تفسیرسورۃالتوبہ آیت ۶۴۔ یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُہُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ

جولوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیاں کرتے ہیں ان کو سکون میسرنہیں آتا

{یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُہُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ قُلِ اسْتَہْزِء ُوْا اِنَّ اللہَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ }(۶۴)
ترجمہ کنزالایمان:منافق ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورۃ ایسی اترے جو ان کے دلوں کی چھپی جتا دے تم فرماؤ ہنسے جاؤ اللہ کو ضرور ظاہر کرنا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔

ترجمہ ضیاء الایمان:منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایسی سورت نازل کردی جائے جو ان کے دلوں کی پوشیدہ باتیں ظاہرکردے۔اے حبیب کریمﷺ!آپ فرمادیں :مذاق اڑالو، بیشک اللہ تعالی اس چیز کو ظاہر کرنے والاہے جس سے تم ڈرتے ہو۔

شان نزول
وَقَالَ السُّدِّیُّ: قَالَ بَعْضُ الْمُنَافِقِینَ وَاللَّہِ وَدِدْتُ لَوْ أَنِّی قُدِّمْتُ فَجُلِدْتُ مائۃ ولا ینزل فینا شی یَفْضَحُنَا، فَنَزَلَتِ الْآیَۃُ۔
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ منافقوں میںسے بعض نے یہ کہاتھاکہ میں یہ پسندکرتاہوں کہ مجھے آگے لایاجائے اورمجھے سوکوڑ ماردیئے جائیں لیکن ہمارے بارے میں کوئی ایسی چیز نازل نہ ہوجوہمیں ذلیل ورسواکردے۔ تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(التفسیر المنیر :د وہبۃ بن مصطفی الزحیلی(۱۰:۲۸۸)

{اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُوْرَۃٌ }کامعنی
عَلَیْہِمْ أَیْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ (سُورَۃٌ)فِی شَأْنِ الْمُنَافِقِینَ تُخْبِرُہُمْ بِمَخَازِیہِمْ وَمَسَاوِیہِمْ وَمَثَالِبِہِمْ، وَلِہَذَا سُمِّیَتِ الْفَاضِحَۃُ وَالْمُثِیرَۃُ وَالْمُبَعْثِرَۃُ، کَمَا تَقَدَّمَ أَوَّلَ السُّورَۃِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ یعنی ایسی سورت جو منافقین کی شان میں ہوجوانہیں ان کی عدوات ودشمنی ، ان کی برائی اوران کے عیوب ونقائص کے بارے میں آگاہ کردے ، اسی وجہ سے اس سورت کانام (الْفَاضِحَۃُ وَالْمُثِیرَۃ) اوروَالْمُبَعْثِرَۃکانام دیاگیاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۹۶)

گستاخوں کو ننگاکرنے والی سورت

وَقَالَ الْحَسَنُ:کَانَ الْمُسْلِمُونَ یُسَمُّونَ ہَذِہِ السُّورَۃَ الْحَفَّارَۃَ لِأَنَّہَا حَفَرَتْ مَا فِی قُلُوبِ الْمُنَافِقِینَ فَأَظْہَرَتْہُ.
ترجمہ :امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سورت کانام ’’الحفارۃ ‘‘ رکھتے تھے کیونکہ اس سورت نے منافقین کے دلوں میں جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکابغض پوشیدہ تھااسے ظاہرکردیا۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۵:۶۴)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکامنافق گستاخوں کو مسجد شریف سے نکالنا

وَاعْلَمْ أَنَّہُمْ کانوا یسمون سورۃ براء ۃ، الحافرۃ حَفَرَتْ عَمَّا فِی قُلُوبِ الْمُنَافِقِینَ قَالَ الْحَسَنُ:اجْتَمَعَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مِنَ الْمُنَافِقِینَ عَلَی أَمْرٍ مِنَ النِّفَاقِ، فَأَخْبَرَ جِبْرِیلُ الرَّسُولَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بِأَسْمَائِہِمْ، فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: إِنَّ أُنَاسًا اجْتَمَعُوا عَلَی کَیْتَ وَکَیْتَ، فَلْیَقُومُوا وَلِیَعْتَرِفُوا وَلِیَسْتَغْفِرُوا رَبَّہُمْ حَتَّی أَشْفَعَ لَہُمْ فَلَمْ یَقُومُوا، فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بَعْدَ ذَلِکَ:قُمْ یَا فُلَانُ وَیَا فُلَانُ حَتَّی أَتَی عَلَیْہِمْ ثُمَّ قَالُوا: نَعْتَرِفُ وَنَسْتَغْفِرُ فَقَالَ:الْآنَ أَنَا کُنْتُ فِی أَوَّلِ الْأَمْرِ أَطْیَبَ نَفْسًا بِالشَّفَاعَۃِ، وَاللَّہُ کَانَ أَسْرَعَ فِی الْإِجَابَۃِ، اخْرُجُوا عَنِّی اخْرُجُوا عَنِّی فَلَمْ یَزَلْ یَقُولُ حَتَّی خَرَجُوا بِالْکُلِّیَّۃ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اس سورت کانام ’’الحافرۃ‘‘ہے کیونکہ اس سورت نے منافقین کے دلوں میں پوشیدہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکابغض ظاہرکردیا۔
ا

مام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بارہ منافقین اسی نفاق پرجمع ہوئے توحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوان کے ناموں کی اطلاع دی ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:کچھ لوگوں نے منصوبہ بنایاہے ، وہ اٹھے اوراعتراف کریں ، وہ اپنے رب تعالی سے مغفرت طلب کریں ، تاکہ میں ان کی شفاعت کروں ، لیکن وہ نہ اٹھے تواس کے بعد حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان منافقین کے نام لیکرفرمایا: اے فلاں !اٹھ جااوراے فلاں !توبھی اٹھ جا۔توپھرآپﷺان کے ہاں تشریف لائے ،پھروہ کہنے لگے کہ ہم اعتراف کرتے ہیں اورمغفرت مانگتے ہیں ۔حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اب تم توبہ کرنے لگے ہو،ابتداء ًمیں شفاعت کرنے کے لئے تیارتھااوراللہ تعالی قبول فرمانے والاتھا، اورتم یہاں سے نکل جائو، آپ ﷺیہ فرماتے رہے یہاں تک کہ وہ سب کے سب وہاں سے نکل گئے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۹۳)

منافقین کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکوشہیدکرنے کی کوشش کرنا

وَقَالَ الْأَصَمُّ: إِنَّ عِنْدَ رُجُوعِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ مِنْ تَبُوکَ وَقَفَ لَہُ عَلَی الْعَقَبَۃِ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا لِیَفْتِکُوا بِہِ فَأَخْبَرَہُ جِبْرِیلُ، وَکَانُوا مُتَلَثِّمِینَ فِی لَیْلَۃٍ مُظْلِمَۃٍ وَأَمَرَہُ أَنْ یُرْسِلَ إِلَیْہِمْ مَنْ یَضْرِبُ وُجُوہَ رَوَاحِلِہِمْ، فَأَمَرَ حُذَیْفَۃَ بِذَلِکَ فَضَرَبَہَا حَتَّی نَحَّاہُمْ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ عَرَفْتَ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالَ:لَمْ أَعْرِفْ مِنْہُمْ أَحَدًا، فَذَکَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسْمَاء َہُمْ وَعَدَّہُمْ لَہُ، وَقَالَ:إِنَّ جِبْرِیلَ أَخْبَرَنِی بِذَلِکَ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ:أَلَا تَبْعَثُ إِلَیْہِمْ لِیُقْتَلُوا، فَقَالَ:أَکْرَہُ أَنْ تَقُولَ الْعَرَبُ قَاتَلَ مُحَمَّدٌ بِأَصْحَابِہِ حَتَّی إِذَا ظَفِرَ صَارَ یَقْتُلُہُمْ بَلْ یَکْفِینَا اللَّہُ ذَلِکَ .

ترجمہ :الشیخ الامام اصم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ غزوہ تبوک سے واپس جب حضورتاجدارختم نبوتﷺآرہے تھے توتب واقعہ ہوا، بارہ منافقین عقبہ پراسی لئے کھڑے تھے کہ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکوشہیدکردیں ، حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو اس کی اطلاع دی اوروہ تاریک رات میں اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے اورآپﷺکو یہ حکم ملاکہ ان کی طرف ایسے آدمی کو بھیجیں جوان کی سواریوں کے چہروں پرمارے ، آپﷺنے حضرت سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ کوحکم دیا، انہوںنے ان کی سواریوں کو ماراتاکہ وہ وہاں سے دورہوجائیں، پھرآپ ﷺنے فرمایا:جانتے ہویہ کون لوگ تھے ؟ عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتا۔ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کے نام لیے اورفرمایا:مجھے اس کی خبرجبریل امین علیہ السلام نے دی ۔حضرت سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!آپ ان لوگوں کی طرف کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روانہ کردیں تاکہ ان کو قتل کردیاجائے ؟ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:میں ناپسندکرتاہوں کہ عرب لوگ یہ کہیں کہ محمدﷺاپنے اصحاب کوقتل کرتے ہیں۔ حتی کہ جب وہ فتح پالیتے ہیں توان ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں ، پھراس بارے میں اللہ تعالی ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۹۳)

منافقین حضورتاجدارختم نبوتﷺکوسچاجان کردشمنی کی وجہ سے کافررہے

قَالَ الْأَصَمُّ:إِنَّہُمْ کَانُوا یَعْرِفُونَ کَوْنَہُ رَسُولًا صَادِقًا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ تَعَالَی، إِلَّا أَنَّہُمْ کَفَرُوا بِہِ حَسَدًا وَعِنَادًا۔
ترجمہ : الشیخ الاصم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیںکہ منافقین حضورتاجدارختم نبوتﷺکے اللہ تعالی کی طرف سے سچارسول ہونے کووہ جانتے تھے مگروہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ بغض اوردشمنی کی وجہ سے آپﷺکاانکارکرتے تھے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۹۳)

اس سے ثابت ہواکہ جوشخص حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ دل میں بغض رکھے پھراس کے سامنے دلائل وبراہین سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت کاسچاہونامبرہن بھی ہوجائے توبھی دشمنی اس کے ایمان لانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

اللہ تعالی کامنافقین کے نام ذکرکرنا

قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا: أَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ذِکْرَ سَبْعِینَ رَجُلًا مِنَ الْمُنَافِقِینَ بِأَسْمَائِہِمْ وَأَسْمَاء ِ آبَائِہِمْ ثُمَّ نَسَخَ ذِکْرَ الْأَسْمَاء ِ رَحْمَۃً لِلْمُؤْمِنِینَ، لِئَلَّا یُعَیِّرُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، لِأَنَّ أَوْلَادَہُمْ کَانُوا مُؤْمِنِینَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ اللہ تعالی نے سترمنافقین کے نام بمعہ ولدیت قرآن کریم میں اتارے ، پھراہل ایمان پرشفقت کرتے ہوئے ان کے ناموں کاذکرمنسوخ کردیاکیونکہ ان منافقین کی اولاد مومن تھی تاکہ کوئی ان کوان کے آباء کی وجہ سے عارنہ دلائے ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۶۸)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکوشہیدکرنے کامنصوبہ بنانے والے جنت نہیںجاسکیں گے

قَالَ شُعْبَۃُ:وَأَحْسِبُہُ قَالَ:حَدَّثَنِی حُذَیْفَۃُ، وَقَالَ غُنْدَرٌ:أُرَاہُ قَالَ:فِی أُمَّتِی اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا لَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ، وَلَا یَجِدُونَ رِیحَہَا، حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ ثَمَانِیَۃٌ مِنْہُمْ تَکْفِیکَہُمُ الدُّبَیْلَۃُ، سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ یَظْہَرُ فِی أَکْتَافِہِمْ، حَتَّی یَنْجُمَ مِنْ صُدُورِہِمْ۔

ترجمہ :حضرت سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ میری امت میں بارہ منافق ہیں جو جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے ، اوروہ جنت کی خوشبوتک نہیں سونگھ سکیں گے ، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے نکے میں داخل ہوجائے ۔ان میں سے آٹھ ایسے ہیں (کہ ان کے شر سے بچاؤ کے لیے)تمہاری کفایت ایک ایسا پھوڑا کرے گا جو آگ کے جلتے ہوئے دیے کی طرح (اوپر سے سرک)ہو گا، ان کے کندھوں میں ظاہر ہو گا یہاں تک کہ ان کے سینوں سے نکل آئے گا۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴ـ:۲۱۴۳)

معارف ومسائل

(۱) دوزخ والامنافق اس پردنیامیں رب تعالی کاعذاب یہ ہے کہ اس کے دل کوتسکین نہیں ملتی، ہمیشہ اسے ڈرلگارہتاہے ، کہ کہیں میراپول نہ کھل جائے ، ہرایک کو راضی رکھنے والے کایہی انجام ہے ۔ مخلص مومن اس غم سے آزادہے ، وہ صر ف اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکوراضی کرنے کی فکرمیں رہتاہے ، مخلوق خود بخود راضی ہوجاتی ہے ۔
(۲)نزول قرآن کریم اہل ایمان کے لئے رحمت ہے اورمنافقوں اورکافروں کے لئے عذاب ہے ۔ یہ بھی یادرہے کہ امرہمیشہ وجوب کے لئے نہیں آتا، کبھی دوسرے مقصدکے لئے بھی ہوتاہے ، یہ فائدہ استہزاء سے حاصل ہواکہ یہ صیغہ امرکاہے ، مگرنہ توان کو مذاق کی اجازت دینے کے لئے ہے اورنہ واجب کرنے کے لئے ہے بلکہ صرف اورصرف منافقین کوڈانٹنے کے لئے ہے ۔ تفسیرنعیمی ( ۱۰: ۳۹۲)
(۳)دلوں کی چھپی چیز ان کا نفاق ہے اور وہ بُغض و عداوت جو وہ مسلمانوں کے ساتھ رکھتے تھے اور اس کو چھپایا کرتے تھے ۔ سیدِ عالَمﷺکے معجزات دیکھنے اور آپﷺ کی غیبی خبریں سننے اور ان کو واقع کے مطابق پانے کے بعد منافقوں کو اندیشہ ہو گیا کہ کہیں اللہ تعالٰی کوئی ایسی سور ت نازِل نہ فرمائے جس سے ان کے اسرار ظاہر کر دیئے جائیں اور ان کی رسوائی ہو ۔ اس آیت میں اسی کا بیان ہے ۔(تفسیرخزائن العرفان(سورۃ التوبہ:رقم الآیۃ۶۴)

Leave a Reply