جہادترک کرکے کفارکاساتھ دینے والوں کے لئے وعیدشدیدکابیان
{اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰیہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللہِ وٰسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَسَآء َتْ مَصِیْرًا }(۹۷)
ترجمہ کنزالایمان:وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے ان سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں ہم زمین میں کمزور تھے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی۔
ترجمہ ضیاء الایمان:یقینا وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ان سے فرشتے کہتے ہیں :تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے ۔ تو فرشتے کہتے ہیں :کیا اللہ تعالی کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ تویہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
تم نے دین کے ساتھ کیاوفاکی؟
إنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمْ الْمَلَائِکَۃ ظَالِمِی أَنْفُسہمْ)بِالْمُقَامِ مع الکفار وترک الہجرۃ (قَالُوا)لَہُمْ مُوَبِّخِینَ (فِیمَ کُنْتُمْ)أَیْ فِی أی شَیْء کُنْتُمْ فِی أَمْر دِینکُمْ (قَالُوا)مُعْتَذِرِینَ (کُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ)عَاجِزِینَ عَنْ إقَامَۃ الدِّین (فِی الْأَرْض)أَرْض مَکَّۃ (قَالُوا)لَہُمْ تَوْبِیخًا (أَلَمْ تَکُنْ أَرْض اللَّہ وَاسِعَۃ فَتُہَاجِرُوا فِیہَا)مِنْ أَرْض الْکُفْر إلَی بَلَد آخَر کَمَا فَعَلَ غیرکم قال اللہ تعالی (فَأُولَئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّم وَسَاء َتْ مَصِیرًا)۔
ترجمہ : بیشک وہ لوگ جن کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ فرض ہجرت ترک کر کے اور کافروں کا ساتھ دے کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ، ان کی موت کے وقت فرشتے انہیں جھڑکتے ہوئے کہتے ہیں :تم اپنے دین کے معاملے میں کس حال میں تھے؟ وہ عذر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور لوگ تھے اور (کافروں کی سرزمین میں رہنے کی وجہ سے) دین کے احکام پر عمل کرنے سے عاجز تھے۔ تو فرشتے ان کا عذر رد کرتے اور انہیں ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں :کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم کفر کی سرزمین سے ایسی جگہ ہجرت کر کے چلے جاتے جہاں تم دین کے احکام پر عمل کر سکتے؟ توجن لوگوں کے برے احوال یہاں بیان ہوئے یہ وہ لوگ ہیں جن کا آخرت میں ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
(تفسیر الجلالین:جلال الدین محمد بن أحمد المحلی وجلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی (۱:۱۱۹)
شان نزول
وقیل کانت الطائفۃ المذکورۃ قد خرجوا مع المشرکین الی بدر فقتلوا فیہا فضربت الملائکۃ وجوہہم وادبارہم وقالوا لہم ما قالوا فیکون ذلک منہم تقریعاً وتوبیخاً لہم بما کانوا فیہ من مساعدۃ الکفرۃ بانتظامہم فی عسکرہم ویکون جوابہم بالاستضعاف تعللا بانہم کانوا مقہورین تحت أیدیہم وانہم أخرجوہم ای الی بدر کارہین فرد علیہم بانہم کانوا بسبیل من الخلاص من قہرہم متمکنین من المہاجرۃ فَأُولئِکَ الذین حکیت أحوالہم الفظیعۃ مَأْواہُمْ ای فی الآخرۃ جَہَنَّمُ کما ان مأواہم فی الدنیا دار الکفر لترکہم الواجب ومساعدتہم الکفار وکون جہنم مأواہم نتیجۃ لما قبلہ وہو الجملۃ الدالۃ علی ان لا عذر لہم فی ذلک أصلا۔
ترجمہ :اورمفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کاذکراس آیت کریمہ میں ہواہے کہ انہوں نے مشرکین کے ساتھ مل کربدرمیں اہل اسلام کے ساتھ قتال کیااورپھروہیں مارے گئے توملائکہ کرام علیہم السلام نے ان کے چہروں اوران کی پیٹھوں پرماراوہی فرمایاجو آیت کریمہ میں ذکرہواتاکہ وہ لوگ اپنے کئے کامزہ چکھیں اورکفارکے ساتھ موافقت کرکے اہل اسلام پرحملہ کیا، جب انہوںنے یہ عذرکیاکہ ہم اہل مکہ کے زیراثرتھے ، ہم سے جان چھڑانامشکل تھی ، اس لئے ہم ان کے ساتھ مل گئے ، ملائکہ کرام نے ان کایہ عذربھی ردکردیاکہ تمھیں مکہ مکرمہ میں رہناکچھ ضروری نہیں تھا، تم کو وہاں سے نکلنے کی طاقت بھی تھی ، لیکن اس کے باوجود تم مکہ مکرمہ میں رہے ۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۲۷۰)
شان نزول کے متعلق یہ قول بھی ہے
وَقِیلَ:إِنَّہُمْ لَمَّا اسْتَحْقَرُوا عَدَدَ الْمُسْلِمِینَ دَخَلَہُمْ شَکٌّ فِی دِینِہِمْ فَارْتَدُّوا فَقُتِلُوا عَلَی الرِّدَّۃِ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ کَانَ أَصْحَابُنَا ہَؤُلَاء ِ مُسْلِمِینَ وَأُکْرِہُوا عَلَی الْخُرُوجِ فَاسْتَغْفِرُوا لَہُمْ، فَنَزَلَتِ الْآیَۃُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بعض علماء کرام نے یہ بھی فرمایاہے کہ وہ لوگ جو اسلام لاچکے تھے اوروہ بدرمشرکین کے ساتھ آئے توانہوںنے اہل اسلام کی تعدادکو حقیرسمجھااوران کے دین میں شک واقع ہوگیاتووہ مرتدہوگئے اوراسی ارتدادکی حالت میں ہی قتل کردیئے گئے تومسلمانوں نے کہاکہ یہ توہمارے مسلمان ساتھی تھے اورانہیں خروج پرمجبورکیاگیاتھا، پس انہوںنے اللہ تعالی کی بارگاہ میںا ن کے لئے مغفرت طلب کی تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۳۴۵)
مشرکین کی جماعت بڑھانے والے
عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ، قَالَقُطِعَ عَلَی أَہْلِ المَدِینَۃِ بَعْثٌ،فَاکْتُتِبْتُ فِیہِ،فَلَقِیتُ عِکْرِمَۃَ، فَأَخْبَرْتُہُ فَنَہَانِی أَشَدَّ النَّہْیِ ثُمَّ قَالَ:أَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ:أَنَّ أُنَاسًا مِنَ المُسْلِمِینَ کَانُوا مَعَ المُشْرِکِینَ، یُکَثِّرُونَ سَوَادَ المُشْرِکِینَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَأْتِی السَّہْمُ فَیُرْمَی فَیُصِیبُ أَحَدَہُمْ فَیَقْتُلُہُ، أَوْ یَضْرِبُہُ فَیَقْتُلُہُ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:(إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ المَلاَئِکَۃُ ظَالِمِی أَنْفُسِہِمْ)(النساء : ۹۷)۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ جو مشرکوں کے ساتھ تھے ، جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے خلاف مشرکین کی جماعت میں اضافہ کرتے ، تیرآتاجوپھینکاجاتاکسی کو لگتاتواسے قتل کردیتایااس پر تلوارکاوار کیاجاتاپس وہ قتل ہوجاتاتواللہ تعالی نے ان کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی {(إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ المَلاَئِکَۃُ ظَالِمِی أَنْفُسِہِمْ}۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۵۲)
ایک حصہ کے تین معانی
وَأَمَّا قَوْلُہُ تَعَالَی:قالُوا فِیمَ کُنْتُمْ فَفِیہِ وُجُوہٌ:أَحَدُہَا:فِیمَ کُنْتُمْ مِنْ أَمْرِ دِینِکُمْ وَثَانِیہَا:فِیمَ کُنْتُمْ فِی حَرْبِ مُحَمَّدٍ أَوْ فِی حَرْبِ أَعْدَائِہِ وَثَالِثُہَا:لِمَ تَرَکْتُمُ الْجِہَادَ وَلِمَ رَضِیتُمْ بِالسُّکُونِ فِی دِیَارِ الْکُفَّارِ؟
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ {قالُوا فِیمَ کُنْتُمْ }کے متعددمعانی بیان کئے گئے ہیں :
پہلامعنی: تم اپنے دین کے معاملے میں کیاکررہے ہو؟
دوسرامعنی : تم توحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ جنگ میں ہویاان کے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں کیاکررہے تھے؟۔تیسرامعنی: تم نے جہادکیوں ترک کردیااوردوبارہ دارالکفرمیں سکونت پرکیوںراضی رہے؟۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۱:۱۹۵)
دین کی خاطرہجرت کرنے والا
ثَنَا صَالح بن مُحَمَّد عَن سُلَیْمَان بن عمر عَن عبَادَۃ بن مَنْصُور النَّاجِی عَن الْحسن قَالَ قَالَ رَسُول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ من فر بِدِینِہِ من أَرض إِلَی أَرض وَإِن کَانَ شبْرًا من الأَرْض اسْتوْجبَ الْجنَّۃ وَکَانَ رَفِیق إِبْرَاہِیم وَمُحَمّد عَلَیْہِمَا السَّلَام۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جس شخص نے اپنے دین کی خاطرکسی جگہ سے ہجرت کی چاہے ایک بالشت بھربھی ہوتواللہ تعالی اس کے لئے جنت کوواجب فرمادیتاہے اورایساشخص قیامت کے دن حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ ہوگا۔
(تخریج الأحادیث والآثار الواقعۃ فی تفسیر الکشاف للزمخشری: أبو محمد عبد اللہ بن یوسف بن محمد الزیلعی (ا:۳۵۱)
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی شہر میں اپنے دین پر قائم نہ رہ سکتا ہو اور یہ جانے کہ دوسری جگہ جانے سے اپنے فرائض دینی ادا کرسکے گاتو اس پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔ اس حکم کو سامنے رکھ کر کافروں کے درمیان رہنے والے بہت سے مسلمانوں کو غور کرنے کی حاجت ہے۔ اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔
سترشہیدوں کااجر
وقد قال النبی صلی اللہ علیہ وسلّم:الفارّ بدینہ عند فساد الأمۃ لہ أجر سبعین شہیداً فی سبیل اللہ عزَّ وجلَّ۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جب میری امت میں فسادپھیل جائے اوراس وقت کوئی شخص اپنادین بچانے کے لئے ہجرت کرے توعنداللہ اس کے لئے سترشہداء کااجرلکھاجاتاہے ۔
(تفسیر التستری:أبو محمد سہل بن عبد اللہ بن یونس بن رفیع التُستری (ا:۱۲۰)
جہاں اموردینیہ رائج کرنے میں سخت دقت ہووہاں سے ہجرت واجب
وفی الآیۃ الکریمۃ ارشاد الی وجوب المہاجرۃ من موضع لا یتمکن الرجل فیہ من اقامۃ امور دینہ بأی سبب کان.قال الحدادی فی تفسیرہ فی قولہ تعالی أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللَّہِ واسِعَۃً فَتُہاجِرُوا فِیہا دلیل انہ لا عذر لاحد فی المقام علی المعصیۃ فی بلدہ لاجل المال والولد والأہل بل ینبغی ان یفارق وطنہ ان لم یمکنہ اظہار الحق فیہ ولہذا روی عن سعد بن جبیر انہ قال إذا عمل بالمعاصی بأرض فاخرج منہا۔
ترجمہ:امام اسماعیل حقی حنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے ثابت ہواکہ جہا ں اموردینیہ رائج کرنے میں سخت دقت ہوتودوسری جگہ ہجرت کرناضروری ہے تاکہ دینی امور آسانی سے نشرو اشاعت کئے جاسکیں ۔
علامہ الحداوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ جسے کسی جگہ پردین حق کو ظاہرکرنے سے روکاجاتاہے تواسے لازم ہے کہ وہاں سے ہجرت کرجائے ، کل قیامت میں آل واولاد اورمال واسباب اوردیگراعذارنہیں سنے جائیں گے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۲۷۰)
گناہوں کی آبادی سے نکلناواجب ہے
عن سعید بن جبیر فی قولہ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللَّہِ واسِعَۃً فَتُہاجِرُوا فِیہا قال إذا عمل بالمعاصی فی أرض فأخرج منہا.
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ {أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللَّہِ واسِعَۃً فَتُہاجِرُوا فِیہا }کے تحت فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ پرگناہ بلاخوف وخطرکئے جاتے ہوں تووہاں سے نکل جانالازمی امرہے ۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۳:۳۷۲)
جہاں فرائض دین نہ اداکرسکیں ۔۔۔
والآیۃ تدل علی أن من لم یتمکن من إقامۃ دینہ فی بلد کما یجب وعلم أنہ یتمکن من إقامتہ فی غیرہ حقت علیہ المہاجرۃ۔
ترجمہ:امام بو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی المتوفی:۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ جب ایک ملک میں رہ کرفرائض دین پوری طرح نہ اداہوسکتے ہوں اوریہ معلوم ہوکہ کوئی دوسراملک ہے جہاں فرائض دین اداہوسکتے ہیں تواس ملک سے ہجرت دوسرے ملک کی طرف ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔
(تفسیر النسفی :أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (ا:۳۸۸)
غازیان اسلام کے لئے دعاکرنے کاثبوت
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ،قَالَ:بَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی العِشَاء َ إِذْ قَالَ:سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، ثُمَّ قَالَ قَبْلَ أَنْ یَسْجُدَ:اللَّہُمَّ نَجِّ عَیَّاشَ بْنَ أَبِی رَبِیعَۃَ، اللَّہُمَّ نَجِّ سَلَمَۃَ بْنَ ہِشَامٍ، اللَّہُمَّ نَجِّ الوَلِیدَ بْنَ الوَلِیدِ، اللَّہُمَّ نَجِّ المُسْتَضْعَفِینَ مِنَ المُؤْمِنِینَ، اللَّہُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَکَ عَلَی مُضَرَ، اللَّہُمَّ اجْعَلْہَا سِنِینَ کَسِنِی یُوسُفَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے عشاء کی نماز پڑھائی توآپﷺنے جب سمع اللہ لمن حمدہ کہاتوسجدہ کرنے سے پہلے یہ دعاکی : اے اللہ !عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات عطافرما، اے اللہ !سلمہ بن ہشام کو نجات عطافرما، اے اللہ !ولیدبن ولیدکو نجات عطافرما، اے اللہ !اہل اسلام میں جو کمزورہیں ان کو نجات عطافرما۔ اے اللہ !مضرقبیلہ پراپنی پکڑسخت کردے ، اے اللہ !ان کے سالوں کو یوں خشک کردے جس طرح حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے سال تھے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۵۲)
اس سے معلوم ہواکہ اہل اسلام جومظلوم ہوں ان کے حق میں اورظالموں کے خلاف دعائے جلال کرناحضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کریمہ ہے ۔
ہردن ظہرکی نماز کے بعددعاکرتے
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُو فِی دُبُرِ صَلَاۃِ الظُّہْرِ:اللَّہُمَّ خَلِّصِ الْوَلِیدَ وَسَلَمَۃَ بْنَ ہِشَامٍ وَعَیَّاشَ بْنَ أَبِی رَبِیعَۃَ وَضَعَفَۃَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ أَیْدِی الْمُشْرِکِینَ الَّذِینَ لَا یَسْتَطِیعُونَ حِیلَۃً وَلَا یَہْتَدُونَ سَبِیلًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺہردن ظہرکی نماز کے بعد یہ دعاکیاکرتے تھے : اے اللہ !ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ربیعہ اورکمزورمسلمانوں کو مشرکین کے قبضہ سے چھٹکارادلادے جو نہ کوئی حیلہ پاتے ہیں اورنہ ہی کوئی راستہ پاتے ہیں۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۷:۳۸۹)
ہجرت کی اقسام اور ان کے احکام
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی نے ہجرت کی اقسام بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک قسم کہ دارُالاسلام سے ہجرت ہو، اس بارے میں فرماتے ہیں :رہا دارُالاسلام ،اس سے ہجرتِ عامہ حرام ہے کہ اس میں مساجد کی ویرانی وبے حرمتی، قبورِ مسلمین کی بربادی،عورتوں بچوں اور ضعیفوں کی تباہی ہوگی اور ہجرتِ خاصہ میں تین صورتیں ہیں :
(۱)…اگر کوئی شخص کسی خاص وجہ سے کسی خاص مقام میں اپنے دینی فرائض بجانہ لاسکے اور دوسری جگہ انہیں بجا لانا ممکن ہوتو اگر یہ خاص اسی مکان میں ہے تو اس پر فرض ہے کہ یہ مکان چھوڑ کر دوسرے مکان میں چلاجائے، اور اگر اس محلہ میں معذور ہوتو دوسرے محلہ میں چلا جائے اور اس شہر میں مجبور ہوتو دوسرے شہر میں چلا جائے۔
(۲)…یہاں اپنے مذہبی فرائض بجالانے سے عاجز نہیں اور اس کے ضعیف ماں یا باپ یا بیوی یا بچے جن کا نفقہ اس پر فرض ہے وہ نہ جاسکیں گے یا نہ جائیں گے اور اس کے چلے جانے سے وہ بے وسیلہ رہ جائیں گے تو اس کو دارُالاسلام سے ہجرت کرنا حرام ہے۔حدیث میں ہے:کسی آدمی کے گنہگار ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کا نفقہ اس کے ذمے تھا۔
یا وہ عالم جس سے بڑھ کر اس شہر میں عالم نہ ہو اسے بھی وہاں سے ہجرت کرنا حرام ہے۔
(۳)… نہ فرائض سے عاجز ہے نہ اس کی یہاں حاجت ہے، اسے اختیار ہے کہ یہاں رہے یا چلا جائے ، جو اس کی مصلحت سے ہو وہ کر سکتا ہے ، یہ تفصیل دارُالاسلام میں ہے۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی ( ۱۴:۱۳۱،۱۳۲)
معارف ومسائل
(۱)اگراپنے وطن میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی نہ ملے اوران میں ہجرت پر قدرت ہوایسی حالت میں وطن چھوڑدینااوروہاں سے ایسے ملک کی طرف چلے جاناجہاں مذہبی آزادی ہوفرض ہے ۔ جیساکہ فرشتوں کی گفتگواوراللہ تعالی کے فرمان شریف سے معلوم ہوا۔
(۲) جوشخص ہجرت پرقادرنہ ہواسے دارالکفرمیں ہی رہنااوربقدرطاقت اسلام پرعمل کرنادرست ہے ، اس پراس کی کوئی پکڑنہیں ہے جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔
(۳) مکہ مکرمہ سے جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہجرت فرمائی توفتح مکہ تک مسلمانوں کو بغیرسخت مجبوری مکہ مکرمہ میں رہناحرام ہوگیاتھا، اس لئے نہیں کہ وہاں اسلامی آزادی مسلمانوں کو میسرنہ تھی بلکہ اس لئے کہ مکہ مکرمہ کو حضورتاجدارختم نبوتﷺنے چھوڑدیاتھاوگرنہ اسلامی آزادی نہ ہوناتوحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ہجرت سے پہلے بھی تھا۔ (تفسیرنعیمی ( ۵: ۳۳۳)