حضورتاجدارختم نبوتﷺبھی رحمت اورآپﷺکی تلواربھی رحمت
{لَقَدْ جَآء َکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَء ُوْفٌ رَّحِیْمٌ }(۱۲۸){فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّاہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ }(۱۲۹)
ترجمہ کنزالایمان:بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان ۔پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرمادو کہ مجھے اللہ کافی ہے اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظمت والے رسول کریم ﷺ تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ بہت زیادہ تمہاری بھلائی چاہنے والے، اہل ایمان پر بہت مہربان، کمال رحمت فرمانے والے ہیں۔
پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اے حبیب کریمﷺ!آپ فرمادیں کہ مجھے اللہ تعالی کافی ہے اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺصاحب السیف بھی اوررحمۃ للعالمین بھی
(فی بیان ما یوجب سہولۃ تحمل تلک التکالیف)اعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا أَمَرَ رَسُولَہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنْ یُبَلِّغَ فِی ہَذِہِ السُّورَۃِ إِلَی الْخَلْقِ تَکَالِیفَ شَاقَّۃً شَدِیدَۃً صَعْبَۃً یَعْسُرُ تَحَمُّلُہَا، إِلَّا لِمَنْ خَصَّہُ اللَّہُ تَعَالَی بِوُجُوہِ التَّوْفِیقِ وَالْکَرَامَۃِ، خَتَمَ السُّورَۃَ بِمَا یُوجِبُ سُہُولَۃَ تَحَمُّلِ تِلْکَ التَّکَالِیفِ، وَہُوَ أَنَّ ہَذَا الرَّسُولَ مِنْکُمْ، فَکُلُّ مَا یَحْصُلُ لَہُ مِنَ الْعِزِّ وَالشَّرَفِ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ عَائِدٌ إِلَیْکُمْ وَأَیْضًا فَإِنَّہُ بِحَالٍ یَشُقُّ عَلَیْہِ ضَرَرُکُمْ وَتَعْظُمُ رَغْبَتُہُ فِی إِیصَالِ خَیْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلَیْکُمْ، فَہُوَ کَالطَّبِیبِ الْمُشْفِقِ وَالْأَبِ الرَّحِیمِ فِی حَقِّکُمْ، وَالطَّبِیبُ الْمُشْفِقُ رُبَّمَا أَقْدَمَ عَلَی عِلَاجَاتٍ صَعْبَۃٍ یَعْسُرُ تَحَمُّلُہَا، وَالْأَبُ الرَّحِیمُ رُبَّمَا أَقْدَمَ عَلَی تَأْدِیبَاتٍ شَاقَّۃٍ، إِلَّا أَنَّہُ لَمَّا عُرِفَ أَنَّ الطَّبِیبَ حَاذِقٌ، وَأَنَّ الْأَبَ مُشْفِقٌ، صَارَتْ تِلْکَ الْمُعَالَجَاتُ الْمُؤْلِمَۃُ مُتَحَمَّلَۃً، وَصَارَتْ تِلْکَ التَّأْدِیبَاتُ جَارِیَۃً مَجْرَی الْإِحْسَانِ فکذا ہاہنا لَمَّا عَرَفْتُمْ أَنَّہُ رَسُولُ حَقٍّ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ، فَاقْبَلُوا مِنْہُ ہَذِہِ التَّکَالِیفَ الشَّاقَّۃَ لِتَفُوزُوا بِکُلِّ خَیْرٍ، ثُمَّ قَالَ لِلرَّسُولِ عَلَیْہِ السَّلَامُ: فَإِنْ لَمْ یَقْبَلُوہَا بَلْ أَعْرَضُوا عَنْہَا وَتَوَلَّوْا فَاتْرُکْہُمْ وَلَا تَلْتَفِتْ إِلَیْہِمْ وَعَوِّلْ عَلَی اللَّہِ وَارْجِعْ فِی جَمِیعِ أُمُورِکَ إِلَی اللَّہِ فَقُلْ حَسْبِیَ اللَّہُ لَا إِلہَ إِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ (التَّوْبَۃِ: ۱۲۹) وَہَذِہِ الْخَاتِمَۃُ لِہَذِہِ السُّورَۃِ جَاء َتْ فِی غَایَۃِ الْحُسْنِ وَنِہَایَۃِ الْکَمَالِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کواس سورت میں ایسے احکامات مخلوق کی طرف پہنچانے کاحکم دیاجسے برداشت کرناشاق اورشدیددشواراورمشکل ہے ، البتہ ان لوگوں کے لئے جنہیں اللہ تعالی توفیق عطافرمادے توسورت مبارکہ کااختتام ایسی چیزوں پرکیاکہ جوان تکالیف کے برداشت کرنے میں سہولت پیداکرے اوروہ یہ کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتم میں سے ہیں ،جوعزت وشرف اس دنیامیں انہیں حاصل ہے وہ تمھاری طرف لوٹتاہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان پرتمھاراضررمیں مبتلاء ہوناشاق گزرتاہے اورانہیں اس میں بڑی رغبت ہے کہ تمھیں دنیاوآخرت کی چیزیں حاصل ہوجائیں ، تویہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتمھارے حق میں شفیق طبیب اوررحیم باپ کی طرح ہیں ۔ شفیق طبیب بسااوقات ایسے امورسے علاج کرتاہے جن کابرداشت کرنادشواراورمشکل ہوتاہے ۔ اوررحیم باپ بسااوقات ایسی شاق تادیب کو بروئے کارلاتاہے کہ اگریہ معلوم ہے کہ ماہرطبیب اورشفیق باپ ہے توان کی تکالیف دہ علاجوں کو برداشت کیاجاتاہے اوریہ تادیبات احسان کی طرح ہوتی ہیں اوراسی طرح کامعاملہ یہاں پرہے ، جب تم نے پہچان لیاکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے رسول برحق ہیں توان سے ان مشکل تکالیف کو قبول کروتاکہ تم خیرکوپاسکو۔
پھراللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوفرمایاکہ اگریہ قبول نہیں کرتے توآپ ﷺان سے اعراض فرمالیں اورمنہ پھیرلیں اوران کوچھوڑدیں اوران کی طرف التفات نہ فرمائیں ، اللہ تعالی کی ذات پربھروسہ کریں اوراپنے تمام امور میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں ۔
{فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّاہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ }
پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اے حبیب کریمﷺ!آپ فرمادیں کہ مجھے اللہ تعالی کافی ہے اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۱۷۷)
اللہ تعالی اپنے حبیب کریم ﷺکے دشمنوں کے خلاف مددفرمائے گا
أَمَّا قَوْلُہُ: فَإِنْ تَوَلَّوْا یُرِیدُ الْمُشْرِکِینَ وَالْمُنَافِقِینَ ثُمَّ قِیلَ: تَوَلَّوْا أَیْ أَعْرَضُوا عَنْکَ وَقِیلَ:تَوَلَّوْا عَنْ طَاعَۃِ اللَّہِ تَعَالَی وَتَصْدِیقِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَقِیلَ:تَوَلَّوْا عَنْ قَبُولِ التَّکَالِیفِ الشَّاقَّۃِ الْمَذْکُورَۃِ فِی ہَذِہِ السُّورَۃِ، وَقِیلَ:تَوَلَّوْا عَنْ نُصْرَتِکَ فِی الْجِہَادِوَاعْلَمْ أَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ ہَذِہِ الْآیَۃِ بَیَانُ أَنَّ الْکُفَّارَ لَوْ أَعْرَضُوا وَلَمْ یَقْبَلُوا ہَذِہِ التَّکَالِیفَ، لَمْ یَدْخُلْ فِی قَلْبِ الرَّسُولِ حَزَنٌ وَلَا أَسَفٌ، لِأَنَّ اللَّہَ حَسْبُہُ وَکَافِیہِ فِی نَصْرِہِ عَلَی الْأَعْدَاء ِ، وَفِی إِیصَالِہِ إِلَی مَقَامَاتِ الْآلَاء ِ وَالنَّعْمَاء ۔
ترجمہ :اللہ تعالی کے اس فرمان شریف{فَإِنْ تَوَلَّوْا }سے مراد مشرکین اورمنافقین ہیں ، پھرفرمایاکہ اگروہ آپﷺسے اعراض کریں ، بعض نے اس کامعنی یہ بیان کیاہے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی تصدیق سے اعراض کریں۔بعض نے یہ معنی کیاہے کہ وہ اس سورت میں مذکور تکالیف شاقہ کے قبول کرنے سے اعراض کریں ۔ بعض نے یہ بیان کیاہے کہ اس کامعنی یہ ہے کہ اگریہ جہاد میں تمھاری مددکرنے میں اعراض کریں ۔واضح رہے اس آیت کریمہ کامقصود یہ بیان کرناہے کہ اگرکفاراعراض کرتے ہوئے ان احکامات وتکالیف کو قبول نہیں کرتے توحضورتاجدارختم نبوتﷺکے دل مبارک میں کوئی غم اورافسوس پیدانہیں ہوناچاہئے کیونکہ اللہ تعالی اپنے حبیب کریم ﷺکی دشمنوں کے خلاف مددکرنے پرکافی اورآپﷺکونعمتوں اورانعامات کے مقامات پرپہنچانے میں کافی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۱۷۷)
حضورتاجدارختم نبوتﷺبھی رحمت اورآپﷺ کاجہاد بھی رحمت
اگرجہاد کاحکم نہ ہوتاتوظالم کافرمسلمانوں پرظلم وستم ڈھاتے رہتے اوران کو کفراختیارکرنے پرمجبورکرتے ، اگرجہا دکاحکم نہ ہوتاتوبہت سے افراد کی سمجھ میں اسلام نہ آتا، اگرجہاد کاحکم نہ ہوتاتومکہ مکرمہ اورجزیرۃ العرب میں اسلام کی حکومت قائم نہ ہوتی ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اس امت پرخاص شفقت کہ آپﷺنے اللہ تعالی کے فرمانے پران کو جہاد کرنے کاحکم دیا، جس کی وجہ سے ان سے ظلم اورتکالیف دورہوئیں ، ان کو دنیاوآخرت کی بھلائیاں ملیں ، ملک فتح ہوئے اورقوموں کی قومیں مسلمان ہوئیں اورمسلمانوں نے جہاد کے ذریعے آخرت کی کامیابی اوردنیاکی خلافت پالی ۔ ( تفسیرفتح الجواد(۳: ۱۵۵)
لبرل وسیکولرطبقہ کا ایک اعتراض ’’کہ اہل اسلام مظلوم کیوں؟‘‘ کاردبلیغ
آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور یہ ظلم کرنے والے غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آتی؟
بلاشبہ یہ سوال آج کل تقریباً ہر دین دار مسلمان کی زبان پر ہے اور اس کے دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلمان حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں، تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی اور ان کے اعداء و مخالفین یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین، جو یقینا باطل پر ہیں، کے خلاف اللہ تعالیٰ کا جوش انتقام حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ اور ان کو تہس نہس کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یا کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں پر فوقیت و برتری کیونکر حاصل ہے؟ اور ان کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اس کے برعکس مسلمانوں کو روزبروز ذلت و ادبار کا سامنا کیونکر ہے؟
اس سوال کے جواب میں راقم الحروف نے جو کچھ لکھا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے قارئین کی خدمت میں پیش کردیا جائے، ملاحظہ ہو:یہ سوال معقول اور بجا ہے، کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جس قدر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مسلمان جس قدر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، شاید ہی کسی دوسری قوم پر کبھی ایسا وقت آیا ہو؟اس سب کے باوجود مسلمانوں کے حق میں اللہ کی مدد کا نہ آنا،واقعی قابل تشویش ہے۔
دراصل یہاں دو امور ہیں، ایک یہ کہ تمام مسلمان عموماً اللہ تعالیٰ کی مدد سے کیوں محروم ہیں؟ دوسرایہ کہ خاص طور پر وہ نیک صالح مسلمان، جو واقعی اللہ تعالیٰ کے دین کے محافظ ہیں، ان پر مصائب و بلایا کے پہاڑ کیوں توڑے جارہے ہیں ؟ ان کے حق میں اللہ تعالی کی مدد آنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ اور ان کے دشمنوں کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟
اول: سب سے پہلے یہ کہ تمام مسلمان اللہ کی مدد سے کیوں محروم ہیں؟ اس سلسلہ میں عرض ہے:
٭… اس وقت مسلمان من حیث القوم مجموعی اعتبار سے تقریباً بدعملی کا شکار ہوچکے ہیں۔
٭…اس وقت مسلمانوں میں ذوقِ عبادت اور شوقِ شہادت کا فقدان ہے، بلکہ مسلمان بھی الا ماشاء اللہ کفار و مشرکین کی طرح موت سے ڈرنے لگے ہیں۔
٭…اس وقت تقریباً مسلمانوں کو دین، مذہب، ایمان، عقیدہ سے زیادہ اپنی، اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی دنیاوی راحت و آرام کی فکر ہے۔
٭…آج کل مسلمان الا ماشاء اللہ موت، مابعد الموت، قبر، حشر، آخرت، جہنم اور جنت کی فکر و احساس سے بے نیاز ہوچکے ہیں اور انہوں نے کافر اقوام کی طرح اپنی کامیابی و ناکامی کا مدار دنیا اور دنیاوی اسباب و ذرائع کو بنالیا ہے، اس لئے تقریباََ سب ہی اس کے حصول و تحصیل کے لئے دیوانہ وار دوڑ رہے ہیں۔
٭…اس وقت الا ماشاء اللہ مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد، بھروسہ اور توکل نہیں رہا، اس لئے وہ دنیا اور دنیاوی اسباب و وسائل کو سب کچھ باور کرنے لگے ہیں۔
٭…جب سے مسلمانوں کا اللہ تعالی کی ذات سے رشتہ عبدیت کمزور ہوا ہے، انہوں نے عبادات و اعمال کے علاوہ قریب قریب سب ہی کچھ چھوڑ دیا ہے، حتی کہ بارگاہ الٰہی میں رونا، بلبلانا اور دعائیں مانگنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
٭…جس طرح کفر و شرک کے معاشروں اور بے خدا قوموں میں بدکرداری، بدکاری، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی، حرام کاری ، حرام خوری، جبر ، تشدد، ظلم اور ستم کا دور دورہ ہے، ٹھیک اسی طرح نام نہاد مسلمان بھی ان برائیوں کی دلدل میں سرتاپا غرق ہیں۔
٭… معدودے چند، اللہ تعالی کے جو بندے، اس غلاظت کدہ میں نور کی کرن اور امید کی روشنی ثابت ہوسکتے تھے، ان پر اللہ تعالی کی زمین تنگ کردی گئی، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان قرآن و سنت، دین و مذہب کی پاسداری اور اسوئہ نبوت کی راہ نمائی میں زندگی گزارنا چاہتے تھے، انہیں تشدد پسند، دہشت گرد، رجعت پسنداورملک و ملت کے دشمن وغیرہ کہہ کر ٹھکانے لگادیا گیا۔
٭… نام نہاد مسلمانوں نے کافر اقوام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اور ان کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے کر دین و مذہب سے وابستگی رکھنے والے مخلصین کے خلاف ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا اور ان کو اس قدر مطعون و بدنام کیا کہ کوئی سیدھا سادہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کو اپناتے ہوئے بھی گھبراتا ہے۔
٭…اسلام دشمن میڈیا، اخبارات، رسائل و جرائد میں اسلام اور مسلمانوں کو اس قدر خطرناک، نقصان دہ، ملک و ملت دشمن اور امن مخالف باور کرایا گیا کہ اب خود مسلمان معاشرہ ان کو اپنانے اور گلے لگانے پر آمادہ نہیں۔
٭…مادیت پسندی نے نام نہاد مسلمان کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب اس کو حلال و حرام کی تمیز تک نہیں رہی، چنانچہ الا ماشاء اللہ اب کوئی مسلمان حلال و حرام کی تمیز کرتا ہو، اس لئے مسلم معاشرہ میں بھی، سود، جوا، رشوت، لاٹری، انعامی اسکیموں کا دور دورہ ہے۔
٭…جو لوگ سود خوری کے مرتکب ہوں، اللہ تعالیٰ کا ان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ ظاہر ہے جو مسلمان سود خور ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے حالت جنگ میں ہیں، اور جن لوگوں سے اعلانِ جنگ ہو، کیا ان کی مدد کی جائے گی؟
٭…جو معاشرہ عموماً چوری ڈکیتی، مار دھاڑ، اغوا برائے تاوان، جوئے، لاٹری، انعامی اسکیموں اور رشوت پر پل رہا ہو، اور جہاں ظلم و تشدد عروج پر ہو، جہاں کسی غریب کی عزت اور مال و دولت محفوظ نہ ہو، وہاں اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوگی یا اللہ تعالی کا غضب؟ پھر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی، اس لئے کہ اللہ تعالی کی مدد مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور ظالم چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالی کی مدد سے محروم ہوتا ہے۔
٭…جس قوم اور معاشرہ کی غذا، لباس، گوشت، پوست حرام مال کی پیداوار ہوں، ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں،جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ اللہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا، وَإِنَّ اللہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِینَ، فَقَالَ: (یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ) وَقَالَ: (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ)ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاء ِ، یَا رَبِّ، یَا رَبِّ، وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ، وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ؟
ترجمہ:حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاک، پاکیزہ ہے اور پاک، پاکیزہ ہی قبول فرماتا ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں (علیہم السلام )کو حکم دیا تھا، پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے رسولوں کی جماعت!پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور اعمال صالحہ کرو اسی طرح مومنوں سے فرمایا:اے ایمان والو!ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں پھر آپﷺنے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو طویل سفر کی وجہ سے غبار آلود اور پراگندہ بال ہے اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاکر کہتا ہے:اے رب!اے رب!حالانکہ اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا اور اس کی غذا حرام کی ہے، تو اس کی دعا کیونکر قبول ہوگی؟
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۲:۷۰۳)
٭… بایں ہمہ وہ مقبولانِ الٰہی، جو مخلوق خدا کی اس مجبوری اور مقہوری پر کڑھتے ہیں ، روتے ہیں، بلبلاتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعائیں کرنا چاہتے ہیں، ان کو بارگاہ الٰہی سے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ اپنی ذات کے لئے اور اپنی ضرورت کے لئے دعا کرو، میں قبول کروں گا لیکن عام لوگوں کے حق میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَدْعُو الْمُؤْمِنُ لِلْجَمَاعَۃِ فَلَا یُسْتَجَابُ لَہُ، یَقُولُ اللَّہُ:ادْعُ لِنَفْسِکَ وَلِمَا یَحْزُبُکَ مِنْ خَاصَّۃِ أَمْرِکَ فَأُجِیبَکَ، وَأَمَّا الْجَمَاعَۃُ فَلَا قَالَ صَالِحٌ:وَأَخْبَرَنِی عُتْبَۃُ بْنُ أَبِی سُلَیْمَانَ، عَنْ یَزِیدَ الرَّقَاشِیِّ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّہُمْ أَغْضَبُونِی۔
ترجمہ:حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا:لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مومن، مسلمانوں کی جماعت کے لئے دعا کرے گا، مگر قبول نہیں کی جائے گی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو اپنی ذات کے لئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے دعا کر، میں قبول کروں گا، لیکن عام لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروں گا، اس لئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں ان سے ناراض ہوں۔
(الزہد والرقائق:أبو عبد الرحمن عبد اللہ بن المبارک بن واضح الحنظلی، الترکی ثم المرْوزی (ا:۱۵۵)
٭…پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آسمان سے اچھے یا بُرے فیصلے اکثریت کے عمل اور بدعملی کے تناظر میں نازل ہوتے ہیں، اس لئے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم معاشرہ کی اکثریت کے اعمال و افعال اور سیرت و کردار کا کیا حال ہے؟ کیا ایسا معاشرہ جہاں ، دینی اقدار کا مذاق اڑایا جاتا ہو، جہاں قرآن و سنت کا انکار کیا جاتا ہو،جہاں قرآن وسنت کے مذاق پرفلمیں بنائی جاتی ہوں، جہاں اس میں تحریف کی جاتی ہو، جہاں ان کو من مانے مطالب ، مفاہیم اور معانی پہنائے جاتے ہوں، جہاں حدود اللہ کا انکار کیا جاتا ہو، جہاں سود کو حلال اور شراب کو پاک کہا جاتا ہو، جہاں زنا کاری و بدکاری کو تحفظ ہو، جہاں ظلم و تشدد کا دور دورہ ہو، جہاں مسلمان کہلانا دہشت گردی کی علامت ہو، جہاں بے قصورلوگوں کو کافر اقوام کے حوالہ کیا جاتا ہو، جہاں بدکار و مجرم معزز اور نیک لوگ ذلیل ہوں، جہاں توہین رسالت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جاتا ہو، جہاں باغیانِ نبوت کو اقتدار کی چھتری مہیا ہو، جہاں محافظین دین و شریعت کو پابند سلاسل کیا جاتا ہو، جہاں کلمہ حق کہنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہو، جہاں کافر اقوام کی کاسہ لیسی کی جاتی ہو، جہاں یہود و نصاریٰ کی خوشنودی کے لئے مسلم ممالک پر اسلام دشمنوں کی چڑھائی کو سند جواز مہیا کی جاتی ہو، جہاں دینی مدارس و مساجد پر چڑھائی کی جاتی ہو، ان پر بمباری کی جاتی ہو، ہزاروں معصوموں کو خاک و خون میں تڑ پایا جاتا ہو، ان پر فاسفورس بم گراکر ان کا نام و نشان مٹایا جاتا ہو، جہاں مسلمان طالبات اور پردہ نشین خواتین کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہو، ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہو، ان کے جسم کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہوں، ان کو دفن کرنے کے بجائے ان کی لاشوں کو جلایا جاتا ہو، جہاں تاتاری اور نازی مظالم کی داستانیں دہرائی جاتی ہوں، جہاں دین دار طبقہ اور علماء و صلحاء پر زمین تنگ کی جاتی ہو، جہاں اغیار کی خوشنودی کے لئے اپنے شہریوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کئے جاتے ہوں، جہاں ہزاروں ،لاکھوں مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہو، جہاں دین و شریعت کا نام لینا جرم اور عریانی فحاشی، پتنگ بازی اور میراتھن ریس کی سرپرستی کی جاتی ہو، جہاں عریانی و فحاشی کو روشن خیالی و اعتدال پسندی کا نام دیا جاتا ہو، جہاں دینی مدارس بند اور قحبہ خانے کھولے جاتے ہوں، جہاں عوام نانِ شبینہ کے محتاج ہوں اور اربابِ اقتدار ۱۰؍۱۰لاکھ روپے ایک رات ہوٹل کے قیام کا کرایہ ادا کرتے ہوں، جہاں اپنے اقتدار اور حکومت کے تحفظ کے لئے دین و مذہب اور شرم و حیاء کی تمام حدود کو پھلانگا جاتا ہو، وہاں اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوگی؟ یا اللہ کا عذاب و عقاب؟
بلاشبہ آج کا دور دجالی فتنے اور نئے نئے نظریات کا دور ہے، زمانہ بوڑھا ہوچکا ، ہم جنس پرستی کو قانونی جواز حاصل ہوچکا، ناچ گانے کی محفلیں عام ہوچکیں، دیکھا جائے تو یہ قرب قیامت کا وقت ہے، اس وقت مسلمانوں سے اللہ تعالی کی حفاظت و مدد اٹھ چکی ہے، مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، سچی بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کی ناراضگی، ظاہر داری، چاپلوسی، انانیت، خود پسندی اور امت کے زوال کا وقت ہے، فتنہ و فساد عروج پر ہیں، خیر سے محروم لوگوں کی کثرت ہے اور خدا کی لعنت و غضب کا وقت ہے، اور یہود و نصاریٰ کی نقالی کامیابی کی معراج شمار ہونے لگی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں اور معاشرہ کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے؟ چنانچہ ایسے ہی دور کے لوگوں کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ :
عَنْ مِرْدَاسٍ الأَسْلَمِیِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَذْہَبُ الصَّالِحُونَ، الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ، وَیَبْقَی حُفَالَۃٌ کَحُفَالَۃِ الشَّعِیرِ، أَوِ التَّمْرِ، لاَ یُبَالِیہِمُ اللَّہُ بَالَۃً قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ:یُقَالُ حُفَالَۃٌ وَحُثَالَۃٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامرداس اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:نیک لوگ یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے جائیں گے، جیسے چھٹائی کے بعد ردی جو یا کھجوریں باقی رہ جاتی ہیں، ایسے ناکارہ لوگ رہ جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۸:۹۲)
٭…اس کے علاوہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی اللہ کی مدد آنے کے لئے یہ شرط بھی ہے کہ:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ}(سورۃ محمدرقم الآیۃ: ۷)
اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔
لہٰذا جب سے مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد چھوڑ دی ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں سے اپنی رحمت و عنایت اور مدد کا ہاتھ اٹھالیا ہے، چنانچہ آج ہر طرف مسلمانوں پر کافر اس طرح ٹوٹ رہے ہیں جس طرح دسترخوان پر چنے ہوئے کھانے پر لوگ ٹوٹتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یُوشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ إِلَی قَصْعَتِہَا، فَقَالَ قَائِلٌ:وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ، وَلَکِنَّکُمْ غُثَاء ٌ کَغُثَاء ِ السَّیْلِ، وَلَیَنْزَعَنَّ اللَّہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ، وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّہُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَمَا الْوَہْنُ؟ قَالَ:حُبُّ الدُّنْیَا، وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا:وہ وقت قریب آتا ہے، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے مل کر سازشیں کریں گی اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے لذیذ کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا:نہیں!بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دے گا، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ!بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر (۴:۱۱۱)
بتلایا جائے جس معاشرہ کا یہ حال ہو، اور جن مسلمانوں کے اعمال و اخلاق کا یہ منظر نامہ ہو، وہاں اللہ کی مدد آئے گی یا اللہ کا عذاب؟
دوم :رہی یہ بات کہ کفار و مشرکین اور اغیار کے مظالم کا شکار صرف اور صرف دین دار مسلمان ہی کیوں ہیں؟
اگر بدکردار مسلمانوں اور اربابِ اقتدار نے اللہ کو ناراض کر رکھا ہے تو ان کی سزا ان نہتے کو کیوں دی جاتی ہے؟ اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آتی؟ چاہئے تو یہ تھا کہ جرم و سزا کے فلسفہ کے تحت سزا بھی ان ہی لوگوں کو دی جاتی ،جنہوں نے اللہ تعالی کو ناراض کررکھا ہے، مگر اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ نیک صالح مسلمان، اور دین و مذہب کے متوالے ،کفار کے مظالم کی تلوار سے ذبح ہورہے ہیں، ان کو بے نام کیا جارہا ہے، ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، ان کی جان و مال اور عزت و ناموس برباد کی جارہی ہے، ان پر اللہ کی زمین تنگ کی جارہی ہے، اپنے اور پرائے سب ہی ان کے دشمن اور ان کی جان کے پیاسے ہیں، کوئی بھی ان کے لئے کلمہ خیر کہنے کا روادار نہیں ہے، بلکہ ان پر ہر طرف سے آگ و آہن کی بارش اور بارود کی یلغار ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟؟
اسی طرح ارشاد الٰہی{اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْبٌ }(سورۃ البقرۃ رقم الآیۃ:۲۱۴)
سن لو بیشک اللہ تعالی کی مدد قریب ہے ۔
کا وعدہ کب پورا ہوگا؟
اس سلسلہ میں بھی چند معروضات پیش کرنا چاہوں گا:
٭… دنیا باخدا مسلمانوں کے لئے قید خانہ اور کفار و مشرکین کے لئے جنت ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الکَافِرِ.
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا کہ:دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۴۰)
یعنی دنیا میں عموماً کافر کی نسبت، ایک مومن کو آفات و مصائب کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ کافر کی دنیاوی کروفر اور راحت و آرام اور مومن کی تکلیف و تعذیب کو دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہئے، بلکہ مومن کی دنیا کی تکلیف و تعذیب اور مصائب و آلام کا، اس کی جنت کے ساتھ اور کافر کی ظاہری کروفر، خوش عیشی اور راحت و آرام کا اس کی جہنم کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو سمجھ میں آجائے گا کہ جس طرح کافر کی دنیاوی راحت و آسائش کی، اس کی جہنم کی سزا کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں، اسی طرح مسلمان کی دنیا کی عارضی تکالیف و مشکلات اس کی جنت اور آخرت کی راحت و آرام کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔
٭…دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے اور ظاہر ہے جو شخص عملی میدان میں جتنا محنت و مشقت اور جہد و مجاہدہ برداشت کرے گا، بعد میں اسی تناسب سے اسے راحت و آرام میسر آئیگا اور جو شخص میدانِ عمل میں جتنا کوتاہی کرے گا، بعد میں اسی تناسب سے اُسے ذلت و رسوائی اور فضیحت و شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا، ٹھیک اسی طرح مقربین بارگاہِ خداوندی کو بھی آخرت کی کھیتی یعنی دنیا میں جہد مسلسل اور محنت و مشقت کا سامنا ہے، مگر عاقبت و انجام کے اعتبار سے جلد یا بدیر راحت و آرام ان کا مقدر ہوگا، دوسری طرف کافر اگرچہ یہاں ہر طرح کی راحت و آرام سے سرفراز ہیں، مگر مرنے کے ساتھ ہی عذاب جہنم کی شکل میں ان کی راحت و آرام اور ظلم و عدوان کا ثمرہ ان کے سامنے آجائے گا۔
٭…کسی مسلمان کی تخلیق کا مقصد دنیا اور اس کی راحتوں کا حصول نہیں، بلکہ مسلمان کو جنت اور جنت کی لازوال و ابدی نعمتوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور جنت کا حصول کچھ آسان نہیں، بلکہ جنت کے سامنے یا اردگرد مشکلات و مصائب کی باڑ لگائی گئی ہے اور دوزخ کے اردگرد خواہشات کی باڑ کی گئی ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:حُفَّتِ الجَنَّۃُ بِالمَکَارِہِ، وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّہَوَاتِ.
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جنت کے گرد ناگواریوں اورمشقتوں کی باڑھ کی گئی ہے، اور دوزخ کے گرد خواہشات کی باڑ کی گئی ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۲۷۴)
اس لئے کسی نیک صالح مسلمان کا دنیا میں مشکلات و مصائب اور مکروہات سے دوچار ہونا دراصل حصولِ جنت میں کامیابی کی نشانی ہے، اور کفار و مشرکین اور معاندین کیلئے دنیاوی راحت و آرام یا خواہشات نفسانیہ کا مہیا ہونا ان کے عذابِ نار و سقر سے دوچار ہونے کی علامت ہے۔
٭…بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آخرت کے عذاب سے بچانے کے لئے دنیا ہی میں انہیں مصائب و تکالیف میں مبتلا فرماتا ہے تاکہ اس کی کمی کوتاہیوں کا معاملہ یہیں نمٹ جائے اور آخرت میں ان کو کسی عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدِہِ الخَیْرَ عَجَّلَ لَہُ العُقُوبَۃَ فِی الدُّنْیَا، وَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدِہِ الشَّرَّ أَمْسَکَ عَنْہُ بِذَنْبِہِ حَتَّی یُوَافِیَ بِہِ یَوْمَ القِیَامَۃِ, وَبِہَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ عِظَمَ الجَزَاء ِ مَعَ عِظَمِ البَلاَء ِ، وَإِنَّ اللَّہَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاَہُمْ، فَمَنْ رَضِیَ فَلَہُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السَّخَطُ.
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا:جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے، تو دنیا میں ہی اس کو فوری سزا دے دیتاہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہ کی سزا موخر کردیتا ہے، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دے گا۔
نیز حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ بندے کو جتنا بڑا ابتلاء پیش آئے، اتنی بڑی جزا اس کو ملتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو اسے مصائب و آلام سے آزماتا ہے، پس جو شخص ہر حالت میں ا للہ تعالیٰ سے راضی رہا، اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اور جو شخص ناراض ہوا اس کے لئے ناراضگی ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۲۷۴)
اس حدیث میں دو مضمون ارشاد ہوئے، ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا دنیا ہی میں دے دیتا ہے، اس کی سزا کو آخرت پر نہیں اٹھا رکھتا، بلکہ مختلف مصائب میں اس کو مبتلا کرکے پاک و صاف کردیتا ہے۔ چنانچہ اگر اس کو کانٹابھی چبھتا ہے تو وہ بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، اور اگر لکھنے والے کے ہاتھ سے قلم گر جاتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے کفارہ بن جاتا ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ کسی بندئہ مومن کو کوئی تکلیف اور صدمہ یا پریشانی پیش آئے اسے اپنے گناہوں کا خمیازہ سمجھنا چاہئے۔ دوسری یہ کہ بندئہ مومن کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اس کے مردود ہونے کی علامت نہیں، بلکہ اس کے ساتھ حق تعالیٰ شانہ کا لطف و انعام ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے اس کے گناہوں کے کفارہ کا دنیا ہی میں انتظام فرمادیا۔
اس کے برعکس جس بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے اسے گناہوں کے باوجود ڈھیل اور مہلت دیتا ہے، وہ احمق یہ سمجھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت معزز ہے حالانکہ اس کے ساتھ مکرو استدراج کا معاملہ ہورہا ہے کہ اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں کے باوجود اسے ڈھیل دی جارہی ہے، اور قیامت کے دن جب بارگاہِ خداوندی میں پیش ہوگا، اسے اس کی بدعملیوں کا پورا پورا بدلہ چکا دیا جائے گا، الا یہ کہ حق تعالیٰ شانہ محض اپنے فضل و احسان سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو کیونکہ کفر و شرک کی معافی نہیں ہے ۔
اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی حق تعالیٰ شانہ کا لطف قہر کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی قہر لطف کی شکل میں، اس نکتہ کو حضرات عارفین خوب سمجھتے ہیں، ور نہ عام لوگوں کی نظر اس پر نہیں جاتی۔
٭…دنیا کا اصول ہے کہ جس سے زیادہ تعلق خاطر ہو یا جس کو کسی لائق بنانا ہو، اس کو کڑی آزمائش و امتحان سے گزارا جاتا ہے، اور اس کی چھوٹی چھوٹی حرکت و سکون پر گرفت کی جاتی ہے، چنانچہ اسی موقع پر فرمایا گیا ہے کہ:حسنات الابرار سیئات المقربین ۔ابرار کی نیکیاں مقربین کی سیئات شمار ہوتی ہیں ۔یعنی مقربین کا مقام اتنا اونچا ہے کہ جو کام ابرار کریں اور وہ نیکی کہلائے، اگر وہی کام مقربین کریں تو ان کے درجہ کے اعتبار سے وہ بھی سیئہ اور گناہ شمار ہوتا ہے، گویا نیک و صالح مسلمان درجہ قرب الٰہی پر فائز ہیں اور ان کو آخرت میں جن مراتب ِ عالیہ سے سرفراز کرنا ہے، دنیاوی تکالیف و مشکلات کی بھٹی میں ڈال کر ان کو کندن بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔
٭…جس کا جتنا اللہ تعالیٰ سے قرب ہوگا اس کو اسی تناسب سے مصائب و بلایا اور شدائد و محن سے دوچار کیا جائے گا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ:قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاَء ً؟ قَالَ:الأَنْبِیَاء ُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ، فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسَبِ دِینِہِ، فَإِنْ کَانَ دِینُہُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاَؤُہُ، وَإِنْ کَانَ فِی دِینِہِ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلَی حَسَبِ دِینِہِ، فَمَا یَبْرَحُ البَلاَء ُ بِالعَبْدِ حَتَّی یَتْرُکَہُ یَمْشِی عَلَی الأَرْضِ مَا عَلَیْہِ خَطِیئَۃٌ.
ترجمہ:حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا:انبیاء علیہم السلام کی، پھر جو ان سے قریب تر ہو، پھر جو ان سے قریب تر ہو، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس اگر وہ اپنے دین میں پختہ ہو تو اس کی آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اسے اس کے دین کی بقدر آزمائش میں ڈالا جاتا ہے، پس آزمائش بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کو ایسا کرکے چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر ایسی حالت میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۷۹)
اس لئے ہمیشہ سے مصائب و مشکلات اور شدائد و محن اللہ کے مقربین کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔
٭…بعض اوقات مقربین بارگاہِ الٰہی کے پیمانہء خلوص، اخلاص، صبر، تحمل، تسلیم ، رضا، عزم، ہمت، دینی پختگی اور تصلّب کو ناپنے کیلئے ان پر امتحانات و آزمائشیں آتی ہیں، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
الف:{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْء ٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوٰلِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ}(۱۵۵){ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصٰبَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ}(۱۵۶)(سورۃ البقرۃ )
اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ۔
ب:{اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ}(سورۃ العنکبوت :۲){وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ}(سورۃ العنکبوت:۳)
کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی اور بیشک ہم نے ان سے اگلوں کو جانچا (تو ضرور اللہ سچّوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا ۔
ج:عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ، قَالَ:شَکَوْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَۃً لَہُ فِی ظِلِّ الکَعْبَۃِ، قُلْنَا لَہُ: أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لَنَا، أَلاَ تَدْعُو اللَّہَ لَنَا؟ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ فِیمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ فِی الأَرْضِ، فَیُجْعَلُ فِیہِ، فَیُجَاء ُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ فَیُشَقُّ بِاثْنَتَیْنِ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الحَدِیدِ مَا دُونَ لَحْمِہِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَاللَّہِ لَیُتِمَّنَّ ہَذَا الأَمْرَ، حَتَّی یَسِیرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاء َ إِلَی حَضْرَمَوْتَ، لاَ یَخَافُ إِلَّا اللَّہَ، أَوِ الذِّئْبَ عَلَی غَنَمِہِ، وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ بیت اللہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگاکر تشریف فرما تھے، کہ ہم نے آپ ﷺسے کفار کے مظالم کی شکایت کرتے ہوئے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ!آپ ہمارے لئے اللہ سے مدد اور دعا کیوں نہیں مانگتے؟آپ ﷺیہ سن کر ایک دم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا:تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کے لئے گڑھا کھودا جاتا، اسے اس میں کھڑا کیا جاتا اور اس کے سر پر آری چلاکر اسے چیر کر دو ٹکڑے کردیا جاتا، مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہ ہٹاسکا، اسی طرح کسی کے جسم پر لوہے کی کنگھی چلاکر اس کا گوشت اور پٹھے اس کی ہڈیوں سے اُدھیڑ دیئے جاتے، مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہیں ہٹاسکتا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۲۰۱)
گویا ان حضرات کو اپنے دین و مذہب کی خاطر اس قدر اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے اس پر صبر و برداشت کیا تو تمہیں بھی ان معمولی تکالیف پر حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے بلکہ صبر و برداشت سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد پر نگاہ رکھنی چاہئے جلد یا بدیر اللہ تعالی کی مدد آکر رہے گی۔
٭…اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے مقربین کو تکالیف و مصائب سے دوچار کرکے دراصل ان کی نیکیوں اور اعمالِ حسنہ کا پورا پورا بدلہ اور جزا دنیا کے بجائے آخرت میں دینا چاہتاہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَوَدُّ أَہْلُ العَافِیَۃِ یَوْمَ القِیَامَۃِ حِینَ یُعْطَی أَہْلُ البَلاَء ِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَہُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فِی الدُّنْیَا بِالمَقَارِیضِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:قیامت کے دن جب اہل ِ مصائب کو بدلہ عطا کیا جائے گا تو اہل عافیت جو ان مصیبتوں سے محفوظ رہے یہ آرزو کریں گے کہ کاش!دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ دیئے جاتے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۸۱)
٭… بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد اور نصرت پر قادر ہے، وہ چاہے تو کسی عام مظلوم کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کرسکتا ہے اور نہ چاہے تو بنی اسرائیل جیسی ناہنجار قوم کے ہاتھوں اپنے مقرب و مقدس انبیاء علیہم السلام کو جامِ شہادت نوش کرادے، مگر بایں ہمہ خدا پرست اور اہلِ حق نہ دل چھوٹا کرتے ہیں اور نہ مایوس و بزدل ہوتے ہیں؟ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: .
الف:{ویقتلون النبیین بغیر الحق}اور وہ بنی اسرائیل خون کرتے تھے پیغمبروں کا ناحق۔
ب:{ویقتلون الانبیاء بغیر حق ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون} اور قتل کرتے رہے ہیں پیغمبروں کا ناحق، یہ اس واسطے کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل گئے۔(آل عمران
ج:{وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا وَاللہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ}(سورۃ آل عمران:۱۴۶)
اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے تو نہ سُست پڑے اُن مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں ۔
٭… ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد فوراً آجائے، بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی مدد و نصرت میں بھی اتنی تاخیر فرماسکتا ہے کہ وہ مایوسی کے قریب ہوجائیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
الف:{حَتّٰٓی اِذَا اسْتَایْــَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآء َہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآء ُ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ }(سورۃ یوسف :۱۱۰)
یہاں تک جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے اُن سے غلط کہا تھااس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچالیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے پھیرا نہیں جاتا ۔
ب:{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآء ُ وَالضَّرَّآء ُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ مَتٰی نَصْرُ اللہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْبٌ }(سورۃ البقرۃ : ۲۱۴)
کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد نہ پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کب آئے گی اللہ کی مدد سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے ۔
اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے مقابلہ میں نیک و صالح مسلمانوں کے لئے فوراً نصرت الٰہی کا آنا کوئی ضروری نہیں، اس کے علاوہ مدد و نصرت الٰہی میں تاخیر کا ہوجانا جہاں کفار و مشرکین اور ان کے موقف کی صداقت کی دلیل نہیں، وہاں نیک صالح اور متقین و مومنین کے بارگاہِ الٰہی میں مبغوض و مقہور ہونے کی علامت بھی نہیں، کیونکہ دورِ حاضر کے نیک و صالح مومنین و متقین، اپنی جگہ کتنا ہی مقرب بارگاہ الٰہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا اگر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی مدد و نصرت میں تاخیر ہوسکتی ہے تو دورِ حاضر کے نیک صالح مومنین و مجاہدین کی مدد میں تاخیر کیوں نہیں ہوسکتی؟
٭…اس سب سے ہٹ کر سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ صورت حال میں جہاں اہل ِ ایمان کو مصائب و آلام سے دوچار کرکے ان کے درجات بلند کرنا چاہتاہے، وہاں ان بدباطن کفار و مشرکین اور نام نہاد مسلمانوں پر اتمام حجت کرنا چاہتاہے، تاکہ کل قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں غوروفکر کی مہلت اور صحیح صورتِ حال کا اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔
الغرض موجودہ صورت حال سے جہاں نیک صالح لوگوں اور مقربین بارگاہِ الٰہی کے درجات بلند ہورہے ہیں، وہاں ان بدباطنوں کو ڈھیل دی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
{وَ اُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ}(سورۃ القلم :۴۵)
اور میں ا نہیں ڈھیل دوں گا بے شک میری خفیہ تدبیر بہت پکّی ہے
فسوف تریٰ اذا انکشف الغبار اتحت رجلک فرس ام حمار
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ واصحابہ اجمعین
( ماہنامہ دارالعلوم جمادی الثانی ۱۴۲۹ھ)تحریرمولاناسعیداحمدجلال پوری)
بحمداللہ سورۃ التوبہ شریف کااختتام ۱۷ذوالقعدۃ ۱۴۴۱ھ/۹جولائی ۲۰۲۰ء) بروزجمعرات بوقت ۲بج کر۲۶ منٹ )