تفسیرسورۃالتوبہ آیت ۱۰۷۔۱۰۸۔۱۰۹۔ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ

مسجد ضرارکی تعمیراوراس کے اسباب

{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوْلَہ مِنْ قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَاللہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ}(۱۰۷){لَاتَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ }(۱۰۸){اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیٰنَہ عَلٰی تَقْوٰی مِنَ اللہِ وَرِضْوٰنٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیٰنَہ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ فِیْ نَارِجَہَنَّمَ وَاللہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ}(۱۰۹){لَایَزَالُ بُنْیٰنُہُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِہِمْ اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُہُمْ وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ }(۱۱۰)
ترجمہ کنزالایمان :اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں۔اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں ۔تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی اللہ سے ڈر اور اس کی رضا پر وہ بھلا یا وہ جس نے اپنی نیو چنی ایک گراؤ گڑھے کے کنارے تو وہ اسے لے کر جہنم کی آگ میں ڈھے پڑا اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا۔وہ تعمیر جو چنی ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اور کچھ منافق وہ ہیں جنہوں نے نقصان پہنچانے کے لئے اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اور اس شخص کے انتظار کے لئے مسجد بنائی جو پہلے سے اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺکا دشمن ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالی گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں۔اے حبیب کریمﷺآپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس کی حقدار ہے کہ آپ ﷺ اس میں کھڑے ہوں۔ اس میں وہ لوگ ہیں جو خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی خوب پاکی حاصل کرنے والوںکوپسندفرماتاہے۔تو کیا جس نے اپنی مسجد کی بناء اللہ تعالی سے ڈرنے اور اس کی رضا پررکھی وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے کنارے پر رکھی جو گرنے والی ہے پھر وہ عمارت اپنے متولی کو لے کر جہنم کی آگ میں گر پڑے اور اللہ تعالی ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔ اُن کی تعمیر شدہ مسجد ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ تعالی علم والا ، حکمت والا ہے۔
شان نزول
نزلت فی جماعۃ من المنافقین بنوا مسجدایضارّون بہ مسجد قباء وکانوا اثنی عشر رجلا من أہل النفاق ودیعۃ بن ثابت وخذام بن خالد ومن دارہ أخرج ہذا المسجد وثعلبۃ بن حاطب وجاریۃ بن عمرو وابناہ مجمع وزید ومعتب بن قشیر وعباد بن حنیف أخو سہل بن حنیف وأبو حبیبۃ بن الأزعر ونبتل بن الحرث وبجاد بن عثمان وبحزج بنوا ہذا المسجد ضرارا یعنی مضارۃ للمؤمنین وکفرا یعنی لیکفروا فیہ باللہ ورسولہ وَتَفْرِیقاً بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ لأنہم کانوا جمیعا یصلون فی مسجد قباء فبنوا مسجد الضرار لیصلی فیہ بعضہم فیؤدی ذلک إلی الاختلاف وافتراق الکلمۃ وکان یصلی بہم فیہ مجمع بن جاریۃ وکان شابا یقرأ القرآن ولم یدر ما أرادوا ببنائہ، فلما فرغوا من بنائہ، أتوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو یتجہز إلی تبوک فقالوا: یا رسول اللہ إنا قد بنینا مسجدا لذی العلۃ والحاجۃ واللیلۃ المطیرۃ واللیلۃ الشاتیۃ، وإنا نحب أن تأتینا وتصلی فیہ وتدعو لنا بالبرکۃ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إنی علی جناح سفر ولو قدمنا إن شاء اللہ تعالی أتیناکم فصلینا فیہ.وقولہ سبحانہ وتعالی: وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یعنی أنہم بنوا ہذا المسجد للضرار والکفر وبنوہ إرصادا یعنی انتظارا وإعدادا لمن حارب اللہ ورسولہ مِنْ قَبْلُ یعنی من قبل بناء ہذا المسجد وہو أبو عامر الراہب والد حنظلۃ غسیل الملائکۃ وکان أبو عامر قد ترہب فی الجاہلیۃ ولبس المسوح وتنصر، فلما قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ قال لہ أبو عامر ما ہذا الدین الذی جئت بہ؟ فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: جئت بالحنیفیۃ دین إبراہیم.

فقال أبو عامر: فأنا علیہا. فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: إنک لست علیہا. قال أبو عامر: بلی ولکنک أدخلت فی الحنیفیۃ ما لیس منہا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ما فعلت ولکن جئت بہا بیضاء نقیۃ. فقال أبو عامر: أمات اللہ الکاذب منا طریدا وحیدا غریبا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: آمین وسماہ الناس: أبا عامر الفاسق. فلما کان یوم أحد، قال أبو عامر الفاسق للنبی صلی اللہ علیہ وسلم: لا أجد قوما یقاتلونک إلا قاتلتک معہم فلم یزل کذلک إلی یوم حنین فلما انہزمت ہوازن، یئس أبو عامر وخرج ہاربا إلی الشام، وأرسل إلی المنافقین أن استعدوا ما استطعتم من قوۃ وسلاح وابنوا لی مسجدا فإنی ذاہب إلی قیصر ملک الروم فآتی بجند من الروم، فأخرج محمدا وأصحابہ فبنوا مسجد الضرار إلی جنب مسجد قباء ، فذلک وقولہ: سبحانہ وتعالی: وَإِرْصاداً یعنی انتظارا لمن حارب اللہ ورسولہ یعنی أبا عامر الفاسق لیصلی فیہ إذا رجع من الشام من قبل یعنی أن أبا عامر الفاسق حارب اللہ ورسولہ من قبل مسجد الضرار وَلَیَحْلِفُنَّ یعنی الذین بنوا المسجد إِنْ أَرَدْنا یعنی ما أردنا ببنائہ إِلَّا الْحُسْنی یعنی إلا الفعلۃ الحسنی وہی: الرفق بالمسلمین والتوسعۃ علی أہل الضعف والعجز عن الصلاۃ فی مسجد قباء أو مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وَاللَّہُ یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکاذِبُونَ یعنی فی قیلہم وحلفہم.روی أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما انصرف من تبوک راجعا نزل بذی أوان وہو موضع قریب من المدینۃ فأتاہ المنافقون وسألوہ أن یأتی مسجدہم فدعا بقمیصہ لیلبسہ ویأتیہم فأنزل اللہ ہذہ الآیۃ وأخبرہ خبر مسجد الضرار وما ہموا بہ فدعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالک بن الدخشم ومعن بن عدی وعامر بن السکن ووحشیا فقال لہم: انطلقوا إلی ہذا المسجد الظالم أہلہ فاہدموہ وأحرقوہ، فخرجوا مسرعین حتی أتوا بنی سالم بن عوف وہم رہط مالک بن الدخشم فقال مالک: أنظرونی حتی أخرج إلیکم بنار، فدخل أہلہ فأخذ من سعف النخل فأشعلہ ثم خرجوا یشتدون حتی دخلوا المسجد وفیہ أہلہ فأحرقوہ وہدموہ وتفرق عنہ أہلہ وأمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یتخذ ذلک الموضع کناسۃ تلقی فیہا الجیف والنتن والقمامۃ.مات أبو عامر الراہب بالشام غریبا وحیدا.

ترجمہ :امام الخازن رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت ایک جماعتِ منافقین کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے مسجدِ قُبا کو نقصان پہنچانے اور اس کی جماعت متفرق کرنے کے لئے اس کے قریب ایک مسجد بنائی تھی ۔ اس میں ایک بڑی چال تھی وہ یہ کہ ابو عامر جو زمانِہ جاہلیت میں نصرانی راہب ہو گیا تھا ، حضورتاجدارختم نبوتﷺکے مدینہ طیّبہ تشریف لانے پرحضورتاجدارختم نبوتﷺسے کہنے لگا یہ کون سا دین ہے جو آپﷺ لائے ہیں؟ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا میں ملّتِ حنیفیہ ، دینِ ابراہیم لایا ہوں ، کہنے لگا میں بھی اسی دین پر ہوں، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا نہیں،اس نے کہا کہ آپﷺ نے اس میں کچھ اور ملا دیا ہے ،حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا نہیں ، میں خالص ، صاف ملّت لایا ہوں ۔ ابو عامر نے کہا ہم میں سے جو جھوٹا ہو اللہ اس کو مسافرت میں تنہا اور بیکس کرکے ہلاک کرے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے آمین فرمایا ۔ لوگوں نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا ، روزِ اُحد ابو عامر فاسق نے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے کہا کہ جہاں کہیں کوئی قوم آپ ﷺسے جنگ کرنے والی ملے گی میں اس کے ساتھ ہو کر آپ ﷺسے جنگ کروں گا چنانچہ جنگِ حنین تک اس کا یہی معمول رہا اور وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ مصروفِ جنگ رہا ، جب ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ مایوس ہو کر مُلکِ شام کی طرف بھاگا تو اس نے منافقین کو خبر بھیجی کہ تم سے جو سامانِ جنگ ہو سکے قوت وسلاح سب جمع کرو اور میرے لئے ایک مسجد بناؤ ، میں شاہِ روم کے پاس جاتا ہوں وہاں سے رومی لشکرلے کر آؤں گا اور حضورتاجدارختم نبوتﷺاور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو نکالوں گا ۔ یہ خبر پا کر ان لوگوں نے مسجدِ ضرار بنائی تھی اور حضورتاجدارختم نبوتﷺسے عرض کیا تھا یہ مسجد ہم نے آسانی کے لئے بنا دی ہے کہ جو لوگ بوڑھے ، ضعیف ، کمزور ہیں وہ اس میں بہ فراغت نماز پڑھ لیا کریں ، آپ ﷺاس میں ایک نماز پڑھ دیجئے اور برکت کی دعا فرما دیجئے ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ اب تو میں سفرِ تبوک کے لئے پا برکاب ہوں ، واپسی پر اللہ تعالی کی مرضی ہوگی تو وہاں نماز پڑھ لوں گا جب حضورتاجدارختم نبوتﷺ غزوہ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ شریف کے قریب ایک موضع میں ٹھہرے تو منافقین نے آپ ﷺسے درخواست کی کہ ان کی مسجد میں تشریف لے چلیں ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور ان کے فاسد ارادوں کا اظہار فرمایا گیا تب حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے بعض اصحاب رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اس مسجد کو جا کر ڈھا دیں اور جلا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو عامر راہب مُلکِ شام میں بحالتِ سفر بے کسی و تنہائی میں ہلاک ہوا ۔ملخصاً۔
(تفسیرالخازن:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر المعروف بالخازن (۲:۴۰۵)

منافقین نے مسجد قباء میں نماز اداکرنے سے کیوں انکارکیا؟

عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ::کَانَ مَوْضِعُ مَسْجِدِ قُبَاء ٍ لِامْرَأَۃٍ یُقَالُ لَہَا: لَیَّۃُ کَانَتْ تَرْبِطُ حِمَارًا لَہَا فِیہِ، فَابْتَنَی سَعْدُ بْنُ خَیْثَمَۃَ مَسْجِدًا فَقَالَ أَہْلُ مَسْجِدِ الضِّرَارِ:نَحْنُ نُصَلِّی فِی مِرْبَطِ حِمَارِ لَیَّۃَ لَا، لَعَمْرُ اللَّہِ، لَکِنَّا نَبْنِی مَسْجِدًا فَنُصَلِّی فِیہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعروہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مسجد قباء شریف کی جگہ ایک مائی صاحبہ کی تھی ، جس کانام ’’ لیہ ‘‘ تھا۔ وہ ہاں اپنے گدھے باندھاکرتی تھیں ، سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ نے وہاں پر مسجد بنادی تو مسجد ضرارکے نمازی بولے کہ اللہ تعالی کی قسم ! ہم تواس مسجد میں نماز نہیں پڑھیں گے جہاں گدھے بندھے ہوئے تھے ۔ اللہ تعالی کی قسم ! ہم اپنی الگ مسجدبنائیں گے اوراس میں نماز اداکیاکریں گے ۔
(تاریخ المدینۃ لابن شبۃ:عمر بن شبۃ (واسمہ زید)بن عبیدۃ بن ریطۃ النمیری البصری، أبو زید (۱:۵۴)

مسجد ضرار بنانے کی اصل وجہ ؟

قال ابن النجار:ہذا المسجد بناہ المنافقون مضاہیا لمسجد قباء ، وکانوا مجتمعین فیہ یعیبون النبی صلی اللہ علیہ وسلّم ویستہزئون بہ۔
ترجمہ :ابن نجار رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ منافقین نے مسجد ضرارکو مسجد قباء شریف کے مقابلے میں تعمیرکیا، تاکہ اس میں جمع ہوکر رسول اللہ ﷺکے عیب نکالاکریں اوررسول اللہ ﷺکامذاق اڑایاکریں ۔
(سبل الہدی والرشاد، فی سیرۃ خیر العباد:محمد بن یوسف الصالحی الشامی (۵:۴۷۱)

گستاخ کے قدموں کی نحوست

ولکن أعطہ ثابت بن أقرم فإنہ لا منزل لہ، فأعطاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ثابت بن أقرم فلم یولد فی ذلک البیت مولود قط ولم ینعق فیہ حمام قط ولم تحضن فیہ دجاجۃ قط.
ترجمہ :جب رسول اللہ ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت سیدناثابت بن اقرم رضی اللہ عنہ جن کے پاس کوئی گھرنہیں تھاکو فرمایاکہ مسجد ضرارکی جگہ گھربنالو تو انہوں نے وہاں اپناگھربنالیا، جب تک اس گھرمیں رہے ان کے ہاں اولاد ہی نہیں ہوئی اوران کے گھرمیں ایک کبوترتھاوہ بھی نہیں بولااوران کے ہاں ایک مرغی تھی اس نے انڈے نہیں دیئے ۔
(إمتاع الأسماع :أحمد بن علی بن عبد القادر، أبو العباس الحسینی العبیدی، تقی الدین المقریزی (۲:۷۷)
ایک مرغی تھی جو اتنی سمجھدارتھی کہ اس نے وہاں انڈانہیں دیاجہاں گستاخ کے قدم لگے تھے اورایک ہم ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے گستاخوں اوردین کے دشمنوں کو فنڈ دے دیتے ہیں ۔

مسجد ضرار میں استعمال ہونے والی لکڑی کی نحوست

فَلَمّا ہُدِمَ الْمَسْجِدُ أَخَذَ أَبُو لُبَابَۃَ خَشَبَہُ ذَلِکَ فَبَنَی بِہِ مَنْزِلًا، وَکَانَ بَیْتُہُ الّذِی بَنَاہُ إلَی جَنْبِہِ قَالَ:فَلَمْ یُولَدْ لَہُ فِی ذَلِکَ الْبَیْتِ مَوْلُودٌ قَطّ، وَلَمْ یَقِفْ فِیہِ حَمَامٌ قَطّ، وَلَمْ تَحْضُنْ فِیہِ دَجَاجَۃٌ قَطّ۔
ترجمہ:امام محمدبن عمر الواقدی المتوفی ( ۲۰۷ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ جب مسجد ضرارگرادی گئی توحضرت سیدناابولبابہ رضی اللہ عنہ نے وہاںسے لکڑی اٹھاکرکے اپنے گھرکی تعمیرمیں لگادی ، اورانہوں نے گھربھی مسجد ضرارکے پہلومیں تعمیرکیا، ان کے گھرمیں نہ توبچہ پیداہوااورنہ ہی ان کے گھرمیں کوئی کبوتررہتاتھااورنہ ہی ان کی مرغی نے انڈے دیئے ۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (۳:۱۰۴۷)

مسجد ضرار صرف دودن رہی

قال ابن جریح: فَرَغُوا مِنْ إِتْمَامِ ذَلِکَ الْمَسْجِدِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَصَلَّوْا فِیہِ ذَلِکَ الْیَوْمَ وَیَوْمَ السَّبْتِ وَالْأَحَدِ، وَانْہَارَ فِی یَوْمِ الِاثْنَیْنِ.
ترجمہ :امام ابن جریج رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیںکہ منافقین جمعہ کے دن مسجد بناکرفارغ ہوئے اورانہوںنے جمعہ ،ہفتہ اوراتوارکو اس مسجد میں نماز پڑھی اورپیرکے دن یہ مسجد گرادی گئی ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی الملقب بفخر الدین الرازی خطیب الری (۱۶:۱۴۷)

بانی مسجد ضرار کاتعارف

وکان النبی صلّی اللہ علیہ وسلّم سماہ فاسقاً،وقال:لا تَقُولُوا رَاہِبٌ ولکن قُولُوا فَاسِقٌ ، وقد کان آمن بالنبی صلّی اللہ علیہ وسلّم مرتین ثم رجع عن الإسلام، فدعا علیہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فمات کافراً۔
ترجمہ :امام ابواللیث السمرقندی المتوفی ( ۳۷۳ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺنے ابوعامر راہب کانام ’’ابوعامرفاسق ‘‘ رکھااوریہ بھی فرمایا: کوئی بھی شخص اس کو راہب نہ کہے بلکہ سب اس کو فاسق کہیں ، یہ شخص دوباررسول اللہ ﷺپر ایمان لایااوردونوں بار مرتدہوگیاپھررسول اللہ ﷺنے اس کے خلاف دعاکی تووہ حالت کفرمیں مرگیا۔
(بحر العلوم: أبو اللیث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراہیم السمرقندی (۲:۵۷)
اس سے معلوم ہواکہ بدمذہب کانام بدلنابالکل جائز ہے اوریہ رسول اللہ ﷺکی سنت ہے ۔

مسجد ضرارکی تعمیرکی اصل وجہ ؟

أَخْبَرَنَا عُبَیْدٌ، قَال:سَمِعْتُ الضَّحَّاکَ، یَقُولُ فِی قَوْلِہِ(وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا)(التوبۃ۱۰۷)ہُمْ نَاسٌ مِنَ الْمُنَافِقِینَ بَنَوْا مَسْجِدًا بِقُبَاء ٍ یُضَارُّونَ بِہِ نَبِیَّ اللَّہِ وَالْمُسْلِمِینَ.
ترجمہ :امام ابن جریرالطبری المتوفی ( ۳۱۰ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں کہ امام ضحاک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس آیت مبارکہ کے تحت فرمایا: (وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا)(التوبۃ۱۰۷) وہ لوگ منافق تھے انہوںنے مسجد ضرارمسجد قباء شریف کے مقابلے میں بنائی تھی تاکہ رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نقصان پہنچائیں ۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری(۱۱:۶۷۹)

مسجد ضرارگرانے کاحکم

وروی أنہ لَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوکَ وَنَزَلَ بِذِی أَوَانٍ مَوْضِعٍ قَرِیبٍ مِنَ الْمَدِینَۃِ أَتَوْہُ فَسَأَلُوہُ إِتْیَانَ مَسْجِدِہِمْ فَدَعَا بِقَمِیصِہِ لِیَلْبَسَہُ وَیَأْتِیَہُمْ، فَنَزَلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ وَأَخْبَرَہُ اللَّہُ تَعَالَی خَبَرَ مَسْجِدِ الضِّرَارِ وَمَا ہَمُّوا بِہِ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالَکَ بْنَ الدُّخْشُمِ وَمَعْنَ بْنَ عُدَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ السَّکَنِ وَوَحْشِیًّا قَاتِلَ حَمْزَۃَ، وَقَالَ لَہُمْ:انْطَلِقُوا إِلَی ہَذَا الْمَسْجِدِ الظَّالِمِ أَہْلُہُ، فَاہْدِمُوہُ وَاحْرُقُوہُ ، فَخَرَجُوا سَرِیعًا حَتَّی أَتَوْا بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ وَہُمْ رَہْطُ مَالِکِ بْنِ الدُّخْشُمِ، فَقَالَ مَالِک:أَنْظِرُونِی حَتَّی أَخْرُجَ إِلَیْکُمْ بِنَارٍ مِنْ أَہْلِی فَدَخْلَ أَہْلَہُ فأخذ سعافا من النخل وأشعل فِیہِ نَارًا، ثُمَّ خَرَجُوا یَشْتَدُّونَ حَتَّی دَخَلُوا الْمَسْجِدَ وَفِیہِ أَہْلُہُ فحرَّقُوہُ وَہَدَمُوہُ وَتَفَرَّقَ عَنْہُ أَہْلُہُ، وَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُتَّخَذَ ذَلِکَ کُنَاسَۃً تُلْقَی فِیہِ الْجِیَفُ وَالنَّتْنُ وَالْقُمَامَۃُ۔

ترجمہ :امام محی السنہ ابن الفراء البغوی الشافعی المتوفی ( ۵۱۰ھ)رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیںکہ روایت کیاگیاہے جب رسول اللہ ﷺتبوک سے واپس تشریف لاتے ہوئے مقام اوان پرپہنچے (یہ مدینہ منورہ کے قریب ایک جگہ ہے ) تویہ منافقین وہیں جاکررسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ آپ ﷺہماری مسجد میں تشریف لائیں ، پھررسول اللہ ﷺنے اپنی مبارک قمیض منگوائی تاکہ اسے زیب تن فرمائیں ۔ اتنے میں قرآن کریم نازل ہوگیااورمسجد ضرار جانے کی ممانعت آگئی ۔

پھررسول اللہ ﷺنے حضرت سیدنامالک بن دخشم ، معن بن عدی ، عامر بن السکن اوروحشی بن حرب رضی اللہ عنہم کو بلایااورحکم دیاکہ تم اس مسجد چلے جائواوراس کو گرادو،اوراسے آگ لگادو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جلدی سے نکلے یہاں تک کہ بنی سالم بن عوف کے پاس پہنچے توحضرت سیدنامالک بن دخشم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم رکو، میں آتاہوں،یہ اپنے گھرگئے اورکھجورکی چھڑی کو آگ لگائی اوراسے لیکر مسجد ضرار میں داخل ہوگئے اورمنافقین بھی مسجد میں ہی بیٹھے ہوئے تھے ، مسجد کو آگ لگادی اوراسے گرادیا،جتنے بھی منافقین مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے سب کے سب وہاں سے اٹھ کر بھاگ گئے ۔

رسول اللہ ﷺنے حکم دیاکہ ان کی مسجد کی جگہ کو گندگی ،مردار اوربدبودارچیزیں ڈالنے کے لئے روڑی بنالو۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۲:۳۸۷)

’’مسجد ضرار میں نماز نہ اداکرو‘‘کی منادی

وَقَالَ الْحَسَنُ: ہَمَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَذْہَبَ إِلَی ذَلِکَ الْمَسْجِدِ فَنَادَی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَا تَقُمْ فِیہِ أَبَدًا.
ترجمہ:امام الرازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مسجد ضرارکی طرف جانے کاارادہ کیاہی تھاکہ جبریل امین علیہ السلام نے منادی کرادی کہ اس مسجد میں کبھی قیام نہ کرنا۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی الملقب بفخر الدین الرازی خطیب الری (۱۶:۱۴۷)
مسجد ضرارکاامام ہماراامام نہیں ہوسکتا
فَإِنَّ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الَّذِینَ بَنَوْا مَسْجِدَ قُبَاء ٍ سَأَلُوا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِی خِلَافَتِہِ لِیَأْذَنَ لِمُجَمِّعِ بن جاریۃ أن یصلی بہم فی مسجد ہم، فَقَالَ: لَا وَلَا نِعْمَۃَ عَیْنٍ! أَلَیْسَ بِإِمَامِ مَسْجِدِ الضِّرَارِ! فَقَالَ لَہُ مُجَمِّعٌ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، لَا تَعْجَلْ عَلَیَّ فَوَاللَّہِ لَقَدْ صَلَّیْتُ فِیہِ وَأَنَا لَا أَعْلَمُ مَا قَدْ أَضْمَرُوا عَلَیْہِ وَلَوْ عَلِمْتُ مَا صَلَّیْتُ بِہِمْ فِیہِ کُنْتُ غُلَامًا قَارِئًا لِلْقُرْآنِ وَکَانُوا شُیُوخًا قَدْ عَاشُوا عَلَی جَاہِلِیَّتِہِمْ وَکَانُوا لَا یَقْرَء ُونَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْئًا فَصَلَّیْتُ وَلَا أَحْسِبُ مَا صَنَعْتُ إِثْمًا وَلَا أَعْلَمُ بِمَا فِی أَنْفُسِہِمْ فَعَذَرَہُ عُمَرُ (رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا وَصَدَّقَہُ وَأَمَرَہُ بِالصَّلَاۃِ فِی مَسْجِدِ قُبَاء ٍ۔
ترجمہ :بنی عمروبن عوف رضی اللہ عنہ جو مسجد قباء شریف کے بانی تھے سے روایت کیاگیاہے کہ وہ حضرت سیدناامیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کے دورمبارک میں آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض گزارہوئے کہ آپ رضی اللہ عنہ حضرت مجمع بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اجازت دیں تاکہ وہ ان کو مسجد قباء شریف میں نماز پڑھایاکریں ۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی کی قسم ! ایساتونہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ تومسجد ضرارکاامام رہاہے ۔ حضرت سیدنامجمع بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے وہ عرض گزارہوئے کہ اے امیرالمومنین ! مجھ پر فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرنا، اللہ تعالی کی قسم ! میں نہیں جانتاتھاکہ وہ منافقین ہیں اوروہ اپنانفاق مجھ سے چھپاتے تھے ، اگرمجھے پتہ چل جاتاتو میں کبھی بھی ان کو نمازنہ پڑھاتا، دراصل مسئلہ یہ ہواتھاکہ وہ سارے بوڑھے تھے اوران میںسے کسی کو بھی قرآن نہیں پڑھناآتاتھااورمیں قاری تھااس لئے انہوںنے مجھے کہاتو میںنے ان کو نماز پڑھانی شروع کردی ، اگرمجھے پتہ ہوتاتو میں کبھی بھی ان کو نماز نہ پڑھاتا۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان کاعذرقبول فرمایااوران کو مسجد قباء شریف میں نماز پڑھانے کی اجازت دے دی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۸:۲۵۵)

حکومتی مولویوں کے پیچھے نماز اداکرناکیسا؟

قَالَ الْعُلَمَاء ُ: إِنَّ مَنْ کَانَ إِمَامًا لِظَالِمٍ لَا یُصَلَّی وَرَاء َہُ إِلَّا أَنْ یَظْہَرَ عُذْرُہُ أَوْ یَتُوبَ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ القرطبی المالکی المتوفی ( ۶۷۱ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کرام رحمۃ اللہ تعالی علیہم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی ظالم شخص کے ہاں امامت کرواتاہو اس کی اقتداء میں نماز اداکرناجائر نہیں ہے الایہ کہ وہ اپناعذر بیان کرے یاپھرتوبہ کرے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۸:۲۵۵)
اس سے معلوم ہواکہ ظالم کے ہاں امامت کروانے والے کی اقتداء میں نماز اداکرناجائز نہیں کیونکہ عموماً ایسے مولوی حکمرانوں کے مظالم پر بھی ان کی تحسین کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔

مسجد ضرارمیں نماز جائز نہیں

وَأَسْنَدَ الطَّبَرِیُّ عَنْ شَقِیقٍ أَنَّہُ جَاء َ لِیُصَلِّیَ فِی مَسْجِدِ بَنِی غَاضِرَۃَ فَوَجَدَ الصَّلَاۃَ قَدْ فَاتَتْہُ، فَقِیلَ لَہُ:إِنَّ مَسْجِدَ بَنِی فُلَانٍ لَمْ یُصَلَّ فِیہِ بَعْدُ، فَقَالَ:لَا أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّیَ فِیہِ، لِأَنَّہُ بُنِیَ عَلَی ضِرَارٍ۔
ترجمہ :امام شقیق رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مروی ہے کہ وہ ایک مرتبہ مسجد بنی غاضرہ میں آئے تاکہ وہ نماز اداکریں ، جب وہ وہاں پہنچے تو جماعت فوت ہوچکی تھی توان کی خدمت میں عرض کی گئی : حضور! فلاں مسجد میں ابھی تک جماعت نہیں ہوئی ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: وہ مسجد ضرار ہے میں اس میں کبھی بھی نماز نہیں پڑھوں گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۸:۲۵۵)

مسجد ضرارکون کون سی ہے ؟

قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَکُلُّ مَسْجِدٍ بُنِیَ عَلَی ضِرَارٍ أَوْ رِیَاء ٍ وَسُمْعَۃٍ فَہُوَ فِی حُکْمِ مَسْجِدِ الضِّرَارِ لَا تَجُوزُ الصَّلَاۃُ فِیہِ.
ترجمہ:امام ابوعبداللہ القرطبی المالکی المتوفی ( ۵۷۱ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کرام رحمۃ اللہ تعالی علیہم فرماتے ہیں ہر وہ مسجد جو اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کی نیت سے یاریاودکھاوے کی نیت سے تعمیرکی جائے اس کاحکم بھی مسجد ضراروالاہے اوراس میں نماز اداکرناجائز نہیں ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۸:۲۵۵)

مسجد ضرارکو شہتیر دینے کاعذاب

وَقَالَ عِکْرِمَۃُ: سَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَجُلًا منہم بماذا أَعَنْتَ فِی ہَذَا الْمَسْجِدِ؟ فَقَالَ:أَعَنْتُ فِیہِ بِسَارِیَۃ:فَقَال:أَبْشِرْ بِہَا! سَارِیَۃً فِی عُنُقِکَ مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منافقین میں سے ایک شخص سے سوال کیاکہ تم نے بھی مسجد ضرارمیں کوئی تعاون کیاتھا؟ اس نے جواب دیاکہ میں نے صرف ایک شہتیردیاتھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو فرمایا: پھرتم کو بھی مبارک ہووہی شہتیر قیامت کے دن تیری گردن میں ہوگا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۸:۲۵۵)

رسول اللہ ﷺاس راستے سے بھی کبھی نہیں گزرے

وَقَدْ رُوِیَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ کَانَ لَا یَمُرُّ بِالطَّرِیقِ الَّتِی فِیہَا الْمَسْجِدُ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ القرطبی المالکی المتوفی ( ۵۷۱ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ روایت کیاگیاہے جب مسجد ضرارمیں کھڑئے ہونے سے ممانعت والی آیت مبارکہ نازل ہوئی تو اس کے بعد رسول اللہ ﷺکبھی بھی اس مسجد کی گلی سے بھی نہیں گزرے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۸:۲۵۵)
آج نعوذ باللہ من ذلک لوگ اسی مسجد میں جاکر نوافل اداکرتے ہیں اوراس کی زیارت کی نیت سے وہاں جاتے ہیں ۔

گستاخ کے قدموں کی نحوست

ثم بعد زمان أعطاہ صلی اللہ علیہ وسلم لثابت بن أرقم یجعلہ بیتا فلم یولد فی ذلک البیت مولود قط وحفر فیہ بقعۃ فخرج منہا الدخان۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی ( ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں مسجد ضرارکو گرانے کے بعد رسول اللہ ﷺنے وہ زمین حضرت سیدناثابت بن ارقم رضی اللہ عنہ کو عطافرمادی تووہاں پر ان کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوابلکہ ایک دن انہوں نے گڑھاکھوداتو اس میں سے دھواں نکلناشروع ہوگیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی , المولی أبو الفداء (۳:۵۰۶)
اس پرمزید مطالعہ کرنے کے لئے اہل ذوق فقیرکی کتاب ’’مسجد ضراراوراس کے نمازی ‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

معارف ومسائل

(۱)فی زمانہ مسلمانوں میں ایک تعداد ایسی ہے جنہیں عالیشان مسجد تعمیر کرنے پر اور زیادہ مساجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کااظہار کرتے دیکھا گیا ہے، ان کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے یا خود انہیں اپنے دلوں کا حال اچھی طرح معلوم ہے ، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں مسلمانوں کو سہولت پہنچانے کی نیت سے عالی شان اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں تو ان کایہ عمل لائقِ تحسین اوراجر و ثواب کاباعث ہے اور اگر ان کی نیت یہ نہ تھی بلکہ خوبصورت مساجد بنانے سے ریاکاری اور فخر و بڑائی کا اظہار مقصود تھا اگرچہ زبان سے لوگوں کے سامنے یہ صدا عام تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ کوشش قبول فرمائے۔
(۲)سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!کیسی پیاری تشبیہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مسجدِ ضِرار اور منافقین کے سارے اعمال اس عمارت کی طرح ہیں جو دریا کے نیچے سے کاٹی یا گلی ہوئی زمین پر بنادی جائے اور پھر وہ زمین مع اس عمارت کے دریا میں گر جائے۔ ایسے ہی منافقین کی مسجدیں ہیں کہ ان کی مسجد بھی دوزخ میں ہے، اور وہ خود بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کی میٹھی باتوں اور ظاہری نیکیوں کو دیکھ کر اس کے نیک ہونے کا یقین نہ کرلینا چاہیے، ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ آیت ِ مبارکہ اس بات کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مسجدوں کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی پر ہونی چاہیے ۔ لہٰذا صرف اپنی برادری کا علم بلند کرنے کیلئے یا اس طرح کی کوئی دوسری فخریہ چیز کیلئے مسجدیں نہیں ہونی چاہئیں ، ہاں ان کی نیک نامی اور مسلمانوں کی ان کیلئے دعائیں مطلوب ہوں تو درست ہے۔ اسی طرح مختلف ناموں پر مسجدوں کے نام رکھنے کا معاملہ ہے کہ اگر اس سے ریا کاری اور فخرو تکبر کا اِظہار مقصود ہے تو حرام ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ اس سے لوگوں کو مسجدیں بنانے کی ترغیب ملے یا جو اس کا نام پڑھے وہ اس کے لئے دعائے خیر کر ے تو یہ جائز ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے نام لکھنے کے معاملے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ریاء کو حرام مگر بلاوجہِ شرعی مسلمان پر قصد ِریا کی بدگمانی بھی حرام، اور بنظرِ دعا ہے تو حرج نہیں۔(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی الماتریدی ( ۱۶:۴۹۹)(تفسیرصراط الجنان(۴:۲۳۷)
(۳)حضورامیرالمجاہدین حضرت حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں جس طرح مسجد ضرارکادرد منافقین کے جگرکوٹکڑے ٹکڑے کرتارہے گااسی طرح فیض آباد دھرنے میں اہل اسلام کی کامیابی سے لبرل وسیکولر کے دل بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوتے رہیں گے اورتاقیامت اس کادردان کی نسل درنسل منتقل ہوتارہے گا۔
(۴)اس سے معلوم ہواکہ جو مساجد مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالی کی عبادت کے لیے تعمیر کیں وہ تقویٰ اور نیکی کے مراکز تھے۔ مدینہ کے منافقین نے مدینہ منورہ کے اندر اسلام کو زک پہنچانے کے لیے کئی تخریبی اڈے قائم کر رکھے تھے۔ ان میں سے بعض مراکز نفاق تو ان منافقین کے گھروں میں تھے جن کوحضورتاجدارختم نبوتﷺنے مختلف اوقات میں منہدم کروایا اور ایک خطرناک اڈہ مسجد ضرار کے نام سے معروف ہوا، اسے بھی گراکرآگ لگادی گئی ۔
(۵)مسجد ضراربننے کے تین اسباب قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں وہ یہ کہ مسجد ضرار عامر راہب کے مشورے پر منافقین نے ایک مکان بنوایا تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ قیصر روم مسلمانوں پر چڑھائی کرکے مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دے اور میری سیادت پھر قائم ہوجائے، قیصر وروم کی اجتماعی مدد کے لیے انھوں نے یہ مکان بنوایا تھا اور ظاہر یہ کیا تھا کہ ہم مسجد بنا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو شبہ نہ ہو جب کہ پس پردہ ان کے تین مقاصد تھے (۱)مسلمانوں کو نقصان پہنچانا (۲)مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پیدا کرنا کہ مسلمانوں کی جماعت کے دو ٹکڑے ہوجائیں ایک ٹکڑا اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں کا الگ ہوجائے اور یہ قدیم مسجد قبا کے نمازی گھٹ جائیں (۳)یہاں اللہ تعالی اور حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے دشمنوں کو پناہ ملے اور وہ یہاں مسلمانوں کے خلاف سازش کیا کریں۔
(۶) اس سے معلوم ہواکہ منافقین ہمیشہ دین کانام لیکرکفرپھیلاتے ہیں اوراہل اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس واقعہ میں بھی انہوںنے ’’مسجد‘‘ کانام استعمال کیا، حالانکہ وہ اس جگہ کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے خلاف ایک مرکزکی حیثیت سے قائم کرناچاہتے تھے تاکہ وہاں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخ اوردشمن آکرقیام پذیرہوں اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے خلاف یہاں سازشوں کے جال بنے جائیں ۔ بعینہ اسی طرح انگریزوں کواپنے اقتدارکے جانے کاخوف لاحق ہواکہ کہیں ایسانہ ہوکہ اہل اسلام جہا دکے لئے کھڑے ہوجائیں ، اس لئے اس نے ضرورت محسوس کی کہ اسلام کی راہ سے جہاد کو منسوخ کرائیں ۔ جہاد اسلام کابہت بڑاعمل ہے ، اپنے وفادارنام نہاد علماء سے منسوخ کراتے توکون مانتاتھا، اس لئے انہوںنے یہ طریقہ اختیارکیاکہ ایک شخص سے نبوت کادعوی کروادیا، پھراس سے جہاد کے منسوخ ہونے کااعلان کروادیا، وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح مسلمان جہاد کو منسوخ مان لیں گے ، انہیں یہ پتہ نہ تھاکہ مسلمان انگریزوں کے بنائے ہوئے دجال کو کافرقراردے دیں گے اوراس کی جھوٹی نبوت کو نہیں مانیں گے ، بہرحال انہوںنے یہ حربہ استعمال کیایعنی ایک شخص سے نبوت کااعلان کراکے جہاد کو منسوخ کرانے کی سعی لاحاصل کی ۔
(۷) منافقین نے ایک عمارت بنائی اوراسے مسجد کانام دیا، اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریمﷺکو فرمایاکہ اس میں کبھی بھی قیام نہ کرنااورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے اسے آگ لگوادی، اسی وجہ سے آج بھی مرزائیوں کو پاکستان بھر میںاپنی عبادت گاہ کو مسجد کانام دینامنع ہے اوروہ خود کومسلمان بھی نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ مرتد وکافرہیں بعض لبرل وسیکولراس حکم شرعی پراعتراض کرتے ہیں حالا نکہ یہ قرآن کریم اورسنت شریفہ کے عین مطابق ہے ۔اگرکافربھی اپنی عبادت گاہوں کو ’’مسجد‘‘ کہنے لگیں اوراپنی عبادت کو نماز کانام دیں اورانہیں اس بات کی اجازت دے دی جائے تواسلام اورکفرمیں کیافرق رہ جائے گامرزائی فرقہ اپنے کفریہ عقائد ونظریات کی وجہ سے زنادقہ اورملحدین کاٹولہ ہیں مگروہ اپنے غلیظ عقائدکو اسلامی شعائر کے پردے میں چھپاتے ہیں، اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہتے ہیں ، اس کے باہربہت جلی حروف سے کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ لکھ دیتے ہیں، جسے دیکھ کرگزرنے والوں کوان کے مسلمان ہونے کاگمان ہوتاہے ۔ لوگ دھوکے میں مبتلاء ہوتے ہیں ۔
(۸) اللہ رب العزت طہارت کو پسندفرماتاہے مگرانگریز لوگوں کواس کی پرواہ نہیں ، وہ یورپ میں جانوروں کی طرح اکٹھے کھڑے ہوکرپیشاب کرتے ہیں اورایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ، بغیرجسم صاف کئے کپڑے درست کرلیتے ہیں ، ان کے جسم اورکپڑوں کو پیشاب لگتارہتاہے ، گویاوہ انسانوں کی شکل میں جانورہیں ، پاخانہ وپیشاب کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ ٹشوپیپرسے صفائی کرتے ہیں ،حالانکہ اس سے جسم سے بدبونہیں جاتی اورمسلسل ایساکرنے والے کی جائے پاخانہ وپیشاب کی نالی میں سوزش اوردیگربیماریاں پیداہوجاتی ہیں ۔ اس لئے آج امریکہ اوریورپ میں ایڈز کی بیماری عام ہوگئی ہے ۔ کیونکہ ایک تویہ لوگ ختنہ نہیں کرتے جوکہ شعائراسلام سے ہے اوردوسراپیشاب کرنے کے بعد پانی استعمال نہیں کرتے اورپیشاب کے قطرے پیشاب کی نالی کے سرے میں باقی رہ جاتے ہیں، جس سے گندگی اوربیماریاں جنم لیتی ہیں جبکہ ہرمسلمان قضائے حاجت کے بعد اپنے جسم کو پانی سے صاف کرتاہے اورکپڑوں کو پیشاب سے صاف رکھتاہے ۔ ( تفسیربرہان القرآن (۳:۵۰۶)

اسلام دشمن اہل اسلام کو اصول سے ہٹاکرفضول میں پھنسادیتاہے

اسلام کا دشمن، اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کرنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کررہا ہے۔ وہ ایسا چالباز اور دھوکہ باز دشمن ہے جو مسلمانوں کے لئے استعمال کرنے والی دلچسپ اور پرکشش چیزیں تیار کرتا ہے تا کہ ان کو فضول کاموں اور لاحاصل سرگرمیوں میں مصروف کردے۔مسلمانوں میں ایسے بے فائدہ شکوک و شبہات پھیلا دیتا ہے کہ لوگ ان کے جواب تلاش کرنے میں مصروف ہوجائیں جبکہ اس کا نتیجہ علم میں اضافہ نہ ہو بلکہ لوگوں کے درمیان فتنہ کا باعث ہو۔دشمن ایسا ماحول بنادیتا ہے کہ اہم اور ضروری مسائل کو لوگوں کی نظروں میں بے اہمیت دکھائے اور غیرضروری اور بیہودہ باتوں، چیزوں اور کاموں کو انتہائی اہم اور ضروری بنا کر دکھائے۔انسانیت کا دشمن والدین، میاں بیوی، بہن بھائی اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی، تعاون اور نیکی کرنے کے وسائل، ذرائع اور سوچ کو تباہ کررہا ہے۔
دین کا دشمن اخلاقی اقدار اور اسلامی تعلیمات کو مٹا کر اس کے بجائے مغربی تہذیب کا زہر پھیلا رہا ہے۔منبروں پر اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔
عیاش، بدمعاش، شرابی، بے دین، بے نماز، بے عمل پیسوں کے پیاسے افراد منبرپر بیٹھ کر قوم کا دین چھین کر ان کا مال بھی لوٹ رہے ہیں۔ایسے منافق منبروں پر بظاہر دین کی باتیں کررہے ہیں جن کا ایک ہاتھ اسلام کے دشمن کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا ہاتھ لوگوں کے ہاتھوں میں۔ اس طریقے سے ان دشمنوں کے حربوں کو عوام کی پسند کے انداز میں جاری کررہے ہیں۔
اسلام کے دشمن، اہل اسلا م کی جدّوجہد، محنتیں، تکلیفیں اور مقصدِاسلام کو بھلا کر لوگوں کو کھوکھلی باتوں، بے فائدہ نظریات اور گمراہ کرنے والی سوچوں میں مصروف کیے ہوئے ہیں۔
خلاصہ:دشمن کی ایک کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کی سوچ کو کھوکھلا کردے تاکہ اپنے ناپاک مقاصد تک پہنچ جائے، لہذا مسلمانوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ مختلف مسائل سے کیسے سامنا کریں کہ دشمن کے مقاصد پورے نہ ہوسکیں۔
واللہ!یہ اٹل حقیقت ہے کہ جوں جوں انسان قرآن سے دور ہوتا جاتا ہے۔فضولیات و خرافات میں ڈوبتا جاتاہے۔یہ بھی ایک قسم کا ہم پہ عذاب مسلط ہے کہ ہم ایسی مباحث میں الجھے ہوں جن کا دین کے احیاء سے رتی برابر بھی تعلق نہ ہو۔
اب ہم یہاں کچھ معروضات پیش کرتے ہیں کہ جن مسائل میں ہم کوآئے دن الجھاکراقامت دین اوراحیائے دین کے کام میں رخنہ اندازی کی جاتی ہے ۔
حضراتِ اہل بیت اطہارو حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سب وہ نفوسِ قدسیہ ہیں کہ ملتِ اسلام میں جن کی عظمت حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فوراً بعد شروع ہو جاتی ہے ،اِن ذواتِ کریمہ نے نہ صرف ہمارے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو دیکھا،نہ صرف یہ کہ قرآن مجید اس وقت نازل ہوا کرتا تھابلکہ آپﷺ اور آپ کے دینِ عزیز کی اس جماعت نے بہر طور حفاظت و فروغ کی راست کاوشیں کیں،اگر یہ جماعتِ مقدس نہ ہوتی تو ہم تک کیسے اسلام منتقل ہوتا!
لیکن آج یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے کہ ہم مسلمان اپنے بدتر رویوں سے اُن کے بیچ تفریق و انتشار بلکہ خلفشار پیدا کرتے ہیں، اُن کی پوری جماعت کل قیامت میں اپنی عظمت و خدمت کے باعث جنت میں بلند درجات پر ہوگی اور ان میں سے بہت سے فتنہ پرور لوگ ان کے درمیان تفریق دکھانے اور خلفشار جگانے کی مذموم حرکتوں کی وجہ سے دوزخ میں ڈالے جائیں گے ،یقیناً ہم میں سے کسی کا بھی ایسا عمل شرعاً و اخلاقاً مذموم ترین ہے کہ جو نارِ جہنم کی راہ لے جائے۔
فلاں صحابی رضی اللہ عنہ خطاپرتھے ، فلاں سے یہ خطاسرزدہوئی ، کیاابوطالب مسلمان تھے ، یانہیں تھے ، باغ فدک کامطالبہ کرناکیساتھا؟آخرتم ان ابحاث میں پڑکرکیاثابت کرناچاہتے ہو؟ اوردنیابھرکے لوگوں کوکیابتاناچاہتے ہو؟ ہماراکہنا فقط یہ ہے کہ تم کیوں ہر دن ایک نیا تماشا کھڑا کرلیتے ہواگر کہیں رفض ہے تو تم اس کا بدلہ اہل سنت اور اہل خانقاہ اور سادات کے جذبات سے کیوں لینا چاہتے ہو،اور کسی ایک کی نجی حرکت کی وجہ سے پورے پاک وہند کو فتنے کی آگ میں کیوں جھونک دیتے ہو؟کیا تمہیں پتا نہیں کہ تم ذمہ دار ہو،آخر تمہیں یہ سب کیوں سوجھتا رہتا ہے کہ ہر کچھ دن بعد کوئی نہ کوئی شوشہ تمہیں چھوڑنا ہے اور اہل بیتِ کرام رضی اللہ عنہم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمتوں کی بے حرمتی پر عوام کو جری بنانا ہے اور ان کی رفعتوں کاعوام کے سامنے مذاق بناناچاہتے ہو؟
بے شک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیچ کے آپسی اختلافات از حد خُدا ترسی اور خلوص پر مبنی تھے،یہ سب فرشتہ صفت ہستیاں تھیں, جن کو دنیا اور آخرت میں سے ایک چُننے کو کہا جاتا تو وہ آخرت چنتے ،حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ سے یہ سنتے ہی کہ اس وقت جو شہید ہو گا جنت میں جائے گا،جوشِ شہادت سے کفار کے ازدحام میں گُھس کر شہید ہو جاتے،کوئی خطا کر بیٹھتے تو بارگاہ ختم نبوتﷺ میں خود کوڑے کھانے اور رجم ہونے کے لئے چلے آتے۔
حضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہاجو راست خون رسولﷺ اور جزوِ ذاتِ رسول ﷺہیں،کیسے بیاں ہوں ان کی عظمتیں،حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے دین و ایمان کی خدمت کی،ان پر اپنی جان و نفس کو وقف و فنا کر دیا،آپ سوچئے کہ ایک دوست وملاقاتی ہوتے ہیں اور ایک ہوتے ہیں کسی کے اپنے بیوی بچے ،گھر والے،ایک ہوتا ہے خاندان’’اللہ اکبر‘‘ویسے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے مثلاً حضرت سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ جو ہجرت کی رات کل کائنات میں تنہا تھے جو ہمارے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حفاظت کرتے رہے تھے،جن کو اللہ تعالی نے یہ خدمت سپرد کی کہ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکو بحفاظت مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچائیں۔چاہے خود جان پر کھیل جائیں۔کیا ایسی ہستیاں کبھی اپنے نفس و اَنا اور دنیوی غنا کے لیے اپنے درمیان کسی سے اختلاف کر سکتی ہیں؟ پھر ہم اس موضوع پر وقفے وقفے سے کیوں چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔
ان تمام ہستیوں سے ہم ٹوٹ کر غیر مشروط بلکہ میں ایک لفظ کہوں گا کہ ہم اندھی محبت کیوں نہیں کرتے،جہاں صرف محبت, صرف محبت،صرف محبت ہو،ہم یہاں اپنی آنکھیں کیوں کھول لیتے ہیں اور یہ اور وہ چوں چرا کیوں دیکھتے اور کرتے ہیں؟ دماغ کیوں چلاتے ہیں؟ میں سمجھ نہیں پاتا کہ ہم سے یہ کیسے ہو پاتا ہے کہ ہم ایسی عظیم المرتبت ذواتِ کریمہ کے لیے کوئی بٹوار ہ ذہنوں میں سوچ لیتے ہیں،ہم سے یہ کیسے ہو پاتا ہے کہ ہم ان کی شان میں کوئی کلمہ و تعبیر استعمال کرتے وقت ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی اپنی آخری کوشش صرف کرنے میں ذرا سی بھی سُستی برت جاتے ہیں۔
مختلف اوقات میں فارغ بیٹھے ہوئے علماء نت نئے مسائل کھڑے کرکے عوام الناس کو اپنی جانب متوجہ کرتے اوران کو بھی خداتعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ کی گستاخیوں پرابھارتے رہتے ہیں جیسے کہ کیا اللہ تعالی اتنا وزنی پتھر پیدا کرنے پر قادر ہے کہ جسے وہ خود نہ اُٹھا سکے۔اگر بندہ مجبور ہے، ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالی نے لکھ دیا تو پھر ایک مجبور سے گناہ کروا کر اُسے دوزخ میں کیوں ڈالا جاتا ہے؟حضورتاجدارختم نبوتﷺکونبوت کب ملی ؟
سوال یہ ہے کہ ایسے ایمان سوز سوالات خود اپنی زبانوں سے نکالنے اور دوسرے کی زبانوں سے سننے کی ہم تاب کیسے لے آتے ہیں؟ ویسے ہی ہم میں اتنی بے دینی اور قساوتِ قلبی بلکہ محروم قسمتی کہاں سے آجاتی ہے کہ ہم حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم و صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بیچ خُبث بَکھانتے ہیںہم اس سے پہلے مر کیوں نہیں جاتے۔
اے خداتعالی کے بندو!تم ان سب سے صرف محبت کرو۔صرف محبت کرو،اور ہاں کم بولو،اللہ تعالی سے ان کے قدموں کے تقدس کا صدقہ مانگو،اپنی آخرت کی فکر کرو،اپنی خطاؤں پر توبہ کرو،اہل بیت و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کا ذکر آئے تو صرف محبت و مودت کرو، صرف خیر و سعادت کا احساس کرو،علاوہ دیکھنے سے اندھے ہو جاؤ،سننے سے بہرے ہو جاؤ،بولنے سے گونگے ہو جاؤ،کیا تمہارے لیے آج کے مسائلِ ملت کم ہیں دماغ چلانے اور فکر و تدبیر بکھاننے کے لیے؟
افسوس کہ جہاں دل گروی رکھنے کی ضرورت ہے وہاں ہم دماغ چلا رہے ہیں اور جہاں دماغ چلانے کی ضرورت ہے وہاں ہم نے دماغ گروی رکھ چھوڑا ہے،افسوس ہے کہ ہم سے اپنے مسائلِ موجودہ تو حل نہیں ہو رہے ہیں اور چل پڑے چودہ صدیوں پیش تر کے مسائل حل کرنے،ہم ایسا کر کے اس ملتِ مرحومہ پر ظلم کر رہے ہیں۔’’فتنہ تو ہم خود ہیں‘‘کہ فتنہ کو کوئی دباتا نہیں۔بس فتنے جگاتے رہتے ہیں۔
یادرہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ اہل حق کے لیے بڑا ہی صبر آزما اور بہت زیادہ ہمت و حوصلہ اور فعالیت کا طالب ہے ، شکوہ وشکایات اور اپنی بے بسی کا ماتم بند کر کے امکانات پر غور کرنے اور کچھ کرنے کے لیے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اورہرشخص اقامت دین کے لئے کام کرے اورجتنے بھی لوگ ان حالات میں بھی فروعی مسائل کو لیکربیٹھے ہیں اورعوم الناس کوان میں الجھائے ہوئے ہیں ان سے بچ کراورفضول ابحاث کوترک کرکے صرف اورصرف احیائے اسلام اورغلبہ دین کے لئے کام کریں۔

Leave a Reply