تفسیر سورۃالتوبہ آیت ۲۹۔ قٰتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَابِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَایُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہ

یہودونصاری سے جزیہ لینے کابیان اورجزیہ لینے کے وقت ان کوذلیل کرنے کے مختلف طریقے

{قٰتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَابِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَایُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہ وَلَایَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ }(۲۹)

ترجمہ کنزالایمان:لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ان میں سے جو اللہ تعالی پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی آخرت کے دن پر اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم ﷺ نے حرام کیا ہے اور نہ وہ سچے دین پر چلتے ہیں ان سے جہاد کرتے رہو حتّٰی کہ وہ ذلیل وخوارہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں۔
اس آیت میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہوا ۔اسلامی سلطنت کی جانب سے ذمی کافروں پر جو (مال)مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کیلئے دو ہی صورتیں ہیں قبولِ اسلام یا جنگ۔ بقیہ دنیا بھر کے کافروں سے جزیہ پر صلح ہوسکتی ہے۔

یہودونصاری سے جزیہ لینے کے چاراسباب

اعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی ذَکَرَ أَنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ إِذَا کَانُوا مَوْصُوفِینَ بِصِفَاتٍ أَرْبَعَۃٍ، وَجَبَتْ مُقَاتَلَتُہُمْ إِلَی أَنْ یُسْلِمُوا، أَوْ إِلَی أَنْ یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ.فَالصِّفَۃُ الْأُولَی: أَنَّہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْقَوْمَ یَقُولُونَ:نَحْنُ نُؤْمِنُ بِاللَّہِ إِلَّا أَنَّ التَّحْقِیقَ أَنَّ أَکْثَرَ الْیَہُودِ مُشَبِّہَۃٌ، وَالْمُشَبِّہُ یَزْعُمُ أَنْ لَا مَوْجُودَ إِلَّا الْجِسْمُ وَمَا یَحِلُّ فِیہِ فَأَمَّا الْمَوْجُودُ الَّذِی لَا یَکُونُ جِسْمًا وَلَاحَالًّا فِیہِ فَہُوَ مُنْکِرٌ لَہُ، وَمَا ثَبَتَ بِالدَّلَائِلِ أَنَّ الْإِلَہَ مَوْجُودٌ لَیْسَ بِجِسْمٍ وَلَا حَالًّا فِی جِسْمٍ، فَحِینَئِذٍ یَکُونُ الْمُشَبِّہُ مُنْکِرًا لِوُجُودِ الْإِلَہِ فَثَبَتَ أَنَّ الْیَہُودَ مُنْکِرُونَ لِوُجُودِ الْإِلَہِ.
وَالصِّفَۃُ الثَّانِیَۃُ: مِنْ صِفَاتِہِمْ أَنَّہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْیَوْمِ الْآخِرِوَاعْلَمْ أَنَّ الْمَنْقُولَ عَنِ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی: إِنْکَارُ الْبَعْثِ الْجُسْمَانِیِّ، فَکَأَنَّہُمْ یَمِیلُونَ إِلَی الْبَعْثِ الرُّوحَانِیِّ وَاعْلَمْ أَنَّا بَیَّنَّا فِی ہَذَا الْکِتَابِ أَنْوَاعَ السَّعَادَاتِ وَالشَّقَّاوَاتِ الرُّوحَانِیَّۃِ، وَدَلَّلْنَا عَلَی صِحَّۃِ الْقَوْلِ بِہَا وَبَیَّنَّا دَلَالَۃَ الْآیَاتِ الْکَثِیرَۃِ عَلَیْہَا، إِلَّا أَنَّا مَعَ ذَلِکَ نُثْبِتُ السَّعَادَاتِ وَالشَّقَّاوَاتِ الْجُسْمَانِیَّۃَ، وَنَعْتَرِفُ بِأَنَّ اللَّہَ یَجْعَلُ أَہْلَ الْجَنَّۃِ، بِحَیْثُ یَأْکُلُونَ وَیَشْرَبُونَ، وَبِالْجَوَارِی یَتَمَتَّعُونَ، وَلَا شَکَّ أَنَّ مَنْ أَنْکَرَ الْحَشْرَ وَالْبَعْثَ الْجُسْمَانِیَّ، فَقَدْ أَنْکَرَ صَرِیحَ الْقُرْآنِ، وَلَمَّا کَانَ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی مُنْکِرِینَ لِہَذَا الْمَعْنَی، ثَبَتَ کَوْنُہُمْ مُنْکِرِینَ لِلْیَوْمِ الْآخِرِالصِّفَۃُ الثَّالِثَۃُ: مِنْ صِفَاتِہِمْ قَوْلُہُ تَعَالَی:وَلا یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَفِیہِ وَجْہَانِ:الْأَوَّلُ: أَنَّہُمْ لَا یُحَرِّمُونَ مَا حُرِّمَ فِی الْقُرْآنِ وَسُنَّۃِ الرَّسُولِ وَالثَّانِی:قَالَ أَبُو رَوْقٍ:لَا یَعْمَلُونَ بِمَا فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ،بَلْ حَرَّفُوہُمَا وَأَتَوْا بِأَحْکَامٍ کَثِیرَۃٍ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِہِمْ.الصِّفَۃُ الرَّابِعَۃُ:قَوْلُہُ:وَلا یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتابَ یُقَالُ:فُلَانٌ یَدِینُ بِکَذَا، إِذَا اتَّخَذَہُ دِینًا فَہُوَ مُعْتَقَدُہُ، فَقَوْلُہُ:وَلا یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ أَیْ لَا یَعْتَقِدُونَ فِی صِحَّۃِ دِینِ الْإِسْلَامِ الَّذِی ہُوَ الدِّینُ الْحَقُّ، وَلَمَّا ذَکَرَ تَعَالَی ہَذِہِ الصِّفَاتِ الْأَرْبَعَۃَ قَالَ:مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتابَ فَبَیَّنَ بِہَذَا أَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْمَوْصُوفِینَ بِہَذِہِ الصِّفَاتِ الْأَرْبَعَۃِ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ، وَالْمَقْصُودُ تَمْیِیزُہُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فِی الْحُکْمِ، لِأَنَّ الْوَاجِبَ فِی الْمُشْرِکِینَ الْقِتَالُ أَوِ الْإِسْلَامُ، وَالْوَاجِبُ فِی أَہْلِ الْکِتَابِ الْقِتَالُ أَوِ الْإِسْلَامُ أَوِ الْجِزْیَۃُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یادرہے کہ اللہ تعالی نے یہ ذکرفرمایاہے کہ جب اہل کتاب میں چاربرائیاں پائی جائیں توان کے ساتھ قتال لازم ہے بشرطیکہ وہ اسلام کوقبول کرلیں یاجزیہ دیں۔

پہلی برائی : وہ اللہ تعالی پرایمان نہ لائیں ، وہ لوگ کہتے تھے کہ ہم اللہ تعالی پرایمان رکھتے ہیںمگراکثریہودی تشبیہ کاعقیدہ رکھتے تھے تویہ مشبہ کہتے ہیں کہ ہروجود کے لئے جسم کاہوناضروری ہے یاایسی چیز میں جسم حلول کئے ہوئے ہو، لیکن موجودہ جسم نہ ہواورنہ ہی حلول کئے ہو، وہ اس کاانکارکرتے ہیں ، جودلائل سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ وہ جسم سے پاک ہے اورنہ ہی حلول کئے ہوئے ہے اوراب ثابت ہوگیاکہ مشبہ اللہ تعالی کے وجود کے منکرہیں۔
دوسری برائی :اہل کتاب کی دوسری برائی یہ ہے کہ وہ آخرت پرایمان نہیں لاتے ، واضح رہے کہ یہودونصاری کے بارے میں مشہوریہ ہے کہ وہ جسمانی حشرونشرکاانکارکرتے تھے گویاوہ روحانی حشرکی طرف میلان رکھتے ہیں ، ہم نے اس کتاب میں سعادات اورشقاوات روحانیہ کی اقسام بیان کی ہیں اوراس قول کی صحت پردلائل دیئے ہیں اورواضح کیاہے اس پہ بھی آیات کثیرہ ہیں مگریہ کہ ہم سعادتوں اورجسمانی شقاوتوں کوثابت مانتے ہیں اوراقرارکرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اہل جنت کو ایسابنایا،کھانے پینے اوراب خواتین سے فائدہ اٹھائیں ، بلاشبہ جوحشرونشرجسمانی کاانکارکرتے ہیں وہ قرآن کریم کے منکرہیں ، جب یہودونصاری اس کے منکرہیں تولازم آئے گاکہ وہ قرآن کریم کے صریح منکرہیں۔
تیسری برائی : ان کی تیسری برائی یہ ہے کہ اللہ تعانے فرمایا{وَلا یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ }اوریہ حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو اللہ تعالی اوراس کے رسول کریم ﷺنے حرام کیا۔
چوتھی برائی : اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے کہ{وَلا یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتابَ}اورسچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جوکتاب دیئے گئے ہیں ۔جوکوئی کسی دین کااعتقادرکھے اوراسے دین بنالے توکہاجاتاہے کہ فلاں نے دین گھڑاہے تواللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے کہ {وَلا یَدِینُونَ دِینَ الْحَق}’’اورسچے دین کے تابع نہیں ہوتے ‘‘کامعنی یہ ہے کہ وہ دین اسلام کی صحت پراعتقادنہیں رکھتے جودین حق ہے ۔
جب اللہ تعالی نے ان چاربرائیوں کاذکرکیاتوفرمایاکہ{ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتابَ}یعنی وہ جن کو کتاب دی گئی۔
اس سے بیان کیاکہ مراد ان برائیوں سے موصوف وہی ہے جو اہل کتاب ہیں اورمقصود اس حکم میں انہیں مشرکین سے ممتاز کرناہے کیونکہ مشرکین کے لئے لازم قتال یااسلام ہے اوراہل کتاب کے حوالے سے اسلام ، قتال یاجزیہ ہے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۲۳)

جزیہ کیاہے ؟

وہ ٹیکس جو کسی ملک کو فتح کرنے کے بعد غیر مسلم آبادی سے وصول کیا جاتا ہے۔ جب مسلمان کسی ملک کو فتح کرتے تھے تو وہاں کی غیر مسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کرتے۔ اگر وہ لوگ اسلام قبول نہ کرتے تو ان سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ جو لوگ جزیہ دیتے تھے انھیں اہل ذمہ یا ذمی کہتے تھے۔ ان کو اپنی عبادت اور مذہبی رسوم ادا کرنے میں پوری آزادی ہوتی تھی۔ اور ان کی حفاظت حکومت کا فرض ہوتا تھا۔ وہ جنگی خدمات سے بھی آزاد ہوتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں پر جنگی خدمت فرض تھی۔ بوڑھوں، بچوں، اپاہجوں، غلاموں اور پاگلوں کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا تھا۔

جزیہ ہر بالغ مرد اور عورت سے اس کی مالی حیثیت کے مطابق نقد یا جنس کی صورت میں لیا جاتا تھا۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جزیہ کی کم سے کم رقم چھ درہم اور زیادہ سے زیادہ چالیس درہم سالانہ تھی۔ متوسط طبقہ کے لوگ ۲۴درہم سالانہ جزیہ ادا کرتے تھے۔ انتہائی غریب غیر مسلموں کا جزیہ معاف ہوتا تھا۔ اگر اُس زمانے کی تنخواہوں سے جزیے کا موازنہ کیا جائے تو اسلامی فوج کے ہر سپاہی کو کم از کم ۳۰۰ درہم سالانہ تنخواہ ملتی تھی جبکہ افسران کو سات سے دس ہزار درہم سالانہ ملتے تھے۔

جنگ یرموک سے پہلے جب رومی شہنشاہ ہرقل انطاکیہ میں بہت بڑی فوج جمع کر رہا تھا تو مسلمانوں نے بھی اپنی فوجیں مختلف شہروں سے واپس بُلا لیں۔ جب مسلمان فوجوں نے دمشق، حمص اور دیگر شہروں کو چھوڑا تو وہاں کے باشندوں کو جزیے کی رقم واپس کر دی۔ مسلمان ان شہروں کے باشندوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے اس لیے ان سے جزیہ لینا بھی منع فرمادیا تھا۔
جزیہ ترکان عثمانی کی حکومت میں جاری رہا۔ جزیہ کی ساری رقم بیت المال میں جمع ہوتی تھی۔ ابتدا میں جزیہ ادا کرنے والے کے گلے میں جست کی مہر لٹکا دی جاتی تھی۔ لیکن خلیفہ ہشام نے اس کی جگہ باقاعدہ تحریری رسید کا طریقہ رائج کیا۔ جزیہ شخصی اور ذاتی محصول تھا جبکہ خراج علاقائی محصول جو زمین پر لگتا تھا۔

نصرانی مستشرقین کو جواب

اب ان متمدن اور مہذب مغربی اقوام کا حال بھی سن لیجئے جن کے سکالرزجزیہ کو بدنام کرنے اور اسے ذلت کی نشانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں۔ خود یہ لوگ فتح کے بعد مفتوح قوم سے اپنا سارا جنگ کا خرچہ بطور تاوان جنگ وصول کرتے رہے ہیں۔ پچھلی چند صدیوں میں تو تاوان جنگ کے علاوہ سیاسی اوراقتصادی غلامی پر بھی مفتوح اقوام کو مجبور کیا جاتا رہا۔ البتہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی غلامی کو متروک قرار دے کر اس کے بدلے اقتصادی غلامی کے بندھن مضبوط تر کردیئے ہیں ان کے زرخیز ترین علاقہ پر ایک طویل مدت کے لیے قبضہ کرلیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں انتہائی سختی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ مفتوح قوم میں بعد میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام نے جزیہ کی ایسی نرم شرائط سے ادائیگی کے بعد نہ تاوان جنگ عائد کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی اقتصادی غلامی کی۔

جزیہ کے حوالے سے سب سے زیادہ اعتراضات عیسائی مستشرقین نے اٹھائے ۔ضروری ہے کہ انہیں اپنی کتاب کا آئینہ بھی دکھا دیا جائے ۔تورات میں ہے کہ اگر بنی اسرائیل فلسطین کے علاوہ کسی اور ملک سے جنگ کرنے کے لیے نکلتے ہیں لیکن جنگ کی نوبت نہیں آتی اور صلح ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں اس کے باشندوں سے خراج وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے : جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خودا سے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا ۔ (استثنا ۲۰ : ۱۰ تا ۱۳)۔

ذمی سے جزیہ کیسے وصول کیاجائے ؟

حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکاقول
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:یَدْفَعُہَا بِنَفْسِہِ غَیْرَ مُسْتَنِیبٍ فِیہَا أَحَدًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ذمی بذات خود جزیہ دے گااوراس میں کسی کو اپنانائب نہیں بنائے گا۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ(۱۵:۱۶۲)

حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے دوسری روایت
وعن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما تؤخذ الجزیۃ من الذمی ویوجأ عنقہ، وفی روایۃ أنہ یؤخذ بتلبیبہ ویہز ہزا ویقال:أعط الجزیۃ یا ذمی، وقیل: ہو أن یؤخذ بلحیتہ وتضرب لہزمتہ، ویقال:أد حق اللہ تعالی یا عدو اللہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ذمی سے جزیہ جب وصول کیاجائے تواس کی گردن کو دبوچاجائے اورایک روایت میں یہ ہے کہ اس کامذاق اڑاکراس کو کہاجائے کہ اے ذمی !جزیہ اداکرو!اس کی داڑھی پکڑکراوراس کو تھپڑمارکرکہاجائے کہ اے دشمن ِخداجلدی کرجزیہ اداکر۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی )(۵:۲۷۱)

حضرت سیدناسلمان رحمہ اللہ تعالی کاقول

رَوَی أَبُو الْبَخْتَرِیِّ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ:مَذْمُومِینَ۔
ترجمہ :ابوالبختری رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناسلمان رحمہ اللہ سے نقل کیاکہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ ذمی انتہائی مذموم حالت میں جزیہ دے گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۱۱۵)

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کامذہب

فَذَہَبَ أَبُو حَنِیفَۃَ وَبَعْضُ الْمَالِکِیَّۃِ إِلَی أَنَّہَا وَجَبَتْ عُقُوبَۃً عَلَی الإِْصْرَارِ عَلَی الْکُفْرِ، وَلِہَذَا لاَ تُقْبَل مِنَ الذِّمِّیِّ إِذَا بَعَثَ بِہَا مَعَ شَخْصٍ آخَرَ، بَل یُکَلَّفُ أَنْ یَأْتِیَ بِہَا بِنَفْسِہِ، فَیُعْطِی قَائِمًا وَالْقَابِضُ مِنْہُ قَاعِدٌ۔
ترجمہ :امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اوربعض مالکیہ فرماتے ہیں کہ ذمیوں پریہ سزاواجب ہے ان کے کفرپرڈٹے رہنے کی وجہ سے اوریہی وجہ ہے کہ ذمی اگراپنے کسی نائب کوجزیہ دے کربھیجے تواس سے قبول نہیں کیاجائے گابلکہ اس کو مجبورکیاجائے گاکہ وہ خود دینے کے لئے آئے اورپھروہ کھڑاہوکردے اورلینے والااس سے بیٹھ کروصول کرے۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ(۱۵:۱۶۲)

ذمی کی داڑھی پکڑکرکہاجائے کہ جزیہ دے

وَہُمْ صاغِرُونَ فَالْمَعْنَی أَنَّ الْجِزْیَۃَ تُؤْخَذُ مِنْہُمْ عَلَی الصَّغَارِ وَالذُّلِّ وَالْہَوَانِ بِأَنْ یَأْتِیَ بِہَا بِنَفْسِہِ مَاشِیًا غَیْرَ رَاکِبٍ، وَیُسَلِّمَہَا وَہُوَ قَائِمٌ وَالْمُتَسَلِّمُ جَالِسٌ وَیُؤْخَذُ بِلِحْیَتِہِ، فَیُقَالُ لَہُ: أَدِّ الْجِزْیَۃَ ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {وَہُمْ صاغِرُونَ}کامعنی یہ ہے کہ جزیہ ان کی تذلیل وحقارت کے طور پرہوبایں طورکہ ذمی خود پیدل چل کرآئے ، سواری پرنہ آئے اورکھڑے ہوکردے جبکہ لینے والابیٹھاہواہو، اوراس کی داڑھی پکڑ کرکہاجائے گاجزیہ اداکر۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۲۳)

امام آلوسی رحمہ اللہ تعالی اپنے حکمرانوں کی سستی کی حقیقت بیان کرتے ہیں
وکل الأقوال لم نر الیوم لہا أثرا لأن أہل الذمۃ فیہ قد امتازوا علی المسلمین والأمر للہ عزّ وجلّ بکثیر حتی إنہ قبل منہم إرسال الجزیۃ علی ید نائب منہم وأصح الروایات أنہ لا یقبل ذلک منہم بل یکلفون أن یأتوا بہا بأنفسہم مشاۃ غیر راکبین وکل ذلک من ضعف الإسلام عامل اللہ تعالی من کان سببا لہ بعدلہ۔
ترجمہ :امامشہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی المتوفی : ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی اپنے دورکی بات لکھتے ہیں کہ جتنے بھی اقوال نقل کئے گئے ہیں ان کاکوئی اثردکھائی نہیں دیتا، ہمارے آجکل کے حکمران ان اقوال پرعمل نہیں کرتے بلکہ اگرکوئی ذمی اپنے کسی نائب کے ہاتھ جزیہ بھجوادے تووہ بھی قبول کرلیتے ہیں، ایسے لوگ اسلام کوکمزورکررہے ہیں اللہ تعالی ان کوتباہ فرمائے ۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی )(۵:۲۷۱)

یہ توامام آلوسی رحمہ اللہ تعالی کادورمبارک تھاکہ جزیہ توآرہاتھابس وصول کرنے کے طریقہ میں جو کوتاہی تھی ، اس پرامام آلوسی رحمہ اللہ تعالی اپنے دکھ کااظہارکررہے ہیں مگرآج توجزیہ کاعملی طورپرنام ونشان نہیں ہے ، ہماری بزدلی ، کم ہمتی اوردنیاپرستی نے یہ دن دکھائے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کفرکی غلامی کاطوق ورثے میں چھوڑ جائیں گے ۔ ہمارے اسلاف نے اسلام کے ایک ایک حکم شریف کواپنی جان سے بھی قیمتی جاناچنانچہ وہ کامیاب ہوگئے ، جبکہ ہم نے اپنی جان ہی کو قیمتی جاناہواہے چنانچہ ہم ذلیل ورسواہوگئے ۔
ناجائز ٹیکس ختم کرکے صرف شرعی محصولات لینے والے مسلم حکمران

حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ

حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ جب امیر المومنین بنے تو قومی خزانے کا کم و بیش اسی فیصد حصہ مقتدر لوگوں کے قبضے میں تھا اور بیت المال خالی ہو چکا تھا۔ مگرحضرت سیدنا عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ نے جہاں نادہندگان سے قومی خزانے کی رقوم اور اثاثے واپس لینے کی بے لچک پالیسی اختیار کی وہاں عوام پر عائد شدہ بے جا ٹیکس ختم کر دیے۔تو یمن کے حاکم نے حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ اگر ان کی ہدایات کے مطابق زمین کی پیداوار کا صرف شرعی حصہ وصول کیا جائے تو آمدنی بہت کم ہو جائے گی۔ اس کے جواب میں حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ نے لکھا کہ فصل کے مطابق رقم وصول ہونی چاہیے خواہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ سارے یمن سے صرف ایک مٹھی غلہ وصول ہو، میں اس پر راضی ہوں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چونگی ساری مملکت سے معاف کر دی اور عمال کو لکھا کہ وہ نجس ہے، لوگوں نے نام بدل کر اس کو جائز بنا لیا ہے۔ چند شرعی محاصل کے علاوہ ہر طرح کے ناجائز محاصل اور بیسیوں ٹیکس جو سابق فرمانرواؤں اور عمال حکومت نے ایجاد کیے تھے، انہوں نے یکسر معاف کر دیے۔(تاریخ دعوت و عزیمت از سید ابوالحسن علی ندوی(۱:۳۷)

جب حالات خطرناک ہوں توتوبہ کی طرف رجوع کرناچاہیے

اس طرح جب تاتاریوں کی یورش کے مقابلہ میں مسلمان حکومتیں لرزہ براندام تھیں اور تاتاری یلغار ہر طرف بڑھتی جا رہی تھی تو شام کے حکمران الملک الاشرف نے اس وقت کے سب سے بڑے عالم دین شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالی سے اصلاح احوال کے لیے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ارکان سلطنت اور اہلکاران حکومت رنگ رلیاں منا رہے ہیں، شراب کے دور چل رہے ہیں، گناہوں کا ارتکاب ہو رہا ہے، نئے نئے محاصل اور ٹیکس مسلمانوں پر لگائے جا رہے ہیں، آپ کے لیے خدا کے حضور میں سب سے افضل عمل پیش کرنے کا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ان سب گندگیوں کو دور کریں۔ یہ نئے نئے ٹیکس بند کریں، تمام ظالمانہ کاروائیاں روک دیں اور اہل معاملہ کی داد رسی کریں۔ الملک الاشرف نے اسی وقت ان سب چیزوں کی ممانعت کے احکام جاری کیے۔

توبہ سے ہی اللہ تعالی فتح عطافرماتاہے

ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی حضرت غازی ظہیر الدین بابررحمہ اللہ تعالی کے بارے میں بھی تاریخ میں آتا ہے کہ جب ہندؤں کے لشکر جرار کے مقابلہ میں بابر نے اپنے لشکر کی بے سروسامانی اور جوانوں کے چہروں پر اس کے اثرات دیکھے توحضرت غازی ظہیر الدین بابررحمہ اللہ تعالی نے قرآن کریم ہاتھ میں لے لیا، شراب سے توبہ کی، مسلمانوں کے سارے محصول معاف کر دیے، داڑھی منڈوانے سے توبہ کر لی، شراب خانے کو ڈھا کر وہاں مسجد تعمیر کرانے کا حکم دیا اور پھر اس عزم اور ایمان کے ساتھ میدان میں اترا کہ تعداد کی کمی او ربے سروسامانی کے باوجود اس نے کافروں کو شکست دے کر جنوبی ایشیا میں ایک عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔

اسلامی مملکت میں انتظامی امورکی ضروریات کیسے پوری ہوتی تھیں؟

کسی بھی مملکت اور ریاست کو ملکی انتظامی امور چلانے کے لیے،مستحقین کی امداد ،سڑکوں،پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر،بڑی نہروں کا انتظام،سرحد کی حفاظت کا انتظام ،فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو مشاہرہ دینے کے لیے اور دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اوران وسائل کو پورا کرنے کے لیے حضورتاجدارختم نبوتﷺخلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہداور ان کے بعد کے روشن دور میں بیت المال کا ایک مربوط نظام قائم تھااور اس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے،مثلاً:
(۱)… خمسِ غنائم یعنی جو مال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہو اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بعدباقی پانچواں حصہ۔
(۲)… مالِ ِ فیی: یعنی وہ مال جو بغیر کسی مسلح جدو جہد کے حاصل ہو۔
(۳)… خمسِ معادن: یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں سے پانچواں حصہ۔
(۴)… خمسِ رکاز :یعنی جو قدیم خزانہ کسی زمین سے برآمد ہو ، اس کا بھی پانچواں حصہ۔
(۵)… غیر مسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ اموال جو غیر مسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔
(۶)… ضوائع :یعنی لا وارث مال ، لاوارث شخص کی میراث وغیرہ۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: