تفسیرسورۃالتوبہ آیت ۶۳۔ یَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ

منافقین اورلبرل وسیکولر حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کو معمولی کیوں جانتے ہیں؟

{یَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ }(۶۲){ اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّہ مَنْ یُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوْلَہ فَاَنَّ لَہ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدًا فِیْہَا ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ }(۶۳)
ترجمہ کنزالایمان:تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ تمہیں راضی کرلیں اور اللہ و رسول کا حق زائد تھا کہ اسے راضی کرتے اگر ایمان رکھتے تھے۔ کیا انہیں خبر نہیں کہ جو خلاف کرے اللہ اور اس کے رسول کا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے گا یہی بڑی رسوائی ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے اہل اسلام!تمہارے سامنے منافقین اللہ تعالی کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کرلیں حالانکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم ﷺاس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ لوگ ان کو راضی کریں ،اگر ایمان والے ہیں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ جو اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺ کی مخالفت کرے تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہی بڑی ذلت ہے۔

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی پرایک چھوٹاسابچہ جلال میں آگیا

رُوِیَ أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْمُنَافِقِینَ اجتمعوا، فیہم الجلاس بن سوید وودیعۃ ابن ثَابِتٍ، وَفِیہِمْ غُلَامٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یُدْعَی عَامِرُ بْنُ قَیْسٍ، فَحَقَّرُوہُ فَتَکَلَّمُوا وَقَالُوا:إِنْ کَانَ مَا یَقُولُ مُحَمَّدٌ حَقًّا لَنَحْنُ شَرٌّ مِنَ الْحَمِیرِفَغَضِبَ الْغُلَامُ وَقَالَ:وَاللَّہِ إِنَّ مَا یَقُولُ حَقٌّ وَأَنْتُمْ شَرٌّ مِنَ الْحَمِیرِ، فَأُخْبِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہِمْ، فَحَلَفُوا أَنَّ عَامِرًا کَاذِبٌ، فَقَالَ عَامِرٌ:ہُمُ الْکَذَبَۃُ، وَحَلَفَ عَلَی ذَلِکَ وَقَالَ:اللَّہُمَّ لَا تُفَرِّقْ بَیْنَنَا حَتَّی یَتَبَیَّنَ صِدْقُ الصَّادِقِ وَکَذِبُ الْکَاذِبِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ ہَذِہِ الْآیَۃَ وَفِیہَایَحْلِفُونَ بِاللَّہِ لَکُمْ لِیُرْضُوکُمْ۔

ترجمہ :روایت کیاگیاہے کہ ایک جگہ منافقین جمع ہوئے ، ان میں جلاس بن سوید، ودیعہ بن ثابت تھے ، اوران میں ایک انصاری بچہ بھی تھاجسے عامربن قیس پکاراجاتاتھا، توانہوںنے اس بچہ کو حقیرجانتے ہوئے درمیان میںہی بیٹھنے دیااورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے خلاف باتیں کرنے لگے اورانہوںنے یہ کہاکہ اگروہ حق ہے جو محمد ﷺکہتے ہیں یقیناہم گدھوں سے بھی بدترہیں ، تووہ بچہ بہت زیادہ غضبناک ہوگیااورکہنے لگاکہ اللہ تعالی کی قسم !جوکچھ حضورتاجدارختم نبوتﷺفرماتے ہیں وہ سچ ہے اوراللہ تعالی کی قسم !تم گدھوں سے بھی زیادہ بدترہو۔ پھراس بچے نے یہی بات حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں آکرعرض کردی تومنافقین یہاں آکرقسمیں کھانے لگے کہ عامرنے جھوٹ کہاہے ۔اوراس پراس بچے نے بھی قسم کھائی کہ یہ جھوٹ کہہ رہے ہیں میں نے خود اپنے کانوں سے ان کو گستاخیاں کرتے ہوئے سناہے ۔ اوراسی پراس بچے نے قسم کھائی اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : یااللہ !ہماے یہاں سے جداہونے سے پہلے سچ بولنے والے کاسچ اورجھوٹ بولنے والے کاجھوٹ واضح کردے تواللہ تعالی نے اسی وقت یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۸:۱۹۳)

گستاخیاں کرکے قسمیں کھانامنافقین کاوطیرہ ہے

اعْلَمْ أَنَّ ہَذَا نَوْعٌ آخَرُ مِنْ قَبَائِحِ أَفْعَالِ الْمُنَافِقِینَ وَہُوَ إِقْدَامُہُمْ عَلَی الْیَمِینِ الْکَاذِبَۃِقِیلَ: ہَذَا بِنَاء ً عَلَی مَا تَقَدَّمَ، یَعْنِی یُؤْذُونَ النَّبِیَّ وَیُسِیئُونَ الْقَوْلَ فِیہِ ثُمَّ یَحْلِفُونَ لَکُمْ۔
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ منافقین کے برے اعمال کی ایک نوع کاذکرہے اوریہ جھوٹی قسمیں کھاتے تھے ، اوربعض مفسرین کرام نے یہ بھی بیان کیاہے کہ منافقین حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیاں کیاکرتے تھے اورآپ ﷺکی عیب جوئیاں کرتے تھے لیکن جیسے ہی سامنے آتے تویہی لوگ قسمیں کھانے لگتے تھے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۵۱)

امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی کاشاندارکلام

قُلْتُ:وَقِیلَ إِنَّ اللَّہَ سُبْحَانَہُ جَعَلَ رِضَاہُ فِی رِضَاہُ، أَلَا تَرَی أَنَّہُ قَالَ:مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّہَ(النساء :۸۰)وکان الربیع ابن خَیْثَمٍ إِذَا مَرَّ بِہَذِہِ الْآیَۃِ وَقَفَ، ثُمَّ یَقُولُ:حَرْفٌ وَأَیُّمَا حَرْفٍ فُوِّضَ إِلَیْہِ فَلَا یَأْمُرُنَا إِلَّا بِخَیْرٍ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ اللہ تعالی نے اپنی رضاکو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی رضامیں رکھاہے ، کیاآپ جانتے نہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ {مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّہَ}جس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اطاعت کی تویقینااس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ۔ اورربیع بن خیثم رضی اللہ عنہ جب یہ آیت کریمہ پرپہنچتے تووقف کیاکرتے تھے اورکہتے تھے کہ ایک حرف ہے اورکتناہی شاندارحرف ہے ، اللہ تعالی نے ہمیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے سپردکیاہے ، پس آپ ﷺہمیں خیرکے علاوہ کوئی بھی حکم نہیں دیں گے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۹۳)

{مَنْ یُحادِدِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ}کامعنی

ثم للمفسرین ہاہنا عِبَارَاتٌ:یُخَالِفُ اللَّہَ، وَقِیلَ یُحَارِبُ اللَّہَ، وَقِیلَ یعاند اللہ وقیل یعاد اللَّہَ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہاں پرمفسرین نے {مَنْ یُحادِدِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ}کی مختلف تعبیریں کی ہیں ، بعض نے اس کاترجمہ {یُخَالِفُ اللَّہ}( جس نے اللہ تعالی کی مخالفت کی ) اوربعض نے { یُحَارِبُ اللَّہ}( جس نے اللہ تعالی کے ساتھ جنگ کی )اوربعض نے {یعاند اللہ}( جس نے اللہ تعالی کے ساتھ دشمنی کی )اوربعض نے { یعاد اللہَّ}( جس نے اللہ تعالی سے عداوت کی )کیاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۵۱)

گستاخ کے لئے ذلت والاعذاب ہے

ثُمَّ قَالَ: فَأَنَّ لَہُ نارَ جَہَنَّمَ وَفِیہِ وُجُوہٌ:الْأَوَّلُ: التَّقْدِیرُ:فَحَقٌّ أَنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ الثَّانِی:مَعْنَاہُ فَلَہُ نَارُ جَہَنَّمَ، وَأَنَّ تُکَرَّرُ لِلتَّوْکِیدِالثَّالِثُ:أَنْ نَقُولَ جَوَابُ (مَنْ)مَحْذُوفٌ، وَالتَّقْدِیرُ:أَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّہُ مَنْ یُحَادِدِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یَہْلِکْ فَأَنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ.
ترجمہ :پھراللہ تعالی نے فرمایاکہ ان گستاخوں کے لئے جہنم ہے ۔ اس کی متعددتفسیریں ہیں :
پہلی تفسیر: پوری عبارت یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخ اوردشمن کے لئے نارجہنم ہے ۔
دوسری تفسیر:حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخ اوردشمن کے لئے نارجہنم ہے اوریہ تکرارتاکیدکے لئے ہے۔
تیسری تفسیر: یہاں من کاجواب محذوف ہے اورپوری عبارت یوں ہوگی{أَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّہُ مَنْ یُحَادِدِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یَہْلِکْ فَأَنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ}کیاوہ نہیں جانتے کہ جواللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی مخالفت کرے وہ ہلاک ہوجاتاہے کیونکہ اس کے لئے نارجہنم ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۵۱)
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
مَنْ یُحادِدِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ای یخالف اللہ ورسولہ بالمعصیۃ والتخلف عن الغزہذہ الآیۃ فی مقام التعلیل لقولہ اللہ ورسولہ أحق ان یرضوہ فان عدم إرضاء اللہ ومخالفتہ یفضی الی النار دون عدم إرضاء غیرہ۔ملتقطاً۔
ترجمہ :آپ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’’یحادد‘‘کامعنی ہے یخالف ، یعنی نافرمانی کرکے اورجہادمیںنہ جاکرجواللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی مخالفت کرے گاوہ دوزخ جائے گا۔
اوریہ آیت کریمہ { اللہ ورسولہ أحق ان یرضوہ }کی معنوی علت کااظہار اس آیت کریمہ میں کیاگیاہے کہ اگراللہ تعالی ناراض ہواوراس کے حکم شریف کے خلاف عمل کیاجائے توداخلہ جہنم کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا، دوسروں کی ناراضگی موجب نارنہیں ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۲۵۵)

معارف ومسائل

کفرکرکے اس کاانکارکرنااورجھوٹی قسمیں کھاناایمان نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے توبہ کرناایمان قبول کرناہے ۔ ہرجرم کی علیحدہ توبہ ہے ۔ کفرسے توبہ ایمان لاناہے اورکفرپرپشیمان ہوناہے۔اکثرجھوٹے منافق جھوٹی قسمیں کھاکراپناایمان ثابت کرتے ہیں ، مخلصین کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ان کاایمان خود ہی خوشبودیتاہے ۔ اصل عطروالے کو عطرکی عمدگی پرقسمیں نہیں کھانی پڑتیں ۔ عطراپنی عمدگی خود ہی بتادیتاہے ۔منافق لوگ ہمیشہ مسلمانوں کو رازی رکھنے کی فکرمیں رہتے ہیں کہ کہیں ہمارانفاق ان پر ظاہرنہ ہوجائے ، مومنین ہمیشہ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکو راضی کرنے ، راضی رکھنے کی فکرمیں رہتے ہیں ۔ اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺکے مقابلے میں لوگوں کو راضی کرناکفریاحرام ہے ۔ ان کی مرضی کے مطابق مسلمانوں کو خصوصاًحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو راضی کرناعبادت ہے ۔ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے احکامات کو ناحق جان کراس کے خلاف کرناکفرہے اوران کے احکام کو حق جان کر اپنے آپ کوگناہگارمان کرغلطی کرلیناکفرنہیں ہے ۔ بلکہ گناہ ہے ۔قیامت کے دن رسوائی ہونی ، دوزخ میں علانیہ پھینکاجاناصرف اورصرف کفارکے لئے ہے ، ان شاء اللہ گنہگار مومن کاحساب بھی خفیہ ہوگااوراگراسے دوزخ میں ڈالاگیاتووہ بھی خفیہ ہوگا۔ ( تفسیرنعیمی ( ۱۰: ۳۸۴)

Leave a Reply