تفسیرسورۃالتوبہ آیت ۴۱۔اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجٰہِدُوْا بِاَمْوٰلِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ

ہرحال میں جہاد کرنے کاحکم ہے

{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجٰہِدُوْا بِاَمْوٰلِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ }(۴۱)
ترجمہ کنزالایمان:کوچ کرو ہلکی جان سے چاہے بھاری دل سے اور اللہ کی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر جانو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرو۔یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگرتم جانو۔

اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں مفسرین کے دس اقوال

وَفِیہِ عَشَرَۃُ أَقْوَالٍ:الْأَوَّلُ یُذْکَرُ عن ابن عباس فَانْفِرُوا ثُباتٍ (النساء :۱۷):سَرَایَا مُتَفَرِّقِینَ(الثَّانِی (رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَیْضًا وَقَتَادَۃَ: نِشَاطًا وَغَیْرَ نِشَاطٍ(الثَّالِثُ (الْخَفِیفُ: الْغَنِیُّ، وَالثَّقِیلُ: الْفَقِیرُ، قَالَہُ مُجَاہِدٌ(الرَّابِعُ (الْخَفِیفُ:الشَّابُّ، وَالثَّقِیلُ: الشَّیْخُ، قَالَہُ الْحَسَنُ(الْخَامِسُ (مَشَاغِیلُ وَغَیْرَ مَشَاغِیلَ، قَالَہُ زَیْدُ بْنُ عَلِیٍّ وَالْحَکَمُ بن عتبۃ(السَّادِسُ (الثَّقِیلُ:الَّذِی لَہُ عِیَالٌ،وَالْخَفِیفُ:الَّذِی لَا عِیَالَ لَہُ، قَالَہُ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ(السَّابِعُ (الثَّقِیلُ:الَّذِی لَہُ ضَیْعَۃٌ یَکْرَہُ أَنْ یَدَعَہَا، وَالْخَفِیفُ:الَّذِی لَا ضَیْعَۃَ لَہُ، قَالَہُ ابْنُ زَیْدٍ(الثَّامِنُ (الْخِفَافُ:الرِّجَالُ، وَالثِّقَالُ:الْفُرْسَانُ، قَالَہُ الْأَوْزَاعِیُّ(التَّاسِعُ (الْخِفَافُ:الَّذِینَ یَسْبِقُونَ إِلَی الْحَرْبِ کَالطَّلِیعَۃِ وَہُوَ مُقَدَّمُ الْجَیْشِ وَالثِّقَالُ:الْجَیْشُ بأسرہ)الْعَاشِرُ (الْخَفِیفُ:الشُّجَاعُ، وَالثَّقِیلُ: الْجَبَانُ۔
ترجمہ :مفسرین نے خِفَافًا اور ثِقَالًا کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (۱) حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس کامعنی یہ ہے کہ متفرق جماعتوں اوردستوں کی صورتوں میں نکلو۔
(۲) حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااورحضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم جہادکے لے نکلوچست ہویاسست۔(۳) حضرت سیدنامجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خفیف سے مراد امیراورثقیل سے مراد مفلس ہے ۔
(۴)حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خفیف سے مراد جوان ہے اورثقیل سے مراد بوڑھا۔
(۵) حضرت سیدنازیدبن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خفیف سے مراد وہ ہے جو کاروبارمیں لگاہواہے اورثقیل سے مراد وہ ہے جس کاکوئی کاروبارنہ ہو۔
(۶) حضرت سیدنازیدبن اسلم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ثقیل سے مراد وہ ہے جس کے اہل وعیال ہوں اورخفیف سے مراد وہ ہے جوعیال دارنہ ہو۔
(۷)امام ابن زید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ثقیل سے مراد جس کی جائیداداورزمین ہوجسے وہ چھوڑناناپسندکرتاہواورخفیف سے مراد وہ ہے جس کی جائیداداورزمین نہ ہو۔
(۸)امام اوزاعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ خفاف سے مرادپیدل چلنے والے ہیں اورثقال سے مراد گھڑسوارہیں۔
(۹)خفاف سے مراد وہ لوگ ہیں جوجنگ میں آگے بڑھ جاتے ہیں جیسامقدمۃ الجیش وغیرہ اورثقال سے مراد سارے کے سارالشکر۔
(۱۰)خفیف سے مراد شجاع اوربہادرہے اورثقیل سے مراد بزدل ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۵۱)
خلاصہ یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ جب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔

جہاد واجب اورنفلی کی توضیح

وَقَدْ تَکُونُ حَالَۃً یَجِبُ فِیہَا نَفِیرُ الْکُلِّ، وَہِیَ:الرَّابِعَۃُوَذَلِکَ إِذَا تَعَیَّنَ الْجِہَادُ بِغَلَبَۃِ الْعَدُوِّ عَلَی قُطْرٍ مِنَ الْأَقْطَارِ، أَوْ بِحُلُولِہِ بِالْعُقْرِ، فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ وَجَبَ عَلَی جَمِیعِ أَہْلِ تِلْکَ الدَّارِ أَنْ یَنْفِرُوا وَیَخْرُجُوا إِلَیْہِ خِفَافًا وَثِقَالًا، شَبَابًا وَشُیُوخًا، کُلٌّ عَلَی قَدْرِ طَاقَتِہِ، مَنْ کَانَ لَہُ أَبٌ بِغَیْرِ إِذْنِہِ وَمَنْ لَا أَبَ لَہُ، وَلَا یَتَخَلَّفْ أَحَدٌ یَقْدِرُ عَلَی الْخُرُوجِ، مِنْ مُقَاتِلٍ أَوْ مُکَثِّرٍفَإِنْ عَجَزَ أَہْلُ تِلْکَ الْبَلْدَۃِ عَنِ القیام بعدو ہم کان علی من قاربہم وجاور ہم أَنْ یَخْرُجُوا عَلَی حَسَبِ مَا لَزِمَ أَہْلَ تِلْکَ الْبَلْدَۃِ، حَتَّی یَعْلَمُوا أَنَّ فِیہِمْ طَاقَۃً عَلَی الْقِیَامِ بِہِمْ وَمُدَافَعَتِہِمْ وَکَذَلِکَ کُلُّ مَنْ علم بضعفہم عن عدو ہم وَعَلِمَ أَنَّہُ یُدْرِکُہُمْ وَیُمْکِنُہُ غِیَاثُہُمْ لَزِمَہُ أَیْضًا الْخُرُوجُ إِلَیْہِمْ، فَالْمُسْلِمُونَ کُلُّہُمْ یَدٌ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ، حَتَّی إِذَا قَامَ بِدَفْعِ الْعَدُوِّ أَہْلُ النَّاحِیَۃِ الَّتِی نَزَلَ الْعَدُوُّ عَلَیْہَا وَاحْتَلَّ بِہَا سَقَطَ الْفَرْضُ عَنِ الْآخَرِینَ وَلَوْ قَارَبَ الْعَدُوُّدَارَ الْإِسْلَامِ وَلَمْ یَدْخُلُوہَا لَزِمَہُمْ أَیْضًا الْخُرُوجُ إِلَیْہِ، حَتَّی یَظْہَرَ دِینُ اللَّہِ وَتُحْمَی الْبَیْضَۃُ وَتُحْفَظُ الْحَوْزَۃُ وَیُخْزَی الْعَدُوُّوَلَا خِلَافَ فِی ہَذَاوَقِسْمٌ ثَانٍ مِنْ وَاجِبِ الْجِہَادفَرْضٌ أَیْضًا عَلَی الْإِمَامِ إِغْزَاء ُ طَائِفَۃٍ إِلَی الْعَدُوِّ کُلَّ سَنَۃٍ مَرَّۃً یَخْرُجُ مَعَہُمْ بِنَفْسِہِ أَوْ یخرج من یثق بہ لیدعو ہم إلی الإسلام ویرغبہم ، ویکف أذا ہم وَیُظْہِرَ دِینَ اللَّہِ عَلَیْہِمْ حَتَّی یَدْخُلُوا فِی الْإِسْلَامِ أَوْ یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍوَمِنَ الْجِہَادِ أَیْضًا مَا ہُوَ نَافِلَۃٌ وَہُوَ إِخْرَاجُ الْإِمَامِ طَائِفَۃً بَعْدَ طَائِفَۃٍ وَبَعْثُ السَّرَایَا فِی أَوْقَاتِ الْغِرَّۃِ وَعِنْدَ إِمْکَانِ الْفُرْصَۃِ وَالْإِرْصَادِ لَہُمْ بِالرِّبَاطِ فِی مَوْضِعِ الْخَوْفِ وَإِظْہَارِ الْقُوَّۃِ. فَإِنْ قِیلَ: کَیْفَ یَصْنَعُ الْوَاحِدُ إِذَا قَصَّرَ الْجَمِیعُ، وَہِیَ۔

ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورکبھی ایسی حالت پیداہوجاتی ہے کہ اس میں تمام کانکلناواجب ہوجاتاہے اوروہ یہ ہے کہ جب جہاد ملک کے حصص میں سے کسی حصے میں دشمن کے غلبہ پالینے کے سبب یااس کے اپنالشکراتارلینے کے سبب متعین ہوجائے یعنی فرض عین ہوجائے توایسے حالات میں اس ملک کے تمام شہریوں پرواجب ہے کہ وہ اس کی طرف نکلیں ، وہ جہا دکے لئے ضرورنکلیں ہلکے ہوں یابوجھل ، جوان ہوں یابوڑھے ،ہرکوئی اپنی اپنی طاقت کے موافق شریک ہوگا، جس کاباپ ہووہ اس کی اجازت کے بغیرنکلے اوروہ بھی جس کاباپ زندہ نہ ہو، جو بھی جہادکی طاقت رکھتاہے وہ پیچھے نہیں رہے گا، چاہے وہ جنگجوہویاتعدادمیں اضافہ کرنے والا۔ اوراگراس ملک کے رہنے والے اپنے دشمن کامقابلہ کرنے سے عاجز ہوں توپھر جوان کے قریب رہ رہے ہیں، ان کے پڑوس اورجوارمیں واقع ہیں ان پربھی اسی طرح جہاد لازم ہے ۔ جس طرح اس ملک کے اپنے شہریوں پر، یہاں تک کہ وہ جان لیں کہ ان میں دشمن کے سامنے کھڑاہونے اوران کادفاع کرنے کی طاقت آگئی ہے ۔ اوراسی طرح ہراس شخص پر جہاد کے لئے نکلنالازم ہے جسے دشمن کے مقابلے میں ان کی کمزوری کاعلم ہواوروہ یہ جانتاہو کہ وہ دشمنوں کو پالے گا۔ اوران کے لئے ان کی مددکرناممکن ہوگاتواس پر بھی ان کے دفاع میں جہاد کرنالازم ہے ۔ پس مسلمان تمام کے تمام ان کے خلاف ایک دوسرے کے معاون ومددگارہیں ۔ جو ان کے علاوہ ہیں یہاں تک کہ جب اس علاقہ کے لوگ دشمن کو روکنے پر قادرہوگئے ، جہاں دشمن اتراہواتھاتوپھردوسروں سے فرض ساقط ہوجائے گا، اگردشمن دارالاسلام کے قریب آگیااوروہ اس میں داخل نہ ہواتوپھربھی اس کی طرف خروج کرناان پرلازم ہے ۔ یہاںتک کہ اللہ تعالی کادین غالب آجائے ۔ ملک بچالیاجائے ، سرحدیں محفوظ ہوجائیں اوردشمن کو ذلیل ورسواکرلیاجائے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

واجب جہاد میں دوسری قسم یہ ہے کہ حاکم اسلام پریہ بھی فرض ہے کہ وہ ہرسال ایک بارایک لشکردشمن کی طرف بھیجے اوربذات خود ان کے ساتھ نکلے یااسے بھیجے جس پراس کو مکمل یقین اوروثوق ہوتاکہ ان کو اسلام کی طرف دعوت دے اوران کو رغبت دلائے اوران کی اذیتوں کو روکے اوراللہ تعالی کے دین کو ان پرکھول کربیان کرے یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں یاوہ احسان کے بدلے میں جزیہ دینے کے لئے تیارہوجائیں ۔

اورجہاد میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ وہ نفل ہے اوروہ حاکم اسلام کایکے بعددیگرے مختلف لشکرروانہ کرنااورغفلت اوربے خبری کے اوقات میں اورفرصت کے لمحات میں سرایابھیجناہے ۔ ایسی جگہوں میں چھائونیاں بناکران کی تاک میں رہناہے جہاں سے دشمن کے حملے کاخطرہ ہواوراپنی قوت وطاقت کااظہارکرناہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۵۱)

امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت سے واضح ہواکہ جب ساتھ کے کسی علاقہ پرکافرحملہ کردیں تواہل اسلام پرلازم ہوجاتاہے کہ وہ اہل ایمان کادفاع کریں لھذاجب کافروں نے اہل کشمیرپرحملہ کیاتواہل پاکستان پرشرعاً جہاد فرض ہوچکااورانہوںنے جہاد نہ کرکے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اورآخرت کے عذاب کے مستحق ٹھہرے ۔

اگرکسی علاقہ میں صرف ایک ہی مجاہدہوتو؟

فَإِنْ قِیلَ:کَیْفَ یَصْنَعُ الْوَاحِدُ إِذَا قَصَّرَ الْجَمِیعُ، وَہِیَ:الْخَامِسَۃُقِیلَ لَہُ:یَعْمِدُ إِلَی أَسِیرٍ وَاحِدٍ فَیَفْدِیہِ، فَإِنَّہُ إِذَا فَدَی الْوَاحِدَ فَقَدْ أَدَّی فِی الْوَاحِدِ أَکْثَرَ مِمَّا کَانَ یَلْزَمُہُ فِی الْجَمَاعَۃِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں اگرکہاجائے کہ کسی علاقہ میں تمام کے تمام لوگ جہاد سے سستی برت رہے ہوں اوروہاں ایک ہی آدمی ہوجہادکاذہن رکھنے والاتووہ کیاکرے؟ تواس کاجواب یہ ہے کہ وہ ایک قیدی کو آزادکروادے اوروہ اس کافدیہ دے سکتاہے کیونکہ جب اس نے ایک کافدیہ دے دیاتواس نے ایک کے بارے میں اس سے زیادہ ذمہ داری اداکردی جوپوری جماعت پر لازم تھی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۵۱)
جہادکے فوائد لبرل وسیکولرکوسمجھ نہیں آسکتے
وَلِذَلِکَ قَالَ تَعَالَی:إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ لِأَنَّ مَا یَحْصُلُ مِنَ الْخَیْرَاتِ فِی الْآخِرَۃِ عَلَی الْجِہَادِ لَا یُدْرَکُ إِلَّا بِالتَّأَمُّلِ، وَلَا یَعْرِفُہُ إِلَّا الْمُؤْمِنُ الَّذِی عَرَفَ بِالدَّلِیلِ أَنَّ الْقَوْلَ بِالْقِیَامَۃِ حَقٌّ، وَأَنَّ الْقَوْلَ بِالثَّوَابِ وَالْعِقَابِ حق وصدق.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ}’’اگرتم جانتے ہو‘‘اس لئے فرمایاگیاکہ جہاد کے فوائد اوراس میں پوشیدہ خیربغیرغوروفکرکے سمجھ نہیں آتیں ، اس کو توصرف وہی ایمان والاہی سمجھ سکتاہے جو قیامت کو بالکل حق مانتاہواورآخرت کی جزا،سزاکایقین رکھتاہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۵۶)

جہاد کی اقسام

فَالْجِہَادُ أَرْبَعُ مَرَاتِبَ:جِہَادُ النَّفْسِ، وَجِہَادُ الشَّیْطَانِ، وَجِہَادُ الْکُفَّارِ، وَجِہَادُ الْمُنَافِقِینَ.فَجِہَادُ النَّفْسِ أَرْبَعُ مَرَاتِبَ أَیْضًا:إِحْدَاہَا: أَنْ یُجَاہِدَہَا عَلَی تَعَلُّمِ الْہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ الَّذِی لَا فَلَاحَ لَہَا وَلَا سَعَادَۃَ فِی مَعَاشِہَا وَمَعَادِہَا إِلَّا بِہِ، وَمَتَی فَاتَہَا عِلْمُہُ شَقِیَتْ فِی الدَّارَیْنِ.الثَّانِیَۃُ: أَنْ یُجَاہِدَہَا عَلَی الْعَمَلِ بِہِ بَعْدَ عِلْمِہِ، وَإِلَّا فَمُجَرَّدُ الْعِلْمِ بِلَا عَمَلٍ إِنْ لَمْ یَضُرَّہَا لَمْ یَنْفَعْہَاالثَّالِثَۃُ: أَنْ یُجَاہِدَہَا عَلَی الدَّعْوَۃِ إِلَیْہِ، وَتَعْلِیمِہِ مَنْ لَا یَعْلَمُہُ، وَإِلَّا کَانَ مِنَ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ مِنَ الْہُدَی وَالْبَیِّنَاتِ، وَلَا یَنْفَعُہُ عِلْمُہُ، وَلَا یُنْجِیہِ مِنْ عَذَابِ اللَّہِ.الرَّابِعَۃُ: أَنْ یُجَاہِدَہَا عَلَی الصَّبْرِ عَلَی مَشَاقِّ الدَّعْوَۃِ إِلَی اللَّہِ وَأَذَی الْخَلْقِ، وَیَتَحَمَّلُ ذَلِکَ کُلَّہُ لِلَّہِ. فَإِذَا اسْتَکْمَلَ ہَذِہِ الْمَرَاتِبَ الْأَرْبَعَ صَارَ مِنَ الرَّبَّانِیِّینَ، فَإِنَّ السَّلَفَ مُجْمِعُونَ عَلَی أَنَّ الْعَالِمَ لَا یَسْتَحِقُّ أَنْ یُسَمَّی رَبَّانِیًّا حَتَّی یَعْرِفَ الْحَقَّ وَیَعْمَلَ بِہِ وَیُعَلِّمَہُ، فَمَنْ عَلِمَ وَعَمِلَ وَعَلَّمَ فَذَاکَ یُدْعَی عَظِیمًا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ.
ترجمہ :محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ المتوفی : ۷۵۱ھ) رحمہ اللہ تعالی جہاد کے مراتب اور درجات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:جہاد کے چار درجے اور مراتب ہیں:(۱)…نفس کے ساتھ جہاد(۲)…شیطان کے ساتھ جہاد(۳)…کفار کے ساتھ جہاد(۴)…منافقوں کے ساتھ جہاداور نفس کے ساتھ جہاد یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہدایت کا علم حاصل کرنے میں جہاد کیا جائے، اور علم حاصل کرنے کے بعد عمل کیا جائے، اور اس علم کی دوسرے لوگوں کو دعوت بھی دی جائے، اور دعوت و تبلیغ کی مشقت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
شیطان کے ساتھ جہاد یہ ہے کہ:شیطان بندے کے ذہن میں جو ایمان کو ختم کرنے کے سلسلے میں شکوک و شبہات اور شہوات ڈالتا ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے، اور اس کے ساتھ ان فاسد اور غلط ارادوں و شہوات کا مقابلہ کرنے میں جہاد کیا جائے جو وہ انسان کے ذہن میں ڈالتا ہے.اور کفار اور منافقوں کیساتھ دل و زبان اور مال اورنفس کے ذریعہ جہاد کیا جاتا ہے، کفار کے ساتھ ہاتھ کا جہاد زیادہ خاص ہے، اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد زیادہ خاص ہے…وہ کہتے ہیں:سب سے زیادہ کامل اخلاق والا وہ شخص ہے جس نے جہاد کے سارے مراتب اوردرجات مکمل کیے ہوں، اور مخلوق جہاد کے مراتب مختلف ہونے کی بنا پر مرتبہ اور درجات کے اعتبار سے بھی اللہ تعالی کے ہاں مختلف ہیں۔
(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد:محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ (۳:۹)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابحالت معذوری جذبہ جہاد

حضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ کاجذبہ جہاد

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ قَرَأَ سُورَۃَ (بَرَاء َۃٌ)فَأَتَی عَلَی ہَذِہِ الْآیَۃِانْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًافَقَالَ: أَیْ بَنِیَّ جَہِّزُونِی جَہِّزُونِی فَقَالَ بَنُوہُ:یَرْحَمُکَ اللَّہُ! لَقَدْ غَزَوْتَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی مَاتَ وَمَعَ أَبِی بَکْرٍ حتیمَاتَ وَمَعَ عُمَرَ حَتَّی مَاتَ فَنَحْنُ نَغْزُو عَنْکَ قَالَ لَا، جَہِّزُونِی فَغَزَا فِی الْبَحْرِ فَمَاتَ فِی الْبَحْرِ، فَلَمْ یَجِدُوا لَہُ جَزِیرَۃً یَدْفِنُونَہُ فِیہَا إِلَّا بَعْدَ سَبْعَۃِ أَیَّامٍ فَدَفَنُوہُ فِیہَا، وَلَمْ یَتَغَیَّرْ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت سیدناابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سورہ توبہ کی تلاوت فرمائی ،جب اس آیت {اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا} پر پہنچے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا :میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے عرض کی اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ غزوات میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ آپﷺکا وصالِ ظاہری ہو گیا، پھر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی، پھر حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریکِ جہاد رہے حتّٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا ، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد میں شریک ہو جائیں گے۔ حضرت سیدناابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :نہیں ، بس اب تم میرے لئے سامانِ جہاد کی تیاری کرو ۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے سمند ری جہاد میں شرکت کی اور سمند رہی میں آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی۔ سات دن بعد ان کے ساتھیوں کو تدفین کیلئے ایک جزیرہ ملا تو انہوں نے حضرت سیدناابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی تدفین کی۔ ان سات دنوں میں آپ رضی اللہ عنہ کا بدن مبارک سلامت ہی رہا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ ہوئی ۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۵:۴۹)

حضرت سیدنامقدادبن اسودرضی اللہ عنہ کاجذبہ جہا د

وَأَسْنَدَ الطَّبَرِیُّ عَمَّنْ رَأَی الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ بِحِمْصٍ عَلَی تَابُوتِ صَرَّافٍ، وَقَدْ فَضَلَ عَلَی التَّابُوتِ مِنْ سَمِنِہِ وَہُوَ یَتَجَہَّزُ لِلْغَزْوِفَقِیلَ لَہُ: لَقَدْ عَذَرَکَ اللَّہُ فَقَالَ:أَتَتْ عَلَیْنَا سُورَۃُ الْبَعُوثِ انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا۔
ترجمہ :امام الطبری رحمہ اللہ تعالی نے اس آدمی سے سندکے ساتھ بیان کیاہے جس نے حضرت سیدنامقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو حمص میں صراف کے صندوق پردیکھااوروہ اپنے موٹے ہونے کی وجہ سے اس صندوق پربھی بھاری تھے اوروہ جہاد کی تیاری کررہے تھے توآپ رضی اللہ عنہ کو عرض کی کہ تحقیق اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ عنہ کو معذورقراردیاہے توانہوںنے فرمایاسورۃ البعوث نازل ہوچکی ہے اوراس میں رب تعالی یہ فرمان شریف موجودہے کہ تم جہاد کے لئے نکلوچاہے تم آسانی میں ہویاتنگی میں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۵۱)

حضرت سیدناسعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کاجذبہ جہاد

وَقَالَ الزُّہْرِیُّ: خَرَجَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ إِلَی الْغَزْوِ وَقَدْ ذَہَبَتْ إِحْدَی عَیْنَیْہِ فَقِیلَ لَہُ:إِنَّکَ عَلِیلٌفَقَالَ:اسْتَنْفَرَ اللَّہُ الْخَفِیفَ وَالثَّقِیلَ، فَإِنْ لَمْ یُمْکِنِّی الْحَرْبُ کَثَّرْتُ السَّوَادَ وَحَفِظْتُ الْمَتَاعَ.
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن مسیب رضی اللہ عنہ جہاد کے لئے روانہ ہوئے حالانکہ اس وقت ان کی دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہوچکی تھی ، آپ رضی اللہ عنہ کو کہاگیاکہ بلاشبہ آپ رضی اللہ عنہ بیمارہیں۔ توانہوںنے فرمایا: اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ {اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا}(تم جہاد کے لئے نکلوچاہے تم آسانی میں ہویاتنگی میں)پس اگراللہ تعالی نے مجھے لڑنے کی طاقت نہ دی تومیں اہل اسلام کی تعداد میں اضافہ کروں گااورتمھارے سامان کی حفاظت کروں گا۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۲:۳۵۴)

ایک بوڑھے صحابی رضی اللہ عنہ کاجذبہ جہاد

وَرُوِیَ أَنَّ بَعْضَ النَّاسِ رَأَی فِی غَزَوَاتِ الشَّامِ رَجُلًا قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاہُ عَلَی عَیْنَیْہِ مِنَ الْکِبَرِ، فَقَالَ لَہُ:یَا عَمُّ إِنَّ اللَّہَ قَدْ عذرک فقال:یا بن أَخِی، قَدْ أُمِرْنَا بِالنَّفْرِ خِفَافًا وَثِقَالًا۔
ترجمہ :اوریہ روایت بھی ہے کہ بعض لوگوں نے شام میں غزوات میں ایک بوڑھے شخص کو دیکھا، جن کی آنکھوں پرابرو بڑھاپے کی وجہ سے ڈھلک چکے تھے توان سے ایک آدمی نے کہاکہ اے چچاجان!اللہ تعالی نے آپ کومعذورقراردیاہے توانہوںنے جواباًفرمایاکہ اے بھتیجے !تحقیق جہاد کے لئے نکلنے کاحکم دیاگیاہے اس حال میں کہ ہم خفیف(جوان ) ہوں یاثقیل(بوڑھے ) ۔
(أحکام القرآن:أبو محمد عبد المنعم بن عبد الرحیم المعروف بابن الفرس الأندلسی (۳:۱۵۶)

حضرت سیدناا بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کاجذبہ جہاد

وَلَقَدْ قَالَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ واسمہ عمرویوم أُحُدٍ:أَنَا رَجُلٌ أَعْمَی، فَسَلِّمُوا لِی اللِّوَاء َ، فَإِنَّہُ إِذَا انْہَزَمَ حَامِلُ اللِّوَاء ِ انْہَزَمَ الْجَیْشُ، وَأَنَا مَا أَدْرِی مَنْ یَقْصِدُنِی بِسَیْفِہِ فَمَا أبرح۔
ترجمہ :حضرت سیدناا بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے غزوہ احدکے دن کہا( ان کانام عمروتھا) میں نابیناآدمی ہوں توانہوںنے جھنڈامیرے سپردکردیاکیونکہ جب علمبردارشکست کھاجائے توپورالشکرشکست سے دوچارہوجاتاہے اورمیں نہیں جانتاتھاکہ کون اپنی تلوارکے ساتھ میری طرف آرہاہے ، پس میں ڈٹ کرکھڑارہا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۵۱)

ان قربانیوں کی طرف مائل کرنے والے اسباب

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس طرح بحالت معذوری بھی جہاد سے پیچھے نہیں ہٹے اورانہوںنے اپنے عذرشرعی صحیح کو بھی عذرنہیں جانااورجہادکرنے میں مصروف رہے ۔اس موقع پر ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں مزید یہ سوال بیدار ہو کہ آخر ان حضرات کی مذکورہ بیشمار قربانیوں کے پیچھے کون کون سے امور کار فرما تھے ؟۔ کس چیز نے انھیں اس قدر سخت تکالیف کا سامنا کرنے پر مجبور کیا ؟ ۔ معمولی سوچ بچار کے بعد درج ذیل پانچ امور، بیان کردہ سوال کے جواب کے طور پر نظر آتے ہیں۔
(۱)…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دین سے محبت اوردین متین کو ہی اپنامتاع زندگی جانتے تھے ۔
(۲)…اللہ تعالٰی اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اطاعت اور رضا کے حصول کا جذبہ۔
(۳)…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواپنی ذمہ داری کاازحداحساس تھا۔ اس لئے انہوںنے کبھی بھی اپنی مجبوری نہیں دیکھی بلکہ اسلام کی سربلندی کی فکررکھی اوراسی کے لئے کام کرتے رہے اوریہی وجہ ہے کہ ان حضرات قدسیہ نے صرف تیس سالوںمیں اسلام کہاں سے کہاں تک پہنچادیا۔
(۴)…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یوم آخرت اللہ تعالی سے کامیابی پانے کے لئے ہمہ وقت جہاد میں مصروف رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اصل زندگی توہے ہی آخرت کی ۔
(۵)…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آخرت میں اللہ تعالی کے دیدارکی تڑپ مختلف محاذات پرلے جاتی رہی اوریہی وجہ ہے انہوںنے کبھی بڑے سے بڑے سورمائوں سے ٹکرانے سے پس وپیش نہیں کیا۔
یادرہے کہ امت کے لئے اصلی اورقوی ترین محرک اورداعی عمل اجرآخرت ہے ، جیساکہ قرآن کریم کی مختلف آیات کریمہ سے ظاہروروشن ہے ، جدیدروشن خیالی اورلبرل وسیکولرپرافسوس ہے کہ اس قوی ترین محرک اورموثرترین داعی کو سب سے زیادہ کمزورکردیاہے ۔ اب مسلمانوں کو لالچ اورترغیب ہرقسم کی دی جاتی ہے ، دنیوی ترقی کی ، آزادی کی ،دنیاکی فلاح کی ، مالی خوشحالی وغیرہ کی ۔ زبان پرنام نہیں آتاتوصرف اورصرف آخرت کا۔

Leave a Reply