تَنْزِیْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰىﭤ(4)
تفسیر: صراط الجنان
{تَنْزِیْلًا:نازل کیا ہوا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی عظمت بیان فرمائی کہ یہ قرآن اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے جس نے زمینوں اور بلند آسمانوں کو پیدا فرمایا اور جس نے اتنی عظیم مخلوق پیدا فرمائی وہ خالق کتنا عظیم ہو گا اور جب ایسی عظیم ذات نے قرآن مجید نازل فرمایا ہے تو یہ قرآن کتنا عظمت والا ہو گا۔
قرآنِ مجید کی عظمت بیان کرنے کا مقصد:
یہاں قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کے معانی میں غورو فکر کریں اور اس کے حقائق میں تَدَبُّر کریں کیونکہ اس بات کا مشاہدہ ہے کہ جس پیغام کو بھیجنے والا انتہائی عظیم ہو تو اس پیغام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور پوری توجہ سے اسے سنا جاتا ہے اور بھر پور طریقے سے اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ اور جب قرآن کریم کو نازل فرمانے والا سب سے بڑا عظیم ہے تو اس کی طرف سے بھیجے ہوئے قرآن عظیم کوسب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سننا چاہئے اور اس میں انتہائی غورو فکر کرنا اور کامل طریقے سے ا س کے دئیے گئے احکام پر عمل کرنا چاہئے ۔ افسوس! آج مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو تلاوتِ قرآن کرنے سے ہی محروم ہے اور جو تلاوت کرتے بھی ہیں تو وہ درست طریقے سے تلاوت نہیں کرتے اور صحیح طریقے سے تلاوت کرنے والوں کا بھی حال یہ ہے کہ وہ نہ قرآن مجید کو سمجھتے ہیں ، نہ اس میں غورو فکر کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے اَحکام پر عمل کرتے ہیں۔
حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ہماری مصیبت سے بڑی کوئی مصیبت نہیں ، ہم میں سے ایک شخص دن رات قرآن مجید پڑھتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا حالانکہ یہ مکمل قرآن مجید ہماری طرف ہمارے رب کے پیغامات ہیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی اللہ عنہم کثرۃ الاستغفار وخوف المقت ۔۔۔ الخ، ص۲۶۱)
اور حضرت محمد بن کعب قرظی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس تک قرآن مجیدپہنچ گیا تو گویا اللہ تعالیٰ نے اس سے کلام کیا۔ جب وہ ا س بات پر قادر ہو جائے تو قرآن مجید پڑھنے ہی کو اپنا عمل قرار نہ دے بلکہ اس طرح پڑھے جس طرح کوئی غلام اپنے مالک کے لکھے ہوئے خط کو پڑھتا ہے تاکہ وہ اس میں غوروفکر کر کے اس کے مطابق عمل کرے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثالث فی اعمال الباطن فی التلاوۃ، ۱ / ۳۷۸)
اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى(5)لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰى(6)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلرَّحْمٰنُ:وہ بڑا مہربان ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نازل کرنے والے کی شان یہ ہے کہ وہ بڑا مہربان ہے اور اس نے اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمایا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے، جو کچھ زمین میں ہے ،جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے اور جو کچھ اس گیلی مٹی یعنی زمین کے نیچے ہے سب کا مالک بھی وہی ہے، وہی ان سب کی تدبیر فرماتا اور ان میں جیسے چاہے تَصَرُّف فرماتا ہے۔
عرش پر اِستوا فرمانے سے متعلق ایک اہم بات:
اللہ تعالیٰ کے اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمانے کی تفصیل سورۂ اَعراف کی آیت نمبر 54 کی تفسیر کے تحت گزر چکی ہے، یہاں اس سے متعلق ایک اہم بات یاد رکھیں ،چنانچہ حضرت امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے آکر اس آیت کامطلب دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر کس طرح اِستواء فرمایا تو آپ نے تھوڑے سے تَوَقُّف کے بعد فرمایا ’’ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر اِستواء فرمایا لیکن اس کی کَیفیت کیا تھی وہ ہمارے فہم سے بالاتر ہے البتہ اس پرایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں گفتگو کرنا بدعت ہے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۱۳۷)
وَ اِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى(7)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى: تو بیشک وہ آہستہ آواز کو جانتا ہے اور اسے (بھی)جو اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔} اس آیت کے دو الفاظ ’’اَلسِّرَّ‘‘ اور ’’ اَخْفٰى‘‘ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، جیسے ایک قول یہ ہے کہ سِروہ ہے جسے آدمی چھپاتا ہے اور’’ اس سے زیادہ پوشیدہ ‘‘وہ ہے جسے انسان کرنے والا ہے مگر ابھی جانتا بھی نہیں اور نہ اُس سے اِس کے ارادے کا کوئی تعلق ہوا ، نہ اس تک اس کاخیال پہنچا ۔ ایک قول یہ ہے کہ سِر سے مراد وہ ہے جسے بندہ انسانوں سے چھپاتا ہے اور ’’اس سے زیادہ چھپی ہوئی‘‘ چیز وسوسہ ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ بندے کا راز وہ ہے جسے بندہ خود جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور’’ اس سے زیادہ پوشیدہ ‘‘ربّانی اَسرار ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے بندہ نہیں جانتا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۲۴۹، ملتقطًا)
برے کاموں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب:
اس آیت میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہماری آہستہ آواز کو جانتا ہے اور جو اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے اسے بھی جانتاہے ۔اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ظاہری باطنی اَحوال ،آنکھوں کی خیانت ، سینوں میں چھپی باتیں اور ہمارے تمام کام جانتا ہے اور ہمارے تمام اَفعال کو دیکھ بھی رہا ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ‘‘(مائدہ:۹۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘(مومن:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اور اسےبھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا
’’اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم جو چاہو کرتے رہو ۔بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
ان آیات میں ہر بندے کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ وہ خفیہ اور اِعلانیہ، ظاہری اور باطنی تمام گناہوں سے پرہیز کرے کیونکہ کوئی ہمارے گناہوں کو جانے یا نہ جانے اور کوئی انہیں دیکھے یا نہ دیکھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے جو دنیا میں کسی بھی وقت اس کی گرفت فرما سکتا ہے اور اگر اس نے دنیا میں کوئی سزا نہ دی تو وہ آخرت میں جہنم کی دردناک سزا دے سکتا ہے۔ نیز ان آیات میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب بھی ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے کوئی نیکی چھپ کر کریں یا سب کے سامنے ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں اس کی جزا عطا فرمائے گا۔
بلند آواز سے ذکر کرنے کا مقصد:
ابو سعید عبد اللہ بن عمر رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفسیر ِبیضاوی میں اس آیت میں مذکور لفظ’’قول‘‘ سے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا مراد لی ہے اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ذکر و دعا میں جَہر اللہ تعالیٰ کو سنانے کے لئے نہیں ہے بلکہ ذکر کو نفس میں راسخ کرنے اور نفس کو غیر کے ساتھ مشغول ہونے سے روکنے اور باز رکھنے کے لئے ہے۔( بیضاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۱)