منافقین کی حمایت کرنااہل اسلام کے لئے سخت منع ہے
{فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَاللہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہ سَبِیْلًا }(۸۸)
ترجمہ کنزالایمان:تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہوگئے اور اللہ نے انہیں اوندھا کردیا ان کے کوتکوں کے سبب کیا یہ چاہتے ہو کہ اسے راہ دکھاؤ جسے اللہ نے گمراہ کیا اور جسے اللہ گمراہ کرے تو ہرگز تواس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے اہل ایمان تم کو کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہوگئے حالانکہ اللہ تعالی نے ان کے اعمال کے سبب انکے دلوں کو اوندھاکردیاہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم اسے راہ دکھاؤ جسے اللہ تعا لی نے گمراہ کر دیا اور جس کو اللہ تعالی گمراہ کردے تو ہرگز تو اس کے لئے ہدایت کاراہ نہ پائے گا۔
شان نزول
عَنْ عَدِیٍّ وَہُوَ ابْنُ ثَابِتٍ،قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ یَزِیدَ، یُحَدِّثُ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی أُحُدٍ، فَرَجَعَ نَاسٌ مِمَّنْ کَانَ مَعَہُ، فَکَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِمْ فِرْقَتَیْنِ، قَالَ بَعْضُہُمْ:نَقْتُلُہُمْ،وَقَالَ بَعْضُہُمْ:لَا،فَنَزَلَتْ (فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ)
ترجمہ :حضرت سیدنازید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺاحدشریف کی طرف تشریف لے گئے توکچھ لوگ واپس آگئے جوآپ ﷺکے ساتھ تھے۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے معاملے میں دوگروہوں میں بٹ گئے ، بعض نے کہاکہ ہم ان کو قتل کریں اوربعض نے کہاکہ نہیں تواللہ تعالی نے اس پریہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۱۲:۲۱۴۲)
دوسراقول
وَذَکَرَ أَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہَا نَزَلَتْ فِی قَوْمٍ جَاء ُوا إِلَی الْمَدِینَۃِ وَأَظْہَرُوا الْإِسْلَامَ، فَأَصَابَہُمْ وَبَاء ُ الْمَدِینَۃِ وَحُمَّاہَا، فَأُرْکِسُوا فَخَرَجُوا مِنَ الْمَدِینَۃِ، فَاسْتَقْبَلَہُمْ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا:مَا لَکُمْ رَجَعْتُمْ؟ فَقَالُوا:أَصَابَنَا وَبَاء ُ الْمَدِینَۃِ فَاجْتَوَیْنَاہَا، فَقَالُوا:مَا لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُسْوَۃٌ؟ فَقَالَ بَعْضُہُمْ:نَافَقُواوَقَالَ بَعْضُہُمْ: لَمْ یُنَافِقُوا،ہُمْ مُسْلِمُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ (فَما لَکُمْ فِی الْمُنافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللَّہُ أَرْکَسَہُمْ بِما کَسَبُوا)الْآیَۃَ.
ترجمہ :حضرت سیدناابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ایسی قوم کے متعلق نازل ہوئی جو مدینہ منورہ میں آئے ، اسلام کااظہارکیااوران کو مدینہ منورہ کی وبااوربخارنے آلیاتوواپس چلے گئے اورمدینہ منورہ سے نکل گئے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺکے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کو راستے میں ملے توانہیں پوچھاکہ تم کیوں واپس آگئے؟ توانہوں نے جواب دیاکہ ہمیں مدینہ منورہ کی وبانے آلیاہے اورہم کو مدینہ منورہ کی ہواراس نہیں آئی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہاکہ کیاتمھارے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی ذات میں نمونہ نہیں ؟ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایاکہ یہ منافق ہیں اوربعض نے فرمایاکہ یہ منافق نہیں ہیں بلکہ مسلمان ہیں تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان:الشیخ العلامۃ محمد الأمین الہرری الشافعی(۶:۲۶۳)
تیسراقول
نَزَلَتِ الْآیَۃُ فِی قَوْمٍ أَظْہَرُوا الْإِسْلَامَ بِمَکَّۃَ،وَکَانُوا یُعِینُونَ الْمُشْرِکِینَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَاخْتَلَفَ الْمُسْلِمُونَ فِیہِمْ وَتَشَاجَرُوافَنَزَلَتِ الْآیَۃُ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَتَادَۃَ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ایسے بڑوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام ظاہرکیااورمسلمانوں کے خلاف مشرکین کی مددکرتے تھے ، مسلمانوں کاان کے بارے میں اختلاف اورجھگڑابھی ہواتویہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۶۸)
آیت کریمہ کامعنی
مَعْنَی الْآیَۃِ أَنَّہُ رَدَّہُمْ إِلَی أَحْکَامِ الْکُفَّارِ مِنَ الذُّلِّ وَالصَّغَارِ وَالسَّبْیِ وَالْقَتْلِ بِمَا کَسَبُوا،أَیْ بِمَا أَظْہَرُوا مِنَ الارتداد بعد ما کَانُوا عَلَی النِّفَاقِ، وَذَلِکَ أَنَّ الْمُنَافِقَ مَا دَامَ یَکُونُ مُتَمَسِّکًا فِی الظَّاہِرِ بِالشَّہَادَتَیْنِ لَمْ یَکُنْ لَنَاسَبِیلٌ إِلَی قَتْلِہِ،فَإِذَا أَظْہَرَ الْکُفْرَ فَحِینَئِذٍ یُجْرِی اللَّہ تَعَالَی عَلَیْہِ أَحْکَامَ الکفار.
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کفارکو ذلت ورسوائی ، گرفتاری اورقتل کی طرف لوٹادیا، ان کے اعمال کی وجہ سے یعنی نفاق کے بعد ، انہوںنے ارتدادکو ظاہرکیا، اس لئے کہ جب تک منافق ظاہرمیں شہادت توحیدورسالت کے ساتھ وابستہ رہتاہے اس کے قتل کاکوئی راستہ نہیں ، لیکن جب انہوں نے کفرکااظہارکیاتواللہ تعالی نے ان پر کفارکے احکامات جاری فرمادیئے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۶۸)
معارف ومسائل
(۱) اس سے معلوم ہواکہ مرتدکی سزاقتل ہے ، دیکھویہ لوگ جنہیں مرتدقراردیاگیاان کے قتل کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہواتورب تعالی نے اس ا ن کی حمایت فرمائی جوان کے قتل کے قائل تھے ۔
(۲) مسلمانوں کے مقابل کفارسے سازباز کرنے والااگرچہ کلمہ ہی پڑھتاہوقتل کامستحق ہے کہ وہ ملک وقوم اورملت کاغدارہے ۔
(۳)محض ظاہری ایمان کے بعد کفرکاظاہرہوناارتدادہے یعنی جوپہلے شرعاًمسلمان مان لیاگیاپھراس نے کفرظاہرکیاتومرتدہوگیا۔ دیکھومنافق درحقیقت چھپے کافرتھے ، مگربظاہرمسلمان مانے گئے تھے اس لئے کفرظاہرکرنے پرمرتدمانے گئے۔
(۴) ہرکلمہ پڑھ لینے والامومن نہیں ہوتا، جب اس سے علامت کفرظاہرہوتووہ مرتدہے اگرچہ وہ بظاہراپنے آپ کو مسلمان ہی کہتارہے ۔ دیکھویہ منافقین کلمہ کے انکاری نہ ہوئے تھے مگران کے ارتدادکاحکم دیاگیا۔
(۵) کافرسے محبت بھی کفرتک پہنچادیتی ہے اورکافرمرتدین کی حمایت بری چیز ہے ، ان کی مخالفت ضروری ہے دیکھورب تعالی نے ان کی حمایت کرنے والے پرعتاب فرمایا۔
(۶) اگرہم کسی کافرکو دلائل کے ساتھ مسلمان بھی ثابت کردیں توہمارے دلائل سے وہ مسلمان نہ بنے گا، اسلام وایمان تواس کے اپنے اخلاص سے میسرہوگاجیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔