تفسیر سورۃالتوبہ آیت ۲۳۔۲۴۔۲۵۔یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْٓا اٰبَآء َکُمْ وَ اِخْوٰنَکُمْ اَوْلِیَآء َ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمٰنِ

رسول اللہ ﷺ کی محبت میںرشتہ دار ی نہیںدیکھی جاتی

{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْٓا اٰبَآء َکُمْ وَ اِخْوٰنَکُمْ اَوْلِیَآء َ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمٰنِ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ }(۲۳){قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوٰنُکُمْ وَاَزْوٰجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوٰلُ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجٰرَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ وَاللہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ}(۲۵)

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیاد ہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

ترجمہ ضیاء الایمان:اے اہل ایمان !اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔اے احبیب کریم ﷺ!آپ فرمادیں کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان کاتم کوخوف ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم لائے اور اللہ تعالی فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

جب تک کافرماں باپ نہ چھوڑے گاایمان ہی قبول نہیں ہوگا

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ: لَمَّا أُمِرَ الْمُؤْمِنُونَ بِالْہِجْرَۃِ قَبْلَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَمَنْ لَمْ یُہَاجِرْ لَمْ یَقْبَلِ اللَّہُ إِیمَانَہُ حَتَّی یُجَانِبَ الْآبَاء َ وَالْأَقَارِبَ إِنْ کَانُوا کُفَّارًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کو ہجرت کاحکم دیاتوجس نے ہجرت نہ کی اللہ تعالی اس کے ایمان کو قبول نہیں کرے گاحتی کہ وہ باپ اوران رشتہ داروں سے دورہوجائے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۱۷)

لاتعلقی کاحکم کیوں دیا؟

وَہُوَ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِالتَّبَرِّی عَنِ الْمُشْرِکِینَ وَبَالَغَ فِی إِیجَابِہِ، قَالُوا کَیْفَ تُمْکِنُ ہَذِہِ الْمُقَاطَعَۃُ التَّامَّۃُ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ أَبِیہِ وَأُمِّہِ وَأَخِیہِ، فَذَکَرَ اللَّہُ تَعَالَی:أَنَّ الِانْقِطَاعَ عَنِ الْآبَاء ِ وَالْأَوْلَادِ وَالْإِخْوَانِ وَاجِبٌ بِسَبَبِ الْکُفْر۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اقرب یہی ہے کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کومشرکین کے متعلق جو حکم دیااس کی پابندی میں مبالغہ فرمایاتوانہوںنے کہا: یہ کامل لاتعلقی باپ اوربھائی اورماں اوربیٹے کے درمیان کیسے ممکن ہے ؟ تواللہ تعالی نے فرمایا: والدین ، بھائی اوراولاد سے یہ لاتعلقی کفرکی وجہ سے لازم ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۱۷)
ا س سے معلوم ہواکہ جہاں جہاں کفرہوگاوہاں وہاں انقطاع اورلاتعلقی واجب ہوگی چاہے سامنے سگاباپ ہی کیوں نہ ہو۔

بندہ مومن کو جہاد سے روکنے کے تین شیطانی ہتھکنڈے

حَدَّثَنِی جَابِرُ بْنُ أَبِی سَبْرَۃَ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ الْجِہَاد،إِنَّ الشَّیْطَانَ قَعَدَ لِابْنِ آدَمَ ثَلَاثَ مَقَاعِدَ قَعَدَ لَہُ فِی طَرِیقِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ لِمَ تَذَرُ دِینَکَ وَدِینَ آبَائِکَ فَخَالَفَہُ وَأَسْلَمَ وَقَعَدَ لَہُ فِی طَرِیقِ الْہِجْرَۃِ فَقَالَ لَہُ أَتَذَرُ مَالَکَ وَأَہْلَکَ فَخَالَفَہُ وَہَاجَرَ ثُمَّ قَعَدَ فِی طَرِیقِ الْجِہَادِ فَقَالَ لَہُ تُجَاہِدُ فَتُقْتَلُ فَیُنْکَحُ أَہْلُکَ وَیُقْسَمُ مَالُکَ فَخَالَفَہُ وَجَاہَدَ فَحَقٌّ عَلَی اللَّہِ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ ۔

ترجمہ :حضرت سیدناجابرابن ابی سبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوجہاد کاذکرفرماتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺنے فرمایاکہ بے شک شیطان ابن آدم کے لئے تین مقامات پربیٹھا۔ وہ اس کے لئے اسلام کی راہ میں بیٹھااورکہاکہ تواپنادین اورآبائواجدادکادین کیوں چھوڑتاہے ؟ تواس نے اس کی مخالفت کی اوراسلام قبول کرلیا۔ پھروہ اس کی ہجرت کی راہ میں بیٹھااوراس نے کہاکہ کیاتواپنے مال اوراپنے گھروالوں کو چھوڑرہاہے ؟ پس اس نے شیطان کی مخالفت کی اورہجرت کی ، پھروہ جہاد کی راہ میں بیٹھااوراسے کہاتوجہاد کرے گاتوتوقتل کردیاجائے گااورتیری بیوی نیانکاح کرے گی اورتیرامال تقسیم کردیاجائے گاتواس نے پھراس کی مخالفت کی اورجہاد کیا۔ پس اللہ تعالی پرحق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۶:۱۰۸)

یہ آیت کریمہ نوحہ کررہی ہے
والآیۃ تنعی علی الناس ما ہم علیہ من رخاوۃ عقد الدین واضطراب حبل الیقین إذ لا تجد عند أورع الناس ما یستحب لہ دینہ علی الآباء والأبناء والأموال والحظوظ۔
ترجمہ :امام أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی المتوفی : ۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ لوگوں پرنوحہ کررہی ہے یعنی غم اورافسوس کررہی ہے ، ان کی اس حالت کی وجہ سے جس پروہ ہیں ، یعنی دین کے معاملات میں سستی اوریقین میں بہت کمزوری ، لوگوں میں سے جوزیادہ متقی ہیں وہ بھی دین کے معاملات میں ماں باپ ، مال اوراولاد اورخواہشات سے زیادہ محبوب نہیں رکھتے ۔
(تفسیر النسفی:أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (۱:۶۷۱)

اس آیت کریمہ پرعمل کرنے والے بہت کم لوگ ہیں
قال البیضاوی فی الآیۃ تشدید عظیم وقل من یتخلص عنہ قلت ذلک القلیل ہو الصوفیۃ العلیۃ۔
ترجمہ :امام بیضاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے حکم میں بڑی شدت ہے اورایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس وعیدسے بچے رہتے ہیں یعنی جن کو اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی محبت ہرچیز سے زائد ہوایسے لوگ بہت کم ہیں۔
قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںمیں یہ کہتاہوں کہ وہ قلیل تعدادصرف صوفیاء کرام کی ہے اوروہ بھی اجلہ صوفیاء۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۱۵۳)

مذکورہ بالادونوں عبارات سے امام بیضاوی رحمہ اللہ تعالی ، امام نسفی رحمہ اللہ تعالی اورقاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے اپنے زمانے کارونارویاہے ، اگرآج کے حالات دیکھ لیتے تومعلوم نہیں کہ غم سے ان کی کیا حالت ہوتی ؟ اب تومسلمان حددرجہ گھریلوملازم اورمال کے نوکربن کررہ گئے ہیں ، اکثرلوگ اپنی گھریلوزندگیوں ، اولاد کی شادیوں اورخاندانی مسائل میں محدودہوکررہ گئے ہیں ۔اورایک مکان کے بعد دوسرااوردوسرے کے بعد تیسرامکان بنانے کی فکرمیں رہتے ہیں ، ان کی زندگیاں کئی کئی ماہ تک جاری رہنے والی شادیوں میں برباردہورہی ہیں اورمال کمانااورزیادہ زیادہ جمع کرناکمال بن چکاہے ، آج مال اوراولاد کی خاطرلوگ دین سے دورہوتے ہیں ، یورپ میں کمانے کے لئے جاتے ہیں ، بڑے بڑے مکانات کی ہوس میں ہرناجائز کام کرتے ہیںاورجہاد کاتودوردورتک ان کے دماغوں میں تصوراورخیال بھی نہیں ہے ، چنانچہ ان کی حالت دیکھ کرزمانے کے کافریہی کہتے پھرتے ہیں کہ جہاد غربت کی وجہ سے ہوتاہے ، چنانچہ صرف غریب مسلمان ہی جہاد کرتے ہیں اورجہاد کانام لیتے ہیں۔ اس لئے ان کو مال کمانے اورمال بنانے پرلگائوتویہ جہاد چھوڑدیں گے ، ان حالات میں یہ آیت کریمہ آسمانی بجلی کی طرح کڑک کراعلان کرتی ہے کہ اپنے اہل ، خاندان، اولاد، مال تجارت اورمکان کو جہاد پرترجیح دینے والو!اللہ تعالی کے عذاب کاانتظارکرو۔

غزوہ حنین کامختصرتعارف

حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام غزوہ ہوازن بھی ہے۔ اس لیے کہ اس لڑائی میں بنی ہوازن سے مقابلہ تھا۔ مکہ اور طائف کی درمیانی وادی میں بنو ہوازن اور بنو ثقیف دو قبیلے آباد تھے۔ یہ بڑے بہادر، جنگجو اور فنون جنگ سے واقف سمجھے جاتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد بھی انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ان لوگوں نے یہ خیال قائم کر لیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لیے ان لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کر دیا جائے۔ چنانچہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے عبد اللہ بن ابی حدرد رضی اللہ عنہ کو تحقیقات کے لیے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیااور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کر لیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے اور سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا۔ درید بن الصمہ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔حضورتاجدارختم نبوتﷺ۸ہجری میں بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ ان کے مقابلے کو نکلے۔ ان میں دو ہزار سے زائد نو مسلم اور چند غیر مسلم بھی شامل تھے۔ دشمنوں نے اسلامی لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر سنی تو وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں سے اس زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمان سراسیمہ ہو گئے۔ مکہ کے نو مسلم افراد سب سے پہلے ہراساں ہو کر بھاگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان بھی منتشر ہونا شروع ہو گئے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ چند جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میدان میں رہ گئے اور بہادری سے لڑتے رہے۔ خود حضورتاجدارختم نبوتﷺ تلوار ہاتھ میں لے کر رجز پڑھ رہے تھے۔

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
آپﷺ کی ثابت قدمی اور شجاعت نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور یہ مٹھی بھر آدمی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے حکم سے حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نام لے کے مہاجر قوم و انصار کو بلایا۔ اس آواز پر مسلمان حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے گرد اکھٹے ہو گئے اور اس شدت سے جنگ شروع ہوئی کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا۔ کفار مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے۔ بنو ثقیف نے طائف کا رخ کیا۔ بنو ہوازن اوطاس میں جمع ہوئے لیکن مسلمانوں نے اوطاس میں انہیں شکست دی۔ مسلمانوں کو شاندار کامیابی ہوئی اور دشمن کے ہزاروں آدمی گرفتار ہوئے۔

دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ رضی اللہ عنہم کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سے آپﷺ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپﷺنے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ آج بھلا ہم پر کون غالب آ سکتا ہے۔ لیکن خداو ند عالم کو کچھ لوگوں کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اورہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفار مکہ جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم بھی پریشان ہو گئے۔ حضور تاجدارختم نبوتﷺکے پائے استقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ ﷺاکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ ﷺکی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ اسی حالت میں آپﷺنے دا ہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ{ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ }فورًا آواز آئی کہ ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲﷺپھر بائیں جانب رخ کرکے فرمایا کہ (یَا لَلْمُھَاجِرِیْن)َ فوراً آواز آئی کہ ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲﷺ، عباس چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے۔ آپﷺ نے ان کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو( یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارو یَا لَلْمُھَاجِرِیْن)َ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے ازدحام کی و جہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لیے اپنی ز رہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زدن میں جنگ کا پانسا پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے کچھ قتل ہو گئے جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے۔ لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبد اﷲقتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتح مبین نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا۔

Leave a Reply