حضورتاجدارختم نبوتﷺکااحکامات شرعیہ میں کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہ کرنے کابیان
اورلبرل وسیکولرطبقہ کے احکامات شرعیہ میں تبدیلی کے نعروں کاردبلیغ
{وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَآء َنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہ مِنْ تِلْقَآیِ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ }(۱۵)
ترجمہ کنزالایمان:اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں وہ کہنے لگتے ہیں جنہیں ہم سے ملنے کی امید نہیں کہ اس کے سوا اور قرآن لے آیئے یا اسی کو بدل دیجئے تم فرماؤ مجھے نہیں پہنچتا کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اسی کا تابع ہوں جو میری طرف وحی ہوتی ہے میں اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:ااور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں وہ کہنے لگتے ہیں جنہیں ہم سے ملنے کی امید نہیں کہ اس کے علاوہ اور قرآن لے آیئے یا اسی کو بدل دیجئے ۔اے حبیب کریمﷺ!آپ فرمادیں: مجھے نہیں پہنچتا کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اسی کا تابع ہوں جو میری طرف وحی ہوتی ہے میں اگر اپنے رب تعالی کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
شان نزول
قَالَ قَتَادَۃُ:یَعْنِی مُشْرِکِی مَکَّۃَوَقَالَ مُقَاتِلٌ:ہَمْ خَمْسَۃُ نَفَرٍ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُمَیَّۃَ الْمَخْزُومِیُّ وَالْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ وَمِکْرَزُ بْنُ حَفْصٍ وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی قیس العامری والعاص بن وائل بن ہشام قالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقاء َنَا،(ہم السابقون ذِکْرُہُمْ)قَالُوا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :إِنْ کُنْتَ تُرِیدُ أَنْ نُؤْمِنَ بِکَ ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ہَذَا،لَیْسَ فِیہِ تَرْکُ عِبَادَۃِ اللَّاتَ وَالْعُزَّی وَمَنَاۃَ، وَلَیْسَ فِیہِ عَیْبُہَا،وَإِنْ لَمْ یُنْزِلْہَا اللَّہُ فَقُلْ أَنْتَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِکَ،أَوْ بَدِّلْہُ،فَاجْعَلْ مَکَانَ آیَۃِ عَذَابٍ آیَۃَ رَحْمَۃٍ،أَوْ مکان حراما حلالا أومکان حلالا حَرَامًا، قُلْ لَہُمْ یَا مُحَمَّدُ:مَا یَکُونُ لِی أَنْ أُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقاء ِ نَفْسِی،مِنْ قِبَلِ نَفْسِی إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحی إِلَیَّ،(أَیْ:مَا أَتْبَعُ إِلَّا مَا یُوحَی إِلَیَّ)فِیمَا آمُرُکُمْ بِہِ وَأَنْہَاکُمْ عَنْہُ، إِنِّی أَخافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یعنی مشرکین مکہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں آکرعرض کیا۔ حضرت سیدناامام مقاتل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ پانچ لوگ تھے (۱)عبداللہ بن امیہ المخزومی(۲) ولیدبن مغیرہ (۳)مکرزبن حفص(۴)عمروعبداللہ بن ابی قیس العامری (۵) العاص بن وائل بن ہشام تھے ۔نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کہا کہ اگر آپﷺ چاہتے ہیں کہ ہم آپﷺ پر ایمان لے آئیں تو آپ ﷺاس قرآن کے سوا دوسرا قرآن لائیے جس میں لات،عُزّیٰ، مَنات وغیرہ بتوں کی برائی اور ان کی عبادت چھوڑنے کا حکم نہ ہو اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسا قرآن نازل نہ کرے تو آپﷺ اپنی طرف سے بنالیجئے یا اسی قرآن کو بدل کر ہماری مرضی کے مطابق کردیجئے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کا یہ کلام یا تو تمسخر واِستہزاء کے طور پرتھا یا انہوں نے تجربہ و امتحان کے لئے ایسا کہا تھا کہ اگر یہ دوسرا قرآن بنا لائیں یا اس کو بدل دیں تو ثابت ہوجائے گا کہ قرآن کلامِ ربّانی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کریمﷺ کو حکم دیا کہ اے حبیب کریمﷺ! آپ ﷺان سے فرما دیں کہ میرے لئے حلال نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کروں۔ میں تو کمی زیادتی اور تبدیلی کے بغیر صرف اسی کا تابع ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی فرماتا ہے اور یہ میرا کلام نہیں کہ میں اس میں تبدیلی کر سکوں بلکہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اگر میں نے اپنی طرف سے اللہ تعالی کے کلام میں کوئی تبدیلی کر کے اس کی نافرمانی کی تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور ویسے بھی دوسرا قرآن بنانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں کیونکہ انسا ن کااس سے عاجز ہونا تو اچھی طرح ظاہر ہو چکا ہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۱۱:۲۳۴)
کفارمکہ کے تین مطالبات جوعین کفرتھے
وفی قو لہم ذلک ثلاثۃ أوجہ:أحد ہا:أَنَّہُمْ سَأَلُوہُ أَنْ یُحَوِّلَ الْوَعْدَ وَعِیدًا وَالْوَعِیدَ وَعْدًا وَالْحَلَالَ حَرَامًا وَالْحَرَامَ حَلَالًا،قَالَہُ ابْنُ جَرِیرٍ الطَّبَرِیُّ الثَّانِی:سَأَلُوہُ أَنْ یُسْقِطَ مَا فِی الْقُرْآنِ مِنْ عَیْبِ آلِہَتِہِمْ وَتَسْفِیہِ أَحْلَامِہِمْ، قَالَہُ ابْنُ عِیسَی الثَّالِث :اَنَّہُمْ سَأَلُوہُ إِسْقَاطَ مَا فِیہِ مِنْ ذِکْرِ الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ،قَالَہُ الزَّجَّاجُ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ کفارمکہ کے اس قول میں تین وجوہ ہیں: پہلی وجہ : کفارمکہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ ختم نبوت میں عرض کی کہ قرآن کریم میں وعدہ کو وعیدمیں اوروعیدکو وعدہ میں اورحلال کو حرام میں اورحرام کو حلال میں تبدیل کردیں۔یہ امام ابن جریرالطبری رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے ۔
دوسری وجہ : کفارمکہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ ختم نبوت میں یہ سوال کیاکہ قرآن کریم میں ان کے معبودان باطلہ کے عیوب کاذکرہے اورکفارمکہ کے دانالوگوں کوجہاں جہاں احمق وبے وقوف کہاگیاہے وہ قرآن کریم سے ساقط کردیں ، یہ امام ابن عیسی رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے ۔
تیسری وجہ : کفارمکہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ ختم نبوت میں یہ سوال کیاکہ موت کے بعد زندہ کئے جانے اوراٹھائے جانے کاجوذکرقرآن کریم میں موجودہے اسے ساقط کردیں اوروہاں سے زائل کردیں ۔ یہ امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۳۱۸)
ان پانچ گستاخوں کاقتل ہونا
رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُمَا:أَنَّ خَمْسَۃً مِنَ الْکُفَّارِ کَانُوا یَسْتَہْزِئُونَ بِالرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَبِالْقُرْآنِ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ الْمَخْزُومِیُّ،وَالْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ السَّہْمِیُّ،وَالْأَسْوَدُ بْنُ الْمُطَّلِبِ، والأسود بن عبد یغوث،والحرث بْنُ حَنْظَلَۃَ، فَقَتَلَ اللَّہ کُلَّ رَجُلٍ مِنْہُمْ بِطَرِیقٍ آخَرَ،کَمَا قَالَ:إِنَّا کَفَیْناکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ پانچ کافرجوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکامذاق اڑایاکرتے تھے ان میں ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل سہمی ، اسودبن مطلب ، اسود بن عبدیغوث اورحارث بن حنظلہ تواللہ تعالی نے ان میں سے ہرایک کومختلف طریقوںسے قتل کروادیا۔ جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:{إِنَّا کَفَیْناکَ الْمُسْتَہْزِئِین}(اے حبیب کریمﷺ!بے شک آپﷺ پرہنسنے والوں پرہم آپﷺ کی مددکریں گے )
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۷:۲۳۰)
کفارمکہ کے اس قول کے پیچھے کیامقصدپوشیدہ تھا؟
ولعلہم سألوا ذلک طمعا فی ان یسعفہم الی إتیانہ من قبل نفسہ فیلزموہ بان یقولوا قدتبین لنا انک کاذب فی دعوی ان ما تقرأہ علینا کلام الہی وکتاب سماوی اوحی إلیک بواسطۃ الملک وانک تقولہ من عند نفسک وتفتری علی اللہ کذبا۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارمکہ نے اس ارادہ پرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں عرض کی کہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺان کی مراد پوری فرمادیں گے توہم کہیں گے کہ اے نبی ﷺ!آپ کادعوی تویہ تھاکہ میرے پاس جو کلام آتاہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے آتاہے اورفرشتہ لے کرآتاہے اگرآپ ﷺکی بات سچی ہوتی توآپ ﷺنے اب ہمارے کہنے پرکیسے عمل کرلیا؟یہ توتم اللہ تعالی کی ذات پربہتان باندھتے ہو۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۴)
حکم شرع کی تبدیلی کی طلب بھی حرام ہے
وفیہ اشارۃ الی ان التبدیل إذا کان عصیانا مستوجبا للعذاب یکون اقتراحہ کذلک لانہ نتیجتہ والنتیجۃ مبنیۃ علی المقدمۃ فعلم منہ ان المؤدی الی المکروہ او الحرام مکروہ او حرام ألا تری ان بعض الکیوف التی یستعملہا ارباب الشہوات۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ جس طرح آیات قرآنیہ کی تبدیلی حرام ہے اسی طرح اس کی تبدیلی کی طلب بھی حرام ہے ، اس لئے کہ منطقی قاعدہ ہے کہ نتیجہ کامدارمقدمہ پرہوتاہے جس امرکامقدمہ حرام ہے اس کانتیجہ بھی حرام ہوتاہے ، جوچیزحرام یامکروہ کاسبب ہووہ شئی بھی حرام یامکروہ ہوتی ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۴)
یہ کہناکہ دین پرچلنابہت مشکل کام ہے؟
فی ہذا الزمان مؤد الی استثقال الصوم الفرض واستثقال امر اللہ تعالی لیس من علامات الایمان تسأل اللہ تعالی ان یجذب عناننا من الوقوع فی مواقع الہلاک۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے دورمیں بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ روزہ رکھناکتناسخت کام ہے اس طرح دوسرے امورشرعیہ شاقہ کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہت سخت ہیں تووہ بھی حرام کے مرتکب ہوتے ہیں اوراہل ایمان کو لائق نہیں ہے کہ وہ ایسی باتیں کہیں ، ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں سوال کرتے ہیںکہ ہمیں اپنی مہربانی سے ایسے امورمیں واقع ہونے سے بچائے جو ہلاکت کاموجب بنتے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۴)
قرآن کریم کے خلاف رائے دینے والاکافرہے
حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کسی کی ذاتی رائے سے قرآن کریم نہیں بدل سکتا، اگرساری دنیاکے عاقل قرآن کریم کے کسی ایک حکم شریف کے خلاف رائے دیں توان کی رائے جھوٹی بلکہ کفرہے ۔ قرآن کریم سچاہے ، بدلنے والانہیں ہے ۔ اوراسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فیصلے کسی کی رائے سے نہیں بدل سکتے ، وہ قرآن کریم کی طرح اٹل اورانمٹ ہیں۔
(تفسیرنعیمی از مولانامفتی احمدیارخان نعیمی ( ۱۱: ۲۳۱)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکادین کے معاملہ میں کسی طرح بھی سمجھوتہ نہ کرنا
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:وَحَدَّثَنِی یَعْقُوبُ بْنُ عُتْبَۃَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ الْأَخْنَسِ أَنَّہُ حُدِّثَ:أَنَّ قُرَیْشًا حِینَ قَالُوا لِأَبِی طَالِبٍ ہَذِہِ الْمَقَالَۃَ،بَعَثَ إلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ لَہُ:یَا ابْنَ أَخِی،إنَّ قَوْمَکَ قَدْ جَاء ُونِی، فَقَالُوا لِی کَذَا وَکَذَا، لِلَّذِی کَانُواقَالُوا لَہُ، فَأَبْقِ عَلَیَّ وَعَلَی نَفْسِکَ،وَلَا تُحَمِّلْنِی مِنْ الْأَمْرِ مَا لَا أُطِیقُ،قَالَ:فَظَنَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَدْ بَدَا لِعَمِّہِ فِیہِ بَدَاء ٌأَنَّہُ خَاذِلُہُ وَمُسْلِمُہُ، وَأَنَّہُ قَدْ ضَعُفَ عَنْ نُصْرَتِہِ وَالْقِیَامِ مَعَہُ قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یَا عَمُّ، وَاَللَّہِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِینِی،وَالْقَمَرَ فِی یَسَارِیعَلَی أَنْ أَتْرُکَ ہَذَا الْأَمْرَ حَتَّی یُظْہِرَہُ اللَّہُ،أَوْ أَہْلِکَ فِیہِ،مَا تَرَکْتُہُ قَالَ:ثُمَّ اسْتَعْبَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَبَکَی ثُمَّ قَامَ، فَلَمَّا وَلَّی نَادَاہُ أَبُو طَالِبٍ،فَقَالَ:أَقْبِلْ یَا بن أَخِی، قَالَ:فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:اذْہَبْ یَا بن أَخِی،فَقُلْ مَا أَحْبَبْت،فو اللہ لَا أُسْلِمُکَ لِشَیْء ِ أَبَدًا.
ترجمہ :امام محمدبن اسحا ق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارمکہ جمع ہوکر حضرت ابوطالب کے پاس آئے اور یہ کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے اس لئے یا تو آپ درمیان میں سے ہٹ جائیں اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیں یا پھر آپ بھی کھل کر ان کے ساتھ میدان میں نکل پڑیں تا کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہو جائے ۔حضرت ابو طالب نے قریش کا تیور دیکھ کر سمجھ لیا کہ اب بہت ہی خطرناک اور نازک گھڑی سر پر آن پڑی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اب قریش برداشت نہیں کر سکتے اور میں اکیلا تمام قریش کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔حضرت ابو طالب نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کو انتہائی مخلصانہ اور مشفقانہ لہجے میں عرض کیاکہ میرے پیارے بھتیجے !اپنے بوڑھے چچا کی سفید داڑھی پر رحم کرو اور بڑھاپے میں مجھ پر اتنا بوجھ مت ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں ۔ اب تک تو قریش کا بچہ بچہ میرا احترام کرتا تھا مگر آج قریش کے سرداروں کا لب و لہجہ اور ان کا تیور اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ اب وہ مجھ پر اور تم پر تلوار اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے دعوتِ اسلام موقوف کر دو ۔ اب تک حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ظاہری معین، مددگار جو کچھ بھی تھے وہ صرف اکیلے ابو طالب ہی تھے ۔
حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے دیکھا کہ اب ان کے قدم بھی اکھڑ رہے ہیں ، چچا کی گفتگو سن کرحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے بھرائی ہوئی مگر جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا کہ چچا جان!خدا کی قسم!اگر قریش میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے اس فرض سے باز نہ آئوں گا ۔ یا تو خدا اس کام کو پورا فرما دے گا یا میں خود دین اسلام پر نثار ہو جائوں گا ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی یہ جذباتی تقریر سن کر ابو طالب کا دل پسیج گیا اور وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی ہاشمی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ بھتیجے کی محبت میں گرم ہو کر کھولنے لگا اور انتہائی جوش میں آ کر کہہ دیا کہ جانِ عم (چچا کی جان)جائو میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ جب تک میں زندہ ہوں کوئی تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا ۔
(السیرۃ النبویۃ:عبد الملک بن ہشام بن أیوب الحمیری المعافری، أبو محمد(۱:۲۶۶)
معارف ومسائل
(۱)یہ بات ذہن میں رہے کہ قیامت تک جو مسلمان زندہ رہے گا وہ شریعت پر زندہ رہے گا۔
(۲)ہم مسواک پر بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے ، توشریعت کے احکامات ، حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس کی بات ، حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ختم نبوت کی بات توبہت دورکی بات ہے ۔
(۳) اسلامی احکامات میں تبدیلی چاہنا، انہیں اپنی رائے کے مطابق کرنے کی کوشش کرنابدترین کفارکاطریقہ ہے ، قرآن کریم کے سانچہ میں تم ڈھلو، قرآن کریم کو اپنے سانچہ میں نہ ڈھالو، آج یہ بیماری بعض انگریز تعلیم یافتہ لوگوں میں پیداہوگئی ہے کہ ان کے بعض لوگ اسلامی احکامات کو اپنی رائے کے مطابق کرناچاہتے ہیں ۔ جتنے فرقے اسلام میں نکل پڑے ہیں سب کی اصل بنیادیہی ہے ۔
(۴) کفارکے یہ مطالبات بدنیتی ، مذاق ، ہنسی ، دل لگی پرمبنی تھے ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عرض معروض اخلاص سے ہواکرتی تھی ، نیز کفاراصول دینی بدل دینے کامطالبہ کرتے تھے ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ بات نہ تھی ، اس وجہ سے یہ فرق ہوا، دیکھوکفارنے مطالبہ کیاکہ زمین مکہ میں پانی کے چشمے ، باغات لگا دینے کامعجزہ دکھائیں توان کو منع کردیاگیا۔ مگرایک جنگل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیاسے ہوئے توان کے لئے انگلیوں سے چشمے جاری فرمادیئے ۔ ایک پیالہ پانی سے سارالشکرسیرفرمادیا۔یہ معجزہ ان کے مطالبے سے زیادہ عجیب تھاکہ زمین سے پانی کے چشمے نکلاہی کرتے ہیں مگرانگلیوں سے پانی کاچشمہ جاری ہونابہت عجیب ہے ۔ (تفسیرنعیمی (۱۱: ۲۳۱)
(۵) جوکام مکہ کے مشرکین کیاکرتے تھے وہی کام آج ہمارے ملک پاکستان کے حکمران کرتے ہیں ، کبھی سود میں جواز کی راہ تلاش کرتے ہیں توکبھی جہاد سے انکارکی راہ ڈھونڈتے ہیں اوریہی حال لبرل وسیکولر بے دین لوگوں کاہے ، وہ بھی احکامات شرع میں اپنی من مانیاں کرتے پھرتے ہیں ، جس چیز کو چاہیں حلال ٹھہرالیں اورجس چیز کو چاہیں حرام قراردے دیں۔
(۶) اب آپ قرآن کریم کی اس واضح آیت کریمہ کومدنظررکھ کرذراموجودہ حکومتوں کے نظام کاجائزہ لیں کہ دنیامیں آج جتنے بھی حکمران موجودہیں وہ اللہ تعالی کے قانون کی کس حد تک پابندی کررہے ہیں ؟ غیرمسلم اقوام توخارج ازبحث ہیں ، ہم دنیاکی ساٹھ کے قریب مسلمان ریاستوں پر بھی نظرڈالتے ہیںتو اس معاملے میں سخت مایوسی ہوتی ہے کہ کسی ایک ریاست میں بھی من وعن قرآن کریم کے قانون پرعملدارآمدنہیں ہورہا، قرآن کریم کے احکامات کانفاذکاخیال تواسے آسکتاہے جوقرآن کریم کی تلاوت کرے گااورپھراس کو سمجھنے کی کوشش کرے گااورجس نے قرآن کریم کوپڑھاہی نہیں وہ اس کے قوانین کو نافذ کیسے کرے گا؟ آج کتنے لوگ ہیں جوقرآن کریم کے مطالب ومعانی کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ اس کو کماحقہ سمجھنے کے لئے سخت محنت اوربڑاوقت دینے کی ضرورت ہے ۔ محض امتحان پاس کرنے کے لئے چندسورتیں پڑھ لیناکوئی معنی نہیں رکھتا۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے آٹھ سالوں میں سورۃ البقرہ کی تفسیرمکمل کی تھی ۔ اس کے مضامین علوم ومعارف اورحقائق کو معلوم کیاتھا، قرآن کریم میںتمام اصول موجود ہیں ، عمل کے لئے واضح لائحہ عمل موجود ہے ، اسکے لئے پوری پوری عمروقف کرنے کی ضرورت ہے ، تب جاکراس کی باتیں سمجھ میں آئیں گی ۔ امام شافعی رضی اللہ عنہ امت کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک ہیں ، انہیں ایک مسئلہ میں ترددپیداہوگیاتواس کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم کی تین سومرتبہ تلاوت کی ، ہرہرآیت کریمہ پرغوروفکرکرتے اورمسئلہ کاحل تلاش کرتے ۔ آخرتین سوبارتلاوت کرنے کے بعد وہ ایک آیت کریمہ پررک گئے اوراپنامقصود پالیا۔ مطلب یہ ہے کہ حقیقت کوپانے کے لئے بڑی بڑی قربانی اورزیادہ سے زیادہ محنت بھی کرنی پڑے توکرگزرنے سے گوہرمقصودحاصل ہوگا۔
(۷)شریعت کا ایک اہم مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام اور حلال کی تعیین بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے وہ ساری چیزیں حلال کردی ہیں جو طیب وپاک ہیں ، جن کو اس کی فطرت سلیمہ پسند کرتی ہے ، جو اس کی جسمانی صحت اور اخلاق وروحانیت کیلئے مفید ہیں۔ اسی طرح اس نے ان تمام چیزوں کو حرام ٹھہرادیا ہے جن کو قبول کرنے سے انسان کی فطرت انکار کرتی ہے، جو اس کی صحت اور کردار پر اثر ڈالتی ہیں اور جو خبیث وناپاک ہیں۔
جب کوئی شخص حلت اور حرمت کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہی نہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ کرے اور اس نے تفصیل بھی بتادی ہے تو پھر شریعت میں حذف اور اضافہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں اس اجتہاد سے بحث نہیں جو شریعت کے حلال وحرام کی روشنی میں ہوتا ہے ، اس لئے کہ وہ اس کے تابع ہوتا ہے۔
(۸)اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کفار کے ساتھ اسلام کے قَطْعِیّات میں سے کسی چیز پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کی خوشنودی کیلئے اسلام کی کوئی قطعی چیز چھوڑ دیں جیسے ان کی خوشی کیلئے سود کی اجازت دیں ، یا پردے کو ختم کردیں ،یا نمازوں میں کمی کرلیں یا گائے کی قربانی بند کردیں۔(تفسیرصراط الجنان( ۴:۶۹۲)