تفسیر سورۃ النور آیت ۱۱۔۱۲۔اِنَّ الَّذِیْنَ جَآء ُوْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ

حضرت ام المومنین سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکاگستاخ کافر،مرتداورواجب القتل ہے

{اِنَّ الَّذِیْنَ جَآء ُوْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیً مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْہُمْ لَہ عَذَابٌ عَظِیْمٌ }(۱۱){لَوْ لَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا وَّ قَالُوْا ہٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌ }(۱۲)

ترجمہ کنزالایمان:بیشک وہ کہ یہ بڑا بہتان لائے ہیں تمہیں میںسے ایک جماعت ہے اسے اپنے لیے بُرا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے ان میں ہر شخص کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا اور ان میں وہ جس نے سب سے بڑا حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سُنا تھا کہ مسلمان مَردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا اور کہتے یہ کھلا بہتان ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان :بیشک جو لوگ بڑا بہتان لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک جماعت ہے۔ تم اس بہتان کو اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر شخص کیلئے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا اور ان میں سے وہ شخص جس نے اس بہتان کاسب سے بڑا حصہ اٹھایا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔تم سے ایسا کیوں نہ ہواکہ جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے لوگوں پر نیک گمان کرتے اور کہتے:یہ کھلا بہتان ہے۔

قصہ افک واقعہ۔ افک کی حقیقت

عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ حَدَّثَنِی مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ قَالَ حَدَّثَتْنِی أُمُّ رُومَانَ وَہِیَ أُمُّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَتْ بَیْنَا أَنَا قَاعِدَۃٌ أَنَا وَعَائِشَۃُ إِذْ وَلَجَتْ امْرَأَۃٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَتْ فَعَلَ اللَّہُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ فَقَالَتْ أُمُّ رُومَانَ وَمَا ذَاکَ قَالَتْ ابْنِی فِیمَنْ حَدَّثَ الْحَدِیثَ قَالَتْ وَمَا ذَاکَ قَالَتْ کَذَا وَکَذَا قَالَتْ عَائِشَۃُ سَمِعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ قَالَتْ وَأَبُو بَکْرٍ قَالَتْ نَعَمْ فَخَرَّتْ مَغْشِیًّا عَلَیْہَا فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَیْہَا حُمَّی بِنَافِضٍ فَطَرَحْتُ عَلَیْہَا ثِیَابَہَا فَغَطَّیْتُہَا فَجَاء َ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا شَأْنُ ہَذِہِ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَخَذَتْہَا الْحُمَّی بِنَافِضٍ قَالَ فَلَعَلَّ فِی حَدِیثٍ تُحُدِّثَ بِہِ قَالَتْ نَعَمْ فَقَعَدَتْ عَائِشَۃُ فَقَالَتْ وَاللَّہِ لَئِنْ حَلَفْتُ لَا تُصَدِّقُونِی وَلَئِنْ قُلْتُ لَا تَعْذِرُونِی مَثَلِی وَمَثَلُکُمْ کَیَعْقُوبَ وَبَنِیہِ وَاللَّہُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ قَالَتْ وَانْصَرَفَ وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا فَأَنْزَلَ اللَّہُ عُذْرَہَا قَالَتْ بِحَمْدِ اللَّہِ لَا بِحَمْدِ أَحَدٍ وَلَا بِحَمْدِکَ۔

ترجمہ :حضرت مسروق بن اجدع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:مجھے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتناام رومان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک دفعہ میں اور حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس دوران میں ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالی فلاں کو ایسا ایسا کرے۔ حضرت سیدتناام رومان رضی اللہ عنہا نے پوچھا:کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میرا بیٹا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے جنہوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ حضرت سیدتناام رومان رضی اللہ عنہا نے پوچھا:وہ کیا باتیں ہیں؟ تو انہوں نے واقعہ بہتان ذکر کیا۔ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہانے پوچھا:کیا حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ انہوں نے کہا:جی ہاں۔حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہانے پوچھا:کیا حضرت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی سنی ہیں؟ انہوں نے کہا:ہاںحضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا یہ سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں۔ جب انہیں ہوش آیا تو انہیں سردی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور انہیں ڈھانپ دیا۔ اس دوران میںحضورتاجدارختم نبوتﷺتشریف لائے تو فرمایا:اس کو کیا ہوا ہے؟میں نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!انہیں سردی کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:شاید ان باتوں کے باعث جو بیان کی جاتی ہیں؟میں نے کہا:جی ہاں۔ا س کے بعد حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہااٹھ بیٹھیں اور کہنے لگیں:اللہ تعالی کی قسم!اگر میں قسم اٹھاؤں تو تم میری تصدیق نہیں کرو گے اور اگر کچھ کہوں تو تم میرا عذر نہیں سنو گے۔ میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:ان باتوں پر اللہ تعالی کی مدد درکارہے جو تم بناتے ہو۔ حضرت سیدتنا ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا:آپ ﷺیہ سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا، چنانچہ اللہ تعالٰی نے خود ان کی تلافی کر دی تو حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہانے کہا: میں صرف اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں نہ تمہارا اور نہ کسی اور کا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۱۲۰)

اب جوبھی ایسی بات کرے گاوہ کافرہوجائے گا

(یَعِظُکُمُ اللَّہُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِہِ أَبَداً یَعْنِی فِی عَائِشَۃَ، لِأَنَّ مِثْلَہُ لَا یَکُونُ إِلَّا نَظِیرَ الْقَوْلِ فِی الْمَقُولِ عَنْہُ بِعَیْنِہِ، أَوْ فِیمَنْ کَانَ فِی مَرْتَبَتِہِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِمَا فِی ذَلِکَ مِنْ أیذائہ رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فی عِرْضِہِ وَأَہْلِہِ، وَذَلِکَ کُفْرٌ مِنْ فَاعِلِہِ۔

ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {یَعِظُکُمُ اللَّہُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِہِ أَبَداً }کے تحت فرماتے ہیں کہ یعنی حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکے بارے میں پھرایسی بات نہ کرو، اللہ تعالی تم کو نصیحت فرماتاہے کیونکہ اس کی مثل نہ ہوگامگراس قول کی مثل جوبعینہ مقول عنہ کے بارے میں کہاگیایااس کے بارے میں جومرتبہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے مرتبہ میں ہوگاکیونکہ اس میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی ہے ، اس لئے ایساکرنے والے کی طرف سے یہ کفرہوگا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۲:۱۹۷)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کاگستاخ قتل کیاجائے گا

وَرُوِیَ عَن مَالک رَضِی اللہ عَنہُ من سبّ أَبَا بکر جلد وَمن سبّ عَائِشَۃ قتل۔
ترجمہ :حضرت سیدناہشام بن عما ررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جوشخص حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرے اس کو سزالگائی جائے گی اورجوشخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرے اس کو قتل کیاجائے گا۔
(الصواعق المحرقہ:أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی السعدی شیخ الإسلام، أبو العباس (ا:۱۴۲)

گستاخ کاقتل ہی اولی ہے

وَمن سبّ عَائِشَۃ رَضِی اللہ عَنْہَا فَفِیہِ قَولَانِ أَحدہمَا یقتل وَالْآخر کَسَائِر الصَّحَابَۃ یجلد حد المفتری قَالَ وبالأول أَقُول۔
ترجمہ :امام أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی المتوفی : ۹۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورجس شخص نے حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کی تواس کے متعلق دوقول ہیں ، پہلاقول یہ ہے کہ اس کو قتل کردیاجائے گااوردوسراقول یہ ہے کہ اس پرمفتری کی سزاجاری ہوگی اوراولی یہی ہے کہ اس کوقتل کیاجائے ۔
(الصواعق المحرقہ:أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی السعدی شیخ الإسلام، أبو العباس (ا:۱۴۲)

اہل بیت کاگستاخ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاگستاخ ہے

وروی أَبُو مُصعب عَن مَالک من سبّ آل بَیت مُحَمَّد یضْرب ضربا وجیعا ویشہر وَیحبس طَویلا حَتَّی یظْہر تَوْبَتہ لِأَنَّہُ استخفاف بِحَق رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابومصعب رحمہ اللہ تعالی امام مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کی تواس کو بہت سخت سزادی جائے گی اوراس کو مشہورکیاجائے گاکہ یہ گستاخ ہے اوراس کو بہت عرصہ تک جیل میں رکھاجائے گایہاں تک کہ اس کی توبہ ظاہرہوجائے کیونکہ اس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے مقام کی توہین کی ہے ۔
(الصواعق المحرقہ:أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی السعدی شیخ الإسلام، أبو العباس (ا:۱۴۲)

حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکاگستاخ کافرہے

إنَّ أَہْلَ الْإِفْکِ رَمَوْا عَائِشَۃَ الْمُطَہَّرَۃَ بِالْفَاحِشَۃِ، فَبَرَّأَہَا اللَّہُ، فَکُلُّ مَنْ سَبَّہَا بِمَا بَرَّأَہَا اللَّہُ مِنْہُ فَہُوَ مُکَذِّبٌ لِلَّہِ، وَمَنْ کَذَّبَ اللَّہَ فَہُوَ کَافِرٌ.
ترجمہ :القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المعافری الاشبیلی المالکی المتوفی : ۵۴۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بے شک اہل افک نے حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاپرتہمت لگائی اور اس چیز سے اللہ تعالی نے ان کو پاک قراردیا، پس ہروہ شخص جوبھی حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہماپرایسی تہمت لگائے جس سے اللہ تعالی نے ان کی پاکدامنی کابیان قرآن کریم میں کیاتوایساشخص اللہ تعالی کو جھوٹاکہنے والاہے اورجوشخص اللہ تعالی کو جھوٹاکہے وہ کافرہے ۔
(أحکام القرآن:القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المعافری الاشبیلی المالکی (۳:۳۶۶)

حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکاگستاخ قرآن کامخالف ہے

فَمَنْ سَبَّ عَائِشَۃَ فَقَدْ خَالَفَ الْقُرْآنَ، وَمَنْ خَالَفَ الْقُرْآنَ قُتِلَ۔
ترجمہ ـ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو شخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرے وہ قرآن کریم کامخالف ہے اورجوقرآن کریم کامخالف ہے وہ قتل کیاجائے گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۲:۲۰۵)

امام ابن بطال رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
قَالَ ابْن بطال:وَکَذَا من سبّ عَائِشَۃ، رَضِی اللہ تَعَالَی عَنْہَا، بِمَا برأہا اللہ مِنْہُ أَنہ یقتل لتکذیبہ اللہ وَرَسُولہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم۔
ترجمہ :ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال القرطبی المتوفی :۴۴۹ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ جوشخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرے اس کو قتل کیاجائے گاکیونکہ وہ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی تکذیب کرنے والاہے ۔
(عمدۃ القاری:أبو محمد محمود بن أحمد بن موسی بن أحمد بن حسین الغیتابی الحنفی بدر الدین العینی (۱۳:۲۳۵)

حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکاگستاخ مرتدہے

بَرَاء َۃُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا مِنَ الْإِفْکِ وَہِیَ بَرَاء َۃٌ قَطْعِیَّۃٌ بِنَصِّ الْقُرْآنِ الْعَزِیزِ فَلَوْ تَشَکَّکَ فِیہَا إِنْسَانٌ وَالْعِیَاذُ بِاَللَّہِ صَارَ کَافِرًا مُرْتَدًّا بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ۔
ترجمہ :الامام أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی المتوفی : ۶۷۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی پاکدامنی نص قرآنی کے ساتھ قطعی ہے ، اب اگرکوئی شخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکے بارے میں شک کرے وہ اہل اسلام کے اجماع کے ساتھ مرتدہوجائے گا۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی (۱۷:۱۱۷)

محدث ابن قیم الجوزیہ کافتوی

وَاتَّفَقَتِ الْأُمَّۃُ عَلَی کُفْرِ قَاذِفِہَا۔
ترجمہ :امام محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ المتوفی : ۷۵۱ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ساری امت کااس بات پراتفاق ہے کہ جوشخص حضورتاجدارختم نبوتﷺکی زوجہ محترمہ حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاپرتہمت لگائے گاوہ کافرہے ۔
(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد:محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۱:۱۰۳)

حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکاگستاخ قرآن کریم کادشمن ہے

وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاء ُ رَحِمَہُمُ اللَّہُ قَاطِبَۃً عَلَی أَنَّ مَنْ سَبَّہَا بَعْدَ ہَذَا وَرَمَاہَا بِمَا رَمَاہَا بِہِ بَعْدَ ہَذَا الَّذِی ذُکِرَ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ، فَإِنَّہُ کَافِرٌ لِأَنَّہُ مُعَانِدٌ لِلْقُرْآنِ۔

ترجمہ :الامام أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء کرام کااس بات پراجماع ہے کہ ان آیات کریمہ کے نزول کے بعد بھی کوئی شخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکو اس الزام سے یادکرے وہ کافرہے کیونکہ اس نے قرآن کریم کی مخالفت کی ہے ۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۶:۳۰)

امام بحرق المتوفی: ۹۳۰ھ) رحمہ اللہ تعالی کافتوی

فہی براء ۃ قطعیّۃ بنصّ القرآن،حتّی إنّ من یشکّک فی براء تہا فہو کافر بالإجماع.
ترجمہ :الامام محمد بن عمر بن مبارک الحمیری الحضرمی الشافعی، الشہیر بـ بَحْرَق المتوفی : ۹۳۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی پاکدامنی نص قرآنی کے ساتھ قطعی ہے یہاں تک کہ جوشخص آپ رضی اللہ عنہاکی پاکدامنی میں شک بھی کرے گاوہ بھی بالاجماع کافرہے ۔
(حدائق الأنوار:محمد بن عمر بن مبارک الحمیری الحضرمی الشافعی، الشہیر بـ بَحْرَق (۱:۳۰۵)

امام الزرکشی المتوفی : ۷۹۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کافتوی
أَنَّ مَنْ قَذَفَہَا فَقَدْ کَفَرَ لِتَصْرِیْحِ الْقْرْآنِ الْکَرِیْمِ بِبَرَاء تِہَا۔
ترجمہ :الامام أبو عبد اللہ بدر الدین محمد بن عبد اللہ بن بہادر الزرکشی الشافعی المتوفی : ۷۹۴ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ جوشخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکے متعلق گستاخانہ کلام کرے وہ قرآن کریم کی نص کے انکارکی وجہ سے کافرہے ۔
(الإجابۃ:أبو عبد اللہ بدر الدین محمد بن عبد اللہ بن بہادر الزرکشی الشافعی:۲۹)

امام الخوارزی رحمہ اللہ تعالی کافتوی

قَالَ الْخُوَارَزَمِیُّ فِی الْکَافِی مِنْ أَصْحَابنَا فِی کِتَابِ الرِّدَّۃِ لَوْ قذف عائشۃ الزنی صَارَ کَافِرًا ۔
ترجمہ :امام الخوارزی اپنی کتاب الکافی میں نقل فرماتے ہیںکہ اگرکوئی شخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرے وہ کافرہوجائے گا۔
(الإجابۃ:أبو عبد اللہ بدر الدین محمد بن عبد اللہ بن بہادر الزرکشی الشافعی:۲۹)

گستاخ دین اسلام سے خارج ہوجائے گا

ابن أبی موسی قال: ومن رمی عائشۃ رضی اللہ عنہا بما برأہا اللہ منہ فقد مرق من الدین ولم ینعقد لہ نکاح علی مسلمۃ۔
ترجمہ:امام ابن ابی موسی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی اس معاملے میں کی جس میں اللہ تعالی نے ان کو پاکدامن قراردیاہے توایساشخص دین سے خارج ہوجائے گااوراس کاکسی بھی مسلمان خاتون کے ساتھ نکاح نہیں ہوسکے گا۔
(الصارم المسلول علی شاتم الرسول:تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام ابن تیمیۃ (۲:۵۶۸)

امام السیوطی رحمہ اللہ تعالی کافتوی

وقال الإمام السیوطی:قولہ تعالی:(إِنَّ الَّذِینَ جَاء ُوا بِالْأِفْک):نزلت فی براء ۃ عائشۃ مما قذفت بہ، فاستدل الفقہاء علی أن قاذفہا یقتل، لتکذیبہ لنص القرآن.
ترجمہ :امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {ِنَّ الَّذِینَ جَاء ُوا بِالْأِفْک}کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی پاکدامنی کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ، ہمارے فقہاء کرام نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیاہے کہ جوشخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرے گاوہ کافرہے کیونکہ وہ قرآن کریم کی نص کاانکارکررہاہے ۔
(الإصابۃ فی الذب عن الصحابۃ رضی اللہ عنہم :الشیخ الدکتور مازن بن محمد بن عیسی:۱۳۷)

امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کافتوی شریفہ

روی عن الإمام أحمد حینما سئل عمن یشتم أبا بکر وعمر وعائشۃ، فقال: ما أراہ علی الإسلام.
ترجمہ :روایت کیاگیاہے کہ حضرت سیدناامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ سے سوال کیاگیاکہ اگرکوئی شخص حضرت سیدناابوبکروعمررضی اللہ عنہمااورحضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرتاہے اس کے متعلق آپ کیافرماتے ہیں ؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں ایسے گستاخ شخص کومسلمان نہیں سمجھتا۔
(الإصابۃ فی الذب عن الصحابۃ رضی اللہ عنہم :الشیخ الدکتور مازن بن محمد بن عیسی:۱۶۴)

امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی المتوفی : ۹۴۲ھ) کافتوی

من قذف أزواجہ علیہ السلام فلا توبۃ لہ البتۃ کما قال ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ ویقتل کما نقلہ القاضی وغیرہ وقیل یختص القتل بمن قذف عائشۃ ویحدّ فی غیرہا حدّین ۔
ترجمہ :امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی المتوفی : ۹۴۲ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیںکہ جوشخص حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی پرزناکی تہمت لگائے ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی ، ایسے ہی حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہافرماتے ہیں کہ ایساشخص قتل کیاجائے گا۔
(سبل الہدی والرشاد:محمد بن یوسف الصالحی الشامی (۱۰:۴۷۹)

حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکے گستاخ کو قتل کردیاگیا

قال أبو السائب القاضی:کنت یوماً بحضرۃ الحسن بن زید الداعی بطبرستان، وکان بحضرتہ رجل فذکر عائشۃ بذکر قبیح من الفاحشۃ، فقال:یا غلام اضرب عنقہ، فقال لہ العلویون:ہذا رجل من شیعتنا، فقال: معاذ اللہ، ہذا رجل طعن علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، قال اللہ تعالی: (الْخَبِیثَاتُ لِلْخَبِیثِینَ وَالْخَبِیثُونَ لِلْخَبِیثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ أُولَئِکَ مُبَرَّأُونَ مِمَّا یَقُولُونَ لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ)فإن کانت عائشۃ خبیثۃ فالنبی صلی اللہ علیہ وسلم خبیث، فہو کافر فاضربوا عنقہ۔فضربوا عنقہ وأنا حاضر۔

ترجمہ :حضرت سیدناامام قاضی ابوسائب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت سیدناحسن بن زیدالداعی رحمہ اللہ تعالی کے پاس طبرستان میں موجودتھاکہ ایک شخص نے وہاں حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کردی ، امام الحسن بن زیدالداعی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ اس کوابھی قتل کردیاجائے تووہاں موجود علویوں نے کہاکہ یہ ہمارے شیعہ میں سے ہے لہذااسے چھوڑدیاجائے ، امام الداعی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ نعوذباللہ من ذلک ، یہ شخص حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کررہاہے ، پھرآپ رحمہ اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ
{الْخَبِیثَاتُ لِلْخَبِیثِینَ وَالْخَبِیثُونَ لِلْخَبِیثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ أُولَئِکَ مُبَرَّأُونَ مِمَّا یَقُولُونَ لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیم}
کہ طیب مرد طیبہ عورتوں کے لئے اورخبیث مرد خبیثہ عورتوں کے لئے توامام نے فرمایاکہ نعوذباللہ اگرحضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاطیبہ نہیں ہیں توپھرحضورتاجدارختم نبوتﷺکاغیرطیب ہونالازم آئے گا، لھذایہ شخص حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرکے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کامرتکب ہواہے اس لئے اس کو قتل کیاجائے گا۔اسے وہیں قتل کردیاگیا، میں بھی وہیں موجودتھا۔
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ :ناصر بن علی عائض حسن الشیخ(۲:۸۷۱)

حضرت امام محمدبن زید رضی اللہ عنہ نے گستاخ کو موقع پرہی قتل کردیا

وروی عن محمد بن زید أخی الحسن بن زید أنہ قدم علیہ رجل من العراق فذکر عائشۃ بسوء فقام إلیہ بعمود فضرب بہ دماغہ، فقتلہ، فقیل لہ:ہذا من شیعتنا ومن بنی الآباء ، فقال:ہذا سمی جدی قرنان، ومن سمی جدی قرنان استحق القتل فقتلتہ۔

ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدبن زیدجوامام حسن بن زیدرضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ان سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک شخص جوعراق سے آیاتھانے حضر ت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کردی توآپ رضی اللہ عنہ نے ستون اٹھاکراس کو مارااوراس کو وہیں قتل کردیا، ان کو کہاگیاکہ یہ توشخص ہمارے شیعہ میں سے تھا، آپ نے اس کو قتل کردیا ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ ا س بے غیرت نے میرے ناناجان کی گستاخی کی اورجوشخص میرے ناناجان کے بارے میں کوئی بات کرے گاوہ مستحق قتل ہوگااورمیں اس کو ضرورقتل کردوں گا۔
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ :ناصر بن علی عائض حسن الشیخ(۲:۸۷۱)

یہ ذہن میں رہے کہ امام محمدبن زیدرضی اللہ عنہ ائمہ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں ۔ لھذاآج جوشخص اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کادم بھرنے والاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی گستاخی کرے تواس کااہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ آپ نے امام محمدبن زید رضی اللہ عنہ کاعمل شریف ملاحظہ فرمالیاہے کہ ان سے یہ برداشت نہیں ہوتاکہ کوئی بھی شخص حضرت سیدتناام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کرے اوروہ زندہ رہے ۔

امام اسماعیل رحمہ اللہ تعالی کی بہادری

وقال أبو بکر ابنُ زیاد النیسابوریُّ رحمہ اللہ:سَمعتُ القاسمَ بنَ محمَّد یقول لإسماعیلَ ابن إسحاقَ: أُتِی المأمون فی (الرَّقۃ)برَجلین شَتَم أحدُہما فاطمۃَ، والآخَرُ عَائِشَۃ، فأمَر بقَتْل الذی شتَم فاطمۃَ وترَک الآخَر، فقال إسماعیلُ:ما حُکْمُہما إلاَّ أن یُقتلاَ؛ لأنَّ الذی شتَم عَائِشَۃ ردَّ القرآن۔
ترجمہ :امام ابوبکرابن زیاد نیشاپوری رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاکہ میںنے حضر ت سیدناامام القاسم بن محمدرحمہ اللہ تعالی کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ حضرت سیدناامام اسماعیل بن اسحاق رحمہ اللہ تعالی کو کہہ رہے تھے کہ مامون رقہ میں تھاکہ اس کے پاس دوآدمیوں کولایاگیاجن میں سے ایک نے حضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کی تھی اوردوسرے نے حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کی تھی ، مامون نے حضرت سیدہ کائنات کے گستاخ کو قتل کرنے کاحکم دیااورحضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکے گستاخ کو چھوڑنے کاحکم دیا، امام اسماعیل رحمہ اللہ تعالی نے اسی وقت فرمایاکہ دونوں کاحکم ایک ہی ہے اوران دونوں کوقتل کیاجائے گا، اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکاگستاخ قرآن کریم کورد کررہاہے ۔
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ :ناصر بن علی عائض حسن الشیخ(۲:۸۷۲)

Leave a Reply