اپنی زکوۃ اورصدقات مجاہدین اسلام پرخرچ کرو
{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآء ِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ }(۶۰)
ترجمہ کنزالایمان:زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھوڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور مسکین اور جو زکوۃ جمع کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اورغلام آزادکروانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ تعالی کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ تعالی کا اور اللہ تعالی علم و حکمت والا ہے۔
غازی چاہے مالدارہوزکوۃ لے سکتاہے
قَوْلُہُ تَعَالَی:وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ قَالَ الْمُفَسِّرُونَ: یَعْنِی الْغُزَاۃَ. قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ:یَجُوزُ لَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْ مَالِ الزَّکَاۃِ وَإِنْ کَانَ غَنِیًّا وَہُوَ مَذْہَبُ مَالِکٍ وَإِسْحَاقَ وَأَبِی عُبَیْدٍ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {وَفِی سَبِیلِ اللَّہ}سے مراد مفسرین کرام کے نزدیک غازی ہیں جواعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہادکرتے ہیں ، امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غازی کو مال زکوۃ دیاجاسکتاہے اگرچہ وہ مالدارہواوریہی مذہب ہے امام مالک، امام اسحاق ، اورابوعبیدرضی اللہ عنہم کا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۷۵)
امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ ای فقراء الغزاۃ عند ابی یوسفوَہُوَ مُنْقَطِعُ الْغُزَاۃِ)أَیْ الَّذِینَ عَجَزُوا عَنْ اللُّحُوقِ بِجَیْشِ الْإِسْلَامِ لِفَقْرِہِمْ بِہَلَاکِ النَّفَقَۃِ أَوْ الدَّابَّۃِ أَوْ غَیْرِہِمَا فَتَحِلُّ لَہُمْ الصَّدَقَۃُ وَإِنْ کَانُوا کَاسِبِینَ إذًا الْکَسْبُ یُقْعِدُہُمْ عَنْ الْجِہَادِ۔
ترجمہ :{وَفِی سَبِیلِ اللَّہ}میں امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک اس سے فقراء غازی مراد ہیں ، یعنی وہ لوگ جو جہاد میں جاناچاہتے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے نہیں جاسکتے یاخرچ کی کمی کی وجہ سے یاسواری نہ ہونے کی وجہ سے یاکسی اوروجہ سے ، ایسے غازیوں کو زکوۃ دی جاسکتی ہے اگرچہ وہ مال کماسکتے ہوں ، اگرہم انہیں زکوۃ نہیں دیں گے اوروہ کمائی میں مصروف ہوجائیں گے توجہاد میں شریک نہیں ہوسکیں گے ۔
(رد المحتار علی الدر المختار:ابن عابدین، محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی (۲:۳۴۳)
فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے
وسبیل وان عم کل طاعۃ الا انہ خص بالغزو إذا اطلق۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ لفظ سبیل اگرچہ عام ہے کہ ہرطاعت الہی کو شامل ہے لیکن اب خاص اس عبادت کوکہاجائے گاجس کاتعلق جہاد کے ساتھ ہو، جب مطلقاًمستعمل ہوگاتواس سے مراد جہاد ہی ہوگا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی ,المولی أبو الفداء (۳:۴۵۴)
امام ابن القاسم المالکی رحمہ اللہ تعالی کاقول
عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ أَنَّہُ قَال:یُعْطَی مِنَ الزَّکَاۃِ الْغَازِی وَإِنْ کَانَ مَعَہُ فِی غَزَاتِہِ مَا یَکْفِیہِ مِنْ مَالِہِ وَہُوَ غَنِیٌّ فِی بَلَدِہِ. وَہَذَا ہُوَ الصَّحِیحُ۔
ترجمہ :امام ابن القاسم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ زکوۃ سے مجاہد کو بھی دیاجائے گااگرچہ جنگ کے دوران اس کے پاس اتنامال ہوجواس کو کفایت کرے اورچاہے وہ گھرمیں غنی ہو۔ اوریہی صحیح ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۸۷)
امام مالک رضی اللہ عنہ کانظریہ
وَرَوَی ابْنُ وَہْبٍ عَنْ مَالِکٍ أَنَّہُ یُعْطَی مِنْہَا الْغُزَاۃُ وَمَوَاضِعُ الرِّبَاطِ فُقَرَاء َ کَانُوا أَوْ أَغْنِیَاء َ۔
ترجمہ :آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مال زکوۃ سے مجاہدین اورگھوڑے باندھنے کی جگہوں اورسرحدکے قریب حفاظت کی چھائونیوں کے لئے دیاجائے گاچاہے وہ فقیرہوں یامالدار۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۸۷)
امام البغوی رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَلِلْغَازِی عَلَی قَدْرِ نَفَقَتِہِ لِلذَّہَابِ وَالرُّجُوعِ وَالْمَقَامِ فِی مَغْزَاہُ وَمَا یَحْتَاجُ إِلَیْہِ مِنَ الْفَرَسِ وَالسِّلَاحِ، وَلِابْنِ السَّبِیلِ عَلَی قَدْرِ إِتْیَانِہِ مَقْصِدَہُ أَوْ مَآلَہُ.
ترجمہ :امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی: ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ غازی کو بھی مال زکوۃ میںسے دیاجائے گاجبکہ وہ جہاد کے لئے نکلنے کاارادہ کریں اورجہاد میں جن جن چیزوں کی ضرورت ہووہ بھی دی جائیں گی جیسے سفرخرچ ، کپڑے ، ہتھیار، سواری ، اگرچہ یہ سب مجاہدین مال دارہوں ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۶۶)
دینی علوم کے طلبہ پراپنی زکوۃ خرچ کریں اوردہرااجرپائیں
زکوۃ کے مصارف پرغورکریں تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ زکوۃ کے بنیادی طورپردومقصدہیں، ایک مقصدفقراء کی حاجات کو پوراکرنااوردوسرامقصدغلبہ دین اوراعلائے کلمۃ اللہ ۔ فقراء ومساکین ، ابن السبیل ، غارمین اورعاملین وغیرہ پہلے مقصدکو پوراکرتے ہیں جبکہ مولفۃ القلوب اورفی سبیل اللہ سے دوسرے مقصدکی تکمیل ہوتی ہے ۔جیساکہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ فی سبیل اللہ سے مرادجمہورمفسرین کے ہاں مجاہد فی سبیل اللہ ہے تویہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جتنے غازیان اسلام جنہوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کو قتل کیایاصحابہ کرام یااہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کو قتل کیااورپھراب وہ جیلوں میں مقیدہیں اوران کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ، جیلوں میں ان کو ان کی ضروریات کی چیزیں مہیاکرنااوران کے گھروالوں کی دیکھ بھال کرنابھی ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ جوکام انہوںنے کیاہے وہ ہم سب پرفرض تھااورانہوںنے اس فرض کو اداکرکے ہمیں بھی بری الذمہ کیاتواب ان کی ضروریات چاہے زکوۃ کی مدسے پوری کی جائیں یادوسرے صدقات وغیرہ کی مدات سے یہ سب کے سب فی سبیل اللہ تعالی کے تحت آتے ہیں۔
فقہاء متاخرین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ دینی علوم کے طلبہ بھی مجاہدین ہیں ، بلکہ مذہب مالکیہ کے فقہاء کرام توببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ مالداردینی طلبہ کو بھی زکوۃ لیناجائز ہے اوراس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ بھی مجاہد فی سبیل اللہ ہیں۔اورہمارے بعض احناف فقہاء کرام نے بھی یہی بیان کیاہے کہ طالب علم دین چاہے امیرہواس کے لئے زکوۃ لیناجائز ہے ۔
آج اگرہم اپنے اردگردلوگوں کارویہ اس حوالے سے دیکھیں توبڑے واضح طورپرنظرآتاہے کہ لوگ اپناپیسہ دینی طلبہ پرخرچ ہی نہیں کرتے اورزکوۃ وغیرہ جتنی مدات ہیں سب کی سب اٹھاکرایسے لوگوں کے ہاتھ دے دیتے ہیں جن کو اس کے مصارف تک معلوم نہیں ہوتے۔
امام ابن نجیم الحنفی المتوفی : ۹۷۰ھ)رحمہ اللہ تعالی کاقول
أَنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ یَجُوزُ لَہُ أَنْ یَأْخُذَ الزَّکَاۃَ، وَإِنْ کَانَ غَنِیًّا إذَا فَرَّغَ نَفْسَہُ لِإِفَادَۃِ الْعِلْمِ وَاسْتِفَادَتِہِ لِکَوْنِہِ عَاجِزًا عَنْ الْکَسْبِ۔
ترجمہ :الامام زین الدین بن إبراہیم بن محمد، المعروف بابن نجیم المصری الحنفی المتوفی : ۹۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ طالب علم کے لئے زکوۃ لیناجائز ہے اگرچہ مالدارہی کیوں نہ ہو، جب کہ اس نے اپنے آپ کو علم پڑھنے اورعلم پڑھانے کے لئے فارغ کرلیاہوکیونکہ ایساشخص کمانے سے عاجز ہوتاہے ۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق:زین الدین بن إبراہیم بن محمد، المعروف بابن نجیم المصری (۲:۲۶۰)
امام ابن عابدین الحنفی المتوفی : ۱۲۵۲ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
یَجُوزُ دَفْعُ الزَّکَاۃِ لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنْ کَانَ لَہُ نَفَقَۃُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً .(قَوْلُہُ: مِنْ أَنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ)أَیْ الشَّرْعِی۔وَالْمَعْنَی أَنَّ الْإِنْسَانَ یَحْتَاجُ إلَی أَشْیَاء َ لَا غِنًی عَنْہَا فَحِینَئِذٍ إذَا لَمْ یَجُزْ لَہُ قَبُولٌ لِلزَّکَاۃِ مَعَ عَدَمِ اکْتِسَابِہِ أَنْفَقَ مَا عِنْدَہُ وَمَکَثَ مُحْتَاجًا فَیَنْقَطِعُ عَنْ الْإِفَادَۃِ وَالِاسْتِفَادَۃِ فَیَضْعُفُ الدِّینُ لِعَدَمِ مَنْ یَتَحَمَّلُہُ
ترجمہ :امام محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی المتوفی : ۱۲۵۲ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ دین کے طالب علم کو زکوۃ لیناجائز ہے چاہے اس کے پاس چالیس سال کاخرچہ موجود ہو، مصنف کے قول طالب علم سے مراد دینی علوم کاطالب علم ہے ۔
اس کامطلب یہ ہے کہ انسان اشیاء کامحتاج ہوتاہے اوروہ ان ضروریات سے لاتعلق نہیں ہوسکتا، جب اس کے لئے زکوۃ قبول کرنابھی جائز نہ ہواوروہ کماتابھی نہ ہوتوجوکچھ اس کے پاس ہوگاوہ خرچ کرلے گااورپھرمحتاج ہوجائے گا، پس علم کے پڑھنے اورپڑھانے سے لاتعلق ہوجائے گاتوجب کوئی ذمہ داری نہیں اٹھائے گاتونتیجۃ دین کمزورہوجائے گا۔
(رد المحتار علی الدر المختار:ابن عابدین، محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی (۲:۳۴۰)
الامام الصاوی المالکی رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں
مذہب مالک ان طلبۃ العلم المنہمکین فیہ لھم الاخذمن الزکوۃ ولوغنیاًاذانقطع حقہم من بیت المال لانھم مجاہدون۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ کامذہب یہ ہے کہ وہ طالب علم دین جودین کاعلم پڑھنے میں ایسے مصروف ہوں کہ کمانہ سکتے ہوں ان کے لئے زکوۃ لیناجائز ہے اگرچہ وہ خود مالدارہوں، بشرطیکہ بیت المال بھی ان کو کچھ نہ دیتاہو، اس لئے کہ وہ بھی مجاہدفی سبیل اللہ ہیں۔
(حاشیہ صاوی علی تفسیرالجلالین لامام احمدالصاوی المالکی ( ۲: ۱۵۴)
یہ بھی ذہن میں رہے کہ دینی تعلیم میں لگے ہوئے طالب علم پر اگر زکوۃ خرچ کی جائے تو دہرا اجر ہوگا ، زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی اور دین کی حفاظت و اشاعت کا اجر بھی ہوگا اس کے علاوہ بھی اگرکسی اورکو زکوۃ دی تواداہوجائے گی لیکن دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنا زیادہ باعث اجر و ثواب ہے ۔
زکوۃ عالم کودیں یاجاہل کو؟
والتصدق علی الفقیر العالم أفضل من الجاہل.
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کسی فقیرعالم کوصدقہ وزکوۃ دیناجاہل شخص کو دینے سے افضل ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی ,المولی أبو الفداء (۳:۴۵۴)
معارف ومسائل
قرآن کریم میں زکوۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے، احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوۃ دینے سے ادائیگی ہو جائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر۔ اب ان آٹھ مصارف کی ضروری وضاحت و تفصیل و تشریح بیان کی جاتی ہے۔
پہلا اور دوسرا مصرف :فقراء و مساکین
فقیر اور مسکین دونوں ہی اپنی مالی ضروریات کے لئے زکوۃ کا پہلا اور دوسرا مصرف ہیں، فقیر، مسکین دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں۔ دونوں کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ مسکین، فقیر سے بڑھ کر خستہ حال ہوتا ہے۔ فقیر تنگ دست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا۔ مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں۔
تیسرا مصرف :والعاملین علیہا
وہ لوگ جو حکومت کی طرف سے زکوۃ و عشر جمع کرنے پر مامور ہوں، ان سب کو زکوۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی۔ خواہ امیر ہوں خواہ غریب۔عامل جو زکوۃ لینے کا مستحق ہے، وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوۃ کی حیثیت سے، دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی اگرچہ وہ غنی و امیر ہو، اس پر امت کا اجماع ہے۔ اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کے لئے جائز نہ ہوتا۔
اما اخذ ظلمۃ زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجزیات والمصادرات فالاصح انہ یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیہم.
ترجمہ :رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کا زکوۃ و عشر، خراج، جزیہ اور محصولات لینا، تو صحیح تر یہی ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پرصدقہ کی نیت کرلیں تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے۔(فتاوی عالمگیری (۱:۱۹۰)
گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لئے بغیر سب ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اسی لئے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔
اموال ظاہرہ و اموال باطنہ
مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی، غلہ، مال تجارت وغیرہ اس کی زکوۃ حکومت وصول کرتی ہے۔ دوسرا، باطنی یا پوشیدہ مال، جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے۔
فی زمانہ چونکہ زکوۃ و عشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصولوں کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی۔ نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے، نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں۔ اس لئے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوۃ مناسب مصرف میں خود صرف کرتے ہیں، یہ بالکل جائز ہے۔ حالانکہ زکوۃ امراء سے لے کر فقراء پر صرف کرنے کے لئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب و مسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو۔
چوتھا مصرف :مولفہ القلوب
زکوۃ و عشر کا چوتھا مصرف مولفہ قلوب ہیں۔ یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے۔ تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے تو ان کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہوگا اور بالآخر وہ اسلام میں داخل ہو سکیں گے۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو وقتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوۃ سے دیکر ان کو اسلام کا مطیع و فرمانبردار یا کم از کم بے ضرر دشمن بنا لیا جائے۔ ایسے لوگوں کو مال زکوۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺ مولفہ قلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا۔ حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیئے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے۔
بعض ائمہ کرام (جیسے احناف)کا موقف یہ ہے کہ مولفہ قلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہیں کیا، پس معلوم ہوا کہ ا س مصرف کے سقوط پر اجماع صحابہ ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے لہذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے۔
بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہذا یہ مصرف بحال رہا۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہو گئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی۔ پس حکم جاتا رہا۔
ہمارے نزدیک تالیف قلب کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں تھی آج بھی ضرورت ہے کہ اس فنڈ سے غریبوں کی مدد کرکے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے۔ غریبوں اور دین پر ڈگمگاتے ہوئے لوگوں پر خرچ کرکے ان کو مخالفین اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے، نو مسلموں کی مالی اعانت کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دے کر اسلام پر کار بند کیا جائے۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کرکے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے۔ غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتیں اور ان کو مرتد کرتی ہیں، اسلام بھی ان پر مال خرچ کرکے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ عام مالدار مسلمانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ غیر مسلموں کو صرف وعظ و تلقین ہی نہ کریں بلکہ زکوۃ فنڈ سے ان کی مالی مدد کریں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اس با ت پر ہوا تھا کہ اس دور میں مولفہ قلوب کو کچھ دینے کی ضررت نہ رہی تھی۔ آج بھی ضرورت نہ ہو تو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مولفہ قلوب کا مصرف پیدا کریں۔ لیکن ضرورت ہو تو پھر آپ اس مد میں زکوۃ صرف کر سکتے ہیں۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوۃ صرف کریں اور اگر کوئی مد نہ ہو تو چھوڑ دیں۔ بیت المال میں مال جمع کرا دیں۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں، بلکہ علت نہ ہونے سے حکم ختم ہو گیا۔ جیسے تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم۔ حکم علت کے ساتھ رہا، ہمیشہ کے لئے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ۔ ۔ ۔ یہی معاملہ ہے مولفہ قلوب کا جہاں، جب ضرورت ہو صرف کریں اور ضرورت نہ ہو تو مت کریں۔
پانچواں مصرف :وفی الرقاب
گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا۔ کمزور، نادار اور پسماندہ انسانوں کو طاقت ور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی۔ جو مالک اپنے غلاموں، لونڈیوں کو بلامعاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے، ان کو مالی معاوضہ دے کر آزادی دلائی گئی۔ اسی طرح جو غلام مطلوبہ رقم ادا کر کے آزادی سے ہمکنار ہو سکتا ہے تو وہ رقم مال زکوۃ سے دی جاسکتی ہے۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم و غاصب و کافر سے آزادی کی جنگ لڑنے والے ہیں، اپنی آزادی اور اپنی آئندہ نسلوں کی آزادی و بقاء کی جنگ لڑنے والے ہیں، وہ محکوم مسلمان بھی مالی تعاون کے مستحق اور اس مصرف میں شامل ہیں۔
چھٹا مصرف :الغارمین
والغارمین اور قرض داروں کو یعنی مال زکوۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جاسکتے ہیں۔
ساتواں مصرف :وفی سبیل اللہ
اور اللہ کے راستے میں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے مراد فی سبیل اللہ جہادکرنے والے مجاہدین لئے ہیں۔ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں۔ امام کاسانی حنفی نے فرمایا :
وفی سبیل اللہ عبارۃ عن جمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعی فی طاعۃ اللہ و سبیل الخیرات اذا کان محتاجا.
ترجمہ :فی سبیل اللہ سے مراد تمام نیکی کے کام ہیں، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے۔ جب کہ (زکوۃ کا)حاجت مند ہو۔
(بدائع الصنائع لامام الکاسانی الحنفی ( ۲: ۴۵)
بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں۔ ان پر زکوۃ صرف کی جا سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب و سنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی۔ لہذا مجاہدین سے اگر عام معنی مراد لیا جائے تو وہ لوگ جو دین اسلام کی سربلندی کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جدوجہد فوجی میدان میں ہو، خواہ تعلیمی میدان میں خواہ تبلیغی و تربیتی میدان میں۔ جہاد کا مفہوم قتال و غزی سے عام ہے۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں، اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کئے جاسکتے ہیں۔
آٹھواں مصرف :مسافر
زکوۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے، خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہوجائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی۔
المراد الذی انقطعت بہ الاسباب فی سفرہ عن بلدہ ومستقرہ ومالہ فانہ یعطی منہا وان کان غنیا فی بلد..
ترجمہ :اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل و اسباب، گھر، ٹھکانہ اور مال دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس کو مال زکوۃ سے دیا جائے گا۔ اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۱۹)
ایک ضروری مسئلہ
زکوۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوۃ کا مالک بنا دیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہو جائے۔ اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوۃ کی ادائیگی کے لئے یہ شرط ہے۔