پہلے قریبی پڑوسی ، رشتہ دارکافروں کے خلاف جہادکیاجائے
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قٰتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ }(۱۲۳)
ترجمہ کنزالایمان:اے ایما ن والو جہاد کرو ان کافروں سے جو تمہارے قریب ہیں اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اے اہل ایمان!ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں اور وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
تحصیل علم اورجہاد دونوں لازم ہیں
لَمَّا حَضَّ تَعَالَی عَلَی التَّفَقُّہِ فِی الدِّینِ، وَحَرَّضَ عَلَی رِحْلَۃِ طَائِفَۃٍ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فِیہِ، أَمَرَ تَعَالَی الْمُؤْمِنِینَ کَافَّۃً بِقِتَالِ مَنْ یَلِیہِمْ مِنَ الْکُفَّارِ، فَجَمَعَ مِنَ الْجِہَادِ جِہَادَ الْحُجَّۃِ وَجِہَادَ السَّیْفِ.
ترجمہ :امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی: ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پچھلی آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے علم دین سیکھنے کاحکم فرمایااوراس بات کی ترغیب دی کہ ایک جماعت علم سیکھنے کے لئے نکلے تواس آیت کریمہ میں تمام مسلمانوں کواپنے قریبی کافروں سے قتال کرنے کاحکم فرمایا۔ یعنی تحصیل علم ہویاکوئی اورکام ہوجہاد فی سبیل اللہ میں کوئی رکاوٹ کاسبب نہ بنے۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف أثیر الدین الأندلسی(۵:۵۲۳)
پہلے قریبی کافروں کے خلاف جہاد کیاجائے
القتال واجب مع جمیع الکفرۃ قریبہم وبعیدہم ولکن الأقرب فالأقرب أوجب وقد حارب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قومہ ثم غیرہم من عرب الحجاز ثم الشام والشام أقرب إلی المدینۃ من العراق وغیرہ وہکذا المفروض علی أہل کل ناحیۃ أن یقاتلوا من ولیہم ۔
ترجمہ :امام أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی المتوفی: ۷۱۰ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تمام کافروں کے خلاف جہا دکرناواجب ہے ، لیکن پہلے سب سے قریبی کافروں کے ساتھ جہا دکیاجائے گااوراس کے بعد پھران کے ساتھ جہا دکیاجائے گاجوان سے قریب ہوں ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے سب سے پہلے اپنی قوم کے کافروں کے خلاف جہاد کیا، اس کے بعد حجاز کے لوگوں کے ساتھ جہا دکیا، اس کے بعد شام کے کافروں کے خلاف جہاد کیاکیونکہ شام بنسبت عراق کے مدینہ منورہ کے زیادہ قریب تھا، اسی طرح ہرہرعلاقہ والوں پرجہاد فرض ہوگاان کے خلاف جو جوان کے قریب ہوگا۔
(تفسیر النسفی :أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی(۱:۷۱۸)
اگرسرحد والے مسلمان جہاد سے سستی برتیں تو؟
وعلی مقتضی ہذہ الایۃ قالت الفقہاء یجب علی من یکون فی الثغر الجہاد بمن یلیہم من الکفار فان لم یکن بہم کفایۃ او تکاسلوا وعصوا یجب علی من یقرب منہم وکذا من یقرب ممن یقرب ان لم یکن بہم کفایۃ او تکاسلوا وہکذا الی ان یجب علی جمیع اہل الإسلام شرقا وغربا کذا جہاز المیت والصلاۃ علیہ۔
ترجمہ:حضرت قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے مقتضی کالحاظ کرتے ہوئے علماء فقہ نے صراحت کی ہے کہ کفارکی سرحد کے قریب جو مسلمان رہتے ہوں ، ان پرسرحدی کافروں کے خلاف جہاد کرناواجب ہے ، اگروہ کافی نہ ہوں اورزیادہ طاقت کی ضرورت ہویاوہ سستی کریں اورجہادکے حکم کی پرواہ نہ کریں توان سرحدی مسلمانوں کے متصل جومسلمان رہتے ہیں ، ان پرسرحدی کافروں سے جہاد کرناواجب ہوجاتاہے ، اوران میں بھی اگربقدرضرورطاقت نہ ہویاسستی کریں تووہ جہاد ترک کربیٹھیں توان سے پیچھے والے مسلمانوں کاوہی فریضہ ہوجاتاہے جوسستی کرنے والوں کاتھا۔ اسی ترتیب کے ساتھ مشرق ومغرب کے تمام مسلمانوں پرجہاد کی فرضیت ہوجاتی ہے ، میت کی تجہیزوتکفین کاسامان مہیاکرنااورمیت کی نماز پڑھنے کابھی یہی حکم ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۲۲۵)
پہلے قریبی دشمن کو تباہ کرو!
وہو أَنَّہُ سُبْحَانَہُ عَرَّفَہُمْ کَیْفِیَّۃَ الْجِہَادِ وَأَنَّ الِابْتِدَاء َ بِالْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ مِنَ الْعَدُوِّ وَلِہَذَا بَدَأَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعَرَبِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَصَدَ الرُّومَ وَکَانُوا بِالشَّامِ وَقَالَ الْحَسَنُ: نَزَلَتْ قَبْلَ أَنْ یُؤْمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقِتَالِ الْمُشْرِکِینَ، فَہِیَ مِنَ التَّدْرِیجِ الَّذِی کَانَ قَبْلَ الْإِسْلَامِ۔
ترجمہ :امام ا بوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ایک اہم مسئلہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالی نے انہیں جہاد کاحکم دیتے ہوئے اس کی کیفیت سے آگاہ فرمایااوریہ کہ ابتداء قریبی دشمن سے ہو، پھرجواس کے بعد قریبی ہو، اسی لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے آغازعرب سے کیااورجب ان سے جہاد کرکے فارغ ہوئے توروم کاقصدکیااوروہ شام میں تھے ۔ اورامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکومشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم ملنے سے سے بھی پہلے نازل ہوئی ۔پس یہ اس تدریج سے ہے جو قبل از اسلام تھی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۹۷)
پہلے قریبی رشتہ داروں اورہمسایوں کے خلاف جہادکیاجائے
أُمِرُوا بِقِتَالِ الْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ إِلَیْہِمْ فِی الدَّارِ وَالنَّسَبِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا: مِثْلُ بَنِی قُرَیْظَۃَ وَالنَّضِیرِ وَخَیْبَرَ وَنَحْوِہَا.
ترجمہ :امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی: ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں پہلے ہمسائے کافروں اوررشتہ دارکافروں کے خلاف جہا دکرنے کاحکم دیاگیا۔حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جیسے بنوقریظہ ، بنونضیراورخیبروغیرہ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی(۴:۱۱۳)
اسی لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے دونوں کے خلاف جہاد کیااہل مکہ آپﷺکے رشتہ دارتھے اورپڑوسی بھی اوراسی طرح جب حضورتاجدارختم نبوتﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تویہاں بھی یہودیوں کے تینوں قبائل پڑوسی تھے ، ان سب کے خلاف جہاد کیاگیا۔
معارف ومسائل
اس آیت میں کفار سے جنگ کے آداب سکھائے گئے ہیں کہ جنگ کی شرعی اجازت جب متحقق ہوجائے تو اس کی ابتدا قریب میں رہنے والے کفار سے کی جائے کیونکہ ان کے حملہ آورہونے کاخدشہ زیادہ ہوتاہے پھر ان کے بعد جو قریب ہوں حتّٰی کہ مسلمان مجاہدین دور کی آبادیوں میں رہنے والے کفار تک پہنچ جائیں۔ اسی طریقے سے تمام کفار سے جہاد ممکن ہے ورنہ ایک ہی بار سب سے جنگ کرنا مُتَصَوَّر نہیں ،یہی وجہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے پہلے اپنی قوم سے جہاد فرمایا ،پھر پورے عرب سے ، پھر اہلِ کتاب سے اور ان کے بعد روم اور شام والوں سے جنگ کی۔ پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عہنم نے عراق اور پھر تمام شہروں تک جنگ کا دائرہ وسیع کیا۔