منافقین ، لبرل وسیکولر اوریہودیوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرنے میں مماثلت
{کَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْکُمْ قُوَّۃً وَّاَکْثَرَ اَمْوٰلًا وَّاَوْلٰدًا فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلٰقِہِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلٰقِکُمْ کَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ بِخَلَاقِہِمْ وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمٰلُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ}(۶۹)
ترجمہ کنزالایمان:جیسے وہ جو تم سے پہلے تھے تم سے زور میں بڑھ کر تھے اور ان کے مال اور اولاد تم سے زیادہ تو وہ اپنا حصہ برت گئے تو تم نے اپنا حصہ برتا جیسے اگلے اپنا حصہ برت گئے اور تم بیہودگی میں پڑے جیسے وہ پڑے تھے ان کے عمل اکارت گئے دنیا اور آخرت میں اور وہی لوگ گھاٹے میں ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے منافقین کی جماعت !جس طرح تم سے پہلے لوگ تم سے قوت میں زیادہ مضبوط اور مال اور اولاد کی کثرت میں تم سے زیادہ تھے پھر انہوں نے اپنے حصے سے لطف اٹھایا تو تم بھی اسی طرح اپنے حصے سے لطف اٹھالو جیسے تم سے پہلے والوں نے اپنے حصوں سے فائدہ حاصل کیا اور تم اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے جیسے وہ بیہودگی میں پڑے تھے۔ ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں ضائع ہوگئے اور وہی لوگ خسارے میں ہیں۔
{ وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا}کامعنی
فَالْمَعْنَی:خُضْتُمْ فِی أَسْبَابِ الدُّنْیَا بِاللَّہْوِ وَاللَّعِبِ وَقِیلَ:فِی أَمْرِ مُحَمَّدٍ (صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )بِالتَّکْذِیبِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کامعنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کامعنی یہ ہے کہ تم لہوولعب کے ساتھ اسباب دنیامیں ایسے ڈوب گئے اورکھوگئے ، اوریہ بھی کہاگیاہے کہ تم جھٹلانے اورتکذیب کرنے کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے معاملے میں مشغول ہوگئے ۔ (تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۰۱)
لبرل وسیکولر انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرکے یہودیوںکے پیروکاربن گئے
وَلَمَّا بَیَّنَ تَعَالَی مُشَابَہَۃَ ہَؤُلَاء ِ الْمُنَافِقِینَ لِأُولَئِکَ الْمُتَقَدِّمِینَ فِی طَلَبِ الدُّنْیَا، وَفِی الْإِعْرَاضِ عَنْ طَلَبِ الْآخِرَۃِ، بَیَّنَ حُصُولَ الْمُشَابَہَۃِ بَیْنَ الْفَرِیقَیْنِ فِی تَکْذِیبِ الْأَنْبِیَاء ِ وَفِی الْمَکْرِ وَالْخَدِیعَۃِ وَالْغَدْرِ بِہِمْ فَقَالَ: وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خاضُوا۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے ان منافقین کو پہلوں کے ساتھ دنیاپرستی اورآخرت کی طلب سے روگردانی میں مشابہت بیان کی توان دونوں گروہوں کے درمیان انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی اوران کے ساتھ مکراورفریب اورانبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ دھوکہ دینے میں مشابہت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔{خُضْتُمْ کَالَّذِی خاضُوا}یعنی تم بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ ایساہی دھوکہ ، فریب اوران کی گستاخیاں کروگے جیساکہ یہودیوں نے اپنے انبیا ء کرام علیہم السلام کے ساتھ کیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۹۸)
انبیا کرام علیہم السلام کی گستاخی کے سبب نیک اعمال برباد ہوگئے
ثُمَّ قَالَ تَعَالَی:أُولئِکَ حَبِطَتْ أَعْمالُہُمْ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَۃِ أَیْ بَطَلَتْ حَسَنَاتُہُمْ فِی الدُّنْیَا بِسَبَبِ الْمَوْتِ وَالْفَقْرِ وَالِانْتِقَالِ مِنَ الْعِزِّ إِلَی الذُّلِّ وَمِنَ الْقُوَّۃِ إِلَی الضَّعْفِ، وَفِی الْآخِرَۃِ بِسَبَبِ أَنَّہُمْ لَا یُثَابُونَ بَلْ یُعَاقَبُونَ أَشَدَّ الْعِقَابِ وَأُولئِکَ ہُمُ الْخاسِرُونَ حَیْثُ أَتْعَبُوا أَنْفُسَہُمْ فِی الرَّدِّ عَلَی الْأَنْبِیَاء ِ وَالرُّسُلِ، فَمَا وَجَدُوا مِنْہُ إِلَّا فَوَاتَ الْخَیْرَاتِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَإِلَّا حُصُولَ الْعِقَابِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَالْمَقْصُودُ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا شَبَّہَ حَالَ ہَؤُلَاء ِ الْمُنَافِقِینَ بِأُولَئِکَ الْکُفَّارِ بَیَّنَ أَنَّ أُولَئِکَ الْکُفَّارَ لَمْ یَحْصُلْ لَہُمْ إِلَّا حُبُوطُ الْأَعْمَالِ وَإِلَّا الْخِزْیُ وَالْخَسَارُ، مَعَ أَنَّہُمْ کَانُوا أَقْوَی مِنْ ہَؤُلَاء ِ الْمُنَافِقِینَ وَأَکْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا مِنْہُمْ، فَہَؤُلَاء ِ الْمُنَافِقُونَ الْمُشَارِکُونَ لَہُمْ فِی ہَذِہِ الْأَعْمَالِ الْقَبِیحَۃِ أَوْلَی أَنْ یَکُونُوا وَاقِعِینَ فِی عَذَابِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، مَحْرُومِینَ من خیرات الدنیا والآخرۃ.ملخصاً۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کو جھوٹاکہنے میں اپنے آپ کومشغول کرلیاتوانہوںنے اس سے دنیاوآخرت کی خیرات اوربھلائیوں کو ہی فوت کردیا، اوردنیاوآخرت میں عذاب حاصل کیا۔ مقصودیہ ہے کہ اللہ تعالی نے منافقین کے احوال کوکفارکے ساتھ تشبیہ دی ، توواضح کیاکہ ان کفارکوحبط اعمال ہی حاصل ہوا، رسوائی اورخسارہ ہی پایاہے ، باوجوداس کے کہ وہ ان منافقین سے زیادہ طاقت والے ، اموال واولاد میں کثیرتھے ۔ تویہ منافقین ان کے ساتھ شریک ہیں تومنافقین بدرجہ اولی ان کے ساتھ عذاب میں شریک ہوں گے ۔ اوردنیاوآخرت کی خیرات سے محروم ہوں گے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۹۸)
تم بھی اپنی بیوی کے ساتھ سرعام جماع کروگے
عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ دَخَلَ حُجْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ، وَحَتَّی لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ جَامِعَ امْرَأَتَہُ بِالطَّرِیقِ لَفَعَلْتُمُوہُ صَحِیحٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: تم اگلوں کی راہ پربالشت بہ بالشت اورہاتھ بہ ہاتھ ضرورچلوگے ، یہاں تک کہ اگریہودونصاری میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں گھساتھاتوتم بھی گھسوگے ، اگران میں سے کسی نے اپنی بیوی کے ساتھ راستے میں سرعام جماع کیاہوگایعنی لوگوں کے سامنے بے حیائی کے ساتھ توتم بھی ایساہی کروگے۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ (۴:۵۰۲)
تم یہودونصاری کی پیروی کروگے
حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاء ِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ سَلَکُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوہُ قُلْنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی قَالَ فَمَنْ؟۔
ترجمہ :حضرت سیدناابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:یقیناً تم (مسلمان بھی)اپنے سے پہلے لوگوں کی بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ (قدم بقدم)پیروی کرو گے۔ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے۔ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!پہلے لوگوں سے مراد یہودو نصاریٰ ہیں؟ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:اور کون ہو سکتے ہیں؟
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۱۶۹)
سب سے زیادہ یہودیوں کے پیروکارلبرل وسیکولر
وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:أَنْتُمْ أَشْبَہُ الْأُمَمِ بِبَنِی إِسْرَائِیلَ سَمْتًا وَہَدْیًا تَتَّبِعُونَ عَمَلَہُمْ حَذْوَ الْقُذَّۃِ بِالْقُذَّۃِ غَیْرَ أَنِّی لَا أَدْرِی أَتَعْبُدُونَ الْعِجْلَ أَمْ لَا؟۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ علامات ورفتارزندگی میں یہودیوں کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت اختیارکروگے ، تسمہ بہ تسمہ ان کے اعمال کی پیروی کروگے ۔ یعنی قدم بہ قدم انکے پیچھے چلوگے۔ مگرمجھے یہ معلوم نہیں کہ بچھڑے کی پوجابھی کروگے یانہیں ؟۔
تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۷۲)
اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنے سے باز نہیں آئیں گے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، وَبَاعًا بِبَاعٍ، حَتَّی لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ دَخَلَ حُجْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ، وَحَتَّی لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ جَامَعَ أُمَّہُ لَفَعَلْتُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرما یا:تم لوگ اپنے سے پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے اگر وہ ایک بالشت چلیں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے اگر وہ ایک ہاتھ چلیں گے تو تم بھی ایک ہاتھ چلو گے اگر وہ دو ہاتھ چلیں گے تو تم بھی دو ہاتھ چلو گے حتی کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہونگے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے گا تو تم بھی اپنی ماں سے زنا کروگے۔
(کشف الأستار عن زوائد البزار:نور الدین علی بن أبی بکر بن سلیمان الہیثمی (۴:۹۸)
’’اللہ تعالی کے بھلانے‘‘ کامعنی
وَأخرج ابْن أبی حَاتِم عَن سعید بن جُبَیر فِی الْآیَۃ قَالَ: إِن اللہ لَا ینسی من خلقہ وَلَکِن نسیہم من الْخَیْر یَوْم الْقِیَامَۃ۔
ترجمہ : حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں بھولتالیکن اللہ تعالی ایسے لوگوں کو قیامت کے دن ہرطرح کی خیرسے محروم فرمادے گا۔
الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۴:۲۳۳)
حضورتاجدارختم نبوتﷺامت کے یہودی کی پیروی کرنے کوجانتے تھے
عَنِ الرَّبِیعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:حِذْرَکُمْ أَنْ تُحْدِثُوا فِی الْإِسْلَامِ حَدَثًا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّہُ سَیَفْعَلُ ذَلِکَ أَقْوَامٌ مِنْ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ، فَقَالَ اللَّہُ فِی ذَلِکَ:(فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِہِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِکُمْ کَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ بِخَلَاقِہِمْ وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُو
ترجمہ :حضرت سیدناربیع رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے تم کو اس سے ڈرایاہے کہ تم اسلام کے بارے میں کوئی نئی باتیں کرو!اورآپ ﷺجانتے ہیں کہ عنقریب اس امت میں اقوام ایساکریں گی ۔ پس اللہ تعالی نے فرمایا: {فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِہِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِکُمْ کَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ بِخَلَاقِہِمْ وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُو}
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۱۱:۵۵۳)
معارف ومسائل
(۱)آج پوری دنیا میں ہر طرف یہود و نصاری کا بول بالا ہے۔ بہت سے ممالک کی باگ وڈور ان کے ہاتھوں میں ہے اور جن ممالک میں وہ بظاہر حکمرانی سے محروم ہیں، ان ممالک کے حکمرانوں کو، اپنے سازشی ذہن کو استعمال کرکے، ہمیشہ اپنے دام فریب میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دام فریب میں کچھ مسلم ممالک کے حکمران اور بڑے بڑے عہدے پر فائز افسران بھی ہیں جو ان کے اشارے پر ناچتے ہیں۔ ان حکمرانوں اور افسروں سے وہ جب جو چاہیں کروالیں اور جب جو چاہیں کہلوالیں، ان کے لیے یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ تعجب تو اس پر ہے کہ مسلم ممالک کے حکمراں ان کے دام فریب میں کیسے آجاتے ہیں اور ان کو اپنا دوست کیسے سمجھ بیٹھتے ہیں؛ جب کہ قرآن کریم کی واضح ہدایت موجود ہے کہ وہ لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے کبھی خوش نہیں رہے، تو آج ان کی آل واولاد ہم سے کیسے خوش رہے گی اور ان سے ہمیں بھلائی کی کیا امید؟
(۲) حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے بعد، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین عظام، ائمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم، اسلامی اہل زبان وقلم اور پھر اسلام کے جیالوں نے باطل قوتوں کی طرف سے، اسلام کی راہ میں، خطرات وخدشات کی شکل میں آنے والے ہرچیلنج کو قبول کیا اور اپنے مسکت جوابوں سے معاندین اسلام کا ناطقہ بند کردیا۔ اہل باطل اپنی پوری ظاہری چمک دمک اور نمائش کے ساتھ، بہت سے خطرات لیکر، آج پھر دنیا کے کونے کونے میں زندگی بسر کرتے مسلمانوں کے ایمان کو، ان کو خدائی دین؛ اسلام کے حوالے سے کمزور کرنے کی سازش رچارہے ہیں۔ پوری دنیا مکمل طور پر مغرب کی چمک دمک، جادوگری اور مادی ترقیات سے مسحور لگ رہی ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مغربی دنیا سے جو کچھ بھی آرہا ہے، اسے لوگ خوشی خوشی قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار بیٹھے ہیں، چاہے وہ مفید ہوں یا مضر، سود مند ہو یا ضرر رساں!
(۳)یورپی ممالک کی ہر طرف فلک شگاف عمارتیں ، شاہراہوں پر صبح وشام گاڑیوں کے فراٹے دار شور وشرابے، ہر طرف نگاہوں کو خیرہ کردینے والے ظاہری نظارے، وسائل زندگانی کی فراوانی، جسمانی سجاوٹ وحسن وخوبصورتی کے نت نئے سامان و سہولیات ، انسان کے ہر ادا و برتاؤ میں تکلفا نہ ٹپ ٹاپ اور ظاہری رعب و دبدبہ،یہ اور اس طرح کی بیشمار مادی اور ظاہری چمک دمک کے آگے روحانیت چراغ سحر کی طرح ٹمٹماتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اورانہیں چیزوں کو دیکھ کرلبرل وسیکولرفریفتہ ہوئے بیٹھے ہیںاورانگریز کی اسی طرح ظاہری ترقی جو کہ حقیقت میں بربادی ہے پرایمان لائے بیٹھے ہیں اوران کی اس دھوکے والی ترقی کودیکھ کر لبرل وسیکولر دین اوراہل دین کے دشمن بنے بیٹھے ہیں اوراسی ظاہری ترقی کی وجہ سے ہی یہ لبرل جہاد جیسے عظیم شعائراسلام کے منکرہوگئے ہیں۔
(۴) ظاہری چمک دمک کے ساتھ بری عادتوں اورناپاک خصلتوں میں پھنسے اوردرآنے کی مثالیں دیکھناہوتوآج کے مہذب قوموں کے ہسپتالوں ، محتاج خانوں ، ڈاکخانوں ، درسگاہوں ( سکولوں اوریونیورسٹیوں ) کے پہلوبہ پہلوان کے نشاط خانے ، شراب خانے ، قمارخانے ، ناچ گھر، انکے نگارخانے ان کے تھیٹر، ان کے سینمابلکہ ان کے ایک ایک گھرکے بیڈروم دیکھ لئے جائیں ۔ کمزورعقیدے کے مسلمان کافروں کے اسی ظاہری ٹاٹھ باٹھ اوران کی اسی عیش وعشرت کو دیکھ کرگمراہ ہوتے ہیںاورجہاد سے منہ موڑکرنفاق کاراستہ اختیارکرلیتے ہیں۔ تفسیرماجدی ( سور ۃ التوبہ(رقم الآیۃ: ۷۰)
(۵) دنیاکی مادی طاقتیں ایک بندے کی روحانی طاقت کے مقابلے میں فیل ہوجاتی ہیں،منافقین ، جماعت ،قوت ، دولت ، عزت دنیاوی میں بہت بڑھ چڑھ کرتھے مگرحضورتاجدارختم نبوتﷺکے مقابلے میں شکست کھاگئے ۔ مادی طاقت نبوت توکیاولایت کے مقابلے میں بھی نہیں ٹھہرسکتی ، بہترہزارفرعونی جادوگرایک حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے مقابلے میں ہارگئے ۔ مگران کی ہارہی جیت کاذریعہ بن گئی ۔ مبارک ہے وہ ہارجودین کی طرف رہبری کرے جونبی علیہ السلام کے قدموں تک پہنچادے ۔ کافرومنافق (لبرل وسیکولر) دنیامیںڈوب جاتاہے ، مومن دنیامیں تیرتاہواپارنکل جاتاہے ، مومن کاجسم دنیامیں رہتاہے مگراس کے دل میں دین رہتاہے ، وہاں دنیانہیں پہنچ سکتی ۔ (تفسیرنعیمی ( ۱۰: ۴۰۳)