تفسیرسورۃالتوبہ آیت ۹۱۔۹۲۔ لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآء ِ وَلَا عَلَی الْمَرْضٰی وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ

اہل ایمان کاجذبہ جہاد اورجہاد کے لئے سواری نہ ملنے پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کارونا

{لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآء ِ وَلَا عَلَی الْمَرْضٰی وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ }(۹۱){وَّلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ }(۹۲)

ترجمہ کنزالایمان:ضعیفوں پر کچھ حرج نہیں ا ور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جنہیں خرچ کا مقدور نہ ہو جب کہ اللہ و رسول کے خیر خواہ رہیں نیکی والوں پر کوئی راہ نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اور نہ ان پر جو تمہارے حضور حاضر ہوں کہ تم انہیں سواری عطا فرماؤ تم سے یہ جواب پائیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کروں اس پر یوں واپس جائیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو ابلتے ہوں اس غم سے کہ خرچ کا مقدور نہ پایا۔

ترجمہ ضیاء الایمان:ضعیفوں پر اور بیماروں پر اورخرچ کرنے کی طاقت نہ رکھنے والوں پر کوئی حرج نہیں جبکہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺکے خیر خواہ رہیں۔ نیکی کرنے والوں پر کوئی راہ نہیں اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔اور نہ ان پر کوئی حرج ہے جوآپﷺ کے پاس اس لئے آتے ہیں تاکہ آپﷺ انہیں سواری دے د یں (لیکن آپﷺفرما دیتے ہیں :میں تمہارے لئے کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کردوں تو وہ اس حال میں لوٹ جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہہ رہے ہوں کہ وہ خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

معذورکے لئے پوراپورااجرہے

عَنْ مُوسَی بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال:لَقَدْ تَرَکْتُمْ بِالْمَدِینَۃِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا، وَلَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَۃٍ، وَلَا قَطَعْتُمْ مِنْ وَادٍ إِلَّا وَہُمْ مَعَکُمْ فِیہِ.قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ! وَکَیْفَ یَکُونُونَ مَعَنَا وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ؟ فَقَالَ:حَبَسَہُمُ الْعُذْرُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا :بلاشبہ تم لوگ مدینے میں ایسے لوگوں کو چھوڑ آئے ہو کہ جو سفر بھی تم کرتے ہو یا کوئی خرچ کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ (اجر و ثواب میں )تمہارے ساتھ ہوتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!وہ ہمارے ساتھ کس طرح ہوتے ہیں حالانکہ وہ مدینے میں ہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ان کو عذر اور مجبوری نے روکے رکھا ہے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق السَِّجِسْتانی (۳:۱۲)

علماء کادشمن اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ مخلص نہیں

(إِذَا نَصَحُوا لِلَّہِ وَرَسُولِہِ) إِذَا عَرَفُوا الْحَقَّ وَأَحَبُّوا أَوْلِیَاء َہُ وَأَبْغَضُوا أَعْدَاء َہُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدابن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {إِذَا نَصَحُوا لِلَّہِ وَرَسُولِہِ}جب وہ حق کو پہچان لیں اوراہل حق ( اہل دین ) کے ساتھ محبت کریں اوراہل دین کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (ا۸:۲۲۵)
جن کو جہاد سے رب تعالی نے معافی دی ان کاحال

حضرت سیدناابن مکتوم رضی اللہ عنہ کاجذبہ جہاد

قَالَ الْعُلَمَاء ُ: فَعَذَرَ الْحَقُّ سُبْحَانَہُ أَصْحَابَ الْأَعْذَارِ، وَمَا صَبَرَتِ الْقُلُوبُ، فَخَرَجَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ إِلَی أُحُدٍ وَطَلَبَ أَنْ یُعْطَی اللِّوَاء َ فَأَخَذَہُ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ، فَجَاء َ رَجُلٌ مِنَ الْکُفَّارِ فَضَرَبَ یَدَہُ الَّتِی فِیہَا اللِّوَاء ُ فَقَطَعَہَا، فَأَمْسَکَہُ بِالْیَدِ الْأُخْرَی فَضَرَبَ الْیَدَ الْأُخْرَی فَأَمْسَکَہُ بِصَدْرِہِ وَقَرَأَوَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ(آل عمران:۱۴۴)ہَذِہِ عَزَائِمُ الْقَوْمِ۔

ترجمہ :علماء کرام رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے عذروالوں کو معذورقراردیاہے اوران کے دلوں نے اسے برداشت نہ کیا۔ چنانچہ حضرت سیدناعبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ غزوہ احدشریف کے لئے نکلے اورمطالبہ کیاکہ جہاد کاجھنڈاان کو دیاجائے ، لیکن ان کو حضرت سیدنامصعب بن عمیررضی اللہ عنہ نے پکڑاہواتھا، پس کفارمیں سے ایک آدمی آیااوراس نے ان کے اسی ہاتھ پرتلوارماری جس میں انہوںنے جھنڈاتھاماہواتھا، انہوں نے جھنڈادوسرے ہاتھ میں پکڑاتواس نے دوسراہاتھ بھی کاٹ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے بعدجہاد کے جھنڈے کو اپنے سینے کے ساتھ تھام لیا۔ اوریہ آیت کریمہ تلاوت کی {وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُل}اوریہ ہیں اس قوم یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عزائم ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (ا۸:۲۲۵)

حضرت سیدناعمرو جموح رضی اللہ عنہ کاجذبہ جہاد

وَعَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ مِنْ نُقَبَاء ِ الْأَنْصَارِ أَعْرَجُ وَہُوَ فِی أَوَّلِ الْجَیْشِ قَالَ لَہُ الرَّسُولُ عَلَیْہِ السَّلَامُ: (إِنَّ اللَّہَ قَدْ عَذَرَکَ) فَقَالَ: وَاللَّہِ لَأَحْفِرَنَّ بِعَرْجَتِی ہَذِہِ فِی الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمرو بن جموح رضی اللہ عنہ انصارکے نقباء میں سے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ ایک ٹانگ سے معذورتھے اورغزوہ احدمیں لشکرکے اگلے حصے میں موجود تھے ، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کو فرمایا: بے شک اللہ تعالی نے تم کو معذورقراردیاہے توانہوں نے بارگاہ ختم نبوتﷺمیں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!قسم خداتعالی کی ، میں یقینااسی اپنے معذورپن کے ساتھ جنت میںنشان زدکرتے ہوئے چلوں گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (ا۸:۲۲۵)

جوتے اورموزے مل جائیں توہم جہاد سے پیچھے نہیں رہیں گے

فکأنہم قالوا:احملنا علی ما یتیسر أو المراد احملنا ولو علی نعالنا وأخفافنا مبالغۃ فی القناعۃ ومحبۃ للذہاب معہ علیہ الصلاۃ والسلام.

ترجمہ :امام شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی الحنفی المتوفی: ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو غریب ونادارتھے ، جن کے پاس جہادپرجانے کیلئے سواریاں نہ تھیں توانہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں عرض کی : یارسول اللہﷺ!آپﷺہمیں سواریاں عطافرمائیں ، جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ میں توسواریاں نہیں پاتاجن پرتم کو سوارکروں ۔توانہوںنے عرض کی : یارسول اللہ ﷺکوئی مسئلہ نہیں ہے ، آپﷺہمیں چمڑے کے موزے اورجوتے عطافرمائیں توہم مجاہدین کے اونٹوں کے ساتھ دوڑتے ہوئے جائیں گے اوریوں جہاد میں شریک ہوسکیں گے ۔ مدینہ منورہ سے شام کاسفربڑالمباچوڑاہے مگریہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اتنے لمبے سفرکے لئے صرف اورصرف موزے اورجوتے طلب کررہے ہیں ، اس کی وجہ صرف اورصرف حضورتاجدارختم نبوتﷺکی محبت ہے وہ یہ چاہتے تھے کہ ہمیں بس حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ چلنے کاموقع میسرآجائے۔
(روح المعانی: شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی (۵:۳۴۶)

خیرخواہی کامعنی

قَوْلُہُ تَعَالَی:إِذا نَصَحُواالنُّصْحُ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ مِنَ الْغِشِّ وَمِنْہُ التَّوْبَۃُ النَّصُوحُ قَالَ نَفْطَوَیْہِ:نَصَحَ الشَّیْء ُ إِذَا خَلَصَ وَنَصَحَ لَہُ الْقَوْلَ أَیْ أَخْلَصَہُ لَہُ وَفِی صَحِیحِ مُسْلِمٍ عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:(الدِّینُ النَّصِیحَۃُ) ثَلَاثًاقُلْنَا لِمَنْ؟ قَالَ:(لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ قَالَ الْعُلَمَاء ُ:النَّصِیحَۃُ لِلَّہِ إِخْلَاصُ الِاعْتِقَادِ فِی الْوَحْدَانِیَّۃِ، وَوَصْفُہُ بِصِفَاتِ الْأُلُوہِیَّۃِ، وَتَنْزِیہُہُ عَنِ النَّقَائِصِ وَالرَّغْبَۃُ فِی مَحَابِّہِ وَالْبُعْدُ مِنْ مَسَاخِطِہِ وَالنَّصِیحَۃُ لِرَسُولِہِ:التَّصْدِیقُ بِنُبُوَّتِہِ، وَالْتِزَامُ طَاعَتِہِ فِی أَمْرِہِ وَنَہْیِہِ، وَمُوَالَاۃُ مَنْ وَالَاہُ وَمُعَادَاۃُ مَنْ عَادَاہُ، وَتَوْقِیرُہُ، وَمَحَبَّتُہُ وَمَحَبَّۃُ آلِ بَیْتِہِ، وَتَعْظِیمُہُ وَتَعْظِیمُ سُنَّتِہِ، وَإِحْیَاؤُہَا بَعْدَ مَوْتِہِ بِالْبَحْثِ عَنْہَا، وَالتَّفَقُّہِ فِیہَا وَالذَّبِّ عَنْہَا وَنَشْرِہَا وَالدُّعَاء ِ إِلَیْہَا، وَالتَّخَلُّقُ بِأَخْلَاقِہِ الْکَرِیمَۃِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَذَا النُّصْحُ لِکِتَابِ اللَّہِ: قِرَاء َتُہُ وَالتَّفَقُّہُ فِیہِ، وَالذَّبُّ عَنْہُ وَتَعْلِیمُہُ وَإِکْرَامُہُ وَالتَّخَلُّقُ بِہِ وَالنُّصْحُ لائمۃ المسلمین: ترک الخروج علیہم، إرشادہم إِلَی الْحَقِّ وَتَنْبِیہُہُمْ فِیمَا أَغْفَلُوہُ مِنْ أُمُورِ الْمُسْلِمِینَ، وَلُزُومُ طَاعَتِہِمْ وَالْقِیَامُ بِوَاجِبِ حَقِّہِمْ وَالنُّصْحُ لِلْعَامَّۃِ:تَرْکُ مُعَادَاتِہِمْ، وَإِرْشَادُہُمْ وَحُبُّ الصَّالِحِینَ مِنْہُمْ، وَالدُّعَاء ُ لِجَمِیعِہِمْ وَإِرَادَۃُ الْخَیْرِ لِکَافَّتِہِمْ وَفِی الْحَدِیثِ الصَّحِیحِ (مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِی تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکَی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۷۶۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {إِذا نَصَحُوا}کامعنی یہ ہے کہ {النُّصْحُ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ مِنَ الْغِش}عمل کاکسی کدورت کی آمیزش سے خالص ہونااوراسی سے ہے{ التَّوْبَۃُ النَّصُوحُ}یعنی خالص توبہ ۔ امام نفطویہ رحمہ اللہ تعالی نے کہاہے کہ جب کوئی شئی خالص ہوتوکہاجاتاہے {نَصَحَ الشَّیْء ُ إِذَا خَلَصَ وَنَصَحَ لَہُ الْقَوْل}کامعنی ہے کہ اس نے بات کو اس کے لئے خالص کردیااورصحیح مسلم شریف میں حضرت سیدناتمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:{الدِّینُ النَّصِیحَۃ}دین توخالص نصیحت ہے ۔ آپﷺنے یہ تین بارفرمایا: ہم نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!کس کے لئے ؟ توآپ ﷺنے فرمایا:{لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ}یعنی اللہ تعالی کے لئے ، اس کی کتاب کے لئے ، اس کے رسول کریم ﷺکے لئے اورائمہ مسلمین کے لئے اورعام مسلمانوں کے لئے ۔

علماء کرام نے بیان کیاہے کہ اللہ تعالی کے لئے خالص ہونے کامطلب یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کااعتقادرکھنا، اسے صفات الوہیت کے ساتھ متصف کرنا، اسے نقائص سے پاک اورمنزہ تسلیم کرنا، اس کی پسندیدہ چیزوں میں رغبت رکھنا، اوراس کی ناپسندیدہ چیزوں سے دوررہنااوراس کے رسول کریم ﷺکے لئے خالص ہونے کامعنی یہ ہے کہ ان کی نبوت کی تصدیق کرنا، امرونہی میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اطاعت کولازم پکڑنا، ان سے محبت کرنا جن سے وہ محبت کریں ، ان سے دشمنی رکھناجن سے حضورتاجدارختم نبوتﷺدشمنی رکھیں ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی عزت وتوقیرکرنا، ان سے محبت کرنااوران کی آل کریمہ سے محبت کرنا، ان کی تعظیم کرنااوران کی سنت کریمہ کی تعظیم کرنا، حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے بعد سنت کریمہ سے بحث کرکے سنت کو زندہ کرنا، اس میں خوب غوروفکرکرنا، سنت کی حمایت اوردفاع کرنا، اس کی اطاعت کرنا، اس کی طرف دعوت دینا، اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے اخلاق کریمہ سے آراستہ مزین ہونااسی کتاب اللہ کے لئے خالص ہونے کے معنی یہ ہے کہ اسے پڑھنااوراس میں غوروفکرکرکے سمجھنا، اس کی حمایت ودفاع کرنا، اس کی تعلیم دینا، اس کی تکریم کرنااوراس کے مطابق اخلاق وعادات سے آراستہ ہونااورمسلمانوں کے ائمہ کے لئے خالص ہونے کے معنی یہ ہے کہ ان کے خلاف خروج نہ کرنا، حق کی طرف ان کی رہنمائی کرنااورمسلمانوں کے امورمیںسے جس امرسے وہ غافل ہوں اس پران کومتنبہ کرنا، ان کی اطاعت کو لازم پکڑنااوران کے حق کے اثبات میں کوشش کرنااورعام مسلمانوں کے ساتھ خالص ہونے کامعنی یہ ہے کہ ان کی عداوت ودشمنی کو ترک کرنا، ان کی رہنمائی کرنا،اوران میں سے نیکوں کے ساتھ محبت کرنا، ان تمام کے لئے دعاکرنااوران تمام کے لئے خیروبھلائی کاارادہ کرنا،اورمومنوں کی باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے ، آپس میں رحم کرنے اورایک دوسرے پرمہربان ہونے کی مثال ایک بدن اورجسم کی مثل ہے ، جب اس میں سے کوئی عضوشکایت کرے توسارابدن اس کے لئے جاگنے اوربخارمیں مبتلاء ہوجاتاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (ا۸:۲۲۵)

سات بھائی ، ساتوں مہاجر، ساتوں غازی

وَعَلَی ہَذَا جُمْہُورُ الْمُفَسِّرِینَ وَکَانُوا سَبْعَۃَ إِخْوَۃٍ، کُلُّہُمْ صَحِبُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَیْسَ فِی الصَّحَابَۃِ سَبْعَۃُ إِخْوَۃٍ غَیْرُہُمْ، وَہُمُ النُّعْمَانُ وَمَعْقِلٌ وَعَقِیلٌ وَسُوَیْدٌ وَسِنَانٌ وَسَابِعٌ لَمْ یُسَمَّ بَنُو مُقَرِّنٍ الْمُزَنِیُّونَ سَبْعَۃُ إِخْوَۃٍ ہَاجَرُوا وَصَحِبُوا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُشَارِکْہُمْ- فِیمَا ذَکَرَہُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَجَمَاعَۃٌفِی ہَذِہِ الْمَکْرُمَۃِ غَیْرُہُمْ. وَقَدْ قِیلَ: إِنَّہُمْ شَہِدُوا الْخَنْدَقَ کُلُّہُمْ وَقِیلَ:نَزَلَتْ فِی سَبْعَۃِ نَفَرٍ مِنْ بُطُونٍ شَتَّی، وَہُمُ الْبَکَّاء ُونَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ لِیَحْمِلَہُمْ، فَلَمْ یَجِدْ مَا یَحْمِلُہُمْ عَلَیْہِ، فتَوَلَّوْا وَأَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنْفِقُونَ فَسُمُّوا الْبَکَّائِینَ۔

ترجمہ :اورجمہورمفسرین کرام کی رائے یہ ہے کہ وہ سات بھائی تھے ، تمام کے تمام حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ تھے ، اوران کے علاوہ کوئی بھی سات بھائی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل نہ تھے ، اوروہ نعمان ، معقل ، عقیل ، سوید اورسنان تھے اورساتویں کااسم شریف ذکرنہیں کیاگیا، قاموس میں مذکورہ پانچ کے علاوہ عبداللہ اورعبدالرحمن رضی اللہ عنہماکے دونام بھی ہیں۔ یہ مقرن کے بیٹے تھے ، قبیلہ مزینہ سے ان کاتعلق تھا،ساتوں بھائیوں نے ہجرت کی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابی ہوئے ۔ اوراس اعزاز میں کوئی ان کے ساتھ شریک نہیں ہوا( کہ کوئی سات بھائی ہوں اورساتوں صحابی ہوں اورساتوں نے ہجرت کی ہو) یہ آیت کریمہ انہیں کے متعلق نازل ہوئی اوریہی وہ لوگ تھے جو غزوہ تبوک کے موقع پرحضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس آئے تاکہ آپﷺان کو سواری عطافرمائیں ۔ لیکن آپ ﷺنے کوئی ایسی چیز نہ پائی جس پران کو سوارکرتے ،پس وہ واپس لوٹے ، اس حال میں کہ ان کی آنکھیں آنسوبہارہی تھیں ، اس غم میں کہ افسوس !ان کے پاس وہ نہیں جو راہ جہاد میں خرچ کریں، پس انہیں رونے والوں کانام دیاگیایعنی بکائین ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (ا۸:۲۲۵)

معارف ومسائل

(۱)اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول کے واقعہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ ِ جہاد ، شوقِ عبادت اور ذوقِ اطاعت کاپتہ چلتا ہے کہ ایک طرف تو منافقین ہیں جو قدرت ہونے کے باوجود جھوٹے حیلے بہانے کرکے جہاد سے جان چھڑاتے ہیں اور ایک طرف یہ کامل الایمان، مخلص غلام ہیں جو شرعاً رخصت و اجازت ہونے کے باوجود جہاد نہ کرسکنے اور اس عبادت میں شریک نہ ہوسکنے کے غم میں آنسو بہارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ذوق و شوق عطا فرمائے۔ ( تفسیرصراط الجنان( ۴: ۲۰۷)
(۲)مسلمانوں کے خلیفہ و امام کا فرض ہے کہ جب جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کوئی لشکر روانہ کرے تو پورے لشکر کا ازسر نو جائزہ لے اور اچھی طرح اس کا معائنہ کرے جو مردیا جانور لڑائی کے قابل نہ ہوں انھیں روک لے یا جو شخص جہاد کے عمل میں کسی رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہو اسے بھی روک دے۔ اسی طرح جو لوگ غلط افواہیں پھیلاکر جہاد کرنے والوں کی ہمت و جذبہ کو کمزور کرتے ہیں انھیں بھی لشکر میں شامل نہ کیا جائے دشمن کے لیے جاسوسی کرنے والوں اور مجاہدین میں فتنہ کھڑا کرنے والوں کو لشکر میں شامل نہ ہونے دے۔ خلیفۃالمسلمین کو چاہیے کہ وہ اسلامی لشکر کا ایک ایسا امیر مقرر کرے جو ان کے جملہ امور شرعی طریقے کے مطابق چلائے اور امور جنگ میں ماہر ہو۔
لشکر میں شریک مجاہدین اپنے امیر کی ہر معروف میں اطاعت کریں اس کے ساتھ خیر خواہی کریں اور اس کے ساتھ صبر و استقامت سے وابستہ رہیں ۔
(۴)نیکی نہ کرسکنے پرافسوس کرنا،رونابھی اعلی درجہ کی عبادت ہے ، کیونکہ رب تعالی نے ان حضرات کے اس وقت رونے کو بطریق احسن بیان فرمایا، یوں ہی گناہ کربیٹھنے پررونااورپچھتانابھی عبادت ہے ،یہ روناتوبہ کی اعلی قسم ہے ، اس پربہترین اجرکی امیدہے ۔کسی کو نیکی کرتے ہوئے دیکھ کراس پررشک کرناکہ کاش میں بھی یہ کرسکتا، عبادت ہے ، ان شاء اللہ اس کو نیکی کرنے والے کاثواب ملے گا۔ (تفسیرنعیمی( ۱۰: ۴۰۴)

Leave a Reply

%d bloggers like this: