منافقین کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کرکے قسمیں کھانااورانکارکرنا
{یَحْلِفُوْنَ بِاللہِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوْاکَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلٰمِہِمْ وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہ مِنْ فَضْلِہٖ فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَکُ خَیْرًا لَّہُمْ وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْہُمُ اللہُ عَذَابًا اَلِیْمًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَمَا لَہُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ }(۷۴)
ترجمہ کنزالایمان:اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا اور بیشک ضرور انہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آکر کافر ہوگئے اور وہ چاہا تھا جو انہیں نہ ملا اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کا بھلا ہے اور اگر منہ پھیریں تو اللہ انہیں سخت عذاب کرے گا دنیا و آخرت میں اور زمین میں کوئی نہ ان کا حمایتی ہوگا نہ مددگار۔
ترجمہ ضیاء الایمان:منافقین اللہ تعالی کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا اور بیشک ضرور انہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آکر کافر ہوگئے اور وہ چاہا تھا جو انہیں نہ ملا اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ تعالی و رسول کریمﷺ نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کا بھلا ہے اور اگر منہ پھیریں تو اللہ تعالی انہیں سخت عذاب کرے گا دنیا و آخرت میں اور زمین میں کوئی نہ ان کا حمایتی ہوگا نہ مددگار۔
شان نزول کے متعلق پہلاقول
قَالَ قَتَادَۃُ:نَزَلَتْ فِی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أُبَیٍّ وَذَلِکَ أَنَّہُ اقْتَتَلَ رَجُلَانِ جُہَنِیٌّ وَأَنْصَارِیٌّ فَعَلَا الْجُہَنِیُّ عَلَی الْأَنْصَارِیِّ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ لِلْأَنْصَارِ أَلَا تَنْصُرُوا أَخَاکُمْ؟ وَاللَّہِ مَا مَثَلُنَا وَمَثَلُ مُحَمَّدٍ إِلَّا کَمَا قَالَ الْقَائِلُ: سَمِّنْ کَلْبَکَ یَأْکُلْکَ، وَقَالَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ منہا الأذل، فَسَعَی بِہَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ فَسَأَلَہُ فَجَعَلَ یَحْلِفُ بِاللَّہِ مَا قَالَہُ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ فِیہِ ہَذِہِ الْآیَۃَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میںہیں :دو آدمیوں نے آپس میں قتال کیا۔ ان میں سے ایک جہینہ میں سے تھا اور دوسرا غفار سے تھا۔ اور جہینہ انصار کے حلیف تھے۔ غفاری جہنی پر غالب آگیا۔ تب عبداللہ بن ابی نے ندا کی اے بنو اوس!اپنے بھائی کی مدد کرو اور کہا خدا کی قسم ہماری اور (سیدنا)محمد (ﷺ)کی مثال صرف ایسی ہے جیسا کہ کسی نے کہا اور کہا اگر ہم مدینہ کی طرف واپس آگئے تو ضرور عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے۔ ایک مسلمان شخص نے یہ بات حضورتاجدارختم نبوتﷺکو پہنچا دی۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے عبداللہ بن ابی کو بلوایا، اور اس سے پوچھا :اس نے قسم کھالی کہ اس نے یہ بات نہیں کہی۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۱۵۶)
شان نزول کے متعلق دوسراقول
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ کَعْبٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ فِیہِ ذَکَرُ الْمُنَافِقِینَ وَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُلَاسُ: وَاللَّہِ لَئِنْ کَانَ ہَذَا الرَّجُلُ صَادِقًا لَنَحْنُ أَشَرُّ مِنَ الْحَمِیرِ قَالَ: فَسَمِعَہَا عُمَیْرُ بْنُ سَعْدٍ فَقَالَ: وَاللَّہِ یَا جِلَاسُ إِنَّکَ لَأُحِبُّ النَّاسَ إِلَیَّ، أَحْسَنُہُمْ عِنْدِی أَثَرًا أَوْ أَعَزَّہُمْ عَلَیَّ أَنْ یَدْخُلَ عَلَیْہِ شَیْء ٌ یَکْرَہُہُ، وَلَقَدْ قُلْتَ: مَقَالَۃً لَئِنْ ذَکَرْتُہَا لَتَفْضَحَنَّکَ، وَلَئِنْ سَکَتُ عَنْہَا لَتُہْلِکَنِّی، وَلَأَحَدُہُمَا أَشَرُّ عَلَیَّ مِنَ الْأُخْرَی، فَمَشَی إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ لَہُ مَا قَالَ الْجُلَاسُ، فَحَلَفَ بِاللَّہِ مَا قَالَ عُمَیْرُ، وَلَقَدْ کَذَبَ عَلَیَّ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ: (یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ مَا قَالُوا وَلَقَدِ قَالُوا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِہِمْ) (التوبۃ: ۷۴)
ترجمہ :حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ غزوہ تبوک میں جبکہ نہایت خورد سال تھے اور جلاس نے ایک موقع پر کہا کہ’’ اگر محمد ﷺاپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بد تر ہیں‘‘تو حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ نے بلا کسی خیال کے فوار اًجواب دیا کہ وہ ضرور سچے ہیں اور تم یقیناً گدھوں سے بد تر ہو۔جلا س کو سخت ناگوار گزرا اورانہوں نے عہد کر لیا کہ اب حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ کی کفالت سے قطع تعلق کر لیں گے۔حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ نے جلاس کو جواب دے کرحضورتاجدارختم نبوتﷺکو بھی خبر کردی کہ اس کے چھپانے میں حبط اعمال اور قرآن نازل ہونے کا خوف تھا، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ اورجلاس کو بلا کر واقعہ پوچھا،جلاس نے قطعی انکار کیا، لیکن وحی والہام کی دسترس سے کب کوئی چیز باہر رہ سکتی تھی؛ چنانچہ حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ کی اس سے تائید ہوئی ،حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے سر اٹھا کر یہ آیت پڑھی:
{یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِہِمْ وَہَمُّوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاہُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ مِنْ فَضْلِہِ فَإِنْ یَتُوبُوا یَکُ خَیْرًا لَہُمْ وَإِنْ یَتَوَلَّوْا یُعَذِّبْہُمُ اللَّہُ عَذَابًا أَلِیمًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَمَا لَہُمْ فِی الْأَرْضِ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ}
ترجمہ ضیاء الایمان:یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بات نہیں کہی ؛حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہی ہے اور اپنے اسلام لانے کے بعد انہوں نے کفر اختیار کیا ہے، انہوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور انہوں نے نہ صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے مال دار بنایا ہے، اب اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگااور اگر یہ منہ موڑیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی یارہوگا نہ مددگار۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی،(۶:۱۸۴۲)
یہ ذہن میں رہے کہ حضرت سیدنا جلاس رضی اللہ عنہ نے بے ساختہ کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اس کے بعد جلاس حقیقی طور پر مسلمان ہو گئے اور پھر کوئی ناگوار طرز عمل اختیار نہیں کیا، توبہ قبول ہونے کی خوشی میں حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ کی کفالت نہ کرنے کی جو قسم کھائی تھی توڑدی اورپھر ہمیشہ ان کی کفالت کرتے رہے،آیت اترنے پر حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناعمیررضی اللہ عنہ کا کان پکڑا اور فرمایا لڑکے !تیرے کان نے ٹھیک سنا تھا۔
تیسراقول
حَدَّثَنِی أَیُّوبُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَجَاء ٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِی ظِلِّ شَجَرَۃٍ فَقَالَ: إنہ سیأتیکم إنسان فینظر إِلَیْکُمْ بِعَیْنَیِ الشَّیْطَانِ فَإِذَا جَاء َ فَلَا تُکَلِّمُوہُ فَلَمْ یَلْبَثُوا أَنْ طَلَعَ رَجُلٌ أَزْرَقُ فَدَعَاہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فقال: علام تشتمنی أنت وأصحابک؟ فانطلق الرجل فجاء ہ بِأَصْحَابِہِ فَحَلَفُوا بِاللَّہِ مَا قَالُوا حَتَّی تَجَاوُزَ عَنْہُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ ما قالُوا الآیۃ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺایک درخت کے نیچے تشریف فرماتھے ، اورفرمانے لگے کہ ابھی تمھارے پاس ایک شخص آئے گاوہ شیطان دکھے گا، خبردار!تم اس سے کلام نہ کرنا، اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والاآیا، آپﷺنے فرمایا: تواورتیرے ساتھی میری گستاخیاں کرتے ہو؟وہ اسی وقت گیااوراپنے ساتھیوں کولے کرآیا۔ سب نے قسمیں کھائیں اورکہاکہ ہم نے توکوئی ایسی بات نہیں کی یہاں تک کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان سے درگزرفرمایاتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۱۴:۳۶۳)
چوتھاقول
وَقَالَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ:نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ فِی الْجُلَاسِ بْنِ سُوَیْدِ بْنِ الصَّامِتِ، أَقْبَلَ ہُوَ وَابْنُ امْرَأَتِہِ مُصْعَبُ مِنْ قُبَاء َ، فَقَالَ الْجُلَاسُ:إِنْ کَانَ مَا جَاء َ بِہِ مُحَمَّدٌ حَقًّا فَنَحْنُ أَشَرُّ مِنْ حُمُرِنَا ہَذِہِ الَّتِی نَحْنُ عَلَیْہَا، فَقَالَ مُصْعَبٌ:أَمَا وَاللَّہِ یَا عَدُوَّ اللَّہِ لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا قُلْتَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخِفْتُ أَنْ یَنْزِلَ فِیَّ الْقُرْآنُ أَوْ تُصِیبَنِی قَارِعَۃٌ أَوْ أَنْ أُخْلَطَ بِخَطِیئَتِہِ، فَقُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ أَقْبَلْتُ أَنَا وَالْجُلَاسُ مِنْ قُبَاء َ فَقَالَ کَذَا وَکَذَا وَلَوْلَا مَخَافَۃُ أَنْ أُخْلَطَ بِخَطِیئَۃٍ أَوْ تُصِیبَنِی قَارِعَۃٌ مَا أَخْبَرْتُکَ، قَالَ: فَدَعَا الْجُلَاسَ فَقَالَ یَا جلاس أقلت الذی قالہ مصعب؟فَحَلَفَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ مَا قالُوا الْآیَۃَ
ترجمہ :الجلاس بن سویدبن صامت اپنے سوتیلے بیٹے حضرت سیدنامصعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ قباء سے آرہے تھے اوردونوں گدھوں پرسوارتھے ، اس وقت جلا س نے مذکورہ بات کی توحضرت سیدنامصعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ تعالی کے دشمن!میں تیری یہ بات حضورتاجدارختم نبوتﷺکو ضرورعرض کروں گا، فرماتے ہیں کہ مجھے ڈرلگ رہاتھاکہ کہیں میرے بارے میں قرآن کریم نازل نہ ہوجائے یامجھ پرعذاب ہی نہ آجائے ، یااس گناہ میںمیں بھی تیراشریک نہ کردیاجائوں۔ چنانچہ میں سیدھاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں آیااورساراواقعہ عرض کیااورساتھ میرے دل میں جوخوف پیداہواتھاوہ بھی بیان کردیا۔ تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیرالخازن:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن (۲:۳۸۴)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکوشہیدکرنے کامنصوبہ ناکام ہوا
رُوِیَ: أَنَّ الْمُنَافِقِینَ ہَمُّوا بِقَتْلِہِ عِنْدَ رُجُوعِہِ مِنْ تَبُوکَ وَہُمْ خَمْسَۃَ عَشَرَ تَعَاہَدُوا أَنْ یَدْفَعُوہُ عَنْ رَاحِلَتِہِ إِلَی الْوَادِی إِذَا تَسَنَّمَ الْعَقَبَۃَ بِاللَّیْلِ، وَکَانَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ آخِذًا بِالْخِطَامِ عَلَی رَاحِلَتِہِ وَحُذَیْفَۃُ خَلْفَہَا یَسُوقُہَا، فَسَمِعَ حُذَیْفَۃُ وَقْعَ أَخْفَافِ الْإِبِلِ وَقَعْقَعَۃَ السِّلَاحِ، فَالْتَفَتَ، فَإِذَا قَوْمٌ مُتَلَثِّمُونَ فَقَالَ:إِلَیْکُمْ إِلَیْکُمْ یَا أَعْدَاء َ اللَّہِ، فَہَرَبُواوَالظَّاہِرُ أَنَّہُمْ لَمَّا اجْتَمَعُوا لِذَلِکَ الْغَرَضِ، فَقَدْ طَعَنُوا فِی نُبُوَّتِہِ وَنَسَبُوہُ إِلَی الْکَذِبِ وَالتَّصَنُّعِ فِی ادِّعَاء ِ الرِّسَالَۃِ، وَذَلِکَ ہُوَ قَوْلُ کَلِمَۃِ الْکُفْرِ وَہَذَا الْقَوْلُ اخْتِیَارُ الزَّجَّاجِ۔
ترجمہ :روایت کیاگیاہے کہ منافقین نے تبوک سے واپسی پرحضورتاجدارختم نبوتﷺکوشہیدکرنے کامنصوبہ بنایااوروہ پندرہ آدمی تھے انہوںنے یہ عہدکیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکوسواری سے گراکرشہیدکردیں، حضرت سیدناعماربن یاسررضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سواری کی مہارپکڑی ہوئی تھی اورحضرت سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ اس سواری کو چلارہے تھے ۔ حضرت سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اونٹوں کے چلنے کی آواز اوراسلحہ کے کھڑکنے کی آواز سنی تومتوجہ ہوئے تودیکھاکہ کچھ لوگ اپنے منہ چھپائے ہوئے ہیں ،توفرمایاکہ اللہ تعالی کے دشمنوں رک جائو!توہ وہ لوگ یہ سنتے ہی بھاگ گئے، توظاہریہ ہے کہ جب وہ اس مقصدکے لئے جمع ہوئے توانہوںنے آپﷺکی نبوت شریفہ پرطعن کیااورآپﷺکوجھوٹاقراردیااوردعوت نبوت میں ملاوٹ کرنے والاقراردیااوریہی قول کفرہے اوراسی کو امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی نے اختیارکیاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۱۰۳)
منافقین گستاخوں کاعبرتناک انجام
قَالَ حُذَیْفَۃُ: سَمَّاہُمْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی عَدَّہُمْ کُلَّہُمْ فَقُلْتُ:أَلَا تَبْعَثُ إِلَیْہِمْ فَتَقْتُلُہُمْ؟ فَقَالَ:(أَکْرَہُ أَنْ تَقُولَ الْعَرَبُ لَمَّا ظَفِرَ بأصحابہ أقبل یقتلہم بل یکفیہم للہ بِالدُّبَیْلَۃِقِیلَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا الدُّبَیْلَۃُ؟ قَالَ:(شِہَابٌ مِنْ جَہَنَّمَ یَجْعَلُہُ عَلَی نِیَاطِ فُؤَادِ أَحَدِہِمْ حَتَّی تَزْہَقَ نَفْسُہُ)فَکَانَ کَذَلِکَ.
ترجمہ :حضرت سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان منافقین کے نام بھی بیان کردئیے حتی کہ آپﷺنے ان سب کوشمارکیا، تومیں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ!آپ ان کی طرف پیغام نہیں بھیجیں گے کہ آپﷺان کو قتل کردیں ؟ توآپﷺنے فرمایا: میں یہ ناپسندکرتاہوں کہ عرب لوگ یہ کہیں کہ جب اپنے اصحاب کے ساتھ کامیاب ہوگئے توپھران کو قتل کرنے لگ گئے ۔ بلکہ اللہ تعالی ان کو دبلیہ کے ساتھ کافی ہوگا۔عرض کی گئی : یارسول اللہﷺ!یہ کیاچیز ہوتی ہے ؟ توآپ ﷺنے فرمایا: جہنم کاشعلہ ہے جوان میں سے ہرایک کی رگ دل پرپڑے گایہاں تک کہ اس کی روح نکل جائے گی ۔ اوروہ ہلاک ہوجائے گاپھراسی طرح ہی ہوا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی شمس الدین القرطبی (۸:۲۰۷)
ان کی گستاخی کی وجہ کیاتھی؟
قَالَ الشَّعْبِیُّ:کَانُوا یَطْلُبُونَ دِیَۃً فَیَقْضِی لَہُمْ بِہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَغْنَوْاذَکَرَ عِکْرِمَۃُ أَنَّہَا کَانَتِ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًاوَیُقَالُ:إِنَّ الْقَتِیلَ کَانَ مَوْلَی الْجُلَاسِ وَقَالَ الْکَلْبِیُّ:کَانُوا قَبْلَ قُدُومِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ضَنْکٍ مِنَ الْعَیْشِ، لَا یَرْکَبُونَ الْخَیْلَ وَلَا یَحُوزُونَ الْغَنِیمَۃَ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَیْہِمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَغْنَوْا بِالْغَنَائِمِ وَہَذَا الْمَثَلُ مَشْہُورٌ (اتَّقِ شَرَّ مَنْ أَحْسَنْتَ إِلَیْہِ)۔
ترجمہ :امام الشعبی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ الجلاس کاغلام قتل ہوگیاتواس نے دیت کامطالبہ کیاتوحضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس کے بارے میں ان کے لئے فیصلہ فرمادیااورحضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ان کے لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بارہ ہزاردرہم دیت کافیصلہ کیااورکہاجاتاتھاکہ بے شک مقتول جلا س کاغلام تھا۔
امام الکلبی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ آپﷺکی تشریف آوری سے پہلے الجلاس اوراس کاخاندان انتہائی تنگ زندگی گزارتے تھے ، نہ وہ کبھی گھوڑے پرسوارہوئے تھے اورنہ ہی کبھی غنیمت تقسیم کرتے تھے ، پس حضورتاجدارختم نبوتﷺجب ان کے پاس تشریف لائے تووہ غنائم کے سبب غنی ہوگئے ۔ اوریہ مثل مشہورہے ’’تواس کے شرسے بچ جس پرتونے احسان کیا‘‘
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی شمس الدین القرطبی (۸:۲۰۷)
کیاتونے یہ مسئلہ قرآن کریم میں دیکھاہے ؟
قَالَ الْقُشَیْرِیُّ أَبُو نَصْرٍ:قِیلَ لِلْبَجَلِیِّ أَتَجِدُ فِی کِتَابِ اللَّہِ تَعَالَی اتَّقِ شَرَّ مَنْ أَحْسَنْتَ إِلَیْہِ؟ قَالَ نَعَمْ،وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناہُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ مِنْ فَضْلِہِ۔
ترجمہ :امام القشیری ابونصررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ الجبلی رحمہ اللہ تعالی سے کہاگیاکہ کیاآپ قرآن کریم میں یہ مسئلہ پاتے ہیں کہ ’’تواس کے شرسے بچ جس پرتونے احسان کیا‘‘؟توانہوں نے فرمایا: ہاں!اورانہوںنے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔{وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناہُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ مِنْ فَضْلِہ}
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی شمس الدین القرطبی (۸:۲۰۷)
معارف ومسائل
علماء نے صراحت کی ہے کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں ایک اعتقادی اور دوسرا عملی ، اعتقادی نفاق کا مطلب یہ ہے کہ منافق جو اپنے کفر کو چھپائے رکھے اور کسی دنیاوی مصلحت کی وجہ سے زبان سے اسلام و ایمان کا اظہار کرتا پھرے ، اور عملی نفاق یہ ہے کہ دل میں تو ایمان ہے لیکن منافقوں کی خصلتیں اور عادتیں اس میں پائی جائیں ، آج اعتقادی نفاق کی معرفت ایک مشکل بلکہ ناممکن کام ہے ،کیونکہ یہ ایک خالص باطنی معاملہ ہے جس کی معرفت کا ذریعہ صرف وحی الہی ہے جوحضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے بعد منقطع ہوچکی ہے، اس لئے کسی بھی شخص پر اعتقادی منافق ہونے کا حکم لگانا جائز نہیں ہے ، البتہ نفاق عملی کی معرفت ان اعمال و خصلتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے جنہیں قرآن و حدیث میں منافق کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے۔
منافقین کی علامات جو ابھی تک بیان ہوئیں اوریہی علامات موجودہ دورمیں لبرل وسیکولرطبقہ میں پائی جاتی ہیں
یہ ذہن میں رہے کہ نفاق کے اصل معنی ہیں ظاہر باطن کے مخالف ہونا نفاق کی کئی قسمیں بھی ہیں اول اعتقادی نفاق اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص بظاہر اللہ کی توحید و رسالت فرشتو ں وغیرہ پر اعتقاد ظاہر کرنے کا دعویدار ہو مگر دل میں سب کا انکار کرے دوسرا عملی نفاق اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص دل سے تو توحید و رسالت فرشتوںاور روز آخرت پر اعتقاد رکھتا ہو مگر اپنے دینی انحطاط کی وجہ سے ان باتوں کو بھی اختیار کرے جو منافقین کی نشانیاں اور خاصہ ہوتی ہیںایسا شخص فاسق و فاجر ہوتا ہے۔
(۱)…دعوی ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
(۲)…محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکی رسالت پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔
(۳)…دھوکہ دہی اور مکرو فریب کی نفسیات
(۴)…یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔
(۵)…یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
قلب و باطن کا بیمار ہونا
(۶)…جھوٹ بولنا
(۷)…نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی یعنی مفسدانہ طرزِ عمل کے باوجود خود کو صالح اور مصلح سمجھنا
(۸)…دوسروں کو بے وقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
(۹)…امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا
(۱۰)…اجماع امت یا سواد اعظم کی پیروی نہ کرنا
(۱۱)…کردار کا دوغلا پن اور ظاہر و باطن کا تضاد
(۱۲)…اہل حق کے خلاف مخفی سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا
(۱۳)…اہل حق کے استہزاء کی نفسیات
(۱۴)…مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور ان کی تحقیر و تمسخر کے در پے ہونا
(۱۵)…باطل کو حق پر ترجیح دینا
(۱۶)…سچائی کو روشن دیکھتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں بند کر لینا
(۱۷)…تنگ نظری، تعصب اور عناد میں اس حد تک پہنچ جانا کہ کان، حق سن نہ سکیں، زبان حق کہہ نہ سکے اور آنکھیں، حق دیکھ نہ سکیں۔
(۱۸)…اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنا
(۱۹)…اہل حق کی کامیابیوں پر دنگ رہ جانا اور ان پر حسد کرنا
(۲۰)مفاد پرستانہ طرزِ عمل یعنی مفادات کے حصول کے لیے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا
(۲۱)حق کے معاملے میں نیم دلی اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔
(۲۲) …جہادمیں شرکت نہ کرنا۔
(۲۳)…لوگوں کو جہادسے ورغلانا
(۲۴)…حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیاں کرنا
(۲۵)…احکامات شرعیہ کو ہلکاجاننااوران کامذاق اڑانا
(۲۶)…صرف دنیوی مفادات کواپنے پیش نظررکھنا
(۲۷)…دنیوی مفادات کی خاطردین کابھی سوداکرناپڑے تودریغ نہ کرنا
(۲۸)…علماء حق کی توہین کرنااوران سے عوام الناس کومتنفرکرنا
(۲۹)…شعائر اسلامی سے لوگوں کوبددل کرنا
(۳۰)… خود کواہل ایمان سے زیادہ اہل کفر،یہودونصاری کاخیر خواہ جاننا
(۳۱)…اہل اسلام میں بے حیائی اورفحاشی کو ترویج دینے میں رات دن کوشاں رہنا
(۳۲)…عبادت کرنے میں سستی کامظاہرہ کرنا