تفسیر سورہ نساء آیت ۸۰۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت سے اعراض کرنے والامسلمان نہیں ہے

{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا }(۸۰)
ترجمہ کنزالایمان:جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمہیں ان کے بچانے کو نہ بھیجا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:جس نے رسول اللہ ﷺکا حکم مانا بیشک اس نے اللہ تعالی کا حکم مانا اور جس نے رسول اللہ ﷺکے حکم سے منہ موڑا تو ہم نے آپﷺ انہیں بچانے کے لئے نہیں بھیجا ۔
آیت کریمہ کامعنی
وَالْمَعْنَی أَنَّ مَنْ أَطَاعَ الرَّسُولَ لِکَوْنِہِ رَسُولًا مُبَلِّغًا إِلَی الْخَلْقِ أَحْکَامَ اللَّہ فَہُوَ فِی الْحَقِیقَۃِ مَا أَطَاعَ إِلَّا اللَّہ، وَذَلِکَ فِی الْحَقِیقَۃِ لَا یَکُونُ إِلَّا بِتَوْفِیقِ اللَّہ، وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا، فَإِنَّ مَنْ أَعْمَاہُ اللَّہ عَنِ الرُّشْدِ وَأَضَلَّہُ عَنِ الطَّرِیقِ، فَإِنَّ أَحَدًا مِنَ الْخَلْقِ لَا یَقْدِرُ عَلَی إِرْشَادِہِ.وَاعْلَمْ أَنَّ مَنْ أَنَارَ اللَّہ قَلْبَہُ بِنُورِ الْہِدَایَۃِ قَطَعَ بِأَنَّ الْأَمْرَ کَمَا ذَکَرْنَا، فَإِنَّکَ تَرَی الدَّلِیلَ الْوَاحِدَ تَعْرِضُہُ عَلَی شَخْصَیْنِ فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ إِنَّ أَحَدَہُمَا یَزْدَادُ إِیمَانًا عَلَی إِیمَانٍ عِنْدَ سَمَاعِہِ، وَالْآخَرُ یَزْدَادُ کُفْرًا عَلَی کُفْرٍ عِنْدَ سَمَاعِہِ، وَلَوْ أَنَّ الْمُحِبَّ لِذَلِکَ الْکَلَامِ أَرَادَ أَنْ یُخْرِجَ عَنْ قَلْبِہِ حُبَّ ذَلِکَ الْکَلَامِ وَاعْتِقَادَ صِحَّتِہِ لَمْ یَقْدِرْ عَلَیْہِ، وَلَوْ أَنَّ الْمُبْغِضَ لَہُ أَرَادَ أَنْ یُخْرِجَ عَنْ قَلْبِہِ بُغْضَ ذَلِکَ الْکَلَامِ وَاعْتِقَادَ فَسَادِہِ لَمْ یَقْدِرْ، ثُمَّ بَعْدَ أَیَّامٍ رُبَّمَا انْقَلَبَ الْمُحِبُّ مُبْغِضًا وَالْمُبْغِضُ مُحِبًّا، فَمَنْ تَأَمَّلَ لِلْبُرْہَانِ الْقَاطِعِ الَّذِی ذَکَرْنَاہُ فِی أَنَّہُ لَا بُدَّ مِنْ إِسْنَادِ جَمِیعِ الْمُمْکِنَاتِ إِلَی وَاجِبِ الْوُجُودِ،ثُمَّ اعْتَبَرَ مِنْ نَفْسِہِ الِاسْتِقْرَاء َ الَّذِی ذَکَرْنَاہُ، ثُمَّ لَمْ یَقْطَعْ بِأَنَّ الْکُلَّ بِقَضَاء ِ اللَّہ وَقَدَرِہِ، فَلْیَجْعَلْ وَاقِعَتَہُ مِنْ أَدَلِّ الدَّلَائِلِ عَلَی أَنَّہُ لَا تَحْصُلُ الْہِدَایَۃُ إِلَّا بِخَلْقِ اللَّہ مِنْ جِہَۃِ أَنَّ مَعَ الْعِلْمِ بِمِثْلِ ہَذَا الدَّلِیلِ، وَمَعَ الْعِلْمِ بِمِثْلِ ہَذَا الِاسْتِقْرَاء ِ لَمَّا لَمْ یَحْصُلْ فِی قَلْبِہِ ہَذَا الِاعْتِقَادُ، عَرَفَ أَنَّہُ لَیْسَ ذَلِکَ إِلَّا بِأَنَّ اللَّہ صَدَّہُ عَنْہُ وَمَنَعَہُ مِنْہُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ جس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت کی اس لئے کہ آپ ﷺاللہ تعالی کے احکامات مخلوق تک پہنچانے کے لئے رسول بنائے گئے ہیں۔اس نے حقیقت میں اللہ تعالی کی اطاعت کی اوریہ درحقیقت اللہ تعالی کی ہی توفیق سے ہے ۔ اورجس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت سے اعراض کرلیااس پرآپ ﷺمحافظ نہیں ہیں ۔ کیونکہ جسے اللہ تعالی ہدایت سے اندھاکردے ، راستے سے گمراہ کردے ، مخلوق میں سے کوئی بھی اس کی ہدایت پرقدرت نہیں رکھتا۔ یادرہے کہ جس کو اللہ تعالی ہدایت کے نور سے منورکردے وہ قطعی طورپرجان لے گاکہ معاملہ اسی طرح ہے جوہم نے ذکرکیاہے کیونکہ تم دیکھوکہ ایک ہی دلیل ایک مجلس میں دواشخاص پیش کریں ، ایک کے سننے پر ایمان کااضافہ ہوجائے گاجبکہ دوسرے کے سننے پرکفرمیں اضافہ ہوجائے گا، اس کلام کو چاہنے والااگرچاہے کہ اپنے دل سے اس کلام میں محبت اوراس کی صحت کے اعضاء کو خارج کردے تووہ اس پر قادرنہیں ہے ، اسی طرح اگراس کلام کو ناپسندکرنے والاچاہے کہ دل سے کلام سے بغض کو نکال دے اوراعتقاد فاسدسے بھی نکال دے تو وہ اس پرقدرت نہیں رکھتا، کچھ دنوںبعدبسااوقات محبت کرنے والابغض اوربغض رکھنے والامحبت کرنے والابن جاتاہے جوہمارے بیان کردہ برہان میں عمل کرے گایہ تمام ممکنات کی نسبت واجب الوجود کی طرف ضروری ہے اورپھراپنے تتبع وتلاش کابھی اعتبارکرے گا، پھروہ یہی قطعی مانے گاکہ یہ تمام چیزیں اللہ تعالی کی قضاوقدرسے ہیں، پھروہ واقعہ اس پر سب سے بڑی دلیل بنائے گاکہ ہدایت وتوفیق اللہ تعالی سے ہی حاصل ہوتی ہے ، اس جہت کاایسی دلیل کے ساتھ علم اوراس کی تتبع تلاش کاعلم ہوجب تک اس کودل پراعتقاد حاصل نہ ہوگاجان لے گاکہ اللہ تعالی نے اس سے اسے روک رکھاہے اورمنع کررکھاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۹)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکامعصوم ہونا

مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّہَ مِنْ أَقْوَی الدَّلَائِلِ عَلَی أَنَّہُ مَعْصُومٌ فِی جَمِیعِ الْأَوَامِرِ وَالنَّوَاہِی وَفِی کُلِّ مَا یُبَلِّغُہُ عَنِ اللَّہ، لِأَنَّہُ لَوْ أَخْطَأَ فِی شَیْء ٍ مِنْہَا لَمْ تَکُنْ طَاعَتُہُ طَاعَۃَ اللَّہ وَأَیْضًا وَجَبَ أَنْ یَکُونَ مَعْصُومًا فِی جَمِیعِ أَفْعَالِہِ، لِأَنَّہُ تَعَالَی أَمَرَ بِمُتَابَعَتِہِ فِی قولہ:وَاتَّبِعُوہُ (الأعراف: ۱۵۸)وَالْمُتَابَعَۃُ عِبَارَۃٌ عَنِ الْإِتْیَانِ بِمِثْلِ فِعْلِ الْغَیْرِ لِأَجْلِ أَنَّہُ فِعْلُ ذَلِکَ الْغَیْرِ، فَکَانَ الْآتِی بِمِثْلِ ذَلِکَ الْفِعْلِ مُطِیعًا للَّہ فِی قَوْلِہِ:وَاتَّبِعُوہُ فَثَبَتَ أَنَّ الِانْقِیَادَ لَہُ فِی جَمِیعِ أَقْوَالِہِ وَفِی جَمِیعِ أَفْعَالِہِ، إِلَّا مَا خَصَّہُ الدَّلِیلُ،طَاعَۃٌ للَّہ وَانْقِیَادٌ لِحُکْمِ اللَّہ.
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ{مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّہَ}جس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاحکم مانابے شک اس نے اللہ تعالی کاحکم مانا۔
یہ آیت کریمہ بڑی قوی دلیل ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺتمام اوامرونواہی اوراللہ تعالی کی طرف سے تمام تبلیغی چیزوں میں معصوم ہیں ، کیونکہ اگروہ ان میں سے کسی میں غلطی کریں توان کی اطاعت اللہ تعالی کی اطاعت نہیں ہوگی اورپھریہ ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام افعال میں معصوم ہوں کیونکہ اللہ تعالی نے ان کی پیروی کاحکم دیاہے {وَاتَّبِعُوہُ }اوران کی اتباع کرو۔
توثابت ہوگیاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اقوال وافعال میں فرمانبرداری اللہ تعالی کی اطاعت اوراللہ تعالی کے حکم شریف کی تابعداری ہے ۔ مگردلیل جسے خاص کردے گی۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۹)

حجیت حدیث پرزبردست دلیل

قَالَ الشَّافِعِیُّ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُ فِی کِتَابِ الرِّسَالَۃِ فِی بَابِ فَرْضِ الطَّاعَۃِ لِلرَّسُولِ:إِنَّ قَوْلُہُ تَعَالَی: مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّہَ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ کُلَّ تَکْلِیفٍ کَلَّفَ اللَّہ بِہِ عِبَادَہُ فِی بَابِ الْوُضُوء ِ وَالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ وَسَائِرِ الْأَبْوَابِ فِی الْقُرْآنِ،وَلَمْ یَکُنْ ذَلِکَ التَّکْلِیفُ مُبَیَّنًا فِی الْقُرْآنِ، فَحِینَئِذٍ لَا سَبِیلَ لَنَا إِلَی الْقِیَامِ بِتِلْکَ التَّکَالِیفِ إِلَّا بِبَیَانِ الرَّسُولِ، وَإِذَا کَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ لَزِمَ الْقَوْلُ بِأَنَّ طَاعَۃَ الرَّسُولِ عَیْنُ طَاعَۃِ اللَّہ، ہَذَا مَعْنَی کَلَامِ الشَّافِعِیِّ.
ترجمہ :امام الشافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّہَ}جس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاحکم مانابے شک اس نے اللہ تعالی کاحکم مانا۔
بتارہاہے کہ وضو، نماز ، روزہ ، حج اوردیگراحکام کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو مکلف بنایاہے اوران احکامات کی تفصیل قرآن کریم میں بیان نہیں فرمائی ، اب ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ ہم ان احکامات کی تفصیل حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے حاصل کریں ، جب معاملہ اسی طرح ہے تویہ قول لازم ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت واقعۃً اللہ تعالی کی اطاعت ہے ۔ حضرت سیدناامام الشافعی رضی اللہ عنہ کی گفتگوکامعنی یہی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۹)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوتسلی دی جارہی ہے

الْأَوَّلُ:مَعْنَاہُ فَلَا یَنْبَغِی أَنْ تَغْتَمَّ بِسَبَبِ ذَلِکَ التَّوَلِّی وَأَنْ تَحْزَنَ،فَمَا أَرْسَلْنَاکَ لِتَحْفَظَ النَّاسَ عَنِ الْمَعَاصِی، وَالسَّبَبُ فِی ذَلِکَ أَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کَانَ یَشْتَدُّ حُزْنُہُ بِسَبَبِ کُفْرِہِمْ وَإِعْرَاضِہِمْ، فاللَّہ تَعَالَی ذَکَرَ ہَذَا الْکَلَامَ تَسْلِیَۃً لَہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَنْ ذَلِکَ الْحُزْنِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت کریم کے اس حصے {وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا}کامعنی یہ ہے کہ ان کے پھرنے سے اے حبیب کریم ﷺآپ ﷺغمگین نہ ہوںہم نے آپ ْﷺکو اس لئے نہیں بھیجاکہ آپ ﷺلوگوںکی گناہوں سے حفاظت کریں، اس کاسبب یہ ہے کہ آپ ﷺان لوگوں کے کفراوراعراض کی وجہ سے شدیدپریشان ہوجاتے تواللہ تعالی نے یہ کلام ایسے غم سے تسلی دینے کے لئے فرمایا ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۹)

جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مخالفت کرے اس کے ساتھ جہاد کیاجائے

وَقَالَ الْقُتَبِیُّ:مُحَاسِبًا،فَنَسَخَ اللَّہُ ہَذَا بِآیَۃِ السَّیْفِ وَأَمَرَہُ بِقِتَالِ مَنْ خَالَفَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ.
ترجمہ : امام القتبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ کوآیت جہاد سے منسوخ فرمادیااوراللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوحکم دیاکہ جو کوئی شخص اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺکی مخالفت کرے تواس کے ساتھ جہادکیاجائے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۸۸)

جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ،وَمَنْ یَعْصِنِی فَقَدْ عَصَی اللہَ، وَمَنْ یُطِعِ الْأَمِیرَ فَقَدْ أَطَاعَنِی،وَمَنْ یَعْصِ الْأَمِیرَ فَقَدْ عَصَانِی۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت اورجس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اورجس نے امیرکی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اورجس نے امیرکی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۴۶۶)

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ جو لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی حدیث شریف کا انکارکرتے ہیں وہی قرآن کریم کابھی انکارکرتے ہیں ، اسی لئے وہ دائرہ اسلام سے خارج اورمرتدہیں کیونکہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اقوال اورافعال کو حجت نہیں مانتے ، قرآن کریم توحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے واسطے سے ہم تک پہنچاہے اورقرآن کریم میں جگہ جگہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت کاحکم دیاگیاہے ۔ (۲) حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت مطلقاً واجب ہے ، ان کاحکم سمجھ میں آئے یانہ آئے ، یابظاہرقرآنی آیات کے خلاف ہویاموافق کسی بھی مسلمان کو اس میں چون چران (اعتراض ) کرنے کی اجاز ت نہیں ہے ، بحکم قرآنی مسلمان مردکو چاربیویوں کے ساتھ نکاح کرنادرست ہے مگرحضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہاکی موجودگی میں حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے لئے دوسرانکاح کرناحرام رہا۔ کیوں اس لئے کہ انہیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس سے منع فرمادیا، ہرمعاملے میں دومردوں کی گواہی بحکم قرآن کریم ضروری ہے مگرحضرت سیدناخزیمہ رضی اللہ عنہ کی ایک گواہی دوگواہوں کے برابرہوگی ۔کیوں اس لئے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے یہ فرمادیا۔(۳) حضورتاجدارختم نبوت ﷺمعصوم مطلق ہیں کہ آپ ﷺسے کوئی بھی گناہ سرزدنہیں ہوسکتاکیونکہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہرحکم کی پیروی کرنے کاحکم دیااورآپ ﷺکی ہراطاعت کو اپنی اطاعت قراردیا، اگرآپ ﷺسے کوئی گناہ ہوتاتو اس میں آپ ْﷺکی اطاعت رب تعالی کی ناراضگی کاباعث ہوتی نہ کہ رب تعالی کی اطاعت کا ۔
(۴) اللہ تعالی کی اطاعت اورقرآن کریم پرعمل صرف حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی پیروی سے ہوسکتاہے ، براہ راست نہ کوئی رب تعالی کی اطاعت کرسکتاہے اورنہ ہی قرآن کریم پر عمل کرسکتاہے ۔ ( تفسیرنعیمی ( ۵: ۲۵۰)

Leave a Reply

%d bloggers like this: