لبرل منافق ہمہ وقت یہودونصاری اورمشرکین سے مرعوب رہتے ہیںاوراگرجہاد پرجائیں گے بھی سہی توصرف اورصرف مال کی محبت میںجائیں گے
{لَوْکَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّۃُ وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُہْلِکُوْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاللہُ یَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ}(۴۲)
ترجمہ کنزالایمان:اگر کوئی قریب مال یا متوسط سفر ہوتا تو ضرور تمہارے ساتھ جاتے مگر ان پر تو مشقت کا راستہ دور پڑ گیا اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم سے بن پڑتا تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے اپنی جانو ں کو ہلاک کرتے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ بیشک ضرور جھوٹے ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اگر کوئی قریب مال یا متوسط سفر ہوتا تو ضرور تمہارے ساتھ جاتے مگر ان پر تو مشقت کا راستہ دور پڑ گیا اور اب اللہ تعالی کی قسم کھائیں گے کہ ہم سے بن پڑتا تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے اپنی جانو ں کو ہلاک کرتے اور اللہ تعالی جانتا ہے کہ وہ بیشک ضرور جھوٹے ہیں۔
شان نزول
ہَذِہِ الْآیَۃُ نَزَلَتْ فِی الْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ تَخَلَّفُوا عَنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ، وَمَعْنَی الْکَلَامِ أَنَّہُ لَوْ کَانَتِ الْمَنَافِعُ قَرِیبَۃً وَالسَّفَرُ قَرِیبًا لَاتَّبَعُوکَ طَمَعًا مِنْہُمْ فِی الْفَوْزِ بِتِلْکَ الْمَنَافِعِ، وَلَکِنْ طَالَ السَّفَرُ فَکَانُوا کَالْآیِسِینَ مِنَ الْفَوْزِ بِالْغَنِیمَۃِ، بِسَبَبِ أَنَّہُمْ کَانُوا یَسْتَعْظِمُونَ غَزْوَ الرُّومِ، فَلِہَذَا السَّبَبِ تَخَلَّفُواثُمَّ أَخْبَرَ اللَّہُ تَعَالَی أنہ إذا رجع من الجہاد یجدہم یحلفون باللَّہ لو استطعنا لخرجنا معکم إما عند ما یُعَاتِبُہُمْ بِسَبَبِ التَّخَلُّفِ،وَإِمَّا ابْتِدَاء ً عَلَی طَرِیقَۃِ إِقَامَۃِ الْعُذْرِ فِی التَّخَلُّفِ، ثُمَّ بَیَّنَ تَعَالَی أَنَّہُمْ یُہْلِکُونَ أَنْفُسَہُمْ بِسَبَبِ ذَلِکَ الْکَذِبِ وَالنِّفَاقِ وَہَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّ الْأَیْمَانَ الْکَاذِبَۃَ تُوجِبُ الْہَلَاکَ، وَلِہَذَاقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ:الْیَمِینُ الْغَمُوسُ تَدَعُ الدِّیَارَ بَلَاقِعَ ثُمَّ قَالَ:وَاللَّہُ یَعْلَمُ إِنَّہُمْ لَکاذِبُونَ فِی قَوْلِہِمْ مَا کُنَّا نَسْتَطِیعُ الْخُرُوجَ، فَإِنَّہُمْ کَانُوا مُسْتَطِیعِینَ الْخُرُوجَ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جوغزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ، توگفتگوکامعنی یہ ہوگاکہ یہ نفع اگرقریب ہوتا یاسفرقریب ہوتاتویہ منافقین ان منافع سے حصہ لینے کے لئے تمھارے ساتھ جاتے ، لیکن چونکہ سفرلمبااوریہ غنیمت پانے سے مایوس ہیں ، اسی وجہ سے وہ رومیوںسے لڑنابھاری محسو س کرتے ہیں اوراسی وجہ سے وہ جہاد پرنہیں گئے اورپیچھے رہ گئے ۔ پھراللہ تعالی نے یہ اطلاع دی کہ جب تم جہاد سے لوٹوگے تویہ منافقین آپ کو اللہ تعالی کی قسمیں دے کرکہیں گے کہ اگرہم طاقت رکھتے توضرورہم آپ کے ساتھ جہاد پرتبوک جاتے ۔ یہ عتاب کی وجہ سے جوان پران کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہوایاابتداًانہوں نے پیچھے رہ جانے پرعذرپیش کیاتھا۔ پھراللہ تعالی نے بیان کیاکہ انہوںنے اس کذب اورمنافقت کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کیا، یہ اس پردلالت کرتاہے کہ جھوٹاایمان ہلاکت کاسبب ہے ۔
اسی لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: (الْیَمِینُ الْغَمُوسُ تَدَعُ الدِّیَارَ بَلَاقِع)جھوٹی قسمیں ملک کو ہواکے ساتھ بربادی کی دعوت دیتی ہیں۔ پھرفرمایا: اللہ تعالی جانتاہے کہ وہ بے شک ضرورجھوٹے ہیں ۔ وہ اس قول میں جھوٹے ہیں کہ ہم نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے جب کہ وہ نکلنے کی طاقت رکھتے تھے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۵۷)
منافق ہمیشہ یہودونصاری سے مرعوب رہتے ہیں
فَکَانُوا کَالْآیِسِینَ مِنَ الْفَوْزِ بِالْغَنِیمَۃِ، بِسَبَبِ أَنَّہُمْ کَانُوا یَسْتَعْظِمُونَ غَزْوَ الرُّومِ، فَلِہَذَا السَّبَبِ تَخَلَّفُوا.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ منافقین مال غنیمت ملنے سے گویامایوس تھے کیونکہ وہ رومیوں کوبڑی طاقت سمجھتے تھے اوراسی وجہ سے وہ جہاد پر تبوک نہیں گئے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۵۷)
اگرمسجدمیں گوشت ملے توضرورنماز پڑھنے آتے
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدَ نَاسًا فِی بَعْضِ الصَّلَوَاتِ، فَقَالَ: لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنَّ آمُرَ رَجُلًا یُصَلِّی بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ یَتَخَلَّفُونَ عَنْہَا، فَآمُرَ بِہِمْ فَیُحَرِّقُوا عَلَیْہِمْ، بِحُزَمِ الْحَطَبِ بُیُوتَہُمْ، وَلَوْ عَلِمَ أَحَدُہُمْ أَنَّہُ یَجِدُ عَظْمًا سَمِینًا لَشَہِدَہَا یَعْنِی صَلَاۃَ الْعِشَاء ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے کچھ لوگوں کو ایک نماز میں غیر حاضر پایا تو فرمایا :میں نے (یہا ں تک )سوچا کہ کسی آدمی کو لوگوں کی امامت کرانے کا حکم دو ں ، پھر دوسری طرف سے ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز سے پیچھے رہتے ہیں اور ان کے بار ے میں (اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو)حکم دوں کہ لکڑیوں کے گٹھوں سے آگ بھڑکا کر ان کے گھروں کو جلا دیں ۔ ان میں سے اگرکسی کو یقین ہو کہ نماز میں حاضری سے اسے فربہ (گوشت سے بھری ہوئی )ہڈی ملے گی تو وہ اس میں ضرور حاضر ہو جائے گا ۔ آپ ﷺکی مراد عشاء کی نماز سے تھی ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۴۵۱)
معارف ومسائل
(۱)یہ منافقین غزوہ تبوک سے پہلے ہی آپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دین سے روکنے، کفر کی طرف لوٹا دینے اور لوگوں کوآپﷺ کا مخالف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن اُبی سلول منافق نے جنگِ اُحد کے دن کیا کہ مسلمانوں میں اِنتشار پھیلانے کیلئے اپنے گروہ کو لے کر واپس ہوگیا۔
(۲)مسلمانوں کی تاریخ سے واقف شخص پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ابتدائِ اسلام سے لے کر آج تک کفار کسی میدان میں بھی اپنی عددی برتری اور اپنے وقت کے جدید ترین ہتھیاروں کی فراوانی کے بل بوتے پر مسلمانوں پر غالب نہیں آئے بلکہ وہ ظاہری طور پرمسلمان اور باطنی طور پر منافق حضرات کی کوششوں اور کاوشوں کی بدولت مسلمانوں پر غالب ہوئے، ان حضرات نے مال و دولت اور سلطنت و حکومت کی لالچ میں اپنے اسلامی لبادے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کفار کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے راہیں ہموار کیں ، اپنے منافقانہ طرزِ عمل سے مسلمانوں میں سرکشی و بغاوت کا بیج بویا، مسلمانوں کے اہم ترین راز کفار تک پہنچائے اور انہیں مسلمانوں کی کمزوریوں سے آگاہ کیا اور ان کی محنتوں کا نتیجہ آج سب کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
(۳) منافق دین میں طعن کرنے کا مرتکب ہوتا ہے، یعنی اللہ کے احکامات میں تنقید کی رُو سے خرابیاں نکالتا ہے اور دین کے احکامات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
(۴) منافق کو مال، دولت، خاندان وغیرہ اللہ سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں، لہٰذا دین کے کسی بھی معاملے میں قربانی دینے سے ڈرتا ہے اور پیچھے ہٹتا ہے۔
(۵)اپنا مال و دولت دین کے کاموں کی بجائے لوگوں کو دین سے دور لے جانے میں خرچ کرتا ہے۔
(۶) مالِ غنیمت یا دیگر مالِ مفت کے حصول کے لیے ہمیشہ کبیدہ خاطر رہتا ہے، یعنی لالچ و ہوس۔
(۷) وعدہ ہو، قسم ہو یا باقاعدہ معاہدہ، منافق کبھی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔
(۸) جھوٹ بولتا ہے، بولنے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتا، جھوٹ پر قائم بھی نہیں رہتا۔
(۹) مالی بے ضابطگی یا امانت میں خیانت یا کرپشن منافق کے کردار کا لازمی جُزء ہے اوراس کانظارہ تمام سرکاری اداروںمیںکیاجاسکتاہے ۔
(۱۰)بے حد بزدل ہوتا ہے اور اپنے بچائو کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتا ہے، لہٰذا کسی نظریے کا مسلسل ساتھ نہیں دے سکتا، جدھر فائدہ ہو اُسی نظریے یا جماعت کا ساتھی ہوگا، حق کا نہیں۔
(۱۱)منافق چونکہ اللہ اور اس کے رسول کریمﷺ سے مخلص نہیں ہوتے، لہٰذا شرک کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتے اور یہود و نصاریٰ کی طرح انبیاء یا بزرگوں کو غیر انسانی اختیارات کا مالک سمجھتے ہیں، اور بعض اوقات خدائی اوصاف سے بھی منسوب کردیتے ہیں۔
(۱۲)برے کام کا حکم دیتے ہیں اور اچھائی سے منع کرتے ہیں، انتہائی کنجوس ہوتے ہیں۔
(۱۳) اہلِ اقتدار کی چاپلوسی، مومنین کا مذاق اڑاناان کے بہترین مشغلوں میں سے ہے ۔
(۱۴)مومنین کے خلاف سازشوں میں ملوث رہتے ہیں مگر ڈھکے چھپے، یعنی مانتے نہیں کہ سازش کی۔
(۱۵) کتنے ہی ذہین اور کتنے زیادہ تعلیم یافتہ ہوں، اللہ تعالی ان کے دلوں پر ایسے پردے ڈال دیتاہے کہ ان کو اللہ تعالی کی کتاب کے دلائل، احکامات اور حکمتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔
(۱۶)ان کو صرف اسلام سے دشمنی نہیں ہے ہر وہ شخص، چیز یا جگہ جو اسلام کے لیے کسی بھی طورپر فائدہ مند ہو، یا اسلام کے کسی شعار کو اپنانے کا ارادہ رکھتی ہو، اس کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہوجاتے ہیں،جیسے فضیلۃ الشیخ حضرت العلام مولاناامیرالمجاہدین حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی پرظلم وستم کرتے ہوئے ان کوکئی ماہ تک کے لئے جیل میں قیدکرسکتے ہیں اوراہل سنت کو دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں، مگر مودی اور بجرنگ دل کی دہشت گردی کے خلاف ان انسانیت کے ٹھیکیداروںکے منہ سے کچھ نہیں نکلتا۔ مراثیوںکے قتل پر ان کے دلوں سے آہیں نکلنی ختم نہیں ہوتیں مگر ان میں سے کوئی عافیہ صدیقی پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہیں نکالتا۔ اگر سندھ میں کچھ ہندو بچیاں اپنی مرضی سے مسلمان ہوگئیں تو سب کے پیٹ میں درد مگر میانمر، شام، کشمیر، یمن، فلسطین میں ہونے والے مظالم ان لبرلز کی بصارت و سماعت کی حدود سے ماورا ہیں۔
(۱۷)جب اللہ تعالی کے گھر کی سرزمین پر مندر تعمیر ہوسکتا ہے اورپاکستان کے دارالخلافہ اسلام آبادمیں مندرتعمیرہوسکتاہے تولگتا تو یہی ہے کہ آنے والا وقت ان لبرلز کا ہے جو اللہ تعالی کے حبیب کریمﷺ کے کیے گئے ہر کام کوختم کرنا چاہتے ہیں، اور مزے کی بات یہ کہ خود کو اسلام کی شناخت سے جدا بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جو ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ کافروں کی ثقافت ہمارے مسلمان بچوں سے دور رہے اور وہ ایمان پر پختہ رہیں، وہاں ۲۵کروڑ پاکستانیوں کے نمائندے اسمبلیوں میں ہولی اور دیوالی منا رہے ہیں۔ کیا پاکستان اس لیے حاصل کیا گیا تھا؟ کیا حضورتاجدارختم نبوتﷺیاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رواداری کے نام پر کبھی کفارِ مکہ کے ساتھ لات و منات کے مذہبی تہواروں میں شرکت کی؟ یا اپنی زندگیاں لڑا دیں ان بتوں کی بالادستی ختم کرنے میں؟