منافقین اوریہودیوں کابے برکتی کاذمہ دارحضورتاجدارختم نبوتﷺکو ٹھہرانااوراللہ تعالی کاان کو جواب دینا
{اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْکُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ فَمَالِ ہٰٓؤُلَآء ِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا }(۷۸)
ترجمہ کنزالایمان:تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آلے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو اور اُنہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور کی طرف سے آئی تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور آپکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو اور ان منافقین کو کوئی خیرپہنچے تو کہتے ہیں یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہتے ہیں : اے محمد(ﷺ)!یہ آپﷺ کی وجہ سے آئی ہے۔ اے حبیب کریم ﷺ!آپ ﷺفرمادیں: یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوگیاکہ کسی بات کو سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے۔
منافقین کاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی کرنا
اعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا حَکَی عَنِ الْمُنَافِقِینَ کَوْنَہُمْ مُتَثَاقِلِینَ عَنِ الْجِہَادِ خَائِفِینَ مِنَ الْمَوْتِ غَیْرَ رَاغِبِینَ؍ فِی سَعَادَۃِ الْآخِرَۃِ حَکَی عَنْہُمْ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ خَصْلَۃً أُخْرَی قَبِیحَۃً أَقْبَحَ مِنَ الْأُولَی وَفِی النَّظْمِ وَجْہٌ آخَرُ، وَہُوَ أَنَّ ہَؤُلَاء ِ الْخَائِفِینَ مِنَ الْمَوْتِ الْمُتَثَاقِلِینَ فِی الْجِہَادِ مِنْ عَادَتِہِمْ أَنَّہُمْ إِذَا جَاہَدُوا وَقَاتَلُوا فَإِنْ أَصَابُوا واحدۃ وَغَنِیمَۃً قَالُوا:ہَذِہِ مِنْ عِنْدِ اللَّہ، وَإِنْ أَصَابَہُمْ مَکْرُوہٌ قَالُوا:ہَذَا مِنْ شُؤْمِ مُصَاحَبَۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہَذَا یَدُلُّ عَلَی غَایَۃِ حُمْقِہِمْ وَجَہْلِہِمْ وَشِدَّۃِ عِنَادِہِمْ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں جب اللہ تعالی نے منافقین کے بارے میں فرمایا،کیاوہ جہاد سے بھاگتے اورموت سے ڈرتے ہیں اوراخروی سعادتوں میں رغبت نہیں رکھتے ، پھراس آیت کریمہ میں ان کی ایک اورعادت بیان کی یہ پہلے والی سے زیادہ بدترہے ، اس آیت کریمہ کاایک اورطرح سے بھی ربط بن سکتاہے کہ موت سے ڈرنے والوں اورجہاد سے بزدلی دکھانے والوں کی عادت یہ بھی تھی کہ وہ جہاد وقتا ل پرجاتے اوراگران کو کوئی تکلیف پہنچتی تووہ کہتے کہ محمدﷺکی سنگت کی نحوست ہے (نعوذباللہ من ذلک) یہ ان کی انتہائی بے وقوفی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ سخت ترین دشمنی پردلیل ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۴)
انبیاء کرام علیہم السلام اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبرائی کاذمہ دارجانناکفارکاطریقہ ہے
ذَکَرُوا فِی الْحَسَنَۃِ وَالسَّیِّئَۃِ وُجُوہًا الْأَوَّلُ:قَالَ الْمُفَسِّرُونَ:کَانَتِ الْمَدِینَۃُ مَمْلُوء َۃً مِنَ النِّعَمِ وَقْتَ مَقْدَمِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَلَمَّا ظَہَرَ عِنَادُ الْیَہُودِ وَنِفَاقُ الْمُنَافِقِینَ أَمْسَکَ اللَّہ عَنْہُمْ بَعْضَ الْإِمْسَاکِ کَمَا جَرَتْ عَادَتُہُ فِی جَمِیعِ الْأُمَمِ،قَالَ تَعَالَی:وَما أَرْسَلْنا فِی قَرْیَۃٍ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا أَخَذْنا أَہْلَہا بِالْبَأْساء ِ وَالضَّرَّاء ِ فَعِنْدَ ہَذَا قَالَ الْیَہُودُ وَالْمُنَافِقُونَ:مَا رَأَیْنَا أَعْظَمَ شُؤْمًا مِنْ ہَذَا الرَّجُلِ،نَقَصَتْ ثِمَارُنَا وَغَلَتْ أَسْعَارُنَا مُنْذُ قَدِمَ، فَقَوْلُہُ تَعَالَی:وَإِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَعْنِی الْخَصْبَ وَرُخْصَ السِّعْرِ وَتَتَابُعَ الْأَمْطَارِقَالُوا:ہَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّہ وَإِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ جَدْبٌ وَغَلَاء ُ سِعْرٍ قَالُوا ہَذَا مِنْ شُؤْمِ مُحَمَّدٍ، وَہَذَا کَقَوْلِہِ تَعَالَی:فَإِذا جاء َتْہُمُ الْحَسَنَۃُ قالُوا لَنا ہذِہِ وَإِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسی وَمَنْ مَعَہُ (الْأَعْرَافِ:۱۳۱)وَعَنْ قَوْمِ صَالِحٍ:قالُوا اطَّیَّرْنا بِکَ وَبِمَنْ مَعَکَ (النَّمْلِ:۴۷)الْقَوْلُ الثَّانِی:الْمُرَادُ مِنَ الْحَسَنَۃِ النَّصْرُ عَلَی الْأَعْدَاء ِ وَالْغَنِیمَۃُ، وَمِنَ السَّیِّئَۃِ الْقَتْلُ وَالْہَزِیمَۃ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں
لفظ سئیۃ اورحسنۃ کی تفسیرکے بارے میں دوقول ہیں :
پہلاقول : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی آمدکے وقت نعمتوں سے مالا مال تھا، جب یہودیوں کاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ دشمنی اورمنافقین کانفاق سامنے آیاتواللہ تعالی نے کچھ نعمتیں کم کردیں جیسے تمام امتوں میں سنت الہیہ ہے ، اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے {وَما أَرْسَلْنا فِی قَرْیَۃٍ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا أَخَذْنا أَہْلَہا بِالْبَأْساء ِ وَالضَّرَّاء ِ }اورنہ بھیجاہم نے کسی بستی میں کوئی نبی مگریہ کہ اس کے لوگوں کی سختی اورتکلیف نے پکڑا کہ وہ کسی طرح عاجزی اورزاری کریں ۔
اوراس موقع پر یہودی اورمنافقین کہنے لگے کہ ہم نے اس شخص یعنی حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے بڑھ کرکوئی منحوس نہیں دیکھاجب سے آیاہے ہمارے پھلوں میں کمی اورکئی چیزیں مہنگی ہوگئیں ہیں ۔
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے {وَإِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃ}اوراگرانہیں کوئی خوشحالی اورقیمتوں میں کمی اورمسلسل بارش ملے توکہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے { وَإِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ }اوراگر قحط سالی اورمہنگائی ہوتوکہتے ہیں کہ یہ محمدﷺکی نحوست ہے (نعوذ باللہ من ذلک) تواس ارشادباری تعالی کی طرح ہے { فَإِذا جاء َتْہُمُ الْحَسَنَۃُ قالُوا لَنا ہذِہِ وَإِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسی وَمَنْ مَعَہُ} توجب ان کو بھلائی ملتی توکہتے کہ یہ ہمارے لئے ہے اورجب برائی پہنچتی توحضرت سیدناموسی علیہ السلام اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ بدشگونی لیتے کہ یہ ان کی نحوست کی وجہ سے ہے ۔ اورحضرت سیدناصالح علیہ السلام کی طرف سے نقل کیا{قالُوا اطَّیَّرْنا بِکَ وَبِمَنْ مَعَکَ }بولے کہ ہم نے براشگون لیاتم سے اورتمھارے ساتھیوں سے ۔ حسنۃ سے مراد ہے دشمن پرغلبہ اورغنیمت کاحصول اورسیئۃ سے مرادقتل اورشکست ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۴)
یہودومنافقین پرعذاب آنے کی اصل وجہ ؟
وفی ہذہ الجملۃ ایضا ردّ علی قولہم ہذہ من عندک حیث نسبوا الشوم الیہ علیہ السّلام وما ہو الا رسول من اللہ تعالی أرسل رحمۃ عامّۃ للناس أجمعین وانما حرم الکفار من الرحمۃ وأصابہم ما أصابہم من النقمۃ فی الدنیا والاخرۃ بشوم أنفسہم حیث لم یطیعوا رسول اللہﷺ۔
ترجمہ :امام قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یہودومنافقین کی گستاخی کی تردیدکی ہے ، مطلب یہ ہے کہ کفارتوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طرف نحوست کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ آپ ﷺاللہ تعالی کے رسول ہیں ، تمام لوگوں کے لئے ہمہ گیررحمت بناکرآپﷺ کوبھیجاگیاہے البتہ کفاراس رحمت سے محروم ہیں ، دنیوی اوراخروی عذاب میں اپنے اعمال کی نحوست کی وجہ سے مبتلاء ہیں اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت نہ کرنااس مصیبت کااصل سبب ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۲:۱۶۱)
مزیدلکھتے ہیں کہ
ولا یجوز من اللہ تعالی الانتقام من أحد بشوم غیرہ فنسبتہم السیئۃ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بسبب شومہ مع انغماسہم فی الکفر والمعاصی ظاہر البطلان۔
ترجمہ :امام قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ منافقین اوریہودیوں کایہ خیال کرناکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی وجہ سے وہ مصیبت میں مبتلاء ہیں اوراپنے کفرومعاصی کاخیال نہ کرناسراسرغلط ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۲:۱۶۱)
منافقین اوریہودی جانوروں کی طرح پاگل ہیں
لا یَکادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثاً ای لا یقربون من فہم حدیث عن اللہ تعالی کالبہائم ولو فہموا لعلموا ان الکل من عند اللہ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودیوں اورمنافقوں کی حالت یہ ہے کہ ان کواتنی اہلیت اورلیاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بات کوسمجھ سکیںیہ توجانوروں کی طرح لاشعورہیں ورنہ انہیں کچھ عقل وفہم ہوتاتو یقین رکھتے کہ ہربھلائی اوربرائی اللہ تعالی کی جانب سے ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی(۲:۲۴۲)
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ ہمیشہ کفارومنافقین انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرایسے الزامات لگاتے آئے ہیں۔جس طرح آج بھی لبرل وسیکولرطبقہ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ اہل دین کو ہی سمجھتاہے ۔ اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ان لوگوں کے پاگل اورجاہل ہونے پریہ آیت کریمہ دلیل ہے ۔
(۲) کسی مصیبت یاآفت کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف نسبت کرناکہ ان کی وجہ سے یاہم نے جوان کی غلامی اختیارکی کہ ہم مسلمان ہوگئے اس سے یانماز کی وجہ سے یہ آفت آئی یہ کفرہے ،دیکھورب تعالی نے اس قول کویہودومنافقین کی کفریہ عبارات میں شمارفرمایا، مسلمانوں کو بہت احتیاط کرنی چاہئے کہ بعض لوگ غلطی سے ایسی بے ہودہ باتیں کہہ دیتے ہیں۔
(۳) اوراس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ کافروبے دین (لبرل وسیکولر) اگرچہ کتناہی عاقل ہومگراللہ تعالی کے نزدیک جانورسے بھی زیادہ پاگل ہے ۔ (تفسیرنعیمی (۵: ۲۴۴)
(۴) اسی طرح اگرکسی خاندان میں کوئی لڑکی بیاہ کرلائی تو اچانک سے ان پرکوئی مصیبت وغیرہ آگئی توکہتے ہیں کہ یہ اس لڑکی کی وجہ سے آئی ہے کیونکہ یہ ہمارے لئے منحوس ثابت ہوئی ہے ، یادرہے یہ بدشگونی ہے اوراسلام میں بدشگونی حرام ہے ۔
(۶) منافق اورکافراگربظاہراچھی اوردرست بات بھی کہیں توان کی نیت فاسد ہی ہوگی اوران کی وہ بات عین کفرہوتی ہے ، دیکھوبھلائی پہنچنے پریہ لوگ اللہ تعالی کانام لیتے تھے کہ یہ رب تعالی طرف سے ہے ، بات ان کی ٹھیک تھی مگران کی نیت خراب تھی وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے توسل اورآپ ﷺکی برکتوں کے انکارکی نیت سے یہ کہتے تھے لھذاان کے اس قول کورب تعالی نے فرمایا: {لکاذبون }یہ بڑے جھوٹے ہیں کیونکہ ان کی نیت خراب ہے ۔ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص ہرنماز میں سورۃ عبس وتولی پڑھاکرتاتھاحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے اسے کافرقراردیااورقتل کروادیا۔