حضورتاجدارختم نبوتﷺکوجہاد کرنے کاحکم دیاگیااگرچہ آپ ﷺتنہاہی کیوں نہ ہوں
{فَقٰتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اللہُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاللہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلًا}(۸۴)
ترجمہ کنزالایمان:تو اے محبوب اللہ کی راہ میں لڑو تم تکلیف نہ دیئے جاؤ گے مگر اپنے دم کی اور مسلمانوں کو آمادہ کرو قریب ہے کہ اللہ کافروں کی سختی روک دے اوراللہ کی آنچ سب سے سخت تر ہے اور اس کا عذاب سب سے کرّا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:تو اے حبیب کریم ﷺ!آپ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کریں۔ آپ ﷺکو آپ کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جائے گی اور مسلمانوں کو(جہاد کی)ترغیب دیتے رہیں ۔ عنقریب اللہ تعالی کافروں کی طاقت روک دے گااور اللہ تعالی کی طاقت سب سے زیادہ قوی ہے اور اس کا عذاب سب سے زیادہ سخت ہے۔
شان نزول
دَلَّتِ الْآیَۃُ عَلَی أَنَّ اللَّہ تَعَالَی أَمَرَہُ بِالْجِہَادِ وَلَوْ وَحْدَہُ قَبْلَ دُعَاء ِ النَّاسِ فِی بَدْرٍ الصُّغْرَی إِلَی الْخُرُوجِ، وَکَانَ أَبُو سُفْیَانَ وَاعَدَ الرَّسُولَ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللِّقَاء َ فِیہَا، فَکَرِہَ بَعْضُ النَّاسِ أَنْ یَخْرُجُوا، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ، فَخَرَجَ وَمَا مَعَہُ إِلَّا سَبْعُونَ رَجُلًا وَلَمْ یَلْتَفِتْ إِلَی أَحَدٍ،وَلَوْ لَمْ یَتَّبِعُوہُ لَخَرَجَ وَحْدَہُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ بتارہی ہے کہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو بدرالصغری میں نکلنے کے وقت لوگوں کودعوت دینے سے پہلے تنہاجہاد کاحکم دیا۔ ابوسفیان نے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے اس میں ملاقات ومقابلہ کاوعدہ کیاتھا۔جب لوگ نکلنے کو ناپسندکرنے لگے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوگئی ، آپﷺجہاد کے لئے روانہ ہوئے توآپﷺکے ساتھ شروع میں صرف سترآدمی تھے لیکن آپﷺنے کسی کی طرف توجہ نہیں فرمائی ۔ اگروہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اتباع نہ کرتے توآپ ﷺتنہاجہا دکے لئے روانہ ہوجاتے۔
(تفسیرکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۵۷)
آیت کریمہ کامعنی
الْمَعْنَی:لَا تَدَعْ جِہَادَ الْعَدُوِّ وَالِاسْتِنْصَارَ عَلَیْہِمْ لِلْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَلَوْ وَحْدَکَ، لِأَنَّہُ وَعَدَہُ بِالنَّصْرِقَالَ الزَّجَّاجُ:أَمَرَ اللَّہُ تَعَالَی رَسُولَہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجِہَادِ وَإِنْ قَاتَلَ وَحْدَہُ، لِأَنَّہُ قَدْ ضَمِنَ لَہُ النُّصْرَۃَ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ آپﷺ دشمن سے جہاد کرنانہ چھوڑیں اورمومنین میں سے جو کمزورہیں ان کی مددکرتے رہیں اگرچہ آپﷺتنہاہی کیوں نہ ہوں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکی مددکاوعدہ فرمایاہے ، امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریمﷺکو جہاد کاحکم دیااگرچہ وہ تنہاہی کیوں نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکی نصرت کی ضمانت دی ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۹۲)
گردن کٹ جانے تک اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتارہوں گا
وَمِنْ ذَلِکَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(وَاللَّہِ لَا قاتلنہم حَتَّی تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: خداتعالی کی قسم !میں اللہ تعالی کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرتارہوں گاچاہے میری گردن میرے جسم سے جداہوجائے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۹۲)
حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی عزیمت
وَقَوْلُ أَبِی بَکْرٍ وَقْتَ الرِّدَّۃِ:وَلَوْ خَالَفَتْنِی یَمِینِی لَجَاہَدْتُہَا بِشِمَالِی۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے مرتدہونے کے وقت فرمایاتھاکہ اگرمیرادائیاں ہاتھ میراساتھ نہیں دے گاتومیں اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ جہاد کروں گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۹۲)
جہاد کی ترغیب دلانے کاحکم دیاگیا
{وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ}أَیْ حُضَّہُمْ عَلَی الْجِہَادِ وَالْقِتَالِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ {وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ}میں اللہ تعالی نے فرمایاکہ اے حبیب کریم ﷺ!آپ لوگوں کو جہاد کی ترغیب اورشوق دلائیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۹۲)
ایک شبہ اوراس کاجواب
إِنْ قَالَ قَائِلٌ:نَحْنُ نَرَی الْکُفَّارَ فِی بَأْسٍ وَشِدَّۃٍ، وَقُلْتُمْ:إِنَّ عَسَی بِمَعْنَی الْیَقِینِ فَأَیْنَ ذَلِکَ الْوَعْدُ؟ قِیلَ لَہُ: قَدْ وُجِدَ ہَذَا الْوَعْدُ وَلَا یَلْزَمُ وُجُودُہُ عَلَی الِاسْتِمْرَارِ وَالدَّوَامِ فَمَتَی وُجِدَ وَلَوْ لَحْظَۃً مَثَلًا فَقَدْ صَدَقَ الْوَعْدُ،فَکَفَّ اللَّہُ بَأْسَ الْمُشْرِکِینَ بِبَدْرٍ الصُّغْرَی،وَأَخْلَفُوامَا کَانُوا عَاہَدُوہُ مِنَ الْحَرْبِ وَالْقِتَالِ (وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتالَ وَبِالْحُدَیْبِیَۃِ أَیْضًا عَمَّا رَامُوہُ مِنَ الْغَدْروَانْتِہَازِ الْفُرْصَۃِ، فَفَطِنَ بِہِمُ الْمُسْلِمُونَ فَخَرَجُوا فَأَخَذُوہُمْ أَسَرَی،وَکَانَ ذَلِکَ وَالسُّفَرَاء ُ یَمْشُونَ بَیْنَہُمْ فِی الصُّلْحِ، وَہُوَ الْمُرَادُ بِقَوْلِہِ تَعَالَی: (وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ عَلَی مَا یَأْتِی وَقَدْ أَلْقَی اللَّہُ فِی قُلُوبِ الْأَحْزَابِ الرُّعْبَ وَانْصَرَفُوا مِنْ غَیْرِ قَتْلٍ وَلَا قِتَالٍ، کَمَا قَالَ تَعَالَی (وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتالَ وَخَرَجَ الْیَہُودُ مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ بِغَیْرِ قِتَالِ الْمُؤْمِنِینَ لَہُمْ، فَہَذَا کُلُّہُ بَأْسٌ قَدْ کَفَّہُ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ، مَعَ أَنَّہُ قَدْ دَخَلَ مِنَ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی الْعَدَدُ الْکَثِیرُ وَالْجَمُّ الْغَفِیرُ تَحْتَ الْجِزْیَۃِ صَاغِرِینَ وَتَرَکُوا الْمُحَارَبَۃَ دَاخِرِینَ،فَکَفَّ اللَّہُ بَأْسَہُمْ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ والحمد للہ رب العالمین.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگرکوئی یہ کہے ہم دیکھتے ہیں کہ کفارشدت اورتکلیف میں ہیں اورتم نے کہاتھاکہ عسی بمعنی یقین ہے توپھروعدہ کیساہے ؟ تواس کاجواب یہ ہے کہ وعدہ پایاگیا، اس کاوجود استمراراوردوام کے ساتھ لازم نہیں جب کہ ایک دفعہ یہ پایاگیااگرچہ یک لحظہ کے لئے ہوتووعدہ سچاہوگا، اللہ تعالی نے بدرالصغری میں مشرکین سے ان کی تکلیف کوروک دیااورجوانہوںنے جنگ اورقتال کاعہدکیاتھااس سے وہ پیچھے رہ گئے ، {وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتال}مومنین سے اللہ تعالی نے قتال کوروک دیااورحدیبیہ میں جب انہوںنے عذرکیااورفرصت کو غنیمت جاناتومسلمان ان کو سمجھ گئے۔پس وہ نکلے اورانہوںنے ان کو قیدی بنالیایہ سفیرتھے جو صلح کرنے کے لئے چلے تھے ۔ {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ}سے یہی مراد ہے ، اللہ تعالی نے ان گروہوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا، وہ بغیرقتل وقتال کے واپس لوٹ گئے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتال} اوریہودی اپنے گھروں کو مومنین سے لڑے بغیرچھوڑکربھاگ گئے ۔ یہ سب باس ہے جواللہ تعالی نے مومنین سے روک دی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہود ونصاری اوربہت سے دشمن رسوائی کے ساتھ جزیہ دینے پر راضی ہوگئے اورذلیل وخوارہوکرجنگ کاراستہ ترک کردیا، پس اللہ تعالی نے مومنین سے ان کی شدت روک دی ۔ الحمدللہ رب العالمین۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۹۲)
حضورتاجدارختم نبوتﷺسب سے بڑے جنگجو
دَلَّتِ الْآیَۃُ عَلَی أَنَّہُ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَشْجَعَ الْخَلْقِ وَأَعْرَفَہُمْ بِکَیْفِیَّۃِ الْقِتَالِ لِأَنَّہُ تَعَالَی مَا کَانَ یَأْمُرُہُ بِذَلِکَ إِلَّا وَہُوَ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَوْصُوفٌ بِہَذِہِ الصِّفَاتِ،وَلَقَدِ اقْتَدَی بِہِ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُ حَیْثُ حَاوَلَ الْخُرُوجَ وَحْدَہُ إِلَی قِتَالِ مَانِعِی الزَّکَاۃِ،وَمَنْ عَلِمَ أَنَّ الْأَمْرَ کُلَّہُ بِیَدِ اللَّہ وَأَنَّہُ لَا یَحْصُلُ أَمْرٌ مِنَ الْأُمُورِ إِلَّا بِقَضَاء ِ اللَّہ سَہُلَ ذَلِکَ عَلَیْہِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ صاف بتارہی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتمام مخلوق سے بہادراورطریقہ جہاد میں سب سے زیادہ ماہرہیں کیونکہ اللہ تعالی نے آپ ْﷺکواسی لئے حکم دیاکہ آپ ﷺان صفات کے ساتھ موصوف ہیں ، حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اقتداء میں مانعین زکوۃ کے خلاف تنہاقتال کاارادہ کیاجوبھی یہ عقیدہ رکھے گاکہ سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ میں اورہرچیز اللہ تعالی کی قضاء ہی سے حاصل ہوتی ہے تواس پریہ معاملہ آسان ہوجائے گا۔
(تفسیرکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۵۷)
اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حفاظت کی ذمہ دارلی ہوئی تھی
دَلَّتِ الْآیَۃُ عَلَی أَنَّہُ لَوْ لَمْ یُسَاعِدْہُ عَلَی الْقِتَالِ غَیْرُہُ لَمْ یَجُزْ لَہُ التَّخَلُّفُ عَنِ الْجِہَادِ الْبَتَّۃَ، وَالْمَعْنَی لَا تُؤَاخَذُ إِلَّا بِفِعْلِکَ دُونَ فِعْلِ غَیْرِکَ،فَإِذَا أَدَّیْتَ فِعْلَکَ لَا تُکَلَّفُ بِفَرْضِ غَیْرِکَ وَاعْلَمْ أَنَّ الْجِہَادَ فِی حَقِّ غَیْرِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنْ فُرُوضِ الْکِفَایَاتِ، فَمَا لَمْ یَغْلِبْ عَلَی الظَّنِّ أَنَّہُ یُفِیدُ لَمْ یَجِبْ، بِخِلَافِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَإِنَّہُ عَلَی ثِقَۃٍ مِنَ النَّصْرِ وَالظَّفَرِ بِدَلِیلِ قَوْلِہِ تَعَالَی:وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ:۶۷)وبدلیل قولہ ہاہنا:عَسَی اللَّہُ أَنْ یَکُفَّ بَأْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَ عَسَی مِنَ اللَّہ جَزْمٌ، فَلَزِمَہُ الْجِہَادُ وَإِنْ کَانَ وَحْدَہُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ بتارہی ہے کہ اگرقتال میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکوکوئی معاون نہ ملے توبھی حضورتاجدارختم نبوتﷺ کیلئے جہاد سے پیچھے رہناجائز نہیں ہے ۔ اس کامعنی یہ ہے کہ ہم آپﷺکے فعل پرمواخذہ کریںگے نہ کہ دوسروں کے فعل پر، جب آپﷺنے اپنافعل اداکردیاتوآپ ﷺکودوسروں کے فرض کامکلف نہیں بنایا۔
واضح رہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے علاوہ کے کسی کے حق میں جہاد فرض کفایہ ہے جب تک ظن غالب نہ ہوکہ یہ مفیدرہے گاتولازم نہیں بخلاف حضورتاجدارختم نبوتﷺکے کیونکہ انہیں اللہ تعالی کی مدداورکامیابی پرکامل اعتبارہوتاہے ۔
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے {وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ}اوراللہ تعالی آپﷺکی حفاظت فرمائے گالوگوں سے ۔
اوردلیل یہاں یہ ارشادہے {عسَی اللَّہُ أَنْ یَکُفَّ بَأْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا }اوراللہ تعالی کافروں کی سختی روک دے اوراللہ تعالی کی گرفت بہت سخت ہے ۔ اورلفظ ’’عسی ‘‘اللہ تعالی کی طرف سے یقین کامعنی ہی دیتاہے توحضورتاجدارختم نبوتﷺپرجہاد لازم ہے اگرچہ آپ ﷺتنہاہوں ۔
(تفسیرکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۵۷)
وقوع عذاب کی تین صورتیں
وَاللَّہُ أَشَدُّ بَأْساً ای من قریش وَأَشَدُّ تَنْکِیلًا ای تعذیبا وعقوبۃ ینکل من یشاہدہا عن مباشرۃ ما یؤدی إلیہا ویجوز ان یکونا جمیعا فی الدنیا وان یکون أحدہما فی الدنیا والآخر فی العقبی ثم لہ ثلاثۃ أوجہ أحدہا ان معناہ ان عذاب اللہ تعالی أشد من جمیع ما ینالکم بقتالہم لان مکروہہم ینقطع ثم تصیرون الی الجنۃ وما یصل الی الکفار والمنافقین من عذاب اللہ یدوم ولا ینقطع والثانی لما کان عذاب اللہ أشد فہو اولی ان یخاف ولا یجری فی امرہ بالقتال منکم خلاف وہذا وعید. والثالث لما کان عذاب اللہ أشد فہو یدفعہم عنکم ویکفیکم أمرہم وہذا وعد ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی حنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ {وَاللَّہُ أَشَدُّ بَأْساً}اوراللہ تعالی جنگ کی تقویت دینے میں بہت بڑی طاقت رکھتاہے { وَأَشَدُّ تَنْکِیلًا }اوراسلام کے دشمنوں کوعذاب اوربڑی سخت سزادیتاہے اوراس سزااورعذاب کامشاہدہ ہراس شخص کو ہوگاجسے یہی سزااورعذاب پہنچیں گے ، یہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ دونوں عذاب وسزادنیامیں ہی ہوں اوریہ بھی جائز ہے کہ ایک دنیامیں اوردوسراآخرت میں ہو۔ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
پہلی صورت : تمھیں جوکچھ جنگ وغیرہ تکالیف وشدائد پہنچے ہیں ان سے اللہ تعالی کاعذاب سخت ترہے ، اس لئے کہ تم سے دکھ اوردرد اورتکلیف منقطع ہوجائیں گے اورپھرتم جنت میں جائوگے اورکفارومنافقین دوزخ میں رہیں گے اوردائمی عذاب میں مبتلاء رہیں گے۔
دوسری صورت : جب اللہ تعالی کاعذاب سخت ترہے توپھراس سے ڈرناضروری ہے اورجیسے اس نے جنگ کاحکم فرمایاہے اس سے خلاف ہرگزنہ ہواوریہ وعیدہے ۔
تیسری صورت : جب اللہ تعالی کاعذاب سخت ہے لیکن اللہ تعالی تم کو عذاب سے بچائے گاوراس کاامرمیںتمھیں کفایت کرے گا، اس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کووعدہ خیرسے نوازاہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی(۲:۲۴۸)