم تعجبوا من اصطفائہ للرسالۃ۔

ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارمکہ اس سے متعجب ہوتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان جیسا بشرنبی بناکربھیجا، لیکن وہ اس سے تشویش میں مبتلاء نہ تھے کہ انہوں نے پتھروں ، لکڑیوں ، پیتل اوردیگرایسی چیزوں کو معبود بنارکھاتھاکہ جن کو نہ کوئی مرتبہ ،نہ مال اورنہ ہی کوئی حکومت حاصل تھی ۔ یاانہیں ایسے اسباب میسرتھے کہ جن سے انہیں ذی عزت وعظمت سمجھاجاتا، مکہ کے احمق کافرکہاکرتے تھے کہ اللہ تعالی کورسول بنانے کے لئے ابوطالب کاپروردہ یتیم ملا؟ اس کی خدائی میں اورکوئی ذی عزوشان شخص نہیں تھا، وہ اپنی کمال حماقت اورانتہائی سفاہت سے بکتے تھے ، ان کی نظرمادیات پرتھی اوروہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ پرنظررکھتے تھے اوران کو وحی اورنبوت کی حقیقت سے ذرہ برابربھی خبرنہیں تھی ۔ورنہ حضورتاجدارختم نبوتﷺعزت وعظمت حسب ونسب اوردیگرکمالات سے ان سے کچھ کم نہ تھے بلکہ انہیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے خصائل حمیدہ اورعادات کریمہ کااعتراف تھا،صرف ظاہری طورپرآپﷺکے ہاں مال نہیں تھااورمال کی کمی انسان کی شریف النفسی اورجوہرذاتی کے لئے دخیل نہیں بنتی لیکن چونکہ وہ دولت اوردنیاوی مال واسباب کے بھوکے تھے اسی لئے وہ آپﷺکے ہاں مال کی کمی کو دیکھ کرآپﷺکی رسالت سے شرفیاب ہونے کابھی انکارکربیٹھے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۵)

لبرل وسیکولرہمیشہ فیضان نبوت وولایت سے محروم رہتاہے

واعلم ان حال الولایۃ کحال النبوۃ ولو رأیت اکثر اہل الولایۃ فی کل قرن وعصر لوجدتہم ممن لا یعرف بجاہ ومن عجب من ذلک القی فی ورطۃ الإنکار وحجت بذلک الستر عن رؤیۃ الأخیار۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یادرہے کہ ولایت کاحال بھی نبوت جیساہی ہے ، ہرزمانہ میں اہل اللہ کی یہی شان رہی ہے کہ وہ ظاہری طورپرکسی قسم کی ٹھاٹھ باٹھ نہیں رکھتے تھے جوانہیں دیکھ کران کی ولایت کاانکارکرتاہے تواسے کسی بھی ولی اللہ کی صحبت ومعیت نصیب نہیں ہوتی اوروہ ہمیشہ محروم ہی رہتاہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۵)

کفارمکہ کے نزدیک منصب نبوت ہی قابل استہزاء تھا

أَکانَ لِلنَّاسِ عَجَباً استفہام انکار للتعجب وعجبا خبر کان واسمہ أَنْ أَوْحَیْنا واللام فی للناس متعلق بمحذوف حال من قولہ عجبا وفی اللام دلالۃ علی انہم جعلوہ عجوبۃ لہم یوجہون نحوہ انکارہم واستہزاء ہم۔

ترجمہ :حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {أَکانَ لِلنَّاسِ عَجَبا}یہ استفہام تعجبی انکاری ہے یعنی تعجب ہے کہ لوگ اس بات پرتعجب کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایک انسان کے پاس وحی بھیجی ہے ، ان کو اس بات پرتعجب نہیں کرناچاہئے ۔ لناس میں لام بتارہاہے کہ انسان کانبی ہوناان کی نظرمیں عجوبہ تھا، جوکہ ایک قابل انکاراورقابل استہزاء امرتھا۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۵)

اس سے معلوم ہواکہ کفارکے نزدیک دنیاوی ترقی ہی کامیابی کامدارہے حالانکہ بالکل ایسانہیں ہے اورایسی سوچ رکھناکہ مادیت پرستی اوردنیاوی ہوس پرستی اوردنیاوی مال ومتاع ہی متاع زندگی اورحاصل فلاح وفوز ہے تویہی بے دینی ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جوسوچ آجکل کے لبرل وسیکولرلوگوں کی ہے یہی سوچ اس وقت کے مکہ کے کافروں کی تھی ۔ جس طرح لبرل لوگ انگریزوں کی دنیاوی عیش پرستی کودیکھ کر عش عش کراٹھتے ہیںاوراہل اسلام کی غربت کو دیکھ کر اسلام کاہی انکارکئے جارہے ہیں یہی حال اس وقت کے کافروں کاتھا۔

معجزات وکرامات کے منکرین ازلی بدبخت ہیں

قال الام الیافعی رحمہ اللہ ثم ان کثیرا من المنکرین لو رأوا الأولیاء والصالحین یطیرون فی الہواء لقالوا ہذا سحر وہؤلاء شیاطین ولا شک ان من حرم التوفیق وکذب بالحق غیبا وحدسا کذب بہ عیانا وحسا فواعجبا کیف نسب السحر وفعل الشیاطین الی الأنبیاء العظام والأولیاء الکرام نسأل اللہ العفو والعافیۃ سرا وجہاراوان یحفظنا من العقائد الزائغۃ والأعمال الموجبۃ بوارا۔

ترجمہ :امام عبداللہ یافعی الیمنی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بہت سے اولیاء کرام پرانکارکرنے والے ان کی طرح کرامات دیکھ کرکہتے ہیں کہ یہ جادوہے اورکرامات دکھانے والے شیطان ہیں ۔ جوشخص ازلی محروم اورحق کامنکرہوتاہے تواسے غیبی امورپرایمان نہیں ہوتا، وہ ایسے امورعالم شہودمیں دیکھ کرانکارکردیتاہے، جیسے بدبختوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات اوراولیاء کرام علیہم الرحمہ کی کرامات دیکھ کرجادوسے تعبیرکیااوران حضرات کونعوذباللہ شیاطین کہا۔ ہم اللہ تعالی سے عفووعافیت چاہتے ہیں اورسوال کرتے ہیں کہ ہمیں ان عقائدواعمال سے بچائے جودوزخ کے ایندھن کاسبب بنتے ہیں ۔
روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۵)

حضور تاجدار ختم نبوت ﷺکو یتیم کہناحرام ہے

امام زرقانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
الیتیم من الیتم موت الاب قبل بلوغ الولد اومن الانفراد کدرۃ یتیمۃ کما قیل فی قولہ تعالٰی الم یجدک یتیما ای واحد ا فی قریش عدیم النظیر انتہی ومذہب مالک لایجوز علیہ ھذا الاسم ۔
ترجمہ:لفظ یتیم، یتم سے ہے یعنی بچہ کے بالغ ہونے سے پہلے باپ کا فوت ہونا، یا اس کا معنی منفرد اور یکتا ہونا ہے جیسے کہا جاتاہے دریتیم (یکتا موتی)جیساکہ اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی’’کیااس نے تجھے یتیم نہیں پایا‘‘کے تحت مفسرین نے کہا ہے یعنی قریش میں آپ کی مثال نہیں ملتی یکتا ہیں انتہی، امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کافتوٰی ومذہب یہ ہے کہ اس نام (یتیم)کا اطلاق آپ ﷺپر جائز نہیں۔
(شرح الزرقانی :أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی بن یوسف بن أحمد بن شہاب الدین بن محمد الزرقانی المالکی (۴:۲۲۸)

قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ المتوفی (۵۴۴ھ) لکھتے ہیں
وَأَفْتَی فُقَہَاء ُ الْأَنْدَلُسِ بِقَتْلِ ابْنِ حَاتِمٍ الْمُتَفَقِّہِ الطُّلَیْطِلِیِّ وَصَلْبِہِ بِمَا شُہِدَ عَلَیْہِ بِہِ مِنَ اسْتِخْفَافِہِ بِحَقِّ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَسْمِیَتِہِ إِیَّاہُ أَثْنَاء َ مُنَاظَرَتِہِ بِالْیَتِیمِ وَخَتَنِ حیدرۃ ،وَزَعْمِہِ أَنَّ زُہْدَہُ لَمْ یَکُنْ قَصْدًا، وَلَوْ قَدَرَ عَلَی الطَّیِّبَاتِ أَکَلَہَا.. إِلَی أَشْبَاہٍ لِہَذَا.
ترجمہ: فقہاء اندلس نے ابن حاتم المتفقۃ الطلیطلی کے قتل اور پھانسی لٹکانے کا فتوٰی دیا اس کے خلاف یہ شہادت ملی کہ اس نے دوران مناظرہ آپﷺ کے مقام کی بے ادبی کرتے ہوئے آپ کو یتیم اورحیدر کا سسر کہا، اور اس کا خیال یہ تھا کہ آپﷺکا زھداختیاری نہ تھا اگر آپ طیبات پرقادر ہوتے تو ضرور انھیں استعمال میں لاتے، اس کی مثل گستاخی کے دیگر اقوال (پربھی یہی حکم لگے گا)
الشفا بتعریف حقوق المصطفی:عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۴۸۱)

ملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ المتوفی (۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں
یکفی امرواحد منہا فی تکفیرہ وقتلہ ۔
ترجمہ: اس کی تکفیر اور قتل کے لئے ان مذکورہ اشیاء میں سے ایک ہی کافی ہے۔
(شرح الشفا:علی بن (سلطان)محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۲:۷۹۷)
حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
وَأفْتی أَبُو الْحَسَن القابِسیّ فِیمَن قَال فِی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الْجَمَّال یَتِیم أَبِی طَالِب بالْقَتْل۔
ترجمہ :امام ابوالحسن قابسی نے اس کے قتل کا فتوٰی دیا جوآپﷺ کو ابوطالب کا یتیم اونٹوں والا کہے کیونکہ یہ آپ ﷺکے حق میں توہین ہے۔
(الشفا ء:أبو الفضل القاضی عیاض بن موسی الیحصبی (۲:۳۱۷)
حضرت ملاعلی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں
لعل الجمع بین الوصفین مطابق للواقع فی السوال والافکل واحد منہما یکفی فی تکفیر صاحب المقال ۔
ترجمہ:دو چیزوں(اونٹوں والا، ابوطالب کا یتیم)کو شاید سوال میں جمع ذکرکرنے کی وجہ سے اکٹھا کردیا گیا ہے ورنہ ان دونوں میں سے ایک کابھی قائل کافر ہے۔
(شرح الشفا:علی بن (سلطان)محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۲:۳۹۵)

امام ابن عابدین وامام نبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہماکانظریہ
ونقل بعضہم :ان ہذہ اللفظۃ لاتقال الافی مقام التعلیم :بل نص بعض المالکیۃ علی ان من قال فی المجالس انہ ﷺیتیم یرتدوالعیاذ باللہ تعالی ۔

ترجمہ :اوربعض علماء کرام نے یہ بھی نقل کیاہے کہ یہ لفظ (یعنی رسول اللہ ﷺکو یتیم کہنا) صرف اورصرف مقام تعلیم میں بولاجائے گابلکہ بعض علماء مالکیہ نے تویہ بیان کیاہے کہ اگرکسی شخص نے مجالس میں یہ کہہ دیاکہ رسول اللہ ﷺیتیم تھے تووہ مرتدہوجائے گا۔العیاذ باللہ تعالی ۔
(جواہر البحار فی فضائل النبی المختار ﷺلامام یوسف بن اسماعیل النبہانی (۳: ۴۳۰)
مقام تعلیم یہ ہے کہ جب استاد اپنے طلبہ کو پڑھانے لگے توبتائے وگرنہ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کے لئے یہ لفظ بولناجائز نہیں ہے ۔

امام شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
وھذا ماقال الامام ابن حجر المکی ونقلہ فی النسیم مقراعلیہ عند ذکر فتیا الامام ابی الحسن القابسی المذکورۃ الظاھر ان مذھبنا لایابی ذلک لمافی عبارتہ من الدلالۃ علی الازراء فان ذکریتیم ابی طالب فقد لم یکن صریحا فی ذٰلک فیما یظھر نعم ان کان السیاق یدل علی الازراء کان کما لوجمع بین اللفظین ۔
ترجمہ: یہ وہ ہے جو امام ابن حجر مکی نے فرمایا:صاحب نسیم الریاض نے اسے امام ابوالحسن القابسی کے فتوے مذکورہ کے ساتھ نقل کرکے اسے مؤید وثابت رکھاظاہریہی ہے کہ ہمارا مذہب اس کا انکار نہیں کرتا کیونکہ فقط یتیم ابوطالب کہنے میں ظاہراً وصراحۃً توہین نہیں ہے ہاں جب کلام کا پس منظر توہین پردال ہوگا تو یہ توہین بنے گا جیساکہ اس صورت میں بنتاہے جب دونوں (یتیم ابوطالب، اونٹ والا)کو جمع کردیا گیا ہو ۔(نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض (۲:۲۳۶)

Leave a Reply