اے اہل ایمان !مجاہدین کے ساتھ ہوجائو
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ }(۱۱۹)
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اے ایمان والو اللہ تعالی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجائو۔
اہل تبو ک کے ساتھ ہوجائو
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُمَا: مَعَ الَّذِینَ صَدَقَتْ نِیَّاتُہُمْ وَاسْتَقَامَتْ قُلُوبُہُمْ وَأَعْمَالُہُمْ وَخَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی تَبُوکَ بِإِخْلَاصِ نِیَّۃٍوَقِیلَ:مَعَ الَّذِینَ صَدَقُوا فِی الِاعْتِرَافِ بِالذَّنْبِ وَلَمْ یَعْتَذِرُوا بِالْأَعْذَارِ الْکَاذِبَۃِ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ ہوجائوجن کی نیتیں سچی ہیں اوران کے دل اورعمل سیدھے ہیںاورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ تبوک کی طرف جہاد کے لئے نکلے اوربعض نے یہ بھی کہاہے کہ ان لوگوں کے ساتھ ہوجائوجنہوںنے بارگاہ ختم نبوت میں سچ بولااورجھوٹے عذرنہیں تراشے ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۱۰۹)
جہاد کے معاملہ میں منافقین کی طرح نہ ہوجائو
عن ابن عمر ای کونوا مع محمد صلّی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ الذین صدقت نیاتہم واستقامت قلوبہم وأعمالہم وخرجوا مع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم الی تبوک بإخلاص نیۃ دون المنافقین المتخلفین عنہ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ تم حضورتاجدارختم نبوتﷺاورآپﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوجائوجن کی نیتیں سچی اوراعمال اورقلوب مخلص ہیں اوروہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ تبوک طرف جہاد کے لئے نکلے اوروہ بھی سچی نیت کے ساتھ اورمنافقین کی طرح نہ ہوجائوجوجہاد سے پیچھے بہانے بناکربیٹھے رہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۳۲۰)
اے اہل ایمان !مجاہدین کے ساتھ ہوجائو
یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ فِی مُخَالَفَۃِ أَمْرِ الرَّسُولِ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ یَعْنِی مَعَ الرَّسُولِ وَأَصْحَابِہِ فِی الْغَزَوَاتِ، وَلَا تَکُونُوا مُتَخَلِّفِینَ عَنْہَا وَجَالِسِینَ مَعَ الْمُنَافِقِینَ فِی الْبُیُوتِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ اے ایمان والو!تم حضورتاجدارختم نبوتﷺکے حکم شریف کی مخالفت کرنے سے ڈرواورسچوں کے ساتھ ہوجائویعنی حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہاد میں شرکت کرواورجہا دمیں ان سے پیچھے نہ رہواورگھروں میں منافقین کے ساتھ نہ بیٹھے رہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۱۶۶)
اب جہاد سے پیچھے نہ رہنا
وَاعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا حَکَمَ بِقَبُولِ تَوْبَۃِ ہَؤُلَاء ِ الثَّلَاثَۃِ، ذَکَرَ مَا یَکُونُ کَالزَّاجِرِ عَنْ فِعْلِ مَا مَضَی، وَہُوَ التَّخَلُّفُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فی الجہاد۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توبہ کے قبول ہونے کاذکرفرمایاتواس آیت کریمہ میں تنبیہ فرمائی کہ اب ماضی والی بات نہ ہوکہ پھرتم جہاد سے رہ جائواوروہ یہی بات تھی کہ تم نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوئے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۱۶۶)
جہاد کے بارے میں درست معاملہ رکھو!
ویدخل فیہ المعاملۃ مع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم فی أمر المغازی دخولا أولیا أیضا۔
ترجمہ :امام شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی المتوفی : ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ جہاد کے معاملے میں درست معاملہ رکھناہے ، اس کامطلب یہ ہے کہ جب بھی آپﷺجہادکاحکم دیں توتم جہاد کے لئے نکلو۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی (۶:۴۳)
جھوٹاشخص بڑھاپے میں پاگل ہوجاتاہے
قَالَ مُطَرِّفٌ:سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ أَنَسٍ یَقُولُ: قَلَّمَا کَانَ رَجُلٌ صَادِقًا لَا یَکْذِبُ إِلَّا مُتِّعَ بِعَقْلِہِ وَلَمْ یُصِبْہُ مَا یُصِیبُ غَیْرَہُ مِنَ الْہَرَمِ وَالْخَرَفِ۔
ترجمہ :امام مطرف رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناامام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ جب کوئی آدمی سچ بولتاہے اورجھوٹ نہیں بولتاتواس کی عقل سے فائدہ اٹھایاجاتاہے اوروہ بڑھاپے میں فساد عقل میں اس حد تک نہیں پہنچتاجہاں تک دوسرے لوگ پہنچ جاتے ہیں یعنی جب بڑھاپے میں عقل مائوف ہوجاتی ہے تواس وقت بھی ایسے شخص کی عقل سلامت رہتی ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۸۸)
معارف ومسائل
اس سے واضح ہوگیاکہ اس آیت کریمہ میں کن لوگوں کے کھڑے ہونے کاحکم دیاگیاہے ، وہ مجاہدین ہیں جوتبوک جانے والے تھے اورجن کی نیت صرف اورصرف اللہ تعالی کے دین کو غالب کرنے کی تھی مگرآج ہمارے محراب ومنبرسے جب بھی یہ آیت کریمہ تلاوت کی جاتی تواس سے صرف یہی ثابت کیاجاتاہے کہ اے اہل ایمان !تم پیروں کے ساتھ ہوجائو!تولوگوں نے یہ سن سن کرہرطرح کے پیرکادامن تھام لیا، چاہے وہ کتے لڑانے والاہوچاہے وہ دین کادشمن ہو، چاہے وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس کاغدار ہو، چاہے وہ دین کاسوداہی کرنے والاکیوں نہ ہو۔ اورہم نے بھی آج تک بہت سے مزارات پرعرسوں کے موقع پرحاضری تووہاں یہی آیت کریمہ تلاوت کی جاتی ہے اوراس سے پھریہی ثابت کیاجاتاہے کہ بس پیروں کے ساتھ ہوجائو، ہاں اگرنہیں بیان کیاجاتاتویہ بیان نہیں کیاجاتاکہ تم دین کے ساتھ ہوجائو، تم حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوجائو، تم شیخین کریمین رضی اللہ عنہماکے ساتھ ہوجائو، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی آیت کریمہ پڑھ کراپنامریدبننے کی دعوت دینے والے جاہل پیرحضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن ہوتے ہیں اوران پرتبراکرتے ہیں ۔ اورآج تک ہم نے کسی بھی عرس میں اس آیت کریمہ کے تحت کسی بھی مولوی یاپیرسے جہاد کامسئلہ نہیں سنا۔ان کاجہاد صرف یہی ہے کہ لوگوں کو اپناگرویدہ بناکرسیدھاسیدھاجہاد کادشمن بنایاجائے۔
اگراس آیت کریمہ کی تفسیرموجودہ دورکے حوالے سے کی جائے تویہ بنتی ہے کہ اے اہل ایمان !ان لوگوں کے ساتھ ہوجائوجو دین کے دفاع کے لئے غلبہ دین کے لئے اوراہل اسلام کی مددکرنے کے لئے کھڑے ہیں۔