تفسیر سورہ نساء آیت ۸۱۔ وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ

اسلام اوراہل اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے اللہ تعالی کی پکڑسے نہیں بچ سکیں گے

{وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ وَاللہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ وَکَفٰی بِاللہِ وَکِیْلًا }(۸۱)
ترجمہ کنزالایمان:اور کہتے ہیں ہم نے حکم مانا پھر جب تمہارے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان میں ایک گروہ جو کہہ گیا تھا اس کے خلاف رات کو منصوبے گانٹھتا ہے اور اللہ لکھ رکھتا ہے ان کے رات کے منصوبے تو اے محبوب تم ان سے چشم پوشی کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ کافی ہے کام بنانے کو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور کہتے ہیں :ہم نے اطاعت اختیارکرلی پھر جب آپ ﷺکے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان میں ایک گروہ آپﷺ کے فرمان کے برخلاف رات کو منصوبے بناتا ہے اوراللہ تعالی ان کے رات کے منصوبے لکھ رہاہے تو اے حبیب کریم ﷺ! آپﷺان سے چشم پوشی کریں اوراللہ تعالی پر بھروسہ رکھیں اور اللہ کافی مددفرمانے کو۔

اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی معافی ختم

فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ وَالْمَعْنَی لَا تَہْتِکْ سِتْرَہُمْ وَلَا تَفْضَحْہُمْ وَلَا تَذْکُرْہُمْ بِأَسْمَائِہِمْ،وَإِنَّمَا أَمَرَ اللَّہ بِسَتْرِ أَمْرِ الْمُنَافِقِینَ إِلَی أَنْ یَسْتَقِیمَ أَمْرُ الْإِسْلَامِ ثُمَّ قَالَ:وَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فِی شَأْنِہِمْ، فَإِنَّ اللَّہ یَکْفِیکَ شَرَّہُمْ وَیَنْتَقِمُ مِنْہُمْ وَکَفی بِاللَّہِ وَکِیلًا لِمَنْ تَوَکَّلَ عَلَیْہِ قَالَ الْمُفَسِّرُونَ:کَانَ الْأَمْرُ بِالْإِعْرَاضِ عَنِ الْمُنَافِقِینَ فِی ابْتِدَاء ِ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ نُسِخَ ذَلِکَ بِقَوْلِہِ:جاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنافِقِینَ ۔

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ}کامعنی یہ ہے کہ اے حبیب کریم ﷺابھی آپ ﷺان کاپردہ رکھیں اوران کورسوانہ کریں اوران کے کاموں کو بیان نہ کریں ، اللہ تعالی نے منافقین کے معاملہ پرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکواسلام کے طاقتورہونے تک پردہ کاحکم دیا، پھران کے حوالے سے فرمایا: {وَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہ}اے حبیب کریم ﷺ!آپ اللہ تعالی پربھروسہ کریں کیونکہ اللہ تعالی آپﷺکے لئے ان کے شراورانتقام کے لئے کافی ہے اورفرمایا{وَکَفی بِاللَّہِ وَکِیلًا}اوراللہ تعالی کافی ہے کام بنانے میں ۔ جو اللہ تعالی پرتوکل کرے تواللہ تعالی اس کی مددکرنے کے لئے کافی ہے ۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ منافقین سے اعراض اوردرگزرکاحکم اسلام کی ابتداء میں تھاپھراللہ تعالی نے اس آیت کریمہ{جاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنافِقِینَ}اے حبیب کریم ﷺ!آپ کافروں اورمنافقین کے خلاف جہاد کریں۔ کونازل فرماکرمنسوخ فرمادیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۵۰)

مال کی خاطراسلام کے خلاف سازشیں کرناکفارکاپراناطریقہ ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُہُ:(وَیَقُولُونَ طَاعَۃٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ) (النساء:۸۱) وَہُمْ نَاسٌ کَانُوا یَقُولُونَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آمَنَّا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ لِیَأْمَنُوا عَلَی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالَفُوا إِلَی غَیْرِ مَا قَالُوا عِنْدَہُ؛ فَعَابَہُمُ اللَّہُ ,فَقَالَ:(بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ)(النساء :۸۱)یَقُولُ: یُغَیِّرُونَ مَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں کہ کچھ لوگ تھے جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺپرایمان لائے ، یہ کہنے کامقصد اپنی جانوں اوراپنے اموال کی حفاظت تھی ، جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس سے جاتے توجو بات انہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے کی ہوتی اس کے خلاف کرتے ، اللہ تعالی نے ان کی مذمت بیان فرمائی اورفرمایا: جو آپ ﷺفرماتے ہیں اس میں تبدیلی کردیتے ہیں ۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۷:۲۴۹)

اس سے معلوم ہواکہ آج بھی جتنے کافروں کے جاسوس اسلامی ممالک میں موجود ہیں اوریہ بھی خود کومسلمان کہتے ہیں اوریہ بھی علماء حق کی مجالس میں جاجاکربیٹھتے ہیں اوران کی جاسوسیاں کرتے ہیں اوران کے کلمات کو توڑموڑ کر اپنے طواغیت کو جاکرپہنچاتے ہیں اوریہی حال نام نہادمسلمانوں کی خفیہ ایجنسیوں کاہے وہ بھی کفرسے زیادہ اسلام کے اوراہل اسلام کے خلاف برسرپیکارہیں اورکفارکے ہمنواہیں ۔ یہ بھی اپنی چندٹکوں کی تنخواہ کوحلال کرنے کے لئے اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیںاورعلماء حق کی مجالس میں حاضرہوتے ہیں اورخودکو حضورتاجدارختم نبوتﷺکاعاشق کہتے ہیں مگرحقیقت میں یہ ابوجہل سے بھی بڑے بے دین ہیں۔ جس طرح وہ منافقین ذلیل ورسواہوگئے تھے اسی طرح ان کاانجام ان سے بھی بھیانک ہونے والاہے ۔

حضورتاجدارختم نبوتﷺکوان منافقین کی مددکی کوئی ضرورت نہیں

ثُمَّ أَمَرَہُ بِالتَّوَکُّلِ عَلَیْہِ وَالثِّقَۃِ بِہِ فِی النَّصْرِ عَلَی عَدُوِّہِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکو حکم دیاکہ آپ ﷺاپنے رب تعالی کی ذات پرکامل بھروسہ رکھیں اوردشمن پرمددحاصل کرنے میں اللہ تعالی کی ذات اقدس پر اعتمادکریں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۸۸)

معارف ومسائل

(۱) اس آیت کریمہ میں منافقین کی ایک خصلت بدکابیان ہے ، یہ وہ بے ایمان قوم ہے کہ ان کی مختلف عادات بدسے اہل اسلام کو آگاہ کیاجارہاہے اوروہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوجاتے ہیں توکہتے ہیں ہم آپﷺکے حکم سے کیسے باہرہوسکتے ہیں ، ہماراکام توصرف اورصرف آپﷺکی اطاعت کرنااورفرمانبرداری ہی کرناہے ، پھرجب آپﷺکی مجلس شریف سے باہرنکل جاتے ہیں توان میں سے ان کے رئوساء وہ راتوں کو اس بات کے علاوہ مشورے کرتے ہیں جوانہوںنے آپ ﷺکی مجلس شریف میں کہاتھا، پھروہ آپﷺکے ارشادات کے خلاف راتوں کو منصوبے بناتے ہیں اورچوری چھپے ان کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں اورعملی جامہ پہناتے ہیں ۔
(۲)قول وعمل میں مطابقت نہ ہونامنافقین کاکام ہے کیونکہ منافقین بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکی مجلس شریف میں یہی کہتے تھے کہ ہم آپ ﷺکے اطاعت گزارہیں لیکن جیسے ہی وہاں سے نکلتے توحضورتاجدارختم نبوتﷺکے خلاف سازشیں کرتے تھے ، اس سے معلوم ہوابظاہرباتیں اچھی کرنااورعمل اس کے خلاف کرنامنافقین کاکام ہے جیسے آجکل ہمارے دور کے لبرل وسیکولرطبقہ کے لوگ کرتے ہیں کہ یہ لو گ ختم نبوت پرڈاکے ڈالتے ہیں ، قادیانیوں کوہرطرح کی سہولتیں دیتے ہیں مگرجب اہل اسلام کی طرف سے ان پرپکڑآئے توکہتے ہیں کہ ہم توبہت بڑے عاشق رسول ہیں، ہمارے گھرمیں کعبہ کاغلاف بھی موجود ہے وغیرہ وغیرہ ، ان کی اس طرح کی حرکات دیکھ کرکامل یقین آجاتاہے کہ عبداللہ بن ابی کی روحانی اولاد ابھی بھی موجود ہے ۔
(۳) اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فیصلے کے خلاف سوچنااوراس کے خلاف عمل کرنامنافقین کاکام ہے کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فیصلے اوراحادیث کریمہ پر آنکھیں بندکرکے عمل کرنالازم ہے ۔
(۴)اس آیت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ ملکی و بین الاقوامی معاملات اور صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور کچھ عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسی سازشیں ، افواہیں اور خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ اَ لْاَمان وَالْحفیظ، کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔ کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے سمجھے جانے والے ہمارے لوگ اِن باتوں کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اِسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ بات کہی ، وہ پھیلتے پھیلتے دس مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔ ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہلِ دانش اور سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت ِ حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔(تفسیرصراط الجنان(۲: ۲۶۱)

Leave a Reply