حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کے سبب خوارج کاوجودمیں آنا
{وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ}(۵۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ا ن میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور منافقین میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں بھی تم پراعتراض کرتا ہے تو اگر اِنہیں اُن (صدقات)میں سے کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر اِنہیں اُن میں سے کچھ نہ دیا جائے تو اس وقت ناراض ہوجاتے ہیں۔
شان نزول
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ بَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ جَاء َ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ ذِی الْخُوَیْصِرَۃِ التَّمِیمِیُّ فَقَالَ اعْدِلْ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَالَ وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَہُ قَالَ دَعْہُ فَإِنَّ لَہُ أَصْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہُ مَعَ صَلَاتِہِ وَصِیَامَہُ مَعَ صِیَامِہِ یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ یُنْظَرُ فِی قُذَذِہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْء ٌ ثُمَّ یُنْظَرُ فِی نَصْلِہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْء ٌ ثُمَّ یُنْظَرُ فِی رِصَافِہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْء ٌ ثُمَّ یُنْظَرُ فِی نَضِیِّہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْء ٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آیَتُہُمْ رَجُلٌ إِحْدَی یَدَیْہِ أَوْ قَالَ ثَدْیَیْہِ مِثْلُ ثَدْیِ الْمَرْأَۃِ أَوْ قَالَ مِثْلُ الْبَضْعَۃِ تَدَرْدَرُ یَخْرُجُونَ عَلَی حِینِ فُرْقَۃٍ مِنْ النَّاسِ قَالَ أَبُو سَعِیدٍ أَشْہَدُ سَمِعْتُ مِنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَشْہَدُ أَنَّ عَلِیًّا قَتَلَہُمْ وَأَنَا مَعَہُ جِیء َ بِالرَّجُلِ عَلَی النَّعْتِ الَّذِی نَعَتَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فَنَزَلَتْ فِیہِ وَمِنْہُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ
ترجمہ :حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:حضورتاجدارختم نبوتﷺایک دفعہ مال تقسیم کررہے تھے کہ عبداللہ بن ذی خویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا:یارسول اللہ ﷺ!آپ ﷺانصاف کریں۔ آپﷺ نے فرمایا:تیری ہلاکت ہو!اگر میں نے انصاف نہ کیا تو اور کون کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپﷺ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑادوں۔ آپ ﷺنے فرمایا:نہیں، اسے چھوڑ دو۔ اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم ان کی نمازاورروزے کے مقابلے میں اپنی نماز اور روزے کو حقیر خیال کرو گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے تیر کو دیکھا جائے تو اس پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ اس کے پھل کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اس کے پیکان کو دیکھا جائے تو وہاں کا دھبا نہیں ہوتا۔ اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی نشان نہیں ہوتا، حالانکہ وہ شکار کی غلاظت اور خون سے گزر کر گیا ہے۔ ان کی نشانی ایک آدمی ہوگا جس کا ایک ہاتھ یا چھاتی عورت کی چھاتی کی طرح یا گوشت کے ٹکڑے کی طرح حرکت کرتا ہوگا۔ یہ لوگ مسلمانوں میں پھوٹ کے وقت پیدا ہوں گے۔ حضرت سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے خودحضورتاجدارختم نبوتﷺسے یہ حدیث سنی ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے(علاقہ نہروان میں)ان سے جنگ کی تھی اور میں اس جنگ میں آپ کے ہمراہ تھا جبکہ ان لوگوں کے ایک آدمی کو لایا گیا تو اس میں وہ تمام چیزیں تھیں جو حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بیان فرمائی تھیں۔ (راوی نے بیان کیا کہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺپر اس نے اعتراض کیا تو)اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:ان میں سے وہ شخص بھی ہے جو آپ ﷺپر تقسیم صدقات کے متعلق حرف گیری کرتا ہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۱۷)
شان نزول کے متعلق دوسراقول
وَأخرج ابْن مرْدَوَیْہ عَن ابْن مَسْعُود قَالَ: لما قسم النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم غَنَائِم حنین سَمِعت رجلا یَقُول: إِن ہَذِہ قسْمَۃ مَا أُرِید بہَا وَجہ اللہ فَأتیت النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم فَذکرت لَہُ ذَلِک فَقَالَ رَحْمَۃ اللہ علی مُوسَی قد أؤذی بِأَکْثَرَ من ہَذَا فَصَبر وَنزل (وَمِنْہُم من یَلْمِزک فِی الصَّدقَات)
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے غزوہ حنین کامال غنیمت تقسیم کیاتومیں نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا، بے شک یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ تعالی کی رضاکاقصدنہیں کیاگیا، سومیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااوراس کے بارے میں آپ ﷺکواطلاع دی توآپ ﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالی حضرت سیدناموسی علیہ السلام پررحم فرمائے کہ انہیں اس سے زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبرکیااوراللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۴:۱۲۰)
منافقین کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیاں کرنا
وَصَفَ اللَّہُ قَوْمًا مِنَ الْمُنَافِقِینَ بِأَنَّہُمْ عَابُوا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی تَفْرِیقِ الصَّدَقَاتِ، وَزَعَمُوا أَنَّہُمْ فُقَرَاء ُ لِیُعْطِیَہُمْ.
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں منافقین کاوصف بیان کیاکہ انہوںنے تقسیم صدقات کے معاملے میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات اقدس پر عیب لگایاتھااورانہوںنے یہ گمان کیاکہ وہ بھی فقراء ہیں اوران کو بھی صدقات دیئے جائیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۶۶)
منافقین حضورتاجدارختم نبوتﷺکی غیبت کرتے تھے
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:یَلْمِزُکَ یَغْتَابُکَ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ وہ لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی غیبت کرتے تھے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۷۵)
اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جوشخص حضورتاجدارختم نبوتﷺکے خلاف کوئی بھی بات سنے اس کو اس پر جلال آناچاہئے جیساکہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سناتوحضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں عرض کی۔
اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ گستاخی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات اقدس پر اعتراض کرناایسا قبیح جرم ہے کہ اسی کی نحوست کی وجہ سے خوارج کاظہورہوااوریہ ایسی لعنت ہے کہ انسان پھرقرآن کریم کی تلاوت بھی کرتارہے تواس کو قرآن کریم کی تلاوت کاکوئی نفع نہیں ہوتا۔ اوراس کی نمازیں بھی خالصتاًرائیگاں جاتی ہیں۔
اوریہی وجہ ہے کہ آج لبرل وسیکولرطبقہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ہرہرفرمان شریف پراعتراض کرنے کے سبب دین کی برکات سے محروم ہوچکاہے اورکفراوردنیاپرستی کو ہی اصل کمال جانتاہے اوراسی میں دن رات مگن ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ دُنْیَوی نفع پر حضورتاجدار ختم نبوتﷺسے راضی ہو جانا اور نفع نہ ہونے کی صورت میں ناراض ہو جانا منافق کی خاص علامت ہے، ایسا آدمی نبی کریمﷺپر ایمان نہیں لایا بلکہ اپنے نفس پر ایمان لایا ہے۔ اخلاص نہ ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب تک فائدہ ملتا رہے تب تک راضی، خوش ہیں اور جب فائدہ ملنا بند ہوجائے تو برائیاں بیان کرنا شروع کردی جائیں۔ آج بھی کسی آدمی کے دوسرے کے ساتھ مخلص ہونے کا یہی پیمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے فائدہ حاصل کرتے وقت تو خوش اور راضی ہو اور تعریفیں کرے اور فائدہ ختم ہوجانے پر سلام لینا گوارا نہ کرے تو یہ مخلص نہ ہونے کی علامت ہے اور افسوس کہ فی زمانہ اسی طرح کی صورتِ حال ہے۔ (تفسیرصراط الجنان( ۴:۱۵۶)
دین حق کے معاملے میں ہمارے بزرگان دین کی غیرت
جوسلف کے خلاف رائے دے اس پر پیشاب کردو!
عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ، قَالَ:قَالَ الشَّعْبِیُّ:مَا حَدَّثُوکَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخُذْ بِہِ، وَمَا قَالُوا بِرَأْیِہِمْ فَبُلْ عَلَیْہِ۔
ترجمہ :امام ابن ابجررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ امام الشعبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جوبات تجھے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے نقل کریں اسے لے لواورجو چیز وہ اپنی رائے سے بیان کریں اس پر پیشاب کردو!۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۲۵۶)
بدکارعورت کو خنزیرکی مثل قراردیا
عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ:کَانَ یُقَالُ:مَثَلُ الْمَرْأَۃِ السَّیِّئَۃِ الْخُلُقِ کَالسِّقَاء ِ الْوَاہِی فِی الْمَعْطَشَۃِ، وَمَثَلُ الْمَرْأَۃِ الْجَمِیلَۃِ الْفَاجِرَۃِ کمَثَلُ خِنْزِیرٍ فِی عُنُقِہِ طَوْقٌ مِنْ ذَہَبٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہاجاتاتھاکہ بداخلاق عورت کی مثال ایسے ہے جیسے پیاس کی صورت میں پھٹاہوامشکیزہ اورخوبصورت بدکارعورت کی مثال ایسے ہے جیسے خنزیرجس کی گردن میں سونے کی زنجیرہو۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۳۰۲)
اس سے معلوم ہواکہ آجکل جتنی بھی خواتین فلم انڈسٹری سے اوراس طرح کے کاموں سے وابستہ ہیں وہ حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ کے فرمان شریف کے مطابق مثل خنزیرہیں اوران کو خنزیرکہنابھی کوئی گالی نہیں ہے ۔ بلکہ عین حقیقت کابیان ہے ۔
یہودی کو کیاسلام واپس لے لیا
عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ،سَلَّمَ عَلَی یَہُودِیٍّ لَمْ یَعْرِفْہُ، فَأُخْبِرَ، فَرَجَعَ فَقَالَ:رُدَّ عَلَیَّ سَلَامِی ، فَقَالَ:قَدْ فَعَلْت۔
ترجمہـ:حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے ایک یہودی کو سلام کیا، جس کو آپ رضی اللہ عنہ پہچانتے نہ تھے ، پھران کو کسی نے بتایاتووہ ان کے پیچھے گئے اورفرمایاکہ تم میراسلام واپس لوٹائو! اس نے کہاکہ میں نے لوٹادیا۔
(شرح السنۃ:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۱۲:۲۶۹)
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکو اذیت دینے والے خطیب کو تھپڑلگادیا
عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ عَائِشَۃَ، أَرْسَلَتْ إِلَی مَرْوَانَ تَشْکُو السَّائِبَ وَکَانَ قَاصًّا، فَقَالَتْ:وَاللَّہِ مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أُکَلِّمَ خَادِمِی فَنَہَاہُ مَرْوَانُ، فَعَادَ فَشَکَتْہُ أَیْضًا، فَلَقِیَہُ مَرْوَانُ أَیْضًا فَصَکَّہُ، أَوْ قَالَ: لَطَمَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الزہری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے مروان کی طرف سائب کی شکایت کی اوروہ قصہ گوتھے ، فرمایاکہ اس کے خطاب کی وجہ سے میں اپنے خادم سے بات بھی نہیں کرسکتی ۔ مروان نے اسے روک دیااورانہوںنے پھروہیں پر ہی وعظ کیا، توآپ رضی اللہ عنہانے پھراس کی شکایت کی ، مروان جب ان سے ملاتواس نے انکو طمانچہ مارایافرمایاکہ اس کو تھپڑمارا۔
(العلل لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۵:۳۶۹)
خطبہ کے دوران مانگنے والے کوکنکرماردیا
عَنْ أَیُّوبَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، رَأَی سَائِلًا یَسْأَلُ، وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَحَصَبَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے ایک سائل کو دیکھاجو جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران لوگوں سے مانگ رہاتھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو کنکرمارا۔
(المحلی بالآثار:أبو محمد علی بن أحمد بن سعید بن حزم الأندلسی القرطبی الظاہری ۳:۲۷۰)
نماز کی بے ادبی کرنے والے کو دھکامارکرنیچے گرادیا
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: بَیْنَا أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ یُصَلِّی إِذْ جَاء َہُ شَابٌّ یُرِیدُ أَنْ یَمُرَّ قَرِیبًا مِنْ سُتْرَتِہِ، وَأَمِیرُ الْمَدِینَۃِ یَوْمَئِذٍ مَرْوَانُ قَالَ:فَدَفَعَہُ أَبُو سَعِیدٍ حَتَّی صَرَعَہُ قَالَ:فَذَہَبَ الْفَتَی حَتَّی دَخَلَ عَلَی مَرْوَانَ، فَقَالَ:ہَا ہُنَا شَیْخٌ مَجْنُونٌ دَفَعَنِی حَتَّی صَرَعَنِی قَالَ: ہَلْ تَعْرِفُہُ؟ قَالَ:نَعَمْ قَالَ:وَکَانَتِ الْأَنْصَارُ تَدْخُلُ عَلَیْہِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ قَالَ:فَدَخَلَ عَلَیْہِ أَبُو سَعِیدٍ، فَقَالَ مَرْوَانُ لِلْفَتَی:ہَلْ تَعْرِفُہُ؟ قَالَ:نَعَمْ، ہُوَ ہَذَا الشَّیْخُ؟ قَالَ مَرْوَانُ لِلْفَتَی: أَتَعْرِفُ مَنْ ہَذَا؟ قَالَ:لَا قَالَ:ہَذَا صَاحِبُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَرَحَّبَ بِہِ مَرْوَانُ وَأَدْنَاہُ حَتَّی قَعَدَ قَرِیبًا مِنْ مَجْلِسِہِ، فَقَالَ لَہُ:إِنَّ ہَذَا الْفَتَی یَذْکُرُ أَنَّکَ دَفَعْتَہُ حَتَّی صَرَعْتَہُ قَالَ:مَا فَعَلْتُ؟ فَرَدَّہَا عَلَیْہِ، وَہُوَ یَقُولُ:إِنَّمَا دَفَعْتُ شَیْطَانًا قَالَ:ثُمَّ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا أَرَادَ أَحَدٌ أَنْ یَمُرَّ بَیْنَ یَدَیْکَ وَبَیْنَ سُتْرَتِکَ فَرُدَّہُ، فَإِنْ أَبَی فَادْفَعْہُ، فَإِنْ أَبَی فَقَاتِلْہُ فَإِنَّمَا ہُوَ شَیْطَانٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبدالرحمن بن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نماز ادافرمارہے تھے ، اچانک ان کے پاس ایک نوجوان شخص آیاجوآپ رضی اللہ عنہ کے سترہ کے قریب سے گزرناچاہتاتھا، اس وقت مدینہ منورہ کاامیرمروان تھا، حضرت سیدناابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسے ہٹایایہاں تک کہ اس کو نیچے گرادیا، وہ جوان مروان کے پاس چلاگیااورکہنے لگاکہ یہاں وہی پاگل بوڑھاہے ( نعوذباللہ ) اس نے مجھے ہٹایایہاں تک کہ مجھے نیچے گرادیا، اس نے کہاکہ کیاتم اس کو جانتے ہو؟ کہنے لگاکہ ہاں جانتاہوں ۔راوی کہتے ہیں کہ انصارجمعہ کے دن اس کے پاس آیاکرتے تھے ، چنانچہ حضرت سیدناابوسعید رضی اللہ عنہ بھی اس کے پاس تشریف لائے ۔ مروان نے اس نوجوان سے کہاکہ کیاتم ان کو جانتے ہو؟ تواس نے کہاکہ یہ تووہی بوڑھاہے ۔ مروان نے اس نوجوان کوکہاکہ کیاتم جانتے ہوکہ یہ کون ہیں ؟ اس نے کہاکہ نہیں ۔ مروان نے کہاکہ یہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابی رضی اللہ عنہ ہیں ۔پھرمروان نے ان کو خوش آمدیدکہااوراپنے قریب لے آیا، آپ رضی اللہ عنہ اس کے قریب بیٹھ گئے ، مروان نے ان سے عرض کیاکہ یہ جوان کہتاہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے سامنے سے ہٹایایہاں تک کہ اس کو نیچے گرادیا۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے توایسانہیں کیا، پھران کو جواب دیاکہ میںنے توشیطان کو ہٹایاہے اورمیںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے کہ جب کوئی تمھارے اورسترے کے درمیان سے گزرنے کاارادہ کرے تواسے روک دو!اگروہ پھربھی گزرنے لگے تواس کو دھکادے دو!اگرپھربھی انکارکرے اورگزرنے لگے تو اس کے ساتھ لڑوکیونکہ وہ توشیطان ہے ۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۲:۲۰)
مردوں اورعورتوں کے اختلاط پر کوڑے مارے
عَنْ أَبِی سَلَامَۃَ الْحَبِیبِیِّ قَالَ:رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَی حِیَاضًا عَلَیْہَا الرِّجَالُ وَالنِّسَاء ُ یَتَوَضَّئُونَ جَمِیعًا فَضَرَبَہُمْ بِالدِّرَّۃِ، ثُمَّ قَالَ لِصَاحِبِ الْحَوْضِ:اجْعَلْ لِلرِّجَالِ حِیَاضًا، وَلِلنِّسَاء ِ حِیَاضًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسلامہ الحبیبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کو دیکھاوہ حوضوں پرتشریف لائے اوروہاں عورتوں اورمردوںکو اکٹھے وضوکرتے ہوئے دیکھا، توآپ رضی اللہ عنہ نے ان کو کوڑے سے مارا، پھرحوض کے مالک سے فرمایاکہ مردوںکے لئے الگ حوض بنائواورعورتوں کے لئے الگ حوض بنائو۔
(کنز العمال :علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری(۹:۷۵)
یہ ذہن میں رہے کہ وہ اجتماع صرف اورصرف وضوکرنے کے لئے تھا، کسی اوروجہ کے تحت جمع نہیں ہوئے تھے مگرحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کاان کو مارنااس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ مردوں عورتوں کے لئے سوائے ان مقامات کے جو شرع مبارکہ نے مخصوص کئے ہیںجمع ہونامنع ہے ۔ توآجکل یونیورسٹی ، کالج ، ٹرپ پرجاتے ہوئے ماں باپ کااپنی بیٹی کو یونیورسٹی کے لڑکوں اورپروفیسروں کے ساتھ روانہ کرناانتہائی بے حیائی کاکام ہے ۔ اگرحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ آج یہاں تشریف فرماہوتے توان کو کیاسزالگاتے ؟۔
صلیب سے نفرت کی وجہ سے ہاتھ لگنے پروضوفرماتے
عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ، أَوْ غَیْرِہِ، أَنَّ عَلِیًّا، اسْتَتَابَ الْمُسْتَوْرِدَ الْعِجْلِیَّ وَہُوَ یُرِیدُ الصَّلَاۃَ وَقَالَ: إِنِّی أَسْتَعِینُ بِاللَّہِ عَلَیْکَ فَقَالَ: وَأَنَا أَسْتَعِینُ الْمَسِیحَ عَلَیْکَ قَالَ: فَأَہْوَی عَلِیٌّ بِیَدِہِ إِلَی عُنُقِہِ فَإِذَا ہُوَ بِصَلِیبٍ فَقَطَعَہَا، فَلَمَّا دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ قَدَّمَ رَجُلًا وَذَہَبَ، ثُمَّ أَخْبَرَ النَّاسَ أَنَّہُ لَمْ یُحْدِثْ ذَلِکَ بِحَدَثٍ أَحْدَثَہُ لَکِنَّہُ مَسَّ ہَذِہِ الْأَنْجَاسَ فَأَحَبَّ أَنْ یُحْدِثَ مِنْہَا وُضُوء ًا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوعمروالشیبانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے المستوردالعجلی کو توبہ کی ترغیب دی ، آپ رضی اللہ عنہ اس وقت نماز کاارادہ فرمارہے تھے ، فرمایاکہ میں تیرے خلاف اللہ تعالی سے مددمانگتاہوں، اس نے کہامیں مسیح سے تیرے خلاف مددچاہتاہوں ، پھرحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے اپناہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھایا، تووہاں صلیب تھی ، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو کاٹ دیا۔ جب نماز پڑھاناشروع کی توآپ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو آگے کیااورخود چلے گئے اورلوگوںکو بتایاکہ صلیب کوہاتھ لگنے کی وجہ سے وضوٹوٹانہیں تھالیکن جوان نجاستوںکوچھوئے تومجھے پسندہے کہ وہ نیاوضوکرے ۔
(فقہ الامام علی رضی اللہ عنہ لدکتوراحمدمحمدطہ البالیسانی (۱: ۱۲۲)
خلاف شرع لباس پہننے والوں کو یہودیوں کے ساتھ تشبیہ دی
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ قَالَ: رَأَی قَوْمًا سَادِلِینَ فَقَالَ:کَأَنَّہُمُ الْیَہُودُ خَرَجُوَا مِنْ فِہْرِہِمْ قُلْنَا لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ:مَا فِہْرُہُمْ؟ قَالَ:کَنَائِسُہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو کپڑے لٹکائے ہوئے دیکھاتوفرمایاکہ گویاکہ وہ یہودی ہیں ، جواپنے فہرسے نکلے ہیں ، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاکہ فہرکاکیامطلب ہے ؟ آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ یہودیوں کے گرجاگھرکو فہرکہتے ہیں ۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (ا۲:۳۴۴)
مسجد شریف کی بے ادبی کرنے والوںکو مارا
عَنْ نَافِعٍ قَالَ:کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَقُولُ:لَا تُکْثِرُوا اللَّغَطَ یَعْنِی فِی الْمَسْجِدِ قَالَ:فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ ذَاتَ یَوْمٍ فَإِذَا ہُوَ بِرَجُلَیْنِ قَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا فَبَادَرَاہُ فَأَدْرَکَ أَحَدَہُمَا فَضَرَبَہُ وَقَالَ:مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ ثَقِیفٍ قَالَ:إِنَّ مَسْجِدَنَا ہَذَا لَا یُرْفَعُ فِیہِ الصَّوْتُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنانافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد شریف میں زیادہ شورنہ کرو!ایک دن آپ رضی اللہ عنہ مسجد شریف میں داخل ہوئے ، وہاں دوآدمی اونچی آواز میں باتیں کررہے تھے ، انہوںنے جلدی کی ، آپ رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کوپکڑکرمارااورپوچھاکہ توکن میں سے ہے ؟ عرض کیاکہ ثقیف سے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہماری اس مسجد شریف میں بلندآواز نہیں کی جاتی ۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۱:۴۳۷)
اذان کی اجرت لینے والے سے نفرت
عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ قَیْسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ:إِنِّی لَأُحِبُّکَ فِی اللَّہِ، قَالَ لَہُ:وَلَکِنِّی أُبْغِضُکَ فِی اللَّہِ:قَالَ:لِمَ؟ قَالَ: إِنَّکَ تَبْغِی فِی أَذَانِکَ، وَتَأْخُذُ الْأَجْرَ عَلَی کِتَابِ اللَّہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ایک شخص نے حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کو کہاکہ میں اللہ تعالی کی رضاکے لئے آپ سے محبت کرتاہوں ، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو فرمایاکہ میں تم سے اللہ تعالی کے لئے بغض رکھتاہوں ۔ اس نے پوچھاکہ کیوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تواذان کے ذریعے کمائی کرتاہے اوراللہ تعالی کی کتاب پراجرت لیتاہے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری:زین الدین عبد الرحمن بن أحمد بن رجب ثم الدمشقی، الحنبلی (۵:۲۱۸)
خلاف سنت نماز پڑھنے والے کو نماز میں گرادیا
عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی ابْنٍ لَہُ وَہُوَ یُصَلِّی وَرَأْسُہُ مَعْقُوصٌ فَجَبَذَہُ حَتَّی صَرَعَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کے پاس سے گزرے وہ نماز اداکررہاتھا، آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھاکہ اس نے اپنے سرکے بال گوندھ رکھے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو کھینچااوراس کو نیچے گرادیا۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی ۲:۱۸۳)
حکم شرع کی خلاف ورزی کرنے والے کامنہ مٹی سے بھرجائے
عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: لَیْتَ الَّذِی یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فُوہُ تُرَابًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعلقمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ کاش کہ جو شخص امام کے پیچھے قرات کرتاہے اس کامنہ مٹی سے بھرجائے ۔
(شرح معانی الآثار:أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامۃ بن عبد الملک المعروف بالطحاوی (ا:۲۱۹)
کاش کہ حکم شرع کی خلاف ورزی کرنے والے کے منہ میں پتھرہو
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ:وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِی یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِی فِیہِ حَجَرٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش کہ جو شخص امام کے پیچھے قرات کرتاہے اس کے منہ میں پتھرہو۔
(الجوہر النقی علی سنن البیہقی:علاء الدین علی بن عثمان الشہیر بابن الترکمانی (۲:۱۶۹)
جو شخص حکم شرع کی خلاف ورزی کرے؟
عَنْ إِبْرَاہِیمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِی یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فَاہُ تُرَابًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابراہیم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں میں چاہتاہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قرات کرتاہے اس کامنہ مٹی سے بھردیاجائے۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی ۲:۱۳۸)
حکم شرع کی خلاف ورزی کرنے والے کو پاگل قراردیا
عَنْ إِبْرَاہِیمَ، فِی الرَّجُلِ یَقَعُ یَدَاہُ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ، قَالَ إِبْرَاہِیمُ: أَوَیَفْعَلُ ذَلَکَ إِلَّا الْمَجْنُونُ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابراہیم رحمہ اللہ تعالی اس شخص کے متعلق فرماتے ہیں جونماز میں رکوع سے سجدہ کی طرف جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھتاہے ، کہ ایساکام توپاگل ہی کرتاہے ۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی ۲:۱۷۶)
نماز میں اپنے بالوں کی طرف توجہ کرنے والے کے خلاف دعائے جلال
عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلًا یَسْجُدُ وَیَتَّقِی شَعْرَہُ بِیَدِہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اللَّہُمَّ امْحُ شَعْرَہُ قَالَ: فَسَقَطَ شَعْرُہُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنایحیی ابن ابی کثیررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک شخص کو دیکھاوہ سجدہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اپنے بالوں کو بچارہاتھا، آپ ﷺنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کے خلاف دعائے جلال کی اورکہاکہ اے اللہ!اس کے بال مٹادے !چنانچہ اس کے بال گرگئے۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی ۲:۱۷۶)
نماز میں ادھرادھردیکھنے والے کی آنکھیں پھوڑ دی جائیں
عَنْ أَیُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ:کَانَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ یُبْصِرْ کَذَا وَکَذَا یُؤْمَرُ أَنْ یُغْمِضَ عَیْنَیْہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آدمی جب نماز میں اس اس طرح نہ دیکھے توحکم ہے کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دی جائیں ۔
(الأوسط فی السنن والإجماع والاختلاف:أبو بکر محمد بن إبراہیم بن المنذر النیسابوری (۳:۲۷۳)
نماز میںکھیلنے والے کونماز میں ہی مارا
عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ قَالَ:رَآنِی مَسْرُوقٌ وَأَنَا أَعْبَثُ بِالْحَصَی بِیَدِی فِی الصَّلَاۃِ، فَضَرَبَ یَدِی۔
ترجمہ:حضرت سیدناعلی بن اقمررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدنامسروق رضی اللہ عنہ نے دیکھاکہ میں نماز میں اپنے ہاتھ سے کنکریوں کے ساتھ کھیل رہاتھا، انہوںنے میرے ہاتھ پرمارا۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی ۲:۱۶۷)
مکروہ وقت میں نماز پڑھنے والوں کو نماز پڑھتے ہوئے مارا
عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ، أَنَّہُ رَآہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَہُوَ خَلِیفَۃٌ رَکَعَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَکْعَتَیْنِ، فَمَشَی إِلَیْہِ، فَضَرَبَہُ بِالدِّرَّۃِ وَہُوَ یُصَلِّی کَمَا ہُوَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ زَیْدٌ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، فَوَاللَّہِ لَا أَدَعُہُمَا أَبَدًا بَعْدَ أَنْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیہِمَا قَالَ: فَجَلَسَ إِلَیْہِ عُمَرُ، وَقَالَ: یَا زَیْدُ بْنَ خَالِدٍ، لَوْلَا أَنِّی أَخْشَی أَنْ یَتَّخِذَہَا النَّاسُ سُلَّمًا إِلَی الصَّلَاۃِ حَتَّی اللَّیْلِ لَمْ أَضْرِبْ فِیہِمَا۔
ترجمہ :حضر ت سیدنازیدبن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے عصرکے بعد دورکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا، توان کی طرف چل کرآئے اوران کو حالت نماز میں ہی درہ مارا، جب انہوں نے سلام پھیراتوحضرت سیدنازید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے امیرالمومنین !ماریئے!اللہ تعالی کی قسم !میں ان دورکعتوں کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔جب سے میںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوانہیں پڑھتے ہوئے دیکھا، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ان کے پاس بیٹھے اورفرمایا: اے زید بن خالد!اگرمجھے یہ ڈرنہ ہوتاکہ لوگ اسے رات تک نماز پڑھنے کی سیڑھی بنالیں گے تومیں ان کی وجہ سے تم کو نہ مارتا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۸:۲۶۵)
جماعت کھڑی ہونے کے بعد سنت پڑھنے والے کو مارتے تھے
عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ:کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَضْرِبُ عَلَی الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْإِقَامَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسویدبن غفلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ اقامت کے بعد کوئی اورنماز پڑھنے والے کو مارتے تھے ۔
(مرعاۃ المفاتیح :أبو الحسن عبید اللہ بن محمد عبد السلام بن خان محمد بن أمان اللہ(۳:۴۵۰)
غلط مسئلہ بیان کرنے والے پرحملہ کرنا
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شُرَیْکٍ قَالَ:رَأَیْتُ زِرَّ بْنَ حُبَیْشٍ وَقَامَ الْحَجَّاجُ عَلَی الْمِنْبَرِ یَذْکُرُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فَکَأَنَّہُ قَالَ: إِنَّ قَوْمًا یَذْکُرُونَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ، فَجَعَلَ زِرٌّ یُرِیدُ أَنْ یَثِبَ عَلَیْہِ، وَیَحْبِسُہُ النَّاسُ، قَالَ زِرٌّ: ہِیَ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ، فَمَنْ أَدْرَکَہَا فَلْیَغْتَسِلِ، وَلْیُفْطِرْ عَلَی لَبَنٍ، وَلْیَکُنْ فِطْرُہُ بِالسَّحَرِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن شریک رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناذربن حبیش رضی اللہ عنہ کو دیکھااورحجاج منبرپرکھڑاتھا، اس نے لیلۃ القدرکاذکرکیاتوکہنے لگا: لوگ لیلۃ القدرکاذکرکرتے ہیں ۔ حضرت سیدناذررضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ اس پر حملہ کردیں لیکن لوگوں نے ان کو روکے رکھا، پھرحضر ت سیدناذررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ وہ ستائیسویں کی رات ہے ۔ جواسے پالے وہ غسل کرے اوردودھ کے ساتھ روزہ افطارکرے اوراس کاافطارسحری کے وقت تک ہو۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۴:۲۵۳)
بے وقت روزہ رکھنے والے کو مارنا
عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ قَالَ:کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَأُتِیَ بِطَعَامٍ لَہُ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: مَا لَہُ؟ قَالُوا:إِنَّہُ صَائِمٌ قَالَ:وَمَا صَوْمُہُ؟ قَالَ:الدَّہْرَ قَالَ: فَجَعَلَ یَقْرَعُ رَأْسَہُ بِقَنَاۃٍ مَعَہُ، وَیَقُولُ:کُلْ یَا دَہْرُ، کُلْ یَا دَہْرُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوعمرالشیبانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ہم حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کے پاس تھے ، ان کاکھانالایاگیاتولوگوں میں سے ایک شخص الگ ہوگیا، آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھاکہ اس کو کیاہوگیا؟ لوگوںنے عرض کی کہ اس کا روزہ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھاکہ کیساروزہ ہے؟ عرض کی : صوم دہر۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنی لاٹھی سے اس کے سرپرمارنے لگے اورفرمانے لگے : اے دھر!کھائو!اے دھر!کھائو!۔
(مصنف ابی ابی شیبہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۲:۳۲۸)
خلاف شرع مسئلہ بیان کرنے والے کاسرپھوڑدیتا
عَنْ أَیُّوبَ قَالَ:قِیلَ لِابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ: إِنَّ زِیَادًا الْمِنْقَرِیَّ، وَکَانَ قَاصًّا یَقُولُ:إِنَّ أَجْرَ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ مِثْلُ أَجْرِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ، فَقَالَ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ: لَوْ سَمِعْتُہُ یَقُولُ ذَلِکَ وَفِی یَدِی عَصًا لَضَرَبْتُہُ بِہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناایوب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کو بیان کیاگیاکہ زیاد المنقری جو کہ قصہ گوتھانے بیان کیاکہ پندرہویں شعبان کی رات کااجرلیلۃ القدرکے اجرکے برابرہے ، توانہوںنے فرمایاکہ اگرمیں اس کو یہ کہتے ہوئے سنتااوراس وقت میرے ہاتھ میں ڈنڈاہوتاتواس سے اس کاسرپھاڑدیتا۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۴:۳۱۷)
گستاخوں کو جھوٹاکہنے کااجر
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ، أَنَّہُ قَالَ:مَنْ قَالَ کَمَا یَقُولُ الْمُؤَذِّنُ، فَإِذَا قَالَ: أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ قَالَ:وَأَنَا أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، إِنَّ الَّذِینَ یَجْحَدُونَ بِمُحَمَّدٍ کَاذِبُونَ، کَانَ لَہُ مِنَ الْأَجْرِ عِدْلُ مَنْ کَذَّبَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامحمدبن علی (امام باقررضی اللہ عنہ) رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے ویسے ہی کہاجیسے موذن کہتاہے ، پھرجب وہ{اَشْہَدُأَنَّ مُحَمَّدًارَسُولُ اللَّہِ}کہے تویہ کہے کہ {أَنَاأَشْہَدُأَنَّ مُحَمَّدًارَسُولُ اللہ}جولوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکوجھوٹاکہتے ہیں وہ جھوٹے ہیں تواس کے لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دشمنوں کے برابراجرہوگا۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۱:۴۸۰)
حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کاعمل شریف
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، قَالَ: کَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ یُؤَذِّنُ قَالَ کَمَا یَقُولُ، فَإِذَا قَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلا اللَّہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، قَالَ عَلِیٌّ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلا اللَّہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، وَأَنَّ الَّذِینَ جَحَدُوا مُحَمَّدًا ہُمِ الْکَاذِبُونَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ جب حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ موذن کو اذان دیتے ہوئے سنتے تووہی کلمات دہراتے جو موذن کہتااور{اَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًارَسُولُ اللَّہِ}کے جواب میں {اَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًارَسُولُ اللَّہِ}کہنے کے بعد یہ فرماتے جولوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاانکارکرتے ہیں وہ جھوٹے اورکذاب ہیں۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲:۲۷۱)
نیندکے معاملے میں سنت کی خلاف ورزی کرنے پرماراجاتا
عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ قَالَ: رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَضْرِبُ النَّاسَ عَلَی السَّمَرِ بَعْدَہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناخرشہ بن الحررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں نے حضرت سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھاکہ وہ لوگوںکو عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کی وجہ سے مارتے تھے ۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۱:۵۶۱)
خوشبولگانے والی عورت کو کوڑامارنے کے لئے اٹھانا
عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَتِ امْرَأَۃٌ عَلَی عَہْدِہِ مُتَطَیِّبَۃً، فَوَجَدَ رِیحَہَا، فَعَلَاہَا بِالدِّرَّۃِ، ثُمَّ قَالَ:تَخْرُجْنَ مُتَطَیِّبَاتٍ، فَیَجِدُ الرِّجَالُ رِیحَکُنَّ، وَإِنَّمَا قُلُوبُ الرِّجَالِ عِنْدَ أُنُوفِہِمْ، اخْرُجْنَ تَفِلَاتٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدنایحیی بن جعدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کے دورمبارک میں ایک عورت خوشبولگاکرنکلی ، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی خوشبومحسوس کی تواس کی طرف کوڑااٹھایااس کو مارنے کے لئے اورفرمایا: تم خوشبولگاکرنکلتی ہو، پھرمرد تمھاری خوشبوپاتے ہیں اورمردوں کے دل ان کے ناکوں کے پاس ہوتے ہیں ، لھذابغیرخوشبوکے نکلاکرو!۔
(کنز العمال :علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری(۱۶:۶۰۱)
اگرمجھے مل جاتے تومیں خوب سناتا
عَنْ لَیْثٍ، أَنَّ امْرَأَۃً خَرَجَتْ مُتَزَیِّنَۃً أَذِنَ لَہَا زَوْجُہَا، فَأُخْبِرَ بِہَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَطَلَبَہَا فَلَمْ یَقْدِرْ عَلَیْہَا فَقَامَ خَطِیبًا، فَقَالَ: ہَذِہِ الْخَارِجَۃُ، وَہَذَا لَمُرْسِلُہَا لَوْ قَدَرْتُ عَلَیْہِمَا لَشَتَّرْتُ بِہِمَا، ثُمَّ قَالَ: تَخْرُجُ الْمَرْأَۃُ إِلَی أَبِیہَا یَکِیدُ بِنَفْسِہِ وَإِلَی أَخِیہَا یَکِیدُ بِنَفْسِہِ، فَإِذَا خَرَجَتْ فَلْتَلْبَسْ مَعَاوِزَہَا، فَإِذَا رَجَعَتْ فَلْتَأْخُذْ زِینَتَہَا فِی بَیْتِہَا، وَلَتْتَزَیَّنْ لِزَوْجِہَا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: یَعْنِی شَتَّرْتُ سَمَّعْتُ بِہِمَا وَالْمَعَاوِزُ خَلِقُ الثَّیَابِ۔
ترجمہ:حضرت سیدنالیث رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ایک عورت مزین ہوکر نکلی ، اس کے خاوند نے اس کو اجازت دی تھی ، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع دی گئی ، آپ رضی اللہ عنہ اس کو تلاش کرتے رہے لیکن وہ آپ رضی اللہ عنہ کو نہ ملی ، پھرآپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں ارشادفرمایا: یہ نکلنے والی اورجس نے اس کوبھیجاتھااگرمجھے مل جاتے تومیں ا ن کوخوب سناتا، پھرآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ عورت اپنے ماں باپ اوربھائی کی طرف جائے تودھیمی چال چل کرجائے اورجب نکلے تواپنے پرانے کپڑے پہنے ، پھرجب واپس لوٹے تواپنے گھرمیں زینت اختیارکرے ۔ اوراپنے خاوندکے لئے مزین ہو۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ شترت کامعنی یہ ہے کہ میں ان کو خوب اچھی طرح سناتااورمعاوز سے مراد پرانے کپڑے ہیں۔
(الجواہر والدرر فی وصف الفاروق عمرلشیخ ابراہیم :۴۵) مطبوعہ العالمیہ الدورللحضارالعربیہ
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قاتلین کے ساتھ کیسارویہ رکھناچاہئے؟
عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ:جَاء َ رَجُلٌ إِلَی ابْنِ عُمَرَ، فَسَأَلَہُ عَنِ الْمُحْرِمِ قَتَلَ قَمْلَۃً؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:یَسْأَلُنِی أَہْلُ الْعِرَاقِ عَنِ الْقَمْلَۃِ، وَہُمْ قَتَلُوا حُسَیْنَ بْنَ فَاطِمَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکے پاس آیااورکہنے لگاکہ اگرمحرم جوں کو قتل کردے توکیاحکم ہے ؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اہل عراق مجھ سے جوں مارکرمسئلہ پوچھنے کے لئے آگئے لیکن انہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شہزادی حضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہاکے لخت جگرحضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کوشہیدکیاتواس وقت کسی سے نہیں پوچھا۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۴:۴۱۳)
اگرتوغلط فتوی دیتاتوتجھے درے کے ساتھ مارتا
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ:أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الشَّامِ اسْتَفْتَاہُ فِی لَحْمِ صَیْدٍ أَصَابَہُ، وَہُوَ مُحْرِمٌ؟ فَأَمَرَہُ بِأَکْلِہِ قَالَ:فَلَقِیتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُہُ بِمَسْأَلَۃِ الرَّجُلِ، فَقَالَ لَہُ:مَا أَفْتَیْتَہُ؟، قُلْتُ:بِأَکْلِہِ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ لَوْ أَفْتَیْتَہُ بِغَیْرِ ذَلِکَ لَضَرَبْتُکَ بِالدَّرَّۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شام کے رہنے والے ایک شخص نے محرم کے شکارکاگوشت کھانے کے متعلق فتوی پوچھا، توآپ نے اس کے کھانے کاحکم دیا، فرماتے ہیں کہ پھرمیں حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے ملااورانہیں اس آدمی کے سوال کے متعلق بتلایا، توانہوںنے پوچھاکہ تم نے اس کو کیافتوی دیا، میںنے کہاکہ میں نے اس کو کہاہے کہ وہ اس کو کھالے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اس ذات کی قسم !جس کے قبضہ وقدرت میں عمررضی اللہ عنہ کی جان ہے ، اگرتو اس کے علاوہ کوئی اورفتوی دیتاتومیں تم کو درے کے ساتھ مارتا۔
(سنن سعید بن منصور:أبو عثمان سعید بن منصور بن شعبۃ الخراسانی الجوزجانی (۴:۱۶۳۱)
مقام ابراہیم کی گستاخی کرنے پرحاکم وقت کو ڈانٹ دیا
عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ:رَأَیْتُ الْحَجَّاجَ أَرَادَ أَنْ یَضَعَ رِجْلَہُ عَلَی الْمَقَامِ فَیَزْجُرُہُ عَنْ ذَلِکَ ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ، وَیَنْہَاہُ عَنْ ذَلِکَ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامغیرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حجاج بن یوسف کو دیکھاکہ اس نے اپناپائوں مقام ابراہیم شریف پررکھنے کاارادہ کیاتوحضرت سیدنامحمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے اس کو خوب ڈانٹااورایساکرنے سے منع کردیا۔
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی المعروف بابن سعد (۵:۱۱۳)
منی کے درخت کی بے ادبی کرنے والے پرجلال
أَخْبَرَنِی خَالِدُ بْنُ مُضَرِّسٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْحُجَّاجِ قَطَعَ شَجَرًا فِی مَنْزِلِہِ بِمِنًی أَوْ قَالَ شَجَرَۃً قَالَ: فَانْطَلَقْتُ بِہِ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، وَأَخْبَرْتُہُ خَبَرَہُ، فَقَالَ: صَدَقَ، کَانَتْ قَدْ ضَیَّقَتْ عَلَیْنَا مَنَازِلَنَا وَمَسَاکِنَنَا قَالَ: فَتَغَیَّظَ عَلَیْہِ عُمَرُ ثُمَّ مَا. . . إِلَّا دِینَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناخالد بن مضرس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حاجیوں میں سے ایک شخص نے منی میں اپنے ٹھکانے میں ایک درخت کاٹ دیا، فرماتے ہیں کہ میں اسے حضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا، اورانہیں اس کے متعلق بیان کیا، اس نے کہاکہ یہ سچ ہے ، لیکن ہم نے اس درخت کو اس وجہ سے کاٹاہے کہ ہمارے گھراورہمارے ٹھکانے اس کی وجہ سے تنگ تھے ، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ اس پرسخت غصے ہوئے اورکوئی سخت بات بھی ارشادفرمائی۔
(مصنف عبدالرزاق :أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۵:۱۴۲)
بت پر پیشاب کردو!
قَالَ یَا عَبَّاسُ فَادْخُلْ بِنَا عَلَیْہِ فَدَخَلَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِی قُبَّۃٍ مِنْ أَدَمِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَلْفَ الْقُبَّۃِ، فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ عَلَیْہِ الْإِسْلَامَ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: کَیْفَ أَصْنَعُ بِالْعُزَّی؟ فَقَالَ عُمَرُ مِنْ خَلْفِ الْقُبَّۃِ: تَخْرَأُ عَلَیْہَا فَقَالَ: وَأَبِیکَ إِنَّکَ لَفَاحِشٌ، وَإِنِّی لَمْ آتِکَ یَا بْنَ الْخَطَّابِ إِنَّمَا جِئْتُ لِابْنِ عَمِّی، وَإِیَّاہُ أُکَلِّمُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسفیان رضی اللہ عنہ جب اسلام قبول کرنے کے لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں آنے لگے توانہوںنے حضرت سیدناعباس رضی اللہ عنہ کو کہاکہ مجھے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں لے چلو!پھروہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے ، آپ ﷺچمڑہ کے ایک خیمہ میں جلوہ گرتھے اورحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ خیمہ کے پیچھے تھے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺاس پر اسلام پیش کرنے لگے تو ابوسفیان نے کہاکہ میں پھراپنے بت عزی کاکیاکروں گا؟ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے خیمہ کے پیچھے سے فرمایاکہ تم اس پر پیشاب کردو!ابوسفیان نے کہاکہ تیرے باپ کی قسم !توتوہے ہی فحش گو، اے خطاب کے بیٹے !میں تیرے پاس نہیں آیابلکہ میں تواپنے چچازاد کے پاس آیاہوں اورانہیں سے بات کررہاہوں ۔ ۔۔ملخصاً۔
(السیرۃ الحلبیۃ :علی بن إبراہیم بن أحمد الحلبی، أبو الفرج (۳:۱۱۵)
شرابیوں کے گھرکو آگ لگادی
عَنْ صَفِیَّۃَ قَالَتْ:وَجَدَ عُمَرُ فِی بَیْتِ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ خَمْرًا، وَقَدْ کَانَ جَلَدَہُ فِی الْخَمْرِ فَحَرَّقَ بَیْتَہُ، وَقَالَ:مَا اسْمُکُ؟ قَالَ:رُوَیْشِدٌ قَالَ:بَلْ أَنْتَ فُوَیْسِقٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدتناصفیہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے بنوثقیف کے ایک شخص کے گھرمیں شراب دیکھی جبکہ اس کو شراب کی وجہ سے کوڑے لگ چکے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے گھرکوآگ لگاکرجلادیا، پوچھاکہ تمھارانام کیاہے ؟ اس نے کہاکہ رویشد، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ نہیں بلکہ توفویسق ہے یعنی گناہگارہے ۔
(مسند الفاروق:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۵۷)
اُسے کوڑے مارے جائیں
أَن من أقدم علی رِوَایَۃ الْأَحَادِیث الْبَاطِلَۃ یسْتَحق الضَّرْب بالسیاط ویہدد بِمَا ہُوَ أَکثر من ذَلِک ویزجر ویہجر وَلَا یسلم عَلَیْہِ ویغتاب فِی اللہ ویستعدی عَلَیْہِ عِنْد الْحَاکِم وَیحکم عَلَیْہِ بِالْمَنْعِ من رِوَایَۃ ذَلِک وَیشْہد عَلَیْہِ۔
ترجمہ :امام عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی المتوفی : ۹۱۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو شخص جھوٹی روایات بیان کرنے کا اقدام کرتا ہے وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اسے کوڑے ماریں جائیں،اس سے بھی سخت سزا سے اُسے دھمکایا جائے ،اُسے ڈانٹا جائے اور اس کا بائیکاٹ کیا جائے اس کو سلام نہ کہا جائے اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اس کی بُرائی سے دوسروں کو آگاہ کیا جائے ،اُسے حاکمِ وقت کے پاس لے جایا جائے اور حاکم اُسے جھوٹی روایات بیان کرنے سے منع کرے اور اس پر گواہ قائم کرے۔
(تحذیر الخواص من أکاذیب القصاص:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی :۱۰۹)
غور کیجیے جھوٹی روایات کو روایت کرنے والوں کی کتنی عزت ہے حافظ سیوطی رحمہ اللہ کے ہاں ؟ جبکہ ہمارے ہاں من گھڑت روایات بیان کرنے والے خطباء کو پوری عزت و وقار کیساتھ سٹیج پر بُلا کر اوپر سے بھاری رقم دے کر اُسے عزتوں سے نوازا جاتا ہے۔