صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کامذاق اڑانے والوں کااللہ تعالی مذاق اڑائے گا
{اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ سَخِرَ اللہُ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ }(۷۹)
ترجمہ کنزالایمان: وہ جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے تو ان سے ہنستے ہیں اللہ ان کی ہنسی کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:وہ منافقین جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے تو ان کامذاق اڑاتے ہیں اللہ تعالی ان کی ہنسی کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
شان نزول
عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ قَالَ لَمَّا أُمِرْنَا بِالصَّدَقَۃِ کُنَّا نَتَحَامَلُ فَجَاء َ أَبُو عَقِیلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ وَجَاء َ إِنْسَانٌ بِأَکْثَرَ مِنْہُ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ إِنَّ اللَّہَ لَغَنِیٌّ عَنْ صَدَقَۃِ ہَذَا وَمَا فَعَلَ ہَذَا الْآخَرُ إِلَّا رِئَاء ً فَنَزَلَتْ الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لَا یَجِدُونَ إِلَّا جُہْدَہُمْ الْآیَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:جب ہمیں صدقہ دینے کا حکم دیا گیا تو اس وقت ہم مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت سیدناابو عقیل رضی اللہ عنہ(اسی مزدوری سے)آدھا صاع کھجور لے کر آئے۔ ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ اس سے زیادہ لائے تو منافقین کہنے لگے:اللہ تعالٰی کو عقیل رضی اللہ عنہ کے صدقے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور دوسرے نے تو محض ریاکاری کے لیے اتنا مال دیا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:یہ ایسے لوگ ہیں کہ خوشی سے صدقہ دینے والے اہل اسلام پر طعن کرتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں جو محنت و مزدوری کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۶۷)
یلمزون کامعنی
قَالَ قَتَادَۃُ:یَلْمِزُونَ یَعِیبُونَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’یلمزون ‘‘کامعنی ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زیادہ صدقہ لیکرآتے تووہ تب بھی مذاق اڑاتے اوران کے بارے میں کہتے کہ یہ ریاکارہیںاوراگرکوئی تھوڑاصدقہ لاتے تویہ کہتے کہ ان کے صدقہ کی اللہ تعالی کوکیاضرورت تھی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۱۴)
حضرت سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کاصدقہ
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا:إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَہُمْ ذَاتَ یَوْمٍ وَحَثَّ عَلَی أَنْ یَجْمَعُوا الصَّدَقَاتِ، فَجَاء َہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بِأَرْبَعَۃِ آلَافِ دِرْہَمٍ، وَقَالَ:کَانَ لِی ثَمَانِیَۃُ آلَافِ دِرْہَمٍ، فَأَمْسَکْتُ لِنَفْسِی وَعِیَالِی أَرْبَعَۃً وَہَذِہِ الْأَرْبَعَۃُ أَقْرَضْتُہَا رَبِّی، فَقَالَ:بَارَکَ اللَّہُ لَکَ فِیمَا أَعْطَیْتَ وَفِیمَا أَمْسَکْتَ قِیلَ:قَبِلَ اللَّہُ دُعَاء َ الرَّسُولِ فیہ حتی صالحت امرأتہ ناضر عَنْ رُبُعِ الثُّمُنِ عَلَی ثَمَانِینَ أَلْفًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک دن خطبہ ارشادفرمایااورآپﷺنے صدقات جمع کرنے کاشوق دلایااورحضرت سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ چارہزاردرہم لے کرآئے اورعرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میرے پاس آٹھ ہزاردرہم تھے ، چارہزارگھروالوں کے لئے رکھ آیاہوں اورچارہزارجہاد کے لئے لے آیاہوں ۔توآپﷺنے فرمایا:جو تم نے اپنے لئے رکھاہے اللہ تعالی اس میں برکت دے ۔اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعاکو قبول فرمایاحتی کہ ان کی زوجہ محترمہ نے وراثت میں اٹھویں حصہ اوروہ بھی اسی درہم پرصلح کی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۱۱۰)
اللہ تعالی کے مذاق اڑانے کامطلب
وَقَالَ الْأَصَمُّ: الْمُرَادُ أَنَّہُ تَعَالَی قَبِلَ مِنْ ہَؤُلَاء ِ الْمُنَافِقِینَ مَا أَظْہَرُوہُ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ مَعَ أَنَّہُ لَا یُثِیبُہُمْ علیہا، فکان ذلک کالسخریۃ۔
ترجمہ :امام الاصم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اللہ تعالی کے فرمان شریف سے مراد یہ ہے کہ ان منافقین کے اعمال جوظاہراًکئے ان کو قبول کرلے گامگران کو ان کااجرنہیں دے گااوریہی تمسخرکی طرح ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۱۱۰)
مذاق کی سزاان کو کیاملی ؟
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:ہُوَ خَبَرٌ، أَیْ سَخِرَ مِنْہُمْ حَیْثُ صَارُوا إِلَی النَّارِوَمَعْنَی سَخْرِ اللَّہِ مُجَازَاتُہُمْ علی سخریتہم۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ خبرہے {سَخِرَ مِنْہُمْ حَیْثُ صَارُوا إِلَی النَّار}یعنی اللہ تعالی نے ان منافقین کو ان کے مذاق کی سزایہ دی کہ وہ سارے کے سارے جہنمی ہوگئے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۱۴)
تھوڑاصدقہ دینے والے کو بھی ضروردیناچاہئے
فَقَدْ یَکُونُ الْقَلِیلُ الَّذِی یَأْتِی بِہِ الْفَقِیرُ أَکْثَرَ مَوْقِعًا عِنْدَ اللَّہِ تَعَالَی مِنَ الْکَثِیرِ الَّذِی یَأْتِی بِہِ الْغَنِیُّ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بعض اوقات وہ تھوڑاسامال جو فقیرلے کرآتاہے اللہ تعالی کے لئے دینے کے لئے ، اللہ تعالی کے نزدیک مال دارکے پیش کئے ہوئے مال سے زیادہ نفع والاہوتاہے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۱۱۰)
معارف ومسائل
(۱) اس سے معلوم ہواکہ منافقین کو خودتونیکی کرنے اورجہادمیں مال دینے کی توفیق نہیں ملتی مگرجواہل ایمان جہاد کریں یاجہاد میں اپنامال دیں تویہ منافقین ان کامذاق اڑاتے ہیں یعنی ان کو کسی کی نیکی کی ہوئی بھی برداشت نہیں ہوتی ۔
(۲)جہاد کرنے اورجہادمیں مال خرچ کرنے سے اہل اسلام کو دینی ودنیوی ترقی ملتی ہے اوریہی منافق سے برداشت نہیں ہوتی ، اسی لئے یہ منافقین اہل اسلام کے جہاد کرنے اورجہاد میں مال خرچ کرنے پر اعتراضات کرتے ہیں ۔
(۳) اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ منافقین ہمیشہ اس صدقہ کے دشمن رہے ہیں جو اعلائے کلمۃ اللہ اورغلبہ دین کے لئے خرچ کیاجائے ۔ یہی وجہ ہے آج بھی مدارس کے لئے جو کھالیں ، چندہ جمع کیاجائے تواس پرحکومت میں بیٹھے منافقین اورلبرل وسیکولر خوفزدہ ہیں اورکسی نہ کسی طریقے سے ان کو منع کرنے کے بہانے بناتے رہتے ہیں ۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ بعض اوقات نفلی صدقہ علانیہ کرنابالکل جائز ہے بلکہ بہترہے ، جب کہ مقصود یہ ہوکہ دوسرے لوگ بھی صدقہ دیں لھذاچندہ کا موقع پراعلان کیاجائے توجائز ہے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پربدگمانی کرنااوران کے نیک اعمال میں شبہ کرناانہیں ریاکارکہنامنافقین کاطریقہ ہے ۔اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کسی بھی عمل کامذاق اڑاناکفرہے اورطریقہ منافقین ہے ۔ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کابدلہ خود لیتاہے ۔ دیکھومنافقین نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرطعن کیاتواللہ تعالی نے ان منافقین سے خود بدلہ لیا۔ جیساجرم ویسی سزا،منافقین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرایک بارطعن کیامگران پرقیامت تک لعن طعن ہوتی رہے گی ۔تفسیرنعیمی ( ۱۰: ۴۵۲)
(۵)جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہر عبادت کو نفاق یا دکھلاوے پر محمول کرتے ہیں اور صحابہ کرام ضی اللہ عنہم پر طعن کرتے ہیں وہ منافقین ہیں۔نیک لوگوں کا نیکی پر مذاق اڑانا منافقین کا کام ہے۔ آج بھی بہت سے مسلمان کہلانے والوں کو فلموں ، ڈراموں سے تو تکلیف نہیں ہوتی البتہ دینی شَعائر پر عمل کرنے، دینی حُلیہ اپنانے، دین کا نام لینے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
نیک بندوں کا مذاق اڑانا، انہیں تہمت لگانا، رب تعالیٰ سے مقابلہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بدلہ لیتا ہے۔(تفسیرصراط الجنان( ۴:۱۹۲)