مسجد تعمیرکرناصرف اورصرف اہل ایمان کاحق ہے اورمسجدتعمیرکرنے میں نیت دین کی تقویت کی ہونی چاہئے
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ }(۱۸)
ترجمہ کنزالایمان:اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نما ز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اللہ تعالی کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان لاتے اور نما ز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ تعالی کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔
مشرک اورکافرمسجد تعمیرکیوں نہیں کرسکتا؟
قَوْلُہُ: إِنَّما یَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّہِ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَإِنَّمَا قُلْنَا إِنَّہُ لَا بُدَّ مِنَ الْإِیمَانِ باللَّہ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ عِبَارَۃٌ عَنِ الْمَوْضِعِ الَّذِی یُعْبَدُ اللَّہ فِیہِ، فَمَا لَمْ یَکُنْ مُؤْمِنًا باللَّہ، امْتَنَعَ أَنْ یَبْنِیَ مَوْضِعًا یُعْبَدُ اللَّہ فِیہِ، وَإِنَّمَا قُلْنَا إِنَّہُ لَا بُدَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ مُؤْمِنًا باللَّہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ لِأَنَّ الِاشْتِغَالَ بِعِبَادَۃِ اللَّہ تَعَالَی إِنَّمَا تُفِیدُ فِی الْقِیَامَۃِ، فَمَنْ أَنْکَرَ الْقِیَامَۃَ لَمْ یَعْبُدِ اللَّہ، وَمَنْ لَمْ یَعْبُدِ اللَّہ لَمْ یَبْنِ بِنَاء ً لِعِبَادَۃِ اللَّہ تَعَالَی.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {إِنَّما یَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّہِ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِر}کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ ہم نے اس لئے کہاکہ اللہ تعالی پرایمان ضروری ہے کیونکہ مسجد نام ہے اس جگہ کاجس میں اللہ تعالی کی عبادت کی جائے توجب تک اللہ تعالی کی ذات پاک پرایمان نہیں ہوگاتوممتنع ہے کہ وہ اللہ تعالی کی مسجد شریف تعمیرکرے ۔ ہم نے یہ پابندی اس لئے لگائی کہ وہ اللہ تعالی اورآخرت کاماننے والاہوکیونکہ عبادت میں مشغول ہوناقیامت کے روزاسے فائدہ دے گااورجو قیامت کاانکارکرے وہ اللہ تعالی کی عبادت نہیں کرے گااورجوعبادت نہیں کرے گاوہ عبادت کی جگہ بھی نہیں بنائے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۹)
زکوۃ اورتعمیرمسجد کاباہمی تعلق
وَآتَی الزَّکاۃَ.وَاعْلَمْ أَنَّ اعْتِبَارَ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاء ِ الزَّکَاۃِ فِی عِمَارَۃِ الْمَسْجِدِ کَأَنَّہُ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ الْمُرَادَ مِنْ عِمَارَۃِ الْمَسْجِدِ الْحُضُورُ فِیہِ، وَذَلِکَ لِأَنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا کَانَ مُقِیمًا لِلصَّلَاۃِ فَإِنَّہُ یَحْضُرُ فِی الْمَسْجِدِ فَتَحْصُلُ عِمَارَۃُ الْمَسْجِدِ بِہِ، وإذاکَانَ مُؤْتِیًا لِلزَّکَاۃِ فَإِنَّہُ یَحْضُرُ فِی الْمَسْجِدِ طَوَائِفُ الْفُقَرَاء ِ وَالْمَسَاکِینِ لِطَلَبِ أَخْذِ الزَّکَاۃِ فَتَحْصُلُ عِمَارَۃُ الْمَسْجِدِ بِہِ. وَأَمَّا إِذَا حَمَلْنَا الْعِمَارَۃَ عَلَی مَصَالِحِ الْبِنَاء ِ فَإِیتَاء ُ الزَّکَاۃِ مُعْتَبَرٌ فِی ہَذَالْبَابِ أَیْضًا لِأَنَّ إِیتَاء َ الزَّکَاۃِ وَاجِبٌ وَبِنَاء َ الْمَسْجِدِ نَافِلَۃٌ، وَالْإِنْسَانُ مَا لَمْ یَفْرَغْ عَنِ الْوَاجِبِ لَا یَشْتَغِلُ بِالنَّافِلَۃِ وَالظَّاہِرُ أَنَّ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَکُنْ مُؤَدِّیًا لِلزَّکَاۃِ لَمْ یَشْتَغِلْ بِبِنَاء ِ الْمَسَاجِدِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف{وَآتَی الزَّکاۃَ}کے تحت فرماتے ہیں کہ نماز کے قیام اورزکوۃ کی ادائیگی کامساجد کی تعمیرمیں اعتباریہ دلالت کررہاہے کہ مساجد کی تعمیران میں حاضری کے لئے ہے ، اس لئے کہ جب انسان نماز کے لئے آتاہے تواس کی وجہ سے تعمیرمساجدحاصل ہوتی ہے اوراگروہ زکوۃ دینے والاہوگاتومساجد میں فقراء ومساکین کے گروہ زکوۃ لینے کے لئے آئیں گے تواس طرح مساجد آباد ہوں گی اوراگرہم عمارت کو مصالح تعمیرپرمحمول کریں پھربھی اس میں زکوۃ کااعتبارہوگا، اس لئے کہ زکوۃ کی ادائیگی واجب ہے اورمساجد کی تعمیرنفل ہے ۔ انسان جب تک لازم اورفرض سے فارغ نہ ہونفل میں مشغول نہیں ہوسکتا۔ ظاہریہی ہے کہ جب تک انسان زکوۃ ادانہیں کرتامساجد کی تعمیرمیں مشغول نہ ہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۹)
مسجد دین کی تقویت کے لئے بنائی جائے
یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ الْمُرَادُ مِنْہُ أَنْ یَبْنِیَ الْمَسْجِدَ لَا لِأَجْلِ الرِّیَاء ِ وَالسُّمْعَۃِ وَأَنْ یُقَالَ إِنَّ فُلَانًا یَبْنِی مَسْجِدًا، وَلَکِنَّہُ یَبْنِیہِ لِمُجَرَّدِ طَلَبِ رِضْوَانِ اللَّہ تَعَالَی وَلِمُجَرَّدِ تَقْوِیَۃِ دِینِ اللَّہ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ}کے تحت فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ مراد اس جملہ سے یہ ہوکہ مسجد کوریاکاری اوردکھلاوے کے لئے نہ بنایاجائے کہ لوگ کہیں کہ فلاں نے مسجد بنائی ہے مگریہ کہ وہ مسجد اللہ تعالی کی رضااوراللہ تعالی کے دین کی تقویت کے لئے بنائی جائے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۶:۹)
ظالم قوم کے مظلوم امام
لیکن مسجدوں کی تعمیر کا اصل مقصد پنج وقتہ نماز جماعت کے ساتھ قائم کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے ذریعے مسجد کو آباد رکھا جائے اور مسجد بننے کے بعد، اس کی آبادی کے لیے چار ستون ضروری ہیں:پہلاامام، دوسرا مؤذن، تیسرا مقتدی، اور چوتھا مسجد کی انتظامیہ۔ اگر ان میں سے ایک بھی نہ رہے؛ تو مسجد کا حق ادا نہیں ہوگا۔ ان چار ستونوں میں اللہ تعالی کے یہاں سب سے اعلی اور افضل، دو ستون ہیں، اور وہ امام ومؤذن ہیں۔
امام کے معنی پیشوا کے آتے ہیں جنکی اقتدا کی جائے۔ یہ انبیائے کرام علیہم السلام کی صفات میں سے ہے۔
امام صاحب سے پہلے اگر کسی نے نماز کا کوئی رکن ادا کرلیا،تو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی، یہ تو امام کی اہمیت ہے، یعنی شریعت نے امام کا رتبہ بلند کیا، اس کو متبوع بنایالیکن آج ہم اس امام کو تابع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسرا اہم ستون:مؤذن ہے، یہ لوگوں کو نماز کے لیے بلاتا ہے، جس وقت ساری دنیا اپنے کاموں میں مشغول ہوتی ہے، گہری نیند سورہی ہوتی ہے، اس وقت یہ اللہ کا بندہ لوگوں کو دنیا کی مشغولیت سے نکل کر، مسجد میں آنے کی دعوت دیتا ہے۔
لیکن افسوس کہ ان چار طبقوں میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ امام اور مؤذن ہی ہیں۔ جو انبیا ء کرام علیہم السلام کا وارث ہو، امامت جس کا حق ہو، جو لوگوں کو نماز کی دعوت دیتا ہو، ان کو مسجد آباد کرنے کی دعوت دیتا ہو، وہ آج مجبور محض اور مظلوم بنا ہوا ہے۔ رہے دوسرے دو ستون، یعنی مسجد کے نمازی اور مسجد انتظامیہ تو ان کا شمار ظالموں میں ہوتا ہے۔ مقتدیوں کا شمار ظالموں میں اس لیے کہ انہوں نے ایسی انتظامیہ کا انتخاب کیا، جو امام ومؤذن کی ضروریات کا خیال نہیں کرتی اورمعلوم ہونے کے بعد بھی کہ مسجد کی انتظامیہ ان کے امام ومؤذن پر ظلم کر رہی ہے، آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔
نمازیوں کو چاہیے کہ ایسے افراد کو مسجد کی انتظامیہ کیلئے منتخب کریں، جو امام ومؤذن کی عزت واکرام اس کے شان کے مطابق کرتے ہوں، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھتے ہوں، ان کو دیگر ملازمین کی طرح سمجھنا منصب امامت کی توہین ہے۔بلکہ ظلم ہے۔
اب ہم اپنی مسجدوں کا جائزہ لیں، کیا ہماری مسجد انتظامیہ میں ایسے افراد ہیں جو آیت مذکور میں دینی شعور کے حامل ہیں؟ اگر نہیں ہیں،تو یقینا وہ امام ومؤذن کی خدمت ان کے شایان شان نہیں کر سکتے۔ ہماری مسجد کے صدر اور سیکرٹری بھی سیاسی اور دبنگ لوگ ہوتے ہیں، جن کو دور دور تک بھی اللہ تعالی کا ڈر نہیں ہوتا۔ نماز اور مسجد سے ان کا واسطہ صرف جمعہ اور عیدین تک ہی محدود رہتا ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے لوگ سخت دل ہوتے ہیں۔ صرف اپنے کو عزت دار خیال کرکے عزت واحترام کا حق دار سمجھتے ہیں،امام ومؤذن سے بھی وہ یہی توقع رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے عزت و احترام میں ان کی گردن جھکی رہے اور جی حضوری کریں۔ دوسروں کی ضروریات سے وہ واقف تو ہوتے ہیں، مگر امام وموذن کی ضروریات سے ناواقف رہتے ہیں اور اگر واقف ہوبھی جاتے ہیں؛ تو ان کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے۔
یہ حال تو ہماری انتظامیہ کاہے۔اور ہم؟ جی ہم بھی ان سے کم نہیں، بلکہ اس ظلم عظیم میں برابر کے شریک ہیں،ہم بھی امام ومؤذن کے مرتبہ سے غافل ہیں یا جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں، ہم امام کو ہمیشہ مفلس، قلاش، مقروض اور مجبور محض دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ امام ایک اچھے مکان میں رہے۔ اس کے گھر کا کھانا پینا اچھا ہو۔ اس کے پاس ایک گاڑی ہو۔ اس کے بچے اچھا پہنیں، صحیح طورپر تعلیم حاصل کریں اور امام خوش حال زندگی گزارے، مصلیوں کی اکثریت امام ومؤذن پر حکومت کرتی نظر آتی ہے بلکہ ان میں اکثر ایسے افراد ہوتے ہیں جن کی گھر میں ایک آنے کی بھی حیثیت نہیں ہوتی لیکن مسجد میں آکر وہ مسجد کے خادموں کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ آج ہماری یہ صورت حال ہے کہ اپنے خدمت گار ملازم کو امام ومؤذن سے زیادہ تنخواہ دیتے ہیں۔ اگر امام صاحب کسی مجبوری کی وجہ سے کسی دن دو منٹ لیٹ ہوگئے؛ تو گلا پھاڑ پھاڑ کر امام صاحب کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ تنخواہ کاٹنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ جی وہی تنخواہ،جس سے امام صاحب کے گھر کاگزارا مشکل سے ہوتا ہے، جی وہی تنخواہ، جتنے کی بیڑی سگریٹ ہمارے صدر و سیکر ٹری صاحبان صرف ایک دن میں ہضم کرجاتے ہیں، میرے خدا رحم فرما!
ہماری انتظامیہ بلا وجہ اماموں کو تبدیل کرنے کی خواہش مند رہتی ہے بلکہ کرتی رہتی ہے۔ کیوں؟ وہ اس لیے کہ اگر ایک ہی امام مستقل جم کر رہا،تو سال دو سال پر تھوڑی بہت تنخواہ بڑھانی ہوگی اور یہ ممکن نہیں، امام کی تقرری کے وقت تنخواہ تو امامت کی متعین کی جاتی ہے؛ لیکن ساتھ ہی دو وقت مکتب پڑھانے کی شرط لگادی جاتی ہے،بعض جگہوں پر یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ آپ کو اپنی تنخواہ چندہ اکٹھا کرکے خود نکالنی ہوگی اور چندہ میں سے تنخواہ لینے کے بعد، جو کچھ بچے اس کا حساب انتظامیہ کو دینا ہوگا اور کہیں مطلق چندہ کی ہی شرط رہتی ہے کہ ماہانہ چندہ اور ضرورت پڑنے پر تعمیری چندہ بھی اکٹھا کرنا ہوگا وغیرہ وغیرہ،جب کہ یہ سب ذمے داریاں مسجد انتظامیہ کی ہیں، نہ کہ امام ومؤذن کی۔ آجکل مساجد کی کمیٹیوں میں بیشتر افراد دیندار اور اچھے خیالات و جذبات کے حامل ہوتے ہیں لیکن ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو محض چودھراہٹ کے خیال سے کمیٹیوں پر حاوی ہو جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے خاصی رقوم بھی مساجد کی تعمیر میں صرف کر دیتے ہیں۔اورپھریہی لوگ مساجد میں اپنارعب جماتے ہیں کہ مساجد میں دین متین کے اعلاء کی بات نہ کی جائے اوراسلام کے غلبہ کی بات نہ کی جائے ۔ اسی طرح ایک سیاسی شخصیت جس کاتعلق پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی اوربے دین جماعت کے ساتھ تھا، فقیرکے پاس آئے اورکہنے لگے کہ آپ ہماری مسجد میں آجائیں توآپ کو بہت بڑی رقم بطورخدمت کے دیں گے اوروہ واقعی بہت بڑی خدمت کہہ رہے تھے مگرمیں نے جب پوچھاکہ وہاں دین کس کی مرضی سے بیان ہوگاتوکہنے لگے کہ صرف نماز ،روزہ ، غسل اوراستنجاکے مسائل بیان کرنے ہیں ، اس کے لئے غلبہ دین کی بات نہیں کرنی ۔ توفقیرنے فوراً۱ ن کو جواب دے دیاکہ آپ کوئی بندہ تلاش کریں جو دین پر سمجھوتہ کرناجانتاہو۔
ہماری یہ صورت حال ہے کہ ہمارے گھروں اور مسجدوں کے رنگ وروغن میں سالانہ لاکھوں روپے فضول خرچ کردیے جاتے ہیں؛ لیکن بیچارے امام ومؤذن ہیں کہ وہ سکونت کے قابل ایک گھر کی خواہش میں زندگی کھپا دیتے ہیں۔اوراسی طرح بہت سے ائمہ بیچارے ایسے ہیں جن کو مسجد کی طرف سے مکان تک نہیں دیاگیابلکہ کئی کئی سالوں سے مسجد میں ہی رہ رہے ہیں اورانتظامیہ ہے کہ ان کو ان کی ضروریات کااندازہ نہیں ہے۔ اگر کوئی امام خارجی آمدنی کے لیے چھوٹا موٹا اپنا کوئی کاروبار شروع کرتا ہے،تو اس کو امامت کا مستحق نہیں سمجھا جاتا یا پھر اس کی تنخواہ کا اضافہ روک دیا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالی کا کوئی نیک بندہ امام ومؤذن کی تنخواہ میں اضافہ کی بات کرتا ہے،تو اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کا حوالہ دے کر اس کو خاموش کردیا جاتا ہے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک مسجد شریف میں ایک نیک دل امام مقررتھے۔ اس وقت مسجد شریف کی انتظامیہ میں ایک دین کادردرکھنے والے بزرگ بھی رکن تھے ۔اجلاس میں کچھ اراکین نے اس خاموش مزاج، نیک دل، خدا ترس اور متقی وپرہیزگارامام کی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ انتظامیہ کے ایک فعال رکن تھے (جو ماسٹر تھے )نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ امام صاحب کے پیسے میں بہت برکت ہوتی ہے۔ اس رکن کے اس جواب پر اس دین کادرد رکھنے والے بزرگ نے جواب دیا کہ ماسٹر صاحب آپ کا یقین بہت پختہ ہے۔ آپ آج سے یہ کریں کہ اپنی تنخواہ لاکر امام صاحب کو دے دیا کریں اور ان کی برکت والی تنخواہ آپ لے لیا کریں۔ بس ماسٹر صاحب خاموش ہوگئے۔
اوراسی طرح ایک بارشیخ الحدیث والتفسیرابوالبرکات سید احمدرحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس قلعہ گوجر سنگھ کے چند احباب اپنے محلہ کی مسجد کے لیے امام وخطیب کی درخواست لے کر حاضر ہوئے اور کہا :ہمیں ایسا امام وخطیب چاہیے جو عالم بھی ہو اور خطیب بھی لیکن ہم غریب لوگ ہیں ہماری توفیق اتنی نہیں کہ ان کی معقول خدمت کر سکیں ، کچھ کرم فرمائیے!حضرت سید صاحب کی طبع مبارک میں ایک لطیف مزاح کا عنصر بھی تھا ، فرمانے لگے:میری نظر میں ایک ایسا عالم ہے جو بہت ہی بڑا عالم ہے اورمزے کی بات یہ ہے کہ اسے لالچ کسی بات کا نہیں ، اسے کھانے پینے کی بھی پروا نہیں ، بلکہ وہ کھاتا پیتا ہی نہیں ،رہنے کے لیے اسے مکان کی ضرورت نہیں ،تنخواہ کا بھی وہ محتاج نہیں ۔ اس کا نام تمہیں بتا دیتا ہوں تم اس کے پاس چلے جائو اگر وہ راضی ہو گئے تو تمہارا کام بن جائے گا ، تمہارے سارے کام بھی کرے گا اور تم سے لے گا بھی کچھ نہیں -وہ لوگ بڑے خوش ہو ئے اور پوچھنے لگے حضور اُن کا نام !آپ نے فرمایا:حضرت جبریل علیہ السلام ۔یہ سن کر وہ چونکے بھی اور ہنسے بھی ۔حضرت نے فرمایا:تم عالم تو ایسا چاہتے ہو جس میں ہرخوبی ہو مگر ساتھ ہی تمہاری خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کھائے پئے کچھ نہیں ، رہنے ، پہننے سے بے نیاز ہو اور تمہیں اس کی خدمت نہ کرنی پڑے ۔دنیاوی ضرورتوں پر تو ہزاروں لاکھوں خرچ کردو پروا نہیں اورجو دینی ضرورت پیش آئے تو توفیق یاد آجاتی ہے ۔
واقعی ہم امام مسجد کی خدمت اس طرح نہیں کرتے ، جس طرح کرنی چاہیے ۔پیروں اور نعت خوانوں کو لاکھوں نذرانے میں دے دیتے ہیں مگرعلما وائمہ کودینے کی بات آئے تو ہماری یہ سوچ ہوگئی ہے اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ امام ومؤذن انسان ہی نہیں، ان کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
راقم الحروف مسجد کمیٹیوں سے گزارش کرتا ہے کہ امام ہمارے پیشوا ہیں۔ وہ ممبر رسول کے وارث ہیں۔ وہ محراب رسول کے امین ہیں؛ اس لیے جس طرح ہم اپنی ضروریات کا خیال کرتے ہیں، ان کا بھی خیال کریں بلکہ جس طرح نماز میں امام کو اپنے سے آگے رکھتے ہیں، اسی طرح دنیاوی آسائش میں بھی، ہم ان کو مقدم رکھیں۔ ساتھ ہی ساتھ نمازیوں سے بندہ یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ کمیٹی میں ایسے افراد کا انتخاب نہ کریں، جو امام ومؤذن کی ضروریات کا خیال نہ کریں، جو رحم دل نہ ہوں، نماز کی پابندی نہ کرتے ہوں، زکوۃ کا اہتمام نہ کرتے ہوںکیوں کہ جو اللہ تعالی کا اور فقراء کا حق ادا نہ کرے، وہ امام ومؤذن کا حق خاک ادا کرے گا۔ یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ ظالم اور اس کی مدد کرنے والا ایک دن مٹ کر رہے گا۔