تفسیرسورۃالتوبہ آیت ۳۹۔اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس کی حفاظت نہ کرنے پراللہ تعالی امت کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی غلامی سے محروم کردے گا

{اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْـًا وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ}(۳۹)

ترجمہ کنزالایمان: اگر نہ کوچ کرو گے تو تمہیں سخت سزا دے گا اور تمہاری جگہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکوگے اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اگر تم جہادکے لئے نہیں نکلوگے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اور اللہ تعالی ہرشے پر قدت رکھنے والاہے۔

جہاد میں سستی پراللہ تعالی کابارش روک لینا

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا:اسْتَنْفَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقَوْمَ فَتَثَاقَلُوا، فَأَمْسَکَ اللَّہُ عَنْہُمُ الْمَطَرَ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے لوگوں کو جہاد کے لئے نکلنے کاحکم دیاتولوگوں نے اسے بوجھ محسوس کیاتواللہ تعالی نے ان سے بارش کو روک لیا۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی ابن أبی حاتم (۶:۱۷۹۷)

ترک جہاد کی وجہ سے دشمن غلبہ پالے گا

فَإِنْ صَحَّ ذَلِکَ فَہُوَ أَعْلَمُ مِنْ أَیْنَ قَالَہُ، وَإِلَّا فَالْعَذَابُ الْأَلِیمُ ہُوَ الَّذِی فِی الدُّنْیَا بِاسْتِیلَاء ِ الْعَدُوِّ عَلَی مَنْ لَمْ یَسْتَوْلِ عَلَیْہِ،وَبِالنَّارِ فِی الْآخِرَۃِ۔
ترجمہ :امام القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المعافری الاشبیلی المالکی المتوفی : ۵۴۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگریہ روایت حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے صحیح ہے تووہی زیادہ بہترجانتے ہیں کہ انہوںنے یہ کہاں کہاہے ورنہ جہادترک کرنے والوں پر عذاب الیم دشمن کے غلبہ کے ساتھ ہے اورآخرت میں آگ کے ساتھ ہے ۔
(أحکام القرآن:القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المعافری الاشبیلی المالکی (۲:۱۱۵)

جہاد میں سستی کرنے پردنیاوآخرت کے منافع سے محرومی لکھ دی جائے گی

وَقِیلَ إِنَّہُ تَہْدِیدٌ بِکُلِّ الْأَقْسَامِ، وَہِیَ عَذَابُ الدُّنْیَا وَعَذَابُ الْآخِرَۃِ، وَقَطْعُ مَنَافِعِ الدُّنْیَا وَمَنَافِعِ الْآخِرَۃِ.
ترجمہ :اوربعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ تمام انواع کے ساتھ دھمکی دی گئی ہے کہ جہاد میں سستی کرنے والوں پر دنیاوآخرت کاعذاب نازل ہوگااوریہ دنیاوآخرت کے منافع کو ختم کرناہے ، یعنی جو قوم جہاد میں سستی کرے گی تواللہ تعالی ان کو دنیاوآخرت کے منافع سے محروم کردے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۴۷)

کوئی شخص اسلام کی خدمت کرکے غرورمیں مبتلاء نہ ہو

وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ وَالْمُرَادُ تَنْبِیہُہُمْ عَلَی أَنَّہُ تَعَالَی مُتَکَفِّلٌ بِنَصْرِہِ عَلَی أَعْدَائِہِ، فَإِنْ سَارَعُوا مَعَہُ إِلَی الْخُرُوجِ حَصَلَتِ النُّصْرَۃُ بِہِمْ، وَإِنْ تَخَلَّفُوا وَقَعَتِ النُّصْرَۃُ بِغَیْرِہِمْ، وَحَصَلَ الْعُتْبَی لَہُمْ لِئَلَّا یَتَوَہَّمُوا أَنَّ غَلَبَۃَ أَعْدَاء ِ الدِّینَ وَعِزَّ الْإِسْلَامِ لَا یَحْصُلُ إِلَّا بِہِمْ۔

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی{وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُم}اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ مراد اس پر ان کو تنبیہ کرناہے کہ اللہ تعالی اپنے دشمنوں کے خلاف مددکرنے میں کافی ہے ، اگران لوگوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ نکلنے میں جلدی کی توانہیں مددحاصل ہوجائے گی اوراگریہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ جہاد میں نہ نکلے تومدددوسروں کو حاصل ہوگی اوران کو عتاب حاصل ہوگاتاکہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ اسلام کی عزت صرف انہی کی وجہ سے قائم ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۴۷)

ترک جہا دحرام ہے

وَالتَّثَاقُلُ عَنِ الْجِہَادِ مَعَ إِظْہَارِ الْکَرَاہَۃِ حَرَامٌ عَلَی کُلِّ أَحَدٍفَأَمَّا مِنْ غَیْرِ کَرَاہَۃٍ فَمَنْ عَیَّنَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرُمَ عَلَیْہِ التَّثَاقُلُ وَإِنْ أَمِنَ مِنْہُمَا فَالْفَرْضُ فَرْضُ کِفَایَۃٍ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورجہاد سے بوجھل ہوکربیٹھ جاناناپسندیدگی کااظہارکرتے ہوئے ہر ایک پرحرام ہے ، اوررہاوہ شخص جس میں کراہت اورناپسندیدگی کااظہارنہ ہوتوجسے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے معین فرمادیاتواس پرکاہلی وسستی کااظہارکرنااوربوجھل ہوکربیٹھ جاناحرام ہے ۔ اوراگروہ ان دونوں سے مامون ومحفوظ ہوتوپھرجہاد کرنااس پر فرض کفایہ ہے۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۴۲)

کب جہاد پر بلادعوت نکلنافرض ہے ؟

إِنَّ الْمُرَادَ بِہَذِہِ الْآیَۃِ وُجُوبُ النَّفِیرِ عِنْدَ الْحَاجَۃِ وَظُہُورِ الْکَفَرَۃِ وَاشْتِدَادِ شَوْکَتِہِمْ وَظَاہِرُ الْآیَۃِ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ عَلَی وَجْہِ الِاسْتِدْعَاء ِ فَعَلَی ہَذَا لَا یَتَّجِہُ الْحَمْلُ عَلَی وَقْتِ ظُہُورِ الْمُشْرِکِینَ فَإِنَّ وُجُوبَ ذَلِکَ لَا یَخْتَصُّ بِالِاسْتِدْعَاء ِ، لِأَنَّہُ مُتَعَیِّنٌ وَإِذَا ثَبَتَ ذَلِکَ فَالِاسْتِدْعَاء ُ وَالِاسْتِنْفَارُ یَبْعُدُ أَنْ یَکُونَ مُوجِبًا شَیْئًا لَمْ یَجِبْ مِنْ قَبْلُ إِلَّا أَنَّ الْإِمَامَ إِذَا عَیَّنَ قَوْمًا وَنَدَبَہُمْ إِلَی الْجِہَادِ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ أَنْ یَتَثَاقَلُوا عِنْدَ التَّعْیِینِ وَیَصِیرُ بِتَعْیِینِہِ فَرْضًا عَلَی مَنْ عَیَّنَہُ لَا لِمَکَانِ الْجِہَادِ وَلَکِنْ لِطَاعَۃِ الْإِمَامِ وَاللَّہُ أعلم.

ترجمہ :امام علی بن محمد بن علی، أبو الحسن الطبری المعروف بالکیا الہراسی الشافعی المتوفی : ۵۰۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ حاجت کے وقت ،کافرں کے غلبے کے وقت اوران کی قوت وشوکت کے زیادہ ہونے کے وقت جہاد پرنکلناواجب ہے ، کیونکہ اس کاوجوب دعوت کے ساتھ مختص نہیں ہے کیونکہ وہ متعین ہے ، اورجب یہ ثابت ہوجائے تودعوت دینااورنکلنے کامطالبہ کرنابعیدہے ، کہ وہ کسی ایسی شئی کاموجب ہوجو اس سے پہلے واجب نہیں ہے مگریہ کہ حاکم اسلام جب کسی قوم کومعین کردے اورانہیں جہاد کی طرف بلائے توان کے لئے اس تعیین کے وقت جہادکے لئے نکلنافرض اوربوجھل ہوجاناحرام ہے اوراس تعیین کے سبب جہاد کے لئے نکلنافرض عین ہوجائے گا، محض جہادکی وجہ سے نہیں بلکہ حاکم اسلام کے حکم کی وجہ سے۔
(أحکام القرآن:علی بن محمد بن علی، أبو الحسن الطبری المعروف بالکیا الہراسی الشافعی (۴:۲۰۳)

غلبہ دین کے لئے جہاد کرنافرض ہے

وَہَذَا تَہْدِیدٌ شَدِیدٌ وَوَعِیدٌ مُؤَکَّدٌ فِی تَرْکِ النَّفِیرِفَوَجَبَ بِمُقْتَضَاہَا النَّفِیرُ لِلْجِہَادِ وَالْخُرُوجُ إِلَی الْکُفَّارِ لِمُقَاتَلَتِہِمْ عَلَی أَنْ تکون کلمۃ اللہ ہی العلیا۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں سخت تنبیہ اورشدیدوعید ہے جہاد کے ترک کرنے پر، اوراس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کفارکے خلاف جہا دکے لئے نکلناتاکہ اللہ تعالی کادین بلندہوجائے یہ واجب ہے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۴۱)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی ناموس کی حفاظت کاذمہ اللہ تعالی نے لیاہے

سخط عظیم علی المتثاقلین حیث أوعدہم بعذاب ألیم مطلق یتناول عذاب الدراین وأنہ یہلکہم ویستبدل بہم قوما آخرین خیر منہم وأطوع وأنہ غنی عنہم فی نصرۃ دینہ لا یقدح تثاقلہم فیہا شیئاً وقیل الضمیر فی وَلاَ تَضُرُّوہُ للرسول علیہ السلام لأن اللہ وعدہ أن یعصمہ من الناس وأن ینصرہ ووعدہ کائن لا محالۃ۔

ترجمہ :امام أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی المتوفی : ۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جہاد سے سستی کرنے والوں کے لئے اس آیت کریمہ میں سخت ناراضگی کااظہارہے کہ ان کو ایسے دردناک عذاب کی وعیدسنائی ہے جومطلق ہے یعنی دنیاوآخرت دونوں جگہوں کو شامل ہے اوراللہ تعالی ان کو ہلاک فرمادے گااوران کی جگہ ان سے بہتراورزیادہ فرمانبردارقوم کو لے آئے گااوروہ اپنے دین کے غلبہ کے بارے میں ان کامحتاج نہیں ، ان کی سستی سے اس میں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اوریہ بھی کہاگیاہے کہ اس میں ضمیرکامرجع حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے وعدہ کیاہے کہ وہ اپنے حبیب کریم ﷺکی عزت وناموس کی حفاظت فرمائے گااوران کی مددبھی کرے گااوریہ اللہ تعالی کاوعدہ ہے جو یقینی طورپرہوکرہی رہے گا۔
(تفسیر النسفی:أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (۱:۶۸۰)

معارف ومسائل

اس سے یہ معلوم ہواکہ جوقوم غلبہ دین کے لئے کام نہ کرے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس پرپہرہ نہ دے تواللہ تعالی ان پردشمن کو غالب کردے گااوران پردنیاوآخرت میں عذاب نازل فرمائے گااوران کوحضورتاجدارختم نبوتﷺکی غلامی سے نکال دے گااوران کی جگہ اللہ تعالی کوئی اورقوم کولے آئے گا۔ اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دینافرض ہے ۔ آج دنیابھرمیں اس عذاب کانظارہ کیاجاسکتاہے کہ نام نہا دمسلمان حکمرانوں نے جہاداورناموس رسالت پرپہرہ دیناترک کیاہے تواللہ تعالی نے سارے اہل اسلام پرکفارکوغالب کردیاہے اوروہ دشمن ان کوکسی طرح کی کوئی رعایت نہیں دیتے ۔
اوراس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دین کی تبلیغ مسلمانوں کا منصب اور ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی یہ سعادت حاصل کرتا ہے تو یہ اللہ تعالی کی کرم نوازی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں ، نیز اسلام کی اشاعت ہم پر مَوقوف نہیں کیونکہ ہم سے پہلے بھی دنیا میں اسلام تھا اور ہمارے بعد بھی رہے گا۔( ان شاء اللہ تعالی )

Leave a Reply