اسلام اوراہل اسلام کی ترقی سے منافق اورلبرل دونوں لرزاں رہتے ہیں
{اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَیَتَوَلَّوْا وَّہُمْ فَرِحُوْنَ }(۵۰)
ترجمہ کنزالایمان:اگر تمہیں بھلائی پہونچے تو انہیں برا لگے اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہونچے تو کہیں ہم نے اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا اور خوشیاں مناتے پھر جائیں۔
ترجمہ ضیا ء الایمان:اے جماعت صحابہ !اگر تمہیں بھلائی پہنچے تو منافقین کو برالگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو منافقین کہتے ہیں :ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا اور خوشیاں مناتے ہوئے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
آیت کریمہ کا مطلب
قولہ سبحانہ وتعالی: إِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ یعنی إن تصبک یا محمد حسنۃ من نصر وغنیمۃ تحزن المنافقین وَإِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَۃٌ یعنی من ہزیمۃ أو شدۃ یَقُولُوا یعنی المنافقین قَدْ أَخَذْنا أَمْرَنا یعنی أخذنا أمرنا بالجد والحزم فی القعود عن الغزو مِنْ قَبْلُ یعنی من قبل ہذہ المصیبۃ وَیَتَوَلَّوْا وَہُمْ فَرِحُونَ یعنی مسرورین لما نالک من المصیبۃ وسلامتہم منہا۔
ترجمہ :امام علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن الخازن المتوفی:ـ۷۴۱ھ)رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اے حبیب کریمﷺ، اگرآپﷺکوبھلائی پہنچے اورآپﷺ دشمن پر فتح یاب ہوجائیں اور غنیمت آپ ﷺکے ہاتھ آئے تو منافقین غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اگر آپﷺ کو کوئی مصیبت پہنچے اور کسی طرح کی شدت کا سامنا ہو تو منافقین یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چالاکی کے ذریعے جہاد میں نہ جاکر اس مصیبت سے خود کو بچالیا تو گویا ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا پھر مزید ا س بات پر وہ خوشیاں مناتے ہیں کہ ہم جہاد کی مشقت و مصیبت سے محفوظ رہے۔
(لباب التأویل فی معانی التنزیل: علاء الدین علی بن محمد أبو الحسن، المعروف بالخازن (۲:۳۶۹)
منافق اپنے پاگل پن کو احتیاط کانام دیتاہے
اعْلَمْ أَنَّ ہَذَا نَوْعٌ آخَرُ مِنْ کَیْدِ الْمُنَافِقِینَ وَمِنْ خُبْثِ بَوَاطِنِہِمْ، وَالْمَعْنَی:إِنْ تُصِبْکَ فِی بَعْضِ الْغَزَوَاتِ حَسَنَۃٌ سَوَاء ً کَانَ ظَفَرًا، أَوْ کَانَ غَنِیمَۃً، أَوْ کَانَ انْقِیَادًا لِبَعْضِ مُلُوکِ الْأَطْرَافِ، یَسُؤْہُمْ ذَلِکَ، وَإِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَۃٌ مِنْ نَکْبَۃٍ وَشِدَّۃٍ وَمُصِیبَۃٍ وَمَکْرُوہٍ یَفْرَحُوا بِہِ، وَیَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا الَّذِی نَحْنُ مَشْہُورُونَ بِہِ، وَہُوَ الْحَذَرُ وَالتَّیَقُّظُ وَالْعَمَلُ بِالْحَزْمِ، مِنْ قَبْلُ أَیْ قَبْلَ مَا وَقَعَ وَتَوَلَّوْا عَنْ مَقَامِ التَّحَدُّثِ بِذَلِکَ، وَالِاجْتِمَاعِ لَہُ إِلَی أَہَالِیہِمْ، وَہُمْ فَرِحُونَ مَسْرُورُونَ، وَنُقِلَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْحَسَنَۃَ فِی یَوْمِ بَدْرٍ، وَالْمُصِیبَۃَ فِی یَوْمِ أُحُدٍ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ منافقین کے فریب اورخبث باطن کی ایک اورقسم کاذکرہے ، اس کامعنی یہ ہے کہ اگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبعض غزوات میں حسنہ پائوخواہ کامیابی کی صورت میں ہویاوہ غنیمت ہویاکوئی سربراہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمانبرداربن جائے توان منافقین کو برالگتاہے ، اگرتم کو کوئی مصیبت پہنچے مثلا!تکلیف وغیرہ کاآناتویہ خوش ہوتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم نے وہی معاملہ اختیارکیاہے جس میں ہم مشہورہیں اوروہ احتیاط ہے ،بیدارمغزہونااوراس طرح کی تکالیف سے بچناہے ، یعنی اس وقوع سے پہلے وہ پھراس مقام سے اپنے گھروں کی طرف واپس آگئے۔حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ بدرکے دن بھلائی تھی اوراحدکے دن مصیبت ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۶۶)
منافق اورلبرل اسلام کے غلبہ سے ڈرتاہے
وَلِہَذَا لَا یَزَالُونَ فِی ہَمٍّ وَحُزْنٍ وَغَمٍّ لِأَنَّ الْإِسْلَامَ وَأَہْلَہُ لَا یَزَالُ فِی عِزٍّ وَنَصْرٍ وَرِفْعَۃٍ، فَلِہَذَا کُلَّمَا سُرَّ المسلمون ساء ہم ذلک فہم یودون أن لا یُخَالِطُوا الْمُؤْمِنِینَ ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیرالمتوفی :۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ منافقین مسلمانوں کی فتح اورعزت وسربلندی دیکھ کرہمیشہ غم ، پریشانی اورتکلیف میں مبتلاء رہتے ہیں اورمسلمانوں کی ہرہرخوشی ان کے غم کاسبب بنتی ہے ، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اہل اسلام کے ساتھ وہ نہ رہیں۔
(تفسیرا بن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۱۴۳)
اسی طرح جب فیض آباددھرناہواجوکہ ختم نبوت کے دفاع کے لئے تھاتواس وقت پاکستانی تمام لبرل وسیکولرطبقہ چاہے وہ ٹی وی پربیٹھے ہوں یایونیورسٹیوں میں ہوں ان کی خواہش تھی کہ مجاہدین ختم نبوتﷺ کو یکبارگی قتل کردیاجائے مگررب تعالی نے مجاہدین ختم نبوت ﷺکوحضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی کے اخلاص کے سبب فتح وکامیابی عطافرمائی تواس دن ٹی وی پربیٹھے منافقین کارونااورچیخناآسمان تک پہنچ رہاتھااورایسے چیخ رہے تھے کہ ان کی سگی ماں مرگئی ہو۔
اوراسی طرح آج بھی اگرکسی علاقہ میں اسلام کی حکومت قائم ہوجائے اوروہ اسلام کو نافذ کردیںتواس آیت کریمہ کامنظردنیاایک بارپھراپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ کس طرح خودکومسلمان کہلانے والے لبرل وسیکولربعض لوگ رسیاں تڑواکرکافروں کی پناہ میں بھاگتے ہیں اورویسے بھی اپنی بددینی کوتحفظ دینے کے لئے غیرمسلموں کے ممالک میں پناہ لینے والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں ہے حالانکہ وہ نام سے خود کو مسلمان کہلواتے ہیں ۔ اورآج بھی پاکستان میں جتنے بڑے بڑے عہدوںپرفرعون براجمان ہیں جیسے ہی ریٹائرہوتے ہیں یورپی ممالک میں جاکررہتے ہیں ۔اوراگراللہ تعالی کے فضل وکرم سے یہاں اسلام کی حکومت آجائے توپھرتمام کے تمام لبرل یہاں سے رخصت ہوجائیں گے ۔
معارف ومسائل
(۱)اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی مصیبت پر خوش ہونا کافروں کا کام ہے، اسی طرح مسلمانوں کی خوشی پر غم کرنا منافقوں کی نشانی ہے۔ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پریشانی پرخوش ہونابھی کفرہے ۔
(۲) حضورتاجدارختم نبوتﷺکے سارے جہاد اپنی حکومت قائم کرنے اورملک جیتنے کے لئے نہ تھے ،حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حکومت توزمین وآسمان پرپہلے سے ہی قائم ہے اورحوروغلمان ، جن وانس ان کے درکے سلامی ہیں۔ بلکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے جہاد کے دومقصد تھے(۱) ساری دنیاکے کافروں کو ایمان بخشنا(۲) اہل اسلام کو دینی آزادی عطاکرنا۔
(۳) حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ اہل اسلام کے غم کی پرواہ نہ کرنابے غیرتی ہے ، اس پرخوشی مناناقبیح کفرہے ۔ اورتمام مسلمان ایک دوسرے کے غم اورخوشی میں شریک ہیں ۔
(۴) اللہ تعالی کی راہ میں تکلیف پہنچنے سے بچنے کی کوشش کرنامنافقوں کی علامت ہے ، اسے اپنی سیاسی چال یاہتھیارسمجھناقلبی مرض ہے ،اللہ تعالی کی راہ میں تکلیف برداشت کرنافائدہ ہی فائدہ ہے ، جوشخص اللہ تعالی کے راہ میں زیادہ خرچ کرے وہ نفع میں ہے ۔ اورجوکم خرچ کرے وہ نقصان میں ہے ۔
(۵) موجودہ زمانے کی سیاست وہی ہے جسے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے زمانہ مبارکہ میں منافقت کہتے تھے ۔وہ کہتے تھے کہ چال وچالاکی سے اپنے آپ کو بچالینااوردوسرے کوپھنسادینااوراس پرخوش ہونا۔(تفسیرنعیمی ( ۱۰: ۳۳۸)