معمولی کاموں کے پیش نظرغلبہ اسلام کی جدوجہدکوترک کرنامنافقین کاشیوہ ہے
کیونکہ جدبن قیس نے کہاتھاکہ جہاد پرجانے میں میرادینی نقصان ہے کہ میں وہاں جاکرپاکدامن نہیں رہوں گا،اس طرح میرادینی نقصان ہوگالھذامجھے یہاں مدینہ منورہ میں ہی رہنے کی اجازت دے دیں۔
{وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَلَا تَفْتِنِّیْ اَلَا فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ بِالْکٰفِرِیْنَ }(۴۹)
ترجمہ کنزالایمان:اور ان میں کوئی تم سے یوں عرض کرتا ہے کہ مجھے رخصت دیجیے اور فتنہ میں نہ ڈالئے سن لو وہ فتنہ ہی میں پڑے اور بیشک جہنم گھیرے ہوئے ہے کافروں کو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریم ﷺ!ان منافقین میں سے کوئی آپ ﷺکویوں کہتاہے کہ مجھے اجازت دے دیں اورمجھے فتنہ میں نہ ڈالیں۔ سن لو!یہ فتنے ہی میں مبتلاء ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
شان نزول
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْجَدِّ بْنِ قَیْسٍ أَخِی بَنِی سَلِمَۃَ لَمَّا أَرَادَ الْخُرُوجَ إِلَی تَبُوکَ:(یَا جَدُّ، ہَلْ لَکَ فِی جِلَادِ بَنِی الْأَصْفَرِ تَتَّخِذُ مِنْہُمْ سَرَارِیَّ وَوُصَفَاء َ) فَقَالَ الْجَدُّ: قَدْ عَرَفَ قَوْمِی أَنِّی مُغَرَمٌ بِالنِّسَاء ِ، وَإِنِّی أَخْشَی إِنْ رَأَیْتُ بَنِی الْأَصْفَرِ أَلَّا أَصْبِرَ عَنْہُنَّ فَلَا تَفْتِنِّی وَأْذَنْ لِی فِی الْقُعُودِ وَأُعِینُکَ بِمَالِیَ فَأَعْرَضَ عَنْہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:(قَدْ أَذِنْتُ لَکَ) فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃ۔ُ
ترجمہ :حضرت سیدنامحمدبن اسحا ق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے جب غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہونے کاارادہ فرمایاتوبنی سلمہ کے بھائی جدبن قیس کو تبوک جانے کی خود دعوت دی تواس نے کہاکہ یارسول اللہ ﷺ!میری قوم کو پتہ ہے کہ میں عورتوں کادلدادہ ہوں اوربلاشبہ مجھے خوف ہے کہ اگرمیں نے بنی الاصفریعنی رومی عورتوں کو دیکھ لیاتو مجھ سے صبرنہیں ہوگااورمیں وہاں بدکاری میں مبتلاء ہوجائوں گالھذاآپ ﷺمجھے فتنہ میں مبتلاء نہ کریں اورمجھے اجازت دے دیں تاکہ میں یہیں گھرہی بیٹھارہوں، ہاں البتہ میں آپ ﷺکے ساتھ مالی تعاون کردیتاہوں ، توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ا س سے اعراض فرمالیااوراسے فرمایاکہ تیرے لئے اجازت ہے ۔تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۵:۵۲)
جد بن قیس نے ایسی بات کیوں کی ؟
أَیْ لَا تَفْتِنِّی بِصَبَاحَۃِ وُجُوہِہِمْ، وَلَمْ یَکُنْ بِہِ عِلَّۃٌ إِلَّا النِّفَاقَ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ اس نے کہاکہ آپﷺمجھے ان خواتین کے چہروں کی چمک دمک اورخوبصورتی کی وجہ سے فتنہ میںنہ ڈالیں اورجدبن قیس کی اس بات کاسبب سوائے نفاق کے کوئی اورنہیں تھا۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۸:۱۵۹)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بے ادبی کی وجہ سے سرداری چھن گئی
وَلَمَّا نَزَلَتْ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِبَنِی سَلِمَۃَوَکَانَ الْجَدُّ بْنُ قَیْسٍ مِنْہُمْ:(مَنْ سَیِّدُکُمْ یَا بَنِی سَلِمَۃَ)؟ قَالُوا:جَدُّ بْنُ قَیْسٍ، غَیْرَ أَنَّہُ بَخِیلٌ جَبَانٌفَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(وَأَیُّ دَاء ٍ أَدْوَی مِنَ الْبُخْلِ بَلْ سَیِّدُکُمُ الْفَتَی الْأَبْیَضُ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاء ِ بْنِ مَعْرُورٍ۔
ترجمہ :جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے بنی سلمہ کو فرمایا:(اورجدبن قیس بھی انہیںمیںسے تھا) تمھاراسردارکون ہے ؟ توانہوںنے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!ہماراسردارجد بن قیس ہے ۔مگروہ بخیل اوربزدل ہے توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: کون ساعیب بخل سے بڑھ کرقبیح ہے بلکہ تمھاراسردارخوبرونوجوان بشربن براء بن معروررضی اللہ عنہ ہے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۸:۱۵۹)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکے مشن سے ہٹنے والامنافق ہے
(أَلا فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوا) أَیْ فِی الْإِثْمِ وَالْمَعْصِیَۃِ وَقَعُواوَہِیَ النِّفَاقُ وَالتَّخَلُّفُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ :اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ گناہ اورمعصیت اورفتنے میں تو پڑا ہوا ہے، حضورتاجدارختم نبوتﷺ کا ساتھ چھوڑنا ،جہاد سے منہ موڑنا یہ کیا کم فتنہ ہے؟
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۸:۱۵۹)
اس آیت کریمہ کامطلب
وَالْمَعْنَی أَنَّہُمْ یَحْتَرِزُونَ عَنِ الْوُقُوعِ فِی الْفِتْنَۃِ، وَہُمْ فِی الْحَالِ مَا وَقَعُوا إِلَّا فِی الْفِتْنَۃِ، فَإِنَّ أَعْظَمَ أَنْوَاعِ الْفِتْنَۃِ الْکُفْرُ باللَّہ وَرَسُولِہِ، وَالتَّمَرُّدُ عَنْ قَبُولِ التَّکْلِیفِ وَأَیْضًا فَہُمْ یَبْقَوْنَ خَالِفِینَ عَنِ الْمُسْلِمِینَ، خَائِفِینَ مِنْ أَنْ یَفْضَحَہُمُ اللَّہ، وَیُنْزِلَ آیَاتٍ فِی شَرْحِ نِفَاقِہِمْ۔قَالَ أَہْلُ الْمَعَانِی: وَفِیہِ تَنْبِیہٌ عَلَی أَنَّ مَنْ عَصَی اللَّہ لِغَرَضٍ مَا، فَإِنَّہُ تَعَالَی یَبْطُلُ عَلَیْہِ ذَلِکَ الْغَرَضُ، أَلَا تَرَی أَنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا اخْتَارُوا الْقُعُودَ لِئَلَّا یَقَعُوا فِی الْفِتْنَۃِ،فاللَّہ تَعَالَی بَیَّنَ أَنَّہُمْ فِی عَیْنِ الْفِتْنَۃِ وَاقِعُونَ سَاقِطُونَ۔ملتقطاً۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہے کہ وہ فتنہ میں گرنے سے بچ رہے ہیں حالانکہ وہ فی الحال فتنے میں ہی گھرے ہوئے ہیں کیونکہ فتنہ کی سب سے بڑی قسم اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ کفرکرناہے اوران کے حکم شریف سے سرکشی کرناہے ۔ پھرجو لوگ مسلمانوں سے پیچھے رہے ڈرتے تھے کہ اللہ تعالی ان کے نفاق کے متعلق آیت نازل فرمائے گا۔
اہل معانی کہتے ہیں کہ اس میں جو تنبیہ ہے کہ جس نے کسی غرض کے لئے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اللہ تعالی اسی غرض کو اس پر باطل کردے گا(یعنی جو بہانہ انہوںنے بنایااللہ تعالی نے وہی حقیقت میں ان پرمسلط کردیا) کیاتم نہیں دیکھتے کہ انہوںنے جہادسے پیچھے رہنے کو پسندکیا، تاکہ وہ فتنے میں نہ پڑیں ، اللہ تعالی نے انہیں سراپافتنے میں گھرے ہوئے قراردیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۶۵)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی جان سے اپنی جان کو عزیزجانناکفرہے
وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ ائْذَنْ لِی وَلا تَفْتِنِّی الْآیَۃَ، أَیْ إِنْ کَانَ إِنَّمَا یَخْشَی مِنْ نِسَاء ِ بَنِی الْأَصْفَرِ وَلَیْسَ ذَلِکَ بِہِ فَمَا سَقَطَ فِیہِ مِنَ الْفِتْنَۃِ بِتَخَلُّفِہِ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالرَّغْبَۃِ بِنَفْسِہِ عَنْ نَفْسِہِ أَعْظَمُ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیرالمتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یعنی جس فتنے سے بچنے کی جد بن قیس بات کررہاتھا، وہ توابھی ہواہی نہیں تھایعنی رومی عورتوں سے گناہ کافتنہ جبکہ جس فتنے میں وہ گھرچکاتھاوہ بڑافتنہ تھااوروہ تھاحضورتاجدارختم نبوت ﷺسے جہاد میں پیچھے رہ جانااورآپﷺکی جان مبارک سے اپنی جان کو عزیزجاننا۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۱۴۲)
منافق اورلبرل ہمیشہ جہاد کوترک کرنے والااورمال کارسیاہوتاہے
وَقَالَ الْحُکَمَاء ُ الإسلامیون: إِنَّہُمْ کَانُوا مَحْرُومِینَ مِنْ نُورِ مَعْرِفَۃِ اللَّہ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَمَا کَانُوا یَعْتَقِدُونَ لِأَنْفُسِہِمْ کَمَالًا وَسَعَادَۃً سِوَی الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا مِنَ الْمَالِ وَالْجَاہِ، ثُمَّ إِنَّہُمُ اشْتَہَرُوا بَیْنَ النَّاسِ بِالنِّفَاقِ وَالطَّعْنِ فِی الدِّینِ وَقَصْدِ الرَّسُولِ بِکُلِّ سُوء ٍ، وَکَانُوا یُشَاہِدُونَ أَنَّ دَوْلَۃَ الْإِسْلَامِ أَبَدًا فِی التَّرَقِّی وَالِاسْتِعْلَاء ِ وَالتَّزَایُدِ، وَکَانُوا فِی أَشَدِّ الْخَوْفِ عَلَی أَنْفُسِہِمْ، وَأَوْلَادِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ وَالْحَاصِلُ أَنَّہُمْ کَانُوا مَحْرُومِینَ عَنْ کُلِّ السَّعَادَاتِ الرُّوحَانِیَّۃِ، فَکَانُوا فِی أَشَدِّ الْخَوْفِ، بِسَبَبِ الْأَحْوَالِ الْعَاجِلَۃِ، وَالْخَوْفُ الشَّدِیدُ مَعَ الْجَہْلِ الشَّدِیدِ، أَعْظَمُ أَنْوَاعِ الْعُقُوبَاتِ الرُّوحَانِیَّۃِ، فَعَبَّرَ اللَّہ تَعَالَی عَنْ تِلْکَ الْأَحْوَالِ بِقَوْلِہِ: وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَۃٌ بِالْکافِرِینَ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حکماء اسلام کہتے ہیں لوگ اللہ تعالی اورملائکہ ، کتب سماوی اورانبیاء کرام علیہم السلام اورآخرت کی معرفت کے نور سے محروم ہیں ،یہ اپنے لئے دنیااورمال وجاہ کو کمال سعادت جانتے ہیں ، پھریہ لوگوں کے درمیان نفاق ، دین پرطعن اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی گستاخیاں کرنے میں مشہورتھے ، اوریہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ حکومت اسلام ہمیشہ ترقی ، کامیابی اوربلندی کی طرف بڑھ رہی ہے اوران کو اپنی ذات ، مال اوراپنی اولاد پر شدیدخوف ہے ، حاصل یہ کہ یہ منافقین تمام روحانی سعادتوں سے محروم ہیں، اوریہ احوال دنیاکی وجہ سے شدیدخوف میں مبتلاء ہیں، خوف شدیدکے ساتھ جہالت شدیدسب سے بڑاروحانی عذاب ہے ، تواللہ تعالی نے ان کے احوال کو یوں تعبیرکیا{وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَۃٌ بِالْکافِرِینَ}اوربے شک دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۶۵)
غلبہ دین کاکام ترک کرکے مدینہ منورہ بیٹھے رہناکیسا؟
حضرت سیدنامفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں (۱۹۷۰ء/۱۳۸۹ھ) کوحج کرنے کے لئے حاضرہوا، ساڑھے چار ماہ مدینہ منورہ میں حاضری نصیب ہوئی اورتین ماہ دس دن حج سے پہلے اورایک ماہ پانچ دن حج کے بعد ، میراارادہ ہواکہ ایک ماہ مدینہ منورہ میں اورحاضررہوں کیونکہ ہوائی جہاز کاٹکٹ ایک سال کی واپسی کاتھا، چاہاکہ بجائے پندہ اپریل کے ۵ مئی کو جائوں ، یہ دل میں ہی خیال تھاکہ حیدرآباددکن کے ایک صاحب حاجی عبداللہ نے مجھے کہاکہ کیاآپ مدینہ منورہ میں ایک ماہ اوررہناچاہتے ہیں؟ میں نے کہاکہ ہاں ، انہوںنے کہاکہ نہیں اب جائو، کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی مرضی یہ ہے کہ تم گجرات ہی رہواورتفسیرنعیمی لکھو، میں نے کہاکہ بہت اچھا، چنانچہ میں ۱۵اپریل کو پاکستان واپس آگیااورمجھے گجرات میں رہنااس لئے پیاراہے کہ میرے حبیب کریم ﷺاس میں راضی ہیں ، ہاں تمناہے کہ بلاتے رہیں ۔( تفسیرنعیمی ( ۱۰:۳۳۱،۳۳۲)
اس سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئے کہ جولوگ غلبہ دین کاکام ترک کرکے باربارعمرہ کرنے کے لئے ہرماہ روانہ ہوجاتے ہیں ، اوراس سے وہ لوگ بھی سبق حاصل کریں جو اپناپیسہ غلبہ دین کے لئے خرچ کرنے کی بجائے عمرہ کی ٹکٹیں بانٹتے پھرتے ہیں۔ اورایک ایک محفل میں کئی کئی سوعمرہ کی ٹکٹیں بانٹ دی جاتی ہیں۔
اوریہی وجہ ہے کہ حضورامیرالمجاہدین حضرت الشیخ مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی حج وزیارت کے لئے نہیں جاتے ، جب کہاجائے توفرماتے ہیں کہ اگرمجھ سے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے پوچھ لیاکہ تیرے ملک پاکستان میں میری گستاخیاں ہورہی ہیں اورمیرے دین متین کو پامال کیاجارہاہے اورتویہاں آگیاہے؟تومیں کیاجواب دوںگا، اسی شرم کی وجہ سے مجھ سے مدینہ منورہ نہیں جایاجاتا۔
اسی طرح ایک مرتبہ لاہورہی کے ایک مفتی صاحب جو کہ قبلہ امیرالمجاہدین کے شاگردرشیدتھے ، انہوںنے عمرہ کے لئے پیسے جمع کروادیئے تھے اورمحفل کروانے کے لئے حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی سے وقت لینے کے لئے آئے توآپ نے فرمایاکہ آپ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین متین کی کیاخدمت کی ہے جوآپ وہاں جارہے ہیں ؟
معارف ومسائل
(۱) اس سے معلوم ہواکہ گناہ کی اجازت مانگنابھی کفرہے کہ اس میں حرام کوحلال جانناہے ۔ کیونکہ اس وقت ان کے لئے جہاد میں جانافرض اورنہ جاناحرام تھا، اوروہ اس لئے اجازت مانگتے تھے ، کیونکہ اسی آیت میں الکافرین فرمایاگیا۔ دین کامذاق اڑاناکفرہے کیونکہ جدبن قیس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں عورتوں سے فتنہ میں مبتلاء ہونے والی بکواس بطورمذا ق کی تھی۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں جد بن قیس نے یہی کہاتھاکہ مجھے جہاد کی روانگی کاحکم دے کرفتنہ میں مبتلاء نہ کریں ، اسے رب تعالی نے کفرقراردیا۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے سامنے جھوٹ بولنایہ سمجھ کرکہ آپﷺمیرے جھوٹ کو مان لیں گے ، آپﷺپرمیرادائوچل جائے گا، یہ بھی کفرہے ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں یہ عرض کرناکہ آپﷺمجھے حکم دیں یانہ دیں میں نے یہ کام نہیں کرنا، لھذابہترہے کہ آپ ﷺمجھے حکم نہ دیں ، یہ بھی کفرہے ۔ کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاہرہرحکم واجب العمل ہے ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی مرضی کے بغیرمدینہ منورہ میں رہناحرام ہے بلکہ کفرہے ، ایمان حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی رضاکانام ہے ،آپﷺہم سے جہاں رہنے میں راضی ہوں وہاں ہی رہیں۔ کیونکہ منافق کے مدینہ منورہ میں رہنے کو رب تعالی نے کفرقراردیا۔( تفسیرنعیمی ( ۱۰:۳۳۱،۳۳۲)