تفسیر سورہ نساء آیت ۸۹۔۹۰۔ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآء ً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآء َ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ

کسی کو کافرہونے کی دعوت دینے والاکافرہوجاتاہے

{وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآء ً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآء َ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْہُمْ وَ اقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا }(۸۹){اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْ مٍ بـَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثٰقٌ اَوْجَآء ُوْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ اَنْ یُّقٰتِلُوْکُمْ اَوْ یُقٰتِلُوْا قَوْمَہُمْ وَلَوْ شَآء َ اللہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقٰتَلُوْکُمْ فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقٰتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلًا}(۹۰)
ترجمہ کنزالایمان: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کہیں تم بھی کافر ہوجاؤ جیسے وہ کافر ہوئے تو تم سب ایک سے ہو جاؤ توان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک اللہ کی راہ میں گھر بار نہ چھوڑیں پھر اگر وہ منہ پھیریں تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور ان میں کسی کو نہ دوست ٹھہراؤ نہ مددگار۔مگر وہ جو ایسی قوم سے علاقہ رکھتے ہیں کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے یا تمہارے پاس یوں آئے کہ ان کے دلوں میں سَکت نہ رہی کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اللہ چاہتا تو ضرور انہیں تم پر قابو دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے پھر اگر وہ تم سے کنارہ کریں اور نہ لڑیں اور صلح کا پیام ڈالیں تو اللہ نے تمہیں ان پر کوئی راہ نہ رکھی۔
ترجمہ ضیاء الایمان:وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ خود کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ ،پھرتم سب ایک جیسے ہو جاؤ۔ توتم ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک وہ اللہ تعالی کی راہ میں ہجرت نہ کریں پھر اگر وہ منہ پھیریں تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ ان کوقتل کرو اور ان میں کسی کو نہ دوست بنائواور نہ ہی مددگار۔مگر ان لوگوں کو قتل نہ کروجو ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان امن کامعاہدہ ہو یا تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ ان کے دل تم سے لڑائی کرنے سے تنگ آچکے ہوں یا تمہارے ساتھ مل کراپنی قوم سے لڑیں اوراللہ تعالی اگر چاہتا تو ضرور انہیں تم پر مسلط کر دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے پھر اگر وہ تم سے دور رہیں اور نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو صلح کی حالت میں اللہ نے تمہیں ان پرتلواراٹھانے کا کوئی راستہ نہیں رکھا۔

سب سے بڑی دشمنی کس سبب سے ہوگی؟

دَلَّتِ الْآیَۃُ عَلَی أَنَّہُ لَا یَجُوزُ مُوَالَاۃُ الْمُشْرِکِینَ وَالْمُنَافِقِینَ وَالْمُشْتَہِرِینَ بِالزَّنْدَقَۃِ وَالْإِلْحَادِ، وَہَذَا مُتَأَکِّدٌ بِعُمُومِ قَوْلُہُ تَعَالَی:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیاء َ وَالسَّبَبُ فِیہِ أَنَّ أَعَزَّ الْأَشْیَاء ِ وَأَعْظَمَہَا عِنْدَ جَمِیعِ الْخَلْقِ ہُوَ الدِّینُ، لِأَنَّ ذَلِکَ ہُوَ الْأَمْرُ الَّذِی بِہِ یُتَقَرَّبُ إِلَی اللَّہ تَعَالَی، وَیُتَوَسَّلُ بِہِ إِلَی طَلَبِ السَّعَادَۃِ فِی الْآخِرَۃِ، وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ کَانَتِ الْعَدَاوَۃُ الْحَاصِلَۃُ بِسَبَبِہِ أَعْظَمَ أَنْوَاعِ الْعَدَاوَۃِ، وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ امْتَنَعَ طَلَبُ الْمَحَبَّۃِ وَالْوِلَایَۃِ فِی الْمَوْضِعِ الَّذِی یَکُونُ أَعْظَمُ مُوجِبَاتِ الْعَدَاوَۃِ حَاصِلًا فِیہِ واللَّہ أَعْلَمُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ دلالت کررہی ہے کہ مشرکین ، منافقین اورمشہورزندیق اورملحدین (لبرل وسیکولر) کے ساتھ دوستی لگاناجائز نہیں ہے ، اس میں تاکیداس ارشادالہی کاعمو م پیداکررہی ہے {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیاء}سبب اس کایہ ہے کہ تمام مخلوق کے ہاں سب سے معززاوراعظم چیز دین ہی ہے ، اس لئے کہ وہی یہ چیز ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی کاقرب پایاجاسکتاہے اوراس کے ذریعے اخروی سعادتوں کاحصول کیاجاسکتاہے ، جب صورتحال یہی ہے کہ اس کی وجہ سے حاصل ہونے والی عداوت کی سب سے بڑی قسم ہوگی ، جب معاملہ اس طرح ہے توایسی جگہ محبت اوردوستی ممتنع ہوگی ، جو سب سے بڑی عداوت کاسبب ہوگا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۷۷)
شان نزول
عَن الْحسن أَن سراقَۃ بن مَالک المدلجی حَدثہمْ قَالَ:لما ظہر النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم عَلیّ أہل بدر وَأحد وَأسلم من حَولہمْ قَالَ سراقَۃ:بَلغنِی أَنہ یُرِید أَن یبْعَث خَالِد بن الْوَلِید إِلَی قومِی بنی مُدْلِج فَأَتَیْتہ فَقلت:أنْشدک النِّعْمَۃ فَقَالُوا:مَہ فَقَالَ:دَعوہ مَا تُرِیدُ قلت:بَلغنِی أَنَّک تُرِیدُ أَن تبْعَث إِلَی قومِی وَأَنا أُرِید أَن توادعہم فَإِن أسلم قَوْمک أَسْلمُوا ودخلوا فِی الْإِسْلَام وَإِن لم یسلمُوا لم تخشن لقلوب قَوْمک عَلَیْہِمفَأخذ رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم بید خَالِد فَقَالَ:اذْہَبْ مَعَہ فافعل مَا یُرِید فَصَالحہُمْ خَالِد علی أَن لَا یعینوا علی رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم وَإِن أسلمت قُرَیْش أَسْلمُوا مَعَہم وَمن وصل إِلَیْہِم من النَّاس کَانُوا علی مثل عَہدہم فَأنْزل اللہ (ودوا لَو تکفرون)حَتَّی بلغ (إِلَّا الَّذین یصلونَ إِلَی قوم بَیْنکُم وَبینہمْ مِیثَاق) فَکَانَ من وصل إِلَیْہِم کَانُوا مَعَہم علی عَہدہم۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناسراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اہل بدرواحدپرغلبہ پالیااورمدینہ منورہ کے اردگردکے لوگ مسلمان ہوگئے توسراقہ نے کہاکہ مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺحضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو میری قوم بنومدلج کی طرف بھیجنے کاارادہ رکھتے ہیں ، میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت میںحاضرہوااورمیں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میں آپ کو نعمت کاواسطہ دیتاہوں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہاکہ تم رک جائو۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ اسے چھوڑدو!پوچھاکہ تم کیاچاہتے ہو؟ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ آپﷺارادہ رکھتے ہیں کہ آپﷺمیری قوم کی طرف لشکربھیجیں ، جبکہ میں چاہتاہوں کہ آپ ﷺان کو ان کے حال میں رہنے دیں ، اگرآپﷺکی قوم مسلمان ہوگئی تووہ بھی مسلمان وہ جائیں گے اوراسلام میں داخل ہوجائیں گے ، اگروہ مسلمان نہ ہوئے توآپﷺاپنی قوم کے دلوں کی وجہ سے سخت نہیں ہوں گے ۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑااورفرمایا: جائو!جویہ چاہتاہے وہی کرو۔ حضرت سیدناخالد رضی اللہ عنہ نے ان سے اس بات پر صلح کرلی کہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے خلاف دشمنوں کی مددنہ کریں گے اوراگرقریش مسلمان ہوگئے تویہ بھی ان کے ساتھ مسلمان ہوجائیں گے اورجولوگ بھی مدلج کے ساتھ ملیں گے وہ بھی ان کے ساتھ اس عہدمیں شامل ہوں گے تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۷:۳۴۴)

کسی کے کافرہونے کی تمناکرنے والاکافرہے

وفیہ اشارۃ الی ان من ود الکفر لغیرہ کان ذلک من امارات الکفر فی باطنہ وان کان یظہر الإسلام لانہ یرید تسویۃ الاعتقاد فیما بینہما وہذا من خاصیۃ الإنسان یحب ان یکون کل الناس علی مذہبہ واعتقادہ ودینہ ۔
ترجمہ:امام اسماعیل حقی حنفی المتوفی :۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ا س آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ جو شخص کسی دوسرے کے کافرہونے کی آرزوکرتاہے وہ اس بات کامقتضی ہے کہ وہ اندرونی طورپرکافرہے ، اگرچہ وہ لاکھ بارکہے کہ میں مسلمان ہوں ، اس لئے کہ اس کے اورکفارکے اعتقادمیں ذرہ برابربھی فرق نہیں اوریہ انسان کاخاصہ ہے کہ وہ چاہتاہے کہ ہرانسان اس کاہم مذہب ہواوراس کے دین کو قبول کرلے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی(۲:۲۵۶)

کسی کو مسلمان کرنے کے لئے نمازفرض توڑناواجب ہے

امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگر کچھ کافروں نے وہاں سے اسے لکھا کہ ہم تمھارے ہی ہاتھ پر مسلمان ہوں گے آکر ہمیں مسلمان کرلو، تو لازم ہے کہ جائے کہ اس کے لئے فرض نماز کی نیت توڑ دینا واجب ہوتاہے۔حدیقۃ ندیہ بحث آفات الید میں ہے
وقال ذمی للمسلم اعرض علی الاسلام یقطع وان کان فی الفرض کذا فی خزانۃ الفتاوی ۔
ترجمہ :اگر کسی ذمی کافر نے مسلمان سے کہا کہ مجھ پر اسلام پیش کیجئے، تو وہ فرض نماز کی نیت توڑدے (اور پہلی فرصت میں اس کافر کو مسلمان کردے)خزانۃ الفتاوٰی میں یونہی مذکور ہے۔
(الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ الصنف الخامس(۲:۴۵۹)
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی (۲۱:۱۹۹)
اس سے معلوم ہواکہ کوئی شخص اسلام میں داخل ہوناچاہتاہے تو مسلمان پرلازم ہے کہ وہ اگرنماز بھی اداکررہاہے تونمازتوڑدے پہلے اس کو کلمہ پڑھائے ، پھرنماز اداکرے ۔ توآج جولوگ سندھ میں قانون پاس کئے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی شخص اٹھارہ سال تک مسلمان نہ ہوان کے ایمان کاکیابنے گا، ان کے متعلق شرعی حکم ہم پہلے بیان کرآئے ہیں ۔

معارف ومسائل

(۱) کسی مسلمان کو کافربنانے کی کوشش کرنایاکافربناناکفرہے جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا، فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ جوکسی عورت کانکاح تڑوانے کے لئے اسے کافرہوجانے کی تلقین کرے وہ عورت کافرہ بنے یانہ بنے یہ تلقین کرنے والاکافربن جاتاہے ، اس مسئلہ کاماخذیہ آیت کریمہ بھی ہوسکتی ہے ۔
(۲) اسلام میں مرتدکی سزاقتل ہے نہ اس کے لئے کوئی جزیہ ہے اورنہ ہی غلام بنانا، یااسلام ہے یاقتل جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکیونکہ یہاں اس آیت کریمہ میں مرتدین کاذکرہے ۔
(۳) مومن اورکافربرابرنہیں ہوسکتے اگرچہ قوم ، ملک ، پیشہ اورخاندان میں بھی برابرہوں ، ہاں کافرکافرکے برابرہیں جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔
(۴) کافر، مرتداوربدمذہب کو دوست بناناحرام ہے ، اگرچہ وہ بے دین کلمہ ہی پڑھتاہوجیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا، اس کے متعلق صریح آیات کریمہ بھی آئی ہیں۔
(۵) کفارکو دوست بناناحرام ہے اگرچہ وہ ہمارے قرابتدار، ہم ملک اورہم قوم ہی کیوں نہ ہوں۔ جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔
(۶) مرتدکو تبلیغ اسلام ضرورکی جائے اوراسے دوبارہ مسلمان ہونے کاموقع دیاجائے ، اس کے قتل میں جلدی نہ کی جائے جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔
(۷) مسلمانوں کی قوت ایمانی کفارکے دلوں میں رعب کاسبب بن جاتی ہے اوریہ رعب اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔ (تفسیرنعیمی ( ۵: ۲۸۹،۲۹۰)

Leave a Reply