غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی معافی کابیان
{وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صٰلِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْہِمْ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ }(۱۰۲){خُذْ مِنْ اَمْوٰلِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}(۱۰۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور کچھ اور ہیں جو اپنے گناہوں کے مقر ہوئے اور ملایا ایک کام اچھا اور دوسرا برا قریب ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمانـ:اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا تو انہوں نے ایک اچھے عمل کے ساتھ اور دوسرا برا عمل ملادیا، عنقریب اللہ تعالی ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ بیشک اللہ تعالی معاف فرمانے والا مہربان ہے۔اے حبیب کریمﷺآپ!ان کے مال سے زکوٰۃ وصول فرمائیں! جس سے آپﷺانھیں ستھرا اور پاکیزہ فرمائیں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں ،بیشک آپﷺکی دعا ان کے دلوں کا سکون ہے اور اللہ تعالی سننے والا، جاننے والا ہے۔
غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والے
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَزَلَتْ فِی عَشَرَۃٍ تَخَلَّفُوا عَنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ فَأَوْثَقَ سَبْعَۃٌ مِنْہُمْ أَنْفُسَہُمْ فِی سَوَارِی الْمَسْجِدِ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی جوغزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے توان میں سے سات لوگوں نے خودکو مسجد نبوی شریف کے ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۴۱)
شان نزول
وہو قول جمہور المفسرین إنہا نزلت فی جماعۃ من المسلمین من أہل المدینۃ تخلفوا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ تبوک ثم ندموا علی ذلک.واختلف المفسرون فی عددہم فروی عن ابن عباس أنہم کانوا عشرۃ منہم أبو لبابۃ وروی أنہم کانوا خمسۃ أحدہم أبو لبابۃ وقال سعید بن جبیر وزید بن أسلم کانوا ثمانیۃ أحدہم أبو لبابۃ وقال قتادۃ والضحاک:کانوا سبعۃ أحدہم أبو لبابۃ.وقیل:کانوا ثلاثۃ: أبو لبابۃ بن عبد المنذر، وأوس بن ثعلبۃ، وودیعۃ بن حزام، وذلک أنہم کانوا تخلفوا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ تبوک ثم ندموا بعد ذلک وتابوا وقالوا أنکون فی الظلال ومع النساء ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ فی الجہاد واللأواء ؟ فلما رجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سفرہ وقرب من المدینۃ قالوا:واللہ لنوثقن أنفسنا بالسواری فلا نطلقہا حتی یکون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو الذی یطلقنا ویعذرنا فربطوا أنفسہم فی سواری المسجد فلما رجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرّ بہم فرآہم فقال:من ہؤلاء ؟ فقالوا:ہؤلاء الذین تخلفوا عنک فعاہدوا اللہ أن لا یطلقوا أنفسہم حتی تکون أنت الذی تطلقہم وترضی عنہم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: وأنا أقسم باللہ لا أطلقہم ولا أعذرہم حتی أومر بإطلاقہم، رغبوا عنی وتخلفوا عن الغزو مع المسلمین.فأنزل اللہ عز وجل ہذہ الآیۃ فأرسل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلیہم فأطلقہم وعذرہم فلما أطلقوا قالوا:یا رسول اللہ ہذہ أموالنا التی خلفتنا عنک خذہا فتصدق بہا عنا وطہرنا واستغفر لنا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما أمرت أن آخذ من أموالکم شیئافأنزل اللہ:خذ من أموالہم صدقۃ تطہرہم الآیۃ۔
ترجمہ :جمہورمفسرین کرام کے نزدیک یہ آیت کریمہ ان کے متعلق نازل ہوئی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اورمفسرین میں ان کی تعداد میں اختلاف ہے کہ وہ کتنے لوگ تھے ، حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ وہ لوگ دس تھے ، اوران میں حضرت سیدناابولبابہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اوریہ بھی روایت کیاگیاہے کہ وہ پانچ تھے اوران میں ایک ابولبابہ رضی اللہ عنہ تھے ، اورحضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ اورحضرت سیدنازیدبن اسلم رضی اللہ عنہ کاقول یہ ہے کہ وہ لوگ آٹھ تھے اورحضرت سیدناقتادہ اورضحاک رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ وہ لوگ سات تھے اوران میں ایک حضرت سیدناابولبابہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے ، اوریہ بھی کہاگیاہے کہ وہ لوگ تین تھے ۔ جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوئہ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ،اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا :افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے حالانکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد میں ہیں۔ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنے سفر سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ ہی کھولیں۔یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضورتاجدارختم نبوتﷺتشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا:یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضورتاجدارختم نبوتﷺ اُن سے راضی ہو کر اُنہیں خود نہ کھولیں۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا اور میں اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ اُن کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ﷺ! یہ مال ہمارے رہ جانے کاسبب بنے۔ انہیں لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کردیجئے اور ہمارے لئے دُعائے مغفرت فرمائیے ۔حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیااس پر اگلی آیت{ خُذْ مِنْ اَمْوٰلِہِمْ} نازل ہوئی۔
(تفسیرالخازن:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن (۲:۴۰۱)
قرآن کریم میں امیدافزاء آیت کریمہ
وَہَذِہِ الْآیَۃُ وَإِنْ کَانَتْ نَزَلَتْ فِی أَعْرَابٍ فَہِیَ عَامَّۃٌ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فِیمَنْ لَہُ أَعْمَالٌ صَالِحَۃٌ وَسَیِّئَۃٌ، فَہِیَ تُرْجَی ذَکَرَ الطَّبَرِیُّ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِی زَیْنَبَ قَالَ:سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ یَقُولُ: مَا فِی الْقُرْآنِ آیَۃٌ أَرْجَی عِنْدِی لِہَذِہِ الْأُمَّۃِ مِنْ قَوْلِہِ تَعَالَی:وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَیِّئاً۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اگرچہ اعراب کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یوم قیامت تک ہراس آدمی کے حق میں عام ہے جس کے اعمال صالحہ بھی ہوں اورسئیہ بھی ۔ پس یہ آیت کریمہ امیددلاتی ہے ۔امام طبری رحمہ اللہ تعالی نے حجاج بن ابی زینب رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیاہے کہ انہوںنے فرمایاکہ میںنے حضرت سیدناابوعثمان رحمہ اللہ تعالی کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ میرے نزدیک اس امت کے لئے قرآن کریم میں اس آیت کریمہ {وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَیِّئاً}سے بڑھ کرزیادہ امیدافزاء کوئی آیت نہیں ہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۴۳)
آیت کریمہ کے متعلق حدیث شریف
حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاء ٍ حَدَّثَنَا سَمُرَۃُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنَا أَتَانِی اللَّیْلَۃَ آتِیَانِ فَابْتَعَثَانِی فَانْتَہَیْنَا إِلَی مَدِینَۃٍ مَبْنِیَّۃٍ بِلَبِنِ ذَہَبٍ وَلَبِنِ فِضَّۃٍ فَتَلَقَّانَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِہِمْ کَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاء ٍ وَشَطْرٌ کَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاء ٍ قَالَا لَہُمْ اذْہَبُوا فَقَعُوا فِی ذَلِکَ النَّہْرِ فَوَقَعُوا فِیہِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَیْنَا قَدْ ذَہَبَ ذَلِکَ السُّوء ُ عَنْہُمْ فَصَارُوا فِی أَحْسَنِ صُورَۃٍ قَالَا لِی ہَذِہِ جَنَّۃُ عَدْنٍ وَہَذَاکَ مَنْزِلُکَ قَالَا أَمَّا الْقَوْمُ الَّذِینَ کَانُوا شَطْرٌ مِنْہُمْ حَسَنٌ وَشَطْرٌ مِنْہُمْ قَبِیحٌ فَإِنَّہُمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا تَجَاوَزَ اللَّہُ عَنْہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہم سے فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک ایسے شہر کی طرف لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن انتہائی خوبصورت کہ تو نے ایسا حسن کبھی نہ دیکھا ہو گا اور آدھا بدن نہایت بدصورت جو تو نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان دونوں نے ان سے کہا:جاؤ اور اس نہر میں غوطہ لگاؤ۔ وہ نہر میں گھس گئے۔ پھر جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور وہ انتہائی خوبصورت ہو گئے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا:یہ’’جنت عدن‘‘ہے اور آپ ﷺکا مکان یہیں ہے اور جن لوگوں کو ابھی آپ ﷺنے دیکھا تھا کہ ان کا آدھا جسم انتہائی خوبصورت تھا اور آدھا نہایت بدصورت تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے برے ملے جلے عمل کیے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں معاف کر دیا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۶۹)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعائیں امت کے لئے باعث سکون اوراطمینان ہیں
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی دعادِلوں کے لئے سکون کاباعث ہے
عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاہُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِہِمْ قَالَ اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ فُلَانٍ فَأَتَاہُ أَبِی بِصَدَقَتِہِ فَقَالَ اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِی أَوْفَی۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عادت کریمہ تھی کہ جب کوئی آپﷺ کے پاس صدقہ لاتا تو آپ ﷺاس کے لیے یوں دعا کرتے:اے اللہ!فلاں پر مہربانی فرما۔چنانچہ میرے والد گرامی آپ ﷺکے پاس صدقہ لے کر آئے تو آپﷺ نے دعا فرمائی:اے اللہ!ابو اوفیٰ کی آل اولاد پر مہربانی فرما۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۲:۱۲۹)
ایک صحابیہ رضی اللہ عنہاکے لئے دعافرمانا
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلِّ عَلَیَّ وَعَلَی زَوْجِی فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہانے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں عرض کی: میرے اور میرے شوہر کے لیے دعائے رحمت فر مادیجئے تو حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اللہ تعالی تجھ پر اور تیرے شوہر پر اپنی رحمتیں (اور برکتیں )نازل فرمائے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر (۲:۸۸)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعادِلوں کیلئے سکون کاباعث ہے
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسْتَعِینُہُ فِی دَیْنٍ کَانَ عَلَی أَبِی، قَالَ:انْصَرِفْ وَأَنَا آتِیکُمْ فَأَتَانَا وَقَدْ قُلْتُ لِلْمَرْأَۃِ: لَا تُکَلِّمِینَ رَسُولَ اللَّہِ، وَلَا تُؤْذِینَہُ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتِ الْمَرْأَۃُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ صَلِّ عَلَیَّ، وَعَلَی زَوْجِی، فَقَالَ:صَلَّی اللَّہُ عَلَیْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے قرض کے سلسلے میں حضورتاجدارختم نبوتﷺسے مددحاصل کرنے کے لئے بارگاہ ختم نبوت میں حاضرہوااورآپﷺنے فرمایاکہ تم چلے جائو، میں خود تمھارے گھرآتاہوں ،میں نے گھرآکر اپنی بیوی کو کہاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے کسی کے بارے میں کوئی بات نہ کرنااورآپﷺکوتکلیف نہ دینا تواس نے کہاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺہمارے گھرسے تشریف لے جائیں گے اورہم آپﷺسے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کریں گے، پھراس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میرے شوہرکے لئے دعافرمائیں !توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اللہ تعالی تجھ پراورتیرے خاوندپررحمت فرمائے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۲:۲۵۴)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعاسے امت کو نفع
وَأَقُولُ: إِنَّ رُوحَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَتْ رُوحًا قَوِیَّۃً مُشْرِقَۃً صَافِیَۃً بَاہِرَۃً، فَإِذَا دَعَا مُحَمَّدٌ لَہُمْ وَذَکَرَہُمْ بِالْخَیْرِ فَاضَتْ آثَارٌ مِنْ قُوَّتِہِ الرُّوحَانِیَّۃِ عَلَی أَرْوَاحِہِمْ، فَأَشْرَقَتْ بِہَذَا السَّبَبِ أَرْوَاحُہُمْ وَصَفَتْ أَسْرَارَہُمْ، وَانْتَقَلُوا مِنَ الظُّلْمَۃِ إِلَی النُّورِ، وَمِنَ الْجُسْمَانِیَّۃِ إِلَی الرُّوحَانِیَّۃِ،
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بندہ کے نزدیک معاملہ یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی روح مبارکہ مقدس، قوی،غالب ، منوراورروشن ہے ،جب حضورتاجدارختم نبوتﷺان کے لئے دعاکریں گے،ان کاخیرکے ساتھ ذکرکریں گے توآپﷺکی روحانی قوت کے آثارکاان کی ارواح پرفیضان جاری ہوگا، اس سبب سے ان کی ارواح اسرارسے موصوف ہوجائیں گی ، ظلمت سے روشنی کی طرف اورجسمانیت سے روحانیت کی طرف منتقل ہوجائیں گی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۱۳۶)
حضرت قاضی ثناء اللہ حنفی رحمہ اللہ تعالی کا ایمان افروز کلام
قلت ارباب القلوب الصافیہ اذاصدرمن احدہم مصیبۃ تغشی ظلماتہاقلبہ فیحصل لہ حالۃ کمایحصل الخفقان بصعود الاتجرۃ من المعدۃ الی القلب فاذاستغفرلہ رسول اللہ ﷺوغفراللہ تعالی لہ زال تلک الظلمات وحصلت لہ طمانیۃ وسکون ومن ہہناقال اللہ تعالی الابذکراللہ تمئن القلوب ۔
ترجمہ:قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ پاک اورصاف دل رکھنے والوں سے اگرگناہ ہوجائے توگناہ کی ظلمت ان کے دل پرچھاجاتی ہے اوراندرکچھ کچھ تاریکی محسوس ہونے لگتی ہے ،لیکن جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺان کے لئے دعائے مغفرت کردیتے ہیں اوراللہ تعالی بھی ان کو معاف فرمادیتاہے تودل کی تاریکی اورگھٹن دورہوجاتی ہے ۔ یادل کے اندرگناہ کی تاریکی اورگھٹن ایسی ہوتی ہے جیسے معدہ سے بخارات چڑھنے اوراطراف قلب میں جمع ہوکردل پردبائوڈالنے سے خفقان پیداہوجاتاہے اورجب بخارات کادبائومعدہ کی اصلاح سے ختم ہوجاتاہے توخفقان بھی جاتارہتاہے ، یہی حالت گناہ سے پیداہونے والی تاریکی کی وجہ سے دل کی بے چینی کی ہوتی ہے اورمغفرت کی وجہ سے ان کازوال ہوکرسکون واطمینان پیداہوجاتاہے ۔ سچ فرمایااللہ تعالی نے کہ اللہ تعالی کی یادسے دِلوں کوسکون ملتاہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۲۸۸)
علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعاامت کے حق میں ، حاکم اسلام کی دعارعایاکے حق میں مشائخ اوردینی اساتذہ کی دعاان کے طلبہ کے حق میں ، عالم کی دعاان سے پڑھنے والوں کے حق میں، بڑوں کی دعائیں چھوٹوں کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعائیں آج بھی امت کے قلوب کی تسکین کاباعث ہیں
عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْمُزَنِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: حَیَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ تُحَدِّثُونَ وَیُحَدَّثُ لَکُمْ وَوَفَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ أَعْمَالُکُمْ فَمَا کَانَ مِنْ حَسَنٍ حَمِدْتُ اللَّہَ عَلَیْہِ , وَمَا کَانَ مِنْ سَیِّئٍ اسْتَغْفَرْتُ اللَّہَ لَکُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدنابکربن عبداللہ المزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: میرایہاںدنیامیں رہنابھی تمھارے لئے نفع مندہے اورمیرایہاں سے رخصت ہونابھی تمھارے لئے خیرہی خیرہے ، مجھ پرتمھارے اعمال پیش کئے جاتے رہیں گے ، پس اگرتمھارے اعمال اچھے ہوئے تومیں ان پراللہ تعالی کاشکرکرتارہوں گااوراس پراللہ تعالی کی حمدکرتارہوں گااوراگراعمال اس کے علاوہ ہوئے توتمھارے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں بخشش کی دعائیں کرتارہوں گا۔
(مسند الحارث:أبو محمد الحارث بن محمد بن داہر التمیمی المعروف بابن أبی أسامۃ (۲:۸۸۴)
امیرپرلازم ہے کہ صدقہ لانے والے کودعادے
فَیَجِبُ الِاقْتِدَاء ُ برسول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالتَّأَسِّی بِہِ، لِأَنَّہُ کَانَ یَمْتَثِلُ قَوْلَہُ:وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلاتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ أَیْ إِذَا دَعَوْتَ لَہُمْ حِینَ یَأْتُونَ بِصَدَقَاتِہِمْ سَکَّنَ ذَلِکَ قُلُوبَہُمْ وَفَرِحُوا بِہِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص صدقہ لے کرآئے توامیرپرواجب ہے کہ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اقتداء کرتے ہوئے صدقہ لانے والے کو دعادے اوراس کوتسلی دے اوراسی طرح صدقہ لانے والے کی دلجوئی کرناواجب ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلاتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ }کی مثل بنتاہے یعنی جب آپﷺان کے لئے دعاکریں گے جس وقت وہ اپنے صدقات لیکرآئیں گے تواس سے ان کے دلوں کو سکون حاصل ہوگااوروہ اس دعاکی وجہ سے خوش ہوجائیں گے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۲۴۳)
امیرپردعادیناکب واجب ہے اورکب مستحب؟
وَاخْتَلَفُوا فِی وُجُوبِ الدُّعَاء ِ عَلَی الْإِمَامِ عِنْدَ أَخْذِ الصَّدَقَۃِ:قَالَ بَعْضُہُمْ: یَجِبُ وَقَالَ بَعْضُہُمْ: یُسْتَحَبُّ. وَقَالَ بَعْضُہُمْ: یَجِبُ فِی صَدَقَۃِ الْفَرْضِ وَیَسْتَحِبُّ فِی صَدَقَۃِ التَّطَوُّعِ وَقِیلَ:یَجِبُ عَلَی الْإِمَامِ، وَیُسْتَحَبُّ لِلْفَقِیرِ أَنْ یَدْعُوَ لِلْمُعْطِی۔
ترجمہ :امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی: ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ صدقہ کامال لیتے وقت کیاامیرپرواجب ہے کہ صدقہ دینے والے کے لئے دعاکرے ؟ بعض علماء کرام کے نزدیک واجب ہے ، بعض کے نزدیک مستحب ہے ، بعض کے نزدیک واجب زکوۃ وصول کرتے وقت تودعادینی واجب ہے اورنفلی صدقہ کے وصول کرتے وقت دعادینامستحب ہے ، اوربعض کاقول یہ ہے کہ امیرپرواجب ہے مگرفقیراگرمالدارآدمی سے زکوۃ لے تودینے والے کو دعادینامستحب ہے ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی(۴:۹۱)