اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف سے مشرکین سے لاتعلقی کااعلان
{وَ اَذٰنٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللہَ بَرِیْٓء ٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہ فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ }(۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور منادی پکار دیتاہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں میں بڑے حج کے دن کہ اللہ بیزار ہے مشرکوں سے اور اس کا رسول تو اگر تم توبہ کرو تو تمہا را بھلا ہے اور اگر منہ پھیرو تو جان لو کہ تم اللہ کو نہ تھکا سکو گے اور کافروں کو خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم ﷺ کی طرف سے تمام لوگوں کی طرف بڑے حج کے دن اعلان ہے کہ اللہ تعالی مشرکوں سے بری ہے اور اس کا رسول کریمﷺ بھی تو اگر تم توبہ کروتو تمہا رے لئے بہتر ہے اور اگر تم منہ پھیروتو جان لو کہ تم اللہ تعالی کوعاجز نہیںکر سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔
اہل ایمان پرواجب ہے کہ وہ کفارسے لاتعلقی کریں
وَنَبَّہَ بِہِ عَلَی أَنَّہُ یَجِبُ عَلَیْہِمْ أَنْ لَا یُوَالُوا الْکُفَّارَ وَأَنْ یَتَبَرَّء ُوا مِنْہُمْ، فَہَہُنَا بَیَّنَ أَنَّہُ تَعَالَی کَمَا یَتَوَلَّی الْمُؤْمِنِینَ فَہُوَ یَتَبَرَّأُ عَنِ الْمُشْرِکِینَ وَیَذُمُّہُمْ وَیَلْعَنُہُمْ، وَکَذَلِکَ الرَّسُولُ، وَلِذَلِکَ أَتْبَعَہُ بِذِکْرِ التَّوْبَۃِ الْمُزِیلَۃِ لِلْبَرَاء َۃِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اوراس آیت کریمہ میں تنبیہ ہے کہ ان پریہ لازم ہے کہ اہل ایمان کافروں سے دوستی نہ کریں اوران سے لاتعلقی کااعلان کریں تویہاں اللہ تعالی نے واضح کیاکہ جیسے اہل ایمان آپس میں دوست ہیں وہ مشرکین سے لاتعلقی کااظہارکریں اورکافروں کی مذمت کریں اوران پرلعنت بھیجیں ، اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺبھی ۔ اس کے بعد توبہ کاذکرلائے جولاتعلقی کازائل کرنے والاہے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۵:۲۳۷)
کیاعذاب کی بھی خوشخبری ہوتی ہے ؟
ثُمَّ قَالَ: وَبَشِّرِ الَّذِینَ کَفَرُوا بِعَذابٍ أَلِیمٍ فِی الْآخِرَۃِ لِکَیْ لَا یَظُنَّ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا لَمَّا فَاتَ وَزَالَ، فَقَدْ تَخَلَّصَ عَنِ الْعَذَابِ، بَلِ الْعَذَابُ الشَّدِیدُ مُعَدٌّ لَہُ یَوْمَ القیامۃ ولفظ البشارۃ ورد ہاہنا علی سبیل استہزاء کما یقال:تحیتہم الضرب وإکرامہم الشتم.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {وَبَشِّرِ الَّذِینَ کَفَرُوا بِعَذابٍ أَلِیمٍ}یعنی آخرت میں تاکہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ اگرعذاب دنیامیںزائل ہوتوفوت ہوگیاتوعذاب سے چھٹکاراحاصل ہوگیابلکہ ان کے لئے قیامت میں شدیدعذاب تیارکیاگیاہے اورلفظ ’’بشارت‘‘یہاں بطورتمسخرہے جیسے کہاجاتاہے کہ (تحیتہم الضرب وإکرامہم الشتم)ان کی سزابطورسلام ہوگی اوران کوگالیاں دیناان کے لئے بطوراحترام ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۵:۲۳۷)
اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکالاتعلقی کااعلان کرنا
عَنْ أَبِی حِبَرَۃَ: (أَنَّ اللَّہَ بَرِیء ٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہُ)(التوبۃ: ۳)قَالَ: بَرِئَ رَسُولُہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
ترجمہ :حضرت سیدناابوحبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ{اَنَّ اللَّہَ بَرِیء ٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہ}بے شک اللہ تعالی اوراس کے رسول کریم ﷺنے مشرکین کیساتھ لاتعلقی کردی اورفرمایاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بھی کافروں اورمشرکوںسے لاتعلقی کااظہارفرمادیا۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی، الحنظلی (۶:۱۷۴۷)
معارف ومسائل
(۱)…فتح مکہ کے وقت مشرکین کی چار قسمیں اور ان کے احکام :بہرحال اس وقت مکہ پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوگیا مکہ اور اطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان و مال کا امان دے دیا گیا۔ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے۔
(۱)…ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا۔
(۲)…دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لئے کیا گیا اور وہ اس معاہدہ پر قائم رہے جیسے بنی کنانہ کے دو قبیلے بنی ضمرہ اور بنی مدلج جن سے ایک مدت کے لئے صلح ہوئی تھی اور سورۃ براء ت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے۔
(۳)…تیسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدہ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔
(۴)…چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔
فتح مکہ سے پہلے جتنے مشرکین یا اہل کتاب سے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے معاہدات کئے ان سب کا یہ تلخ تجربہ مسلسل ہوتا رہا کہ انھوں نے خفیہ اور علانیہ عہد شکنی کی اور دشمنوں سے سازش کرکے حضورتاجدارختم نبوتﷺاور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی مقدور بھر پوری کوششیں کیں۔ اس لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اپنے مسلسل تجربہ اور اشارات الٰہیہ کے ماتحت یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ صلح نہ کیا جائے گااور جزیرۃ العرب کو ایک اسلامی قلعہ کی حیثیت سے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کردیا جائے گا جس کا مقتضی یہ تھا کہ مکہ اور جزیرۃ العرب پر اقتدار حاصل ہوتے ہی اعلان کردیا جائے تا کہ غیر مسلم یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے اصول عدل و انصاف اور رحیمانہ سلوک اور رحمۃ للعالمینﷺ کی رحمت عامہ کے ماتحت بلا مہلت کے ایسا کرنا مناسب نہ تھا۔ اس لئے سورۃ براء ت کے شروع میں ان چاروں قسم کی غیر مسلم جماعتوں کے جدا جدا احکام نازل ہوئے۔
(۵)اول یہ کہ فتح مکہ کے بعد حضورتاجدارختم نبوتﷺنے قریش مکہ اور دوسرے دشمن قبائل کے ساتھ جو معاملہ عفو و درگزر اور رحم و کرم کا فرمایا اس نے عملی طور پر مسلمانوں کو یہ اخلاقی درس دیا کہ جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے قابو میں آجائے اور تمھاے سامنے عاجز ہوجائے تو اس سے گذشتہ عداوتوں اور ایذاؤں کا انتقام نہ لو بلکہ عفو و کرم سے کام لے کر اسلامی اخلاق کا ثبوت دو ۔
(۲)…دوسرا مسئلہ جو آیات مذکورہ سے سمجھا گیا یہ ہے کہ عفو و کرم کے یہ معنی نہیں کہ دشمنوں کے شر سے اپنی حفاظت نہ کرے اور ان کو ایسا آزاد چھوڑ دے کہ وہ پھر ان کو نقصان اور ایذاء پہنچاتے رہیں۔ بلکہ عفو و کرم کے ساتھ تقاضائے عقل یہ ہے کہ پچھلے تجربوں سے آئندہ زندگی کے لئے سبق حاصل کرے اور ان تمام رخنوں کو بند کرے جہاں سے یہ خود دشمنوں کی زد میں آسکے۔ اسی لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺکا حکیمانہ ارشاد ہے(لا یلدغ المرء من حجر واحد مرتین)یعنی عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ جس سوراخ سے ایک مرتبہ کسی زہریلے جانور نے اس کو کاٹا ہے اس میں دوبارہ ہاتھ نہیں دیتا۔۹ ہجری کے قرآنی اعلان براء ت اور مشرکین کو مہلت و اطمینان کے ساتھ حدود حرم خالی کردینے کی ہدایات اسی حکمت عملی کا ثبوت ہیں۔
(۳)…تیسرا فائدہ سورۃ توبہ کی ابتدائی آیات سے یہ معلوم ہوا کہ کمزور قوموں کو بلا مہلت کسی جگہ سے نکل جانے کا حکم یا ان پر یکبارگی حملہ بزدلی اور غیر شریفانہ فعل ہے۔ جب ایسا کرنا ہو تو پہلے سے اعلان عام کردیا جائے اور ان کو اس کی پوری مہلت دی جائے کہ وہ اگر ہمارے قانون کو تسلیم نہیں کرتے تو آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں بسہولت جاسکیں۔ جیسا کہ مذکورہ آیتوں میں ۹ ہجری کے اعلان عام اور اس کے بعد تمام جماعتوں کو مہلت دینے کے احکام سے واضح ہوا۔
(۴)…چوتھا مسئلہ آیات مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قوم کے ساتھ معاہدہ صلح کرلینے کے بعد اگر میعاد سے پہلے اس معاہدہ کو ختم کردینے کی ضرورت پیش آجائے تو اگرچہ چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے مگر بہتر یہی ہے کہ معاہدہ کو اس کی میعاد تک پورا کردیا جائے جیسا کہ سورۃ توبہ کی چوتھی آیت میں بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا معاہدہ نو مہینہ تک پورا کرنے کا حکم آیا ہے۔
(۵) …پانچواں مسئلہ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کے ساتھ ہر معاملہ میں اس کا خیال رہنا چاہئے کہ مسلمانوں کی دشمنی ان کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے کافرانہ عقائد و خیالات کے ساتھ ہے جو انھیں کے لئے دنیا و آخرت کی بربادی کے اسباب ہیں۔ اور مسلمانوں کی ان سے مخالفت بھی درحقیقت ان کی ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہے۔ اسی لئے جنگ و صلح کے ہر مقام پر نصیحت و خیر خواہانہ فہمائش کو کسی وقت بھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ جیسا کہ ان آیتوں میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ اگر تم اپنے خیالات سے تائب ہوگئے تو یہ تمہارے لئے فلاح دنیا و آخرت ہے۔ مذکورہ آیتوں میں اعلان براء ت کے ساتھ ہمدردانہ فہمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
(۶)…چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ چوتھی آیت میں جہاں مسلمانوں کو میعاد صلح کے ختم ہونے تک عہد کو پورا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ آیت کو اس جملہ پر ختم کیا گیا ہے {اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ} یعنی بیشک اللہ تعالیٰ احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتاہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ معاہدہ پورا کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ عام قوموں کی طرح اس میں حیلے اور تاویلیں نکال کر خلاف ورزی کی راہ نہ ڈھونڈیں۔
(۷)…ساتواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت کی تفصیلات سے یہ معلوم ہوا کہ جب صحیح مقصد کے لئے کسی قوم سے جنگ چھڑ جائے تو پھر ان کے مقابلہ کے لئے ہر طرح کی قوت پورے طور پر استعمال کرنا چاہئے اس وقت رحم دلی یا نرمی درحقیقت رحم دلی نہیں بلکہ بزدلی ہوتی ہے۔
(۸) …آٹھواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت سے یہ ثابت ہوا کہ کسی غیر مسلم کے مسلمان ہوجانے پر اعتماد تین چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک توبہ دوسرے اقامت صلوٰۃ تیسرے ادائے زکوٰۃ جب تک اس پر عمل نہ ہو محض کلمہ پڑھ لینے سے ان کے ساتھ جنگ بند نہ کی جائے گی۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے بعد جن لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا ان کے مقابلہ پرسیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جہاد کرنے کے لئے اسی آیت {فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَ خُذُوْہُمْ وَ احْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ}سے استدلال فرما کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مطمئن کردیا تھا۔