تفسیر سورۃالتوبہ آیت ۱۶۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ

مومن اورمنافق کی معرفت کی کسوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے

{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلَارَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ }(۱۶)

ترجمہ کنزالایمان:کیا اس گمان میں ہو کہ یونہی چھوڑ دیئے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے پہچان نہ کرائی ان کی جو تم میں سے جہاد کریں گے اور اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا مَحرم راز نہ بنائیں گے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:کیا اس گمان میں ہو کہ یونہی تم کوچھوڑدیاجائے گا اور ابھی اللہ تعالی نے پہچان نہ کرائی ان کی جو تم میں سے جہاد کریں گے اور اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم ﷺاور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا مَحرم راز نہ بنائیں گے اور اللہ تعالی تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

جہاد کاحکم آنے سے ہی منافق ممتاز ہوگئے

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُمَا: إِنَّ اللَّہ لَا یَرْضَی أَنْ یَکُونَ الْبَاطِنُ خِلَافَ الظَّاہِرِ، وَإِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہ مِنْ خَلْقِہِ الِاسْتِقَامَۃَ کَمَا قَالَ:إِنَّ الَّذِینَ قالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقامُوا (فصلت:۳۰)الأحقاف:۱۳)قَالَ:وَلَمَّا فُرِضَ الْقِتَالُ تَبَیَّنَ الْمُنَافِقُ مِنْ غَیْرِہِ وَتَمَیَّزَ مَنْ یُوَالِی الْمُؤْمِنِینَ مِمَّنْ یُعَادِیہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اللہ تعالی یہ بات پسندنہیں فرماتاکہ کسی کاباطن اس کے ظاہرکے خلاف ہواوراللہ تعالی مخلوق سے استقامت چاہتاہے جیسے اللہ تعالی نے فرمایا{إِنَّ الَّذِینَ قالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقامُوا }ترجمہ : بے شک وہ لو گ جنہوںنے کہا: ہمارارب اللہ تعالی ہے ، پھرثابت قدم رہے ۔
جب قتال واجب ہوگیاتومنافق اہل ایمان سے ممتاز ہوگیااوراہل ایمان اپنے دشمنوں سے ممتا زہوگئے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۸)

جب کوئی شخص مخلص ہوکرجہاد نہ کرے ۔۔

وَالْمَقْصُودُ مِنْ ذِکْرِ ہَذَا الشَّرْطِ أَنَّ الْمُجَاہِدَ قَدْ یُجَاہِدُ وَلَا یَکُونُ مُخْلِصًا بَلْ یَکُونُ مُنَافِقًا، بَاطِنُہُ خِلَافُ ظَاہِرِہِ، وَہُوَ الَّذِی یَتَّخِذُ الْوَلِیجَۃَ مِنْ دُونِ اللَّہ وَرَسُولِہِ وَالْمُؤْمِنِینَ، فَبَیَّنَ تَعَالَی أَنَّہُ لَا یَتْرُکُہُمْ إِلَّا إِذَا أَتَوْا بِالْجِہَادِ مَعَ الْإِخْلَاصِ خَالِیًا عَنِ النِّفَاقِ وَالرِّیَاء ِ وَالتَّوَدُّدِ إِلَی الْکُفَّارِ وَإِبْطَالِ مَا یُخَالِفُ طَرِیقَۃَ الدِّینِ ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس شرط کے ذکرسے مقصودیہ ہے کہ مجاہد جہاد کرتاہے اورکبھی وہ مخلص نہیں ہوتابلکہ وہ منافق ہوتاہے اوراس کاباطن ظاہرکے خلاف ہوتاہے تووہ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺاوراہل ایمان کے علاوہ کسی کو دوست بنائے گاتواللہ تعالی نے واضح کیاکہ وہ انہیں چھوڑے گاجب تک وہ نفاق ، ریاکاری اورکفارکی محبت سے چھٹکاراپاکرجہاد نہ کریں اوراس چیز کو باطل نہ کہیں جو دین کے طریقوں کے مخالف ہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۸)

امام الرازی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت سے معلوم ہواکہ اس آیت کریمہ میں دوطرح کے امتحانات ذکرکئے گئے ہیں ۔پہلاامتحان یہ ہوتاہے کہ ایمان کادعوی کرنے والوںمیں سے کون جہا دکرتاہے اورکون نہیں کرتا۔
پھرجہاد کرنے والوں کاامتحان ہوتاہے کہ ان میں سے کون اخلاص کے ساتھ جہاد کرتاہے اورکون اپنی ذاتی اغراض کیلئے جہاد کے دوران کافروں کے ساتھ دوستیاں لگاتاہے۔پس جو اخلاص کیساتھ جہاد کرتاہے وہ مومن اورجوذاتی اغراض کیلئے لڑتاہے اورکافروںکے ساتھ دوستیاں لگاتاہے وہ منافق ہے ۔

معارف ومسائل

(۱) آج بھی ساری دنیامیں جہاں بھی جہادہوتاہے وہاں آپ یہ منظرملاحظہ کرسکتے ہیں کچھ مسلمان کفارکے خلاف جہاد کرتے ہیں اورکچھ نام نہاد مسلمان کافروں کے دوست ، معاون اورہمراز بن جاتے ہیں ۔ جہاد کے شروع ہونے سے پہلے یہ سب طبقے خود کومسلمان کہتے تھے مگرجیسے ہی جہاد شرو ع ہوتاہے چھانٹی شروع ہوجاتی ہے اورمنافق بھاگ بھاگ کرکافروں کے قدموں میں جاکربیٹھتے ہیں اوران کو اپنی دوستی کایقین دلاتے ہیں اورا ن کے اتحادی بن جاتے ہیں ۔ یوں جہاد کی برکت سے مومن اورمنافق الگ الگ ہوجاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہواہر ہردورمیں جب بھی اہل ایمان نے جہاد شروع کیاتووہاں وہاں میرجعفرومیرصاد ق اورکردوغلوجیسے منافق رہے ہیں۔
(۲)اسی طرح وہ منافقین ہیں جو خود کومذہبی لبادہ میں چھپائے ہوئے ہیں اورخودکو مذہب کاپیروکارکہتے ہیں ، یہ لوگ بھی انگریزی ذہن کے مالک ہوتے ہیں اوردعوی اسلام کاکرتے ہیں مگراندرسے لبرل وسیکولر ہوتے ہیں ۔ اورعوام عام طور پر ان منافقین کی وجہ سے شرمیں مبتلا ہوتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو انہی سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور وہ ان کے لیے غیر معمولی خطرناک ثابت ہوتے ہیںکیونکہ یہ لوگ اسلام کے وفادار اور اس کی نصرت و دعوت کے علمبردار تصور کیے جاتے ہیںحالا نکہ درحقیقت یہ ان کے شدید ترین دشمن ہیں اور ان کے خلاف مکر و فریب اور سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں اور اپنی چھپی ہوئی عداوت و بغض کو نت نئے طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ عام آدمی تصور کر بیٹھتا ہے کہ وہ نشرِ علم اور اصلاحِ معاشرہ میں مصروف ہیں حالانکہ وہ جہل وفساد پھیلانے میں سرگرم ہوتے ہیں۔
(۳)انھوں نے انہی سازشوں سے اسلام کے کتنے ہی مراکز تبا ہ و برباد کر دیے ہیں اور کتنے ہی قلعوں کی در و دیوار کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ اسلامی نشانات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے اور کتنے اسلامی اصولوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو ختم کرنے کی کو ششیں کی ہیں۔ چنانچہ ہمیشہ اسلام اور مسلمان ان کی سازشوں اور فتنوں کا شکار رہے اور برابر ان کی طرف سے مختلف قسم کے حملے ہوتے رہے جبکہ اپنی خام خیالی میں یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ وہ اصلاح اور عملِ خیر کر رہے ہیںاوریہی لوگ عوام الناس کو جہاد سے دورکرتے ہیں اورجہاد کے خلاف لوگوں کے دلوںمیں نفرت بھرتے ہیں اورطرح طرح سے جہاد کے مسئلہ کو الجھانے کی کوشش کرتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ جہاد کااب وقت نہیں رہا۔ کبھی کہتے ہیں کہ اب جہاد اقدامی کاوقت نہیں رہا۔ توکبھی کہتے ہیں کہ ہمارااسلام پرامن ہے ، توکبھی کہتے ہیں کہ ہم صوفیاء کرام کے ماننے والے ہیں اورصوفیاء کرام پرامن لوگ تھے ۔ اس طرح یہ لوگ ایک مذہبی فریضہ سے لوگوں کو دورکرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالی ان کے شرسے محفوظ فرمائے ۔ صوفیاء کرام کے جہادی کارناموں کی تفصیلات جاننے کے لئے ہماری کتاب ’’صوفیاء کرام کی مجاہدانہ زندگی اورموجود ہ خانقاہی نظام ‘‘ کامطالعہ آپ کے لئے انتہائی مفید رہے گا۔

Leave a Reply