تفسیر سورۃالتوبہ آیت ۱۔۲۔ بَرَآء َۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ

کفارومشرکین اوریہودونصاری کو جزیرہ عرب سے نکالنے کاحکم

{بَرَآء َۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ }(۱){فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللہِ وَاَنَّ اللہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ }(۲)
ترجمہ کنزالایمان:بیزاری کا حکم سنانا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ قائم نہ رہے۔تو چا ر مہینے زمین پر چلو پھرو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریمﷺکی طرف سے ان مشرکوں کے لئے اعلانِ براء ت ہے جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔تو اے مشرکین کی جماعت !تم چا ر مہینے تک زمین میں چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہ تعالی کو تھکا نہیں سکتے اور یہ کہ اللہ تعالی کافروں کوذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔

سورۃ توبہ کی ابتداء میں { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ}نہ ہونے کی وجہ ؟

قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَبَّاسٍ:سَأَلْتُ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ لِمَ لَمْ یُکْتَبْ فِی بَرَاء َۃٌ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ؟ قَالَ:لِأَنَّ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرحیم أمان وبراء ۃ نَزَلَتْ بِالسَّیْفِ لَیْسَ فِیہَا أَمَانٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ میںنے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ سورۃ البراۃ کے شرو ع میں { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ}کیوں نہیں لکھی گئی ؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیونکہ { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ}امان ہے اورسورۃ البراۃ توتلوارکے ساتھ نازل ہوئی ہے ۔ اس میں کسی کافرکے لئے کوئی امان نہیں ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۶۱)
اس حدیث شریف کی تشریح
وَرُوِیَ مَعْنَاہُ عَنِ الْمُبَرِّدِ قَالَ:وَلِذَلِکَ لَمْ یُجْمَعْ بَیْنَہُمَا فإن بسم اللہ الرحمن الرحیم رحمۃ وبراء ۃ نَزَلَتْ سَخْطَۃً۔
ترجمہ :امام المبردرحمہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ کامعنی بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سور ت کے ساتھ { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ}کو جمع نہیں کیاگیاکیونکہ { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ}رحمت ہے اورسورۃ البراۃ جلال وغضب کے ساتھ نازل ہوئی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۶۱)

منافقین کے لئے تلوارہے رحمت نہیں

عَنْ سُفْیَانَ قَالَ سُفْیَانُ بن عیینۃ: إنما لم تُکْتَبْ فِی صَدْرِ ہَذِہِ السُّورَۃِ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ لِأَنَّ التَّسْمِیَۃَ رَحْمَۃٌ وَالرَّحْمَۃُ أَمَانٌ وَہَذِہِ السُّورَۃُ نَزَلَتْ فِی الْمُنَافِقِینَ وَبِالسَّیْفِ وَلَا أَمَانَ لِلْمُنَافِقِینَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورۃ البراۃ کے شروع میں { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ}نہیں لکھی گئی کیونکہ { بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ}رحمت ہے اوررحمت امان ہے اوریہ سور ت منافقین کے بارے میں تلوارکے ساتھ نازل ہوئی اورمنافقین کے لئے کوئی امان نہیں ہے ۔
(زاد المسیر فی علم التفسیر:جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (۲:۲۳۱)

شان نزول
رُوِیَ أَنَّ فَتْحَ مَکَّۃَ کَانَ سَنَۃَ ثَمَانٍ وَکَانَ الْأَمِیرَ فِیہَا عَتَّابُ بْنُ أَسِیدٍ، وَنُزُولُ ہَذِہِ السُّورَۃِ سَنَۃَ تِسْعٍ، وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُ سَنَۃَ تِسْعٍ أَنْ یَکُونَ عَلَی الْمَوْسِمِ، فَلَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ السُّورَۃُ أَمَرَ عَلِیًّا أَنْ یَذْہَبَ إِلَی أَہْلِ الْمَوْسِمِ لِیَقْرَأَہَا عَلَیْہِمْ. فَقِیلَ لَہُ لَوْ بَعَثْتَ بِہَا إِلَی أَبِی بَکْرٍ، فَقَالَ: لَا یُؤَدِّی عَنِّی إِلَّا رَجُلٌ مِنِّی، فَلَمَّا دَنَا عَلِیٌّ سَمِعَ أَبُو بَکْرٍ الرُّغَاء َ، فَوَقَفَ وَقَالَ:ہَذَا رُغَاء ُ نَاقَۃِ رَسُولِ اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا لَحِقَہُ قَالَ:أَمِیرٌ أَوْ مَأْمُورٌ؟ قَالَ:مَأْمُورٌ، ثُمَّ سَارُوا، فَلَمَّا کَانَ قَبْلَ التَّرْوِیَۃِ خَطَبَ أَبُو بَکْرٍ وَحَدَّثَہُمْ عَنْ مَنَاسِکِہِمْ، وَقَامَ عَلِیٌّ یَوْمَ النَّحْرِ عِنْدَ جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ فَقَالَ:یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ رَسُولِ اللَّہ إِلَیْکُمْ، فَقَالُوا بِمَاذَا فَقَرَأَ عَلَیْہِمْ ثَلَاثِینَ أَوْ أَرْبَعِینَ آیَۃً، وَعَنْ مُجَاہِدٍ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ آیَۃً، ثُمَّ قَالَ: أُمِرْتُ بِأَرْبَعٍ أَنْ لَا یَقْرَبَ ہَذَا البیت بعد ہذہ الْعَامِ مُشْرِکٌ، وَلَا یَطُوفَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَلَا یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلَّا کُلُّ نَفْسٍ مُؤْمِنَۃٍ، وَأَنْ یَتِمَّ إِلَی کُلِّ ذِی عَہْدٍ عَہْدُہُ. فَقَالُوا عِنْدَ ذَلِکَ یَا عَلِیُّ أَبْلِغِ ابْنَ عَمِّکَ أَنَّا قَدْ نَبَذْنَا الْعَہْدَ وَرَاء َ ظُہُورِنَا وَأَنَّہُ لَیْسَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُ عَہْدٌ إِلَّا طَعْنٌ بِالرِّمَاحِ وَضَرْبٌ بِالسُّیُوفِ۔

ترجمہ :ـمنقول ہے کہ فتح مکہ آٹھ ہجری کوہوااوروہاں اس وقت امیرحضرت سیدناعطابن اسیدرضی اللہ عنہ تھے اوراس سورت کانزول نوہجری کوہوااورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کونویں ہجری کو حج کاامیربنایا، جب یہ سورۃ نازل ہوئی توحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ وہ اہل حج کے پاس جاکراس کی ان پر تلاوت کریں ، آپ ﷺکی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ آپﷺاسے حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کو سنانے کاحکم دیں توفرمایا:اسے وہی پہنچائے گاجومجھ سے ہو۔جب حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ قریب پہنچے توحضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ نے اونٹنی کی آواز سنی ، ٹھہرگئے اورفرمایاکہ یہ توحضورتاجدارختم نبوتﷺکی اونٹنی کی آواز ہے ، ملاقات پرپوچھا۔ آپ امیرہیں یامامور؟ بتایاکہ مامورہوں۔ پھرروانہ ہوئے توترویہ کے دن سے پہلے حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا، لوگوں کوحج کے مناسک بتائے ۔ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کے پاس یوم النحرکے پاس کھڑے ہوئے اورفرمایا: لوگو!میں تمھاری طرف حضورتاجدارختم نبوتﷺکانمائندہ ہوں۔ پوچھاگیاکہ کس چیز میں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے تیس سے چالیس آیات کریمہ تلاوت کیں۔
حضرت سیدنامجاہدرضی اللہ عنہ نے تیرہ آیات کریمہ کاتذکرہ کیاہے اورفرمایامجھے چارچیزوں کاحکم دیاگیاہے ، اس سال کے بعد
(۱)…بیت اللہ کے قریب کوئی مشرک نہیں آئے گا۔
(۲)…کوئی ننگاطواف نہیں کرے گا۔
(۳)جنت میں صرف اورصرف اہل ایمان ہی داخل ہوں گے ۔
(۴)…ہرعہدوالے کاعہدپوراہوگا۔
توسب نے اس موقع پرکہاکہ اے علی !اپنے چچازاد(یعنی حضورتاجدارختم نبوتﷺ) کوبھی یہ بات پہنچادوکہ ہم نے معاہدات کو پس پشت پھینک دیاہے ، اب ہمارے اوران کے درمیان صرف تلوارکی جنگ اورتیروں کامقابلہ ہی ہوگا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۵:۵۲۳)

چارماہ مقررفرمانے کی وجہ ؟

قَالَ الْمُفَسِّرُونَ:ہَذَا تَأْجِیلٌ مِنَ اللَّہ لِلْمُشْرِکِینَ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ، فَمَنْ کَانَتْ مُدَّۃُ عَہْدِہِ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ حَطَّہُ إِلَی الْأَرْبَعَۃِ، وَمَنْ کَانَتْ مُدَّتُہُ أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ رَفَعَہُ إِلَی الْأَرْبَعَۃِ وَالْمَقْصُودُ مِنْ ہَذَا الْإِعْلَامِ أُمُورٌ:الْأَوَّلُ:أَنْ یَتَفَکَّرُوا لِأَنْفُسِہِمْ وَیَحْتَاطُوا فِی ہَذَا الْأَمْرِ، وَیَعْلَمُوا أَنَّہُ لَیْسَ لَہُمْ بَعْدَ ہَذِہِ الْمُدَّۃِ إِلَّا أَحَدُ أُمُورٍ ثَلَاثَۃٍ:إِمَّا الْإِسْلَامُ أَوْ قَبُولُ الْجِزْیَۃِ أَوِ السَّیْفُ، فَیَصِیرَ ذَلِکَ حَامِلًا لَہُمْ عَلَی قَبُولِ الْإِسْلَامِ ظَاہِرًاوَالثَّانِی:لِئَلَّا یُنْسَبَ الْمُسْلِمُونَ إِلَی نَکْثِ الْعَہْدِ، وَالثَّالِثُ:أَرَادَ اللَّہ أَنْ یَعُمَّ جَمِیعَ الْمُشْرِکِینَ بِالْجِہَادِ، فَعَمَّ الْکُلَّ بِالْبَرَاء َۃِ وَأَجَّلَہُمْ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ، وَذَلِکَ لِقُوَّۃِ الْإِسْلَامِ وَتَخْوِیفِ الْکُفَّارِ، وَلَا یَصِحُّ ذَلِکَ إِلَّا بِنَقْضِ الْعُہُودِوَالرَّابِعُ:أَرَادَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ یَحُجَّ فِی السَّنَۃِ الْآتِیَۃِ، فَأَمَرَ بِإِظْہَارِ ہَذِہِ الْبَرَاء َۃِ لِئَلَّا یُشَاہِدَ الْعُرَاۃَ.
ترجمہ ـامام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ مشرکین کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے چارماہ کی مدت تھی ، اگران میں سے کسی معاہدے کی مدت ان چارماہ سے زیادہ تھی تواسے چارماہ کی طرف لایاجائے اوراگراس کی مدت چارماہ سے کم تھی تواسے چارماہ تک طویل کردیاجائے ، اس اطلاع سے مقصود یہ امورہیں :
پہلی چیز: وہ اس معاملے میں غوروفکرکرسکیں اوریہ جان لیں کہ اس مدت کے بعد تین امورمیں سے ایک ہے :
(۱)…اسلام قبول کرنا(۲)…جزیہ قبول کرنا(۳) …تلوار
تواب یہ چیز ان کو قبول اسلام کی طرف ابھارے گی۔
دوسری چیز: تاکہ وہ مسلمانوں کی طرف عہدتوڑنے کی نسبت نہ کرسکیں۔
تیسری چیز:اللہ تعالی نے تمام مشرکین کے ساتھ جہاد کاارادہ فرمایاتوتمام کو سورت براۃ شامل ہے اوراس کی مدت چارماہ ہی ہے اوریہ اسلام کوقوت دینے اورکافروں کو خوف دلانے کے لئے ہے ۔ اوریہ چیز معاہدات کے نقض کے بعد ہی درست ہے ۔
چوتھی چیز: حضورتاجدارختم نبوتﷺاگلے سال حج کاارادہ رکھتے تھے توآپ ﷺنے اس سے برات کے اظہارکاحکم دیاتاکہ آپﷺکسی بھی ننگے شخص کونہ دیکھیں۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۵:۵۲۳)

مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکالنے کاحکم

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا:أَنَّہُ قَالَ:یَوْمُ الخَمِیسِ وَمَا یَوْمُ الخَمِیسِ؟ ثُمَّ بَکَی حَتَّی خَضَبَ دَمْعُہُ الحَصْبَاء َ، فَقَالَ:اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَعُہُ یَوْمَ الخَمِیسِ،فَقَالَ:ائْتُونِی بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا، فَتَنَازَعُوا، وَلاَ یَنْبَغِی عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا:ہَجَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:دَعُونِی، فَالَّذِی أَنَا فِیہِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُونِی إِلَیْہِ، وَأَوْصَی عِنْدَ مَوْتِہِ بِثَلاَثٍ: أَخْرِجُوا المُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَۃِ العَرَبِ، وَأَجِیزُوا الوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیزُہُمْ، وَنَسِیتُ الثَّالِثَۃَ، وَقَالَ یَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَأَلْتُ المُغِیرَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَزِیرَۃِ العَرَبِ:فَقَالَ مَکَّۃُ، وَالمَدِینَۃُ، وَالیَمَامَۃُ، وَالیَمَنُ، وَقَالَ یَعْقُوبُ وَالعَرْجُ أَوَّلُ تِہَامَۃَ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:جمعرات کا دن کیا ہے جمعرات کا دن!اس کے بعد وہ اس قدرروئے کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن حضورتاجدارختم نبوتﷺکامرض شریف زیادہ ہو گیا تو آپ ﷺنے فرمایا:میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤتاکہ میں تمھیں ایک تحریر لکھوادوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ لیکن لوگوں نے اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا حضورتاجدارختم نبوتﷺتو جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:مجھے چھوڑدو۔ کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم مجھے بلا رہے ہو۔ اور آپ ﷺنے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی:مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔ مغیرہ بن عبد الرحمٰن نے جزیرہ عرب کے متعلق فرمایا کہ وہ مکہ، مدینہ، یمامہ اور یمن ہے۔ ان کے شاگرد یعقوب نے کہا:اور مقام عرج جہاں سے تہامہ شروع ہوتا ہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۶۹)

یہودیوں کو جزیرہ عرب سے نکلنے کاحکم

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:بَیْنَمَا نَحْنُ فِی المَسْجِدِ، خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:انْطَلِقُوا إِلَی یَہُودَ، فَخَرَجْنَا حَتَّی جِئْنَا بَیْتَ المِدْرَاسِ فَقَالَ:أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ، وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُجْلِیَکُمْ مِنْ ہَذِہِ الأَرْضِ، فَمَنْ یَجِدْ مِنْکُمْ بِمَالِہِ شَیْئًا فَلْیَبِعْہُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ۔
ترجمہ ـ:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:ایک دفعہ ہم مسجد نبوی شریف میں تھے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺگھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا:یہودیوں کے پاس چلیں۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے حتیٰ کہ بیت المدراس میں آئے تو آپ ﷺنے(ان سے)فرمایا:مسلمان ہوجاؤ تو سلامتی کے ساتھ رہو گے۔ خوب جان لو!زمین اللہ اور اس کے رسول کریمﷺکی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ تمھیں اس زمین سے جلاوطن کردوں، لہذا تم میں سے کوئی کچھ مال واسباب پائے تو اسے فروخت کردے بصورت دیگر تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ زمین تو اللہ اور اس کے رسول کریمﷺہی کی ہے۔ ۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۹۹)

یہودونصاری کو جزیرہ عرب سے نکال دیاگیا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا مُوسَی أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ حَدَّثَنِی مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَجْلَی الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَہَرَ عَلَی خَیْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودِ مِنْہَا وَکَانَتْ الْأَرْضُ حِینَ ظَہَرَ عَلَیْہَا لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلِلْمُسْلِمِینَ وَأَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودِ مِنْہَا فَسَأَلَتْ الْیَہُودُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُقِرَّہُمْ بِہَا أَنْ یَکْفُوا عَمَلَہَا وَلَہُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نُقِرُّکُمْ بِہَا عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا فَقَرُّوا بِہَا حَتَّی أَجْلَاہُمْ عُمَرُ إِلَی تَیْمَاء َ وَأَرِیحَاء َ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے جب خیبر پر غلبہ پایا تو اسی وقت یہودیوں کو وہاں سے نکال دینا چاہا کیونکہ غلبہ پاتے ہی وہ زمین اللہ، اس کے رسول کریمﷺاور تمام مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ پھر آپﷺ نے وہاں سے یہود کو نکالنے کا ارادہ فرمایا تو یہود نے آ پ ﷺسے درخواست کی کہ انھیں اس شرط پر وہاں رہنے دیاجائے کہ وہ کام کریں گے اور انھیں نصف پیداوار ملے گی۔ اس پر حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:ہم تمھیں اس کام پر رکھیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔ (چنانچہ یہود وہاں رہے تاآنکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مقام تیمااور مقام اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۳:۱۰۷)

ان احادیث شریفہ سے معلوم ہواکہ عرب میں کفارومشرکین نسل درنسل رہتے تھے ، انہیں چارماہ کی مہلت دے کران کو وہاں سے نکلنے کاحکم دیاگیااورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی زبان مبارک سے ان کو نکالنے کاحکم شریف جاری ہوا، پھران صریح نصوص قرآن وحدیث کے خلاف جاہ پرست ، دولت کے پجاری مسلمان حکمرانوں نے اپنی بادشاہتیں بچانے کے لئے امریکی افواج کو خطہ عرب میں لابٹھایااورآج وہ وہاں قابض ہوکربیٹھے ہوئے ہیں اوروہاں سے افغانستان اورتمام امت مسلمہ کے خلاف کاروائیاں کررہے ہیں۔گویاکہ پوراعالم اسلام غیرمحفوظ ہوگیاہے ۔ یہ ملت اسلامیہ پر عظیم ظلم کیاگیاہے ۔

معارف ومسائل

(۱) جن مشرکین کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے غیرمیعادی معاہدے کئے ہوئے تھے ان کے ساتھ صلح کے تمام معاہدوں کوختم کردیاگیا، اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی طرف سے ان تمام مشرکین کے خلاف اعلان جنگ ہے ، اسلام کے مرکزکوکفروشرک سے پاک کرنے کافیصلہ ہوچکاہے ۔۔
(۲) ان مشرکین کوچارمہینے کی مہلت دی جارہی ہے ، ان چارمہینوں میں ان کے لئے چلنے پھرنے کی کھلی آزادی اورامن ہے ، ان چارماہ کے بعد ان کو یاتوکفروشرک کو چھوڑناہوگایایہ علاقہ ۔ اگروہ کفرپرقائم رہیں گے اوریہ علاقہ بھی نہیں چھوڑیں گے توان کے ساتھ کھلی اورفیصلہ کن جنگ ہوگی ۔ ان مشرکین کو اچھی طرح جان لیناچاہئے کہ وہ اللہ تعالی کامقابلہ نہیں کرسکتے اوراللہ تعالی کافروں کودنیاوآخرت میں ذلیل ورسواکرنے والاہے ۔
(۳) اس سے یہ معلوم ہواکہ جس سے حضورتاجدارختم نبوتﷺبیزارہوجائیں توناممکن ہے کہ اللہ تعالی اس سے راضی ہو۔کفارعرب نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے عہدکوتوڑکرحضورتاجدارختم نبوتﷺکوبیزارکیاتواللہ تعالی بھی ان سے بیزارہوگیا، یہ ہوسکتاہے کہ کسی گناہ گارسے اللہ تعالی ناراض ہوتوحضورتاجدارختم نبوتﷺاس کی شفاعت کرکے اللہ تعالی کوراضی کرلیں کہ وہ دنیامیں اسی لئے توآئے ہیں کہ کل قیامت کے دن حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ایک سجدہ سے جلال جمال میں اورقہرمہرمیں تبدیل ہوجائے گا۔ محشرکانقشہ تک تبدیل ہوجائے گا۔

Leave a Reply