تفسیر سورہ نساء آیت ۷۶۔۷۷۔ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطّٰغُوْتِ

اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کرنے والے اورطاغوت کے لئے جہاد کرنے والوں کافرق

{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطّٰغُوْتِ فَقٰتِلُوْٓا اَوْلِیَآء َ الشَّیْطٰنِ اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا }(۷۶)اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ قُلْ مَتٰعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا }(۷۷)
ترجمہ کنزالایمان:ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے لڑو بے شک شیطان کا داؤ کمزور ہے۔ کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا اپنے ہاتھ روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں بعض لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرے یا اس سے بھی زائد اور بولے اے رب ہمارے تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا تھوڑی مدت تک ہمیں اور جینے دیا ہوتا، تم فرما دو کہ دنیا کا برتنا تھوڑا ہے اور ڈر والوں کے لیے آخرت اچھی اور تم پر تاگے برابر ظلم نہ ہوگا۔

ترجمہ ضیاء الایمان: اہل ایمان اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں اور کافر شیطان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے لڑتے ہیں تو تم شیطان کے دوستوں سے قتال کرو بیشک شیطان کا مکرو فریب کمزور ہے۔ کیا تم نے ان لوگوں کونہ دیکھا جن سے کہا گیا اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرواور زکوٰۃ اداکرو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایک گروہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگا جیسے اللہ تعالی سے ڈراجاتاہے یا اس سے بھی زیادہ اورکہنے لگے:اے ہمارے رب!تو نے ہم پر جہاد کیوں لازم کردیا ؟ تھوڑی سی مدت تک ہمیں اور مہلت کیوں نہ عطا فرمادی؟ اے حبیب کریم ﷺ!آپ ﷺ فرما دیں کہ دنیا کاسازو سامان تھوڑا ساہے اور پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے (ذرہ)کے برابربھی ظلم نہ کیا جائے گا۔

قتال کے دوہی راستے ہیں

وَاعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا بَیَّنَ وُجُوبَ الْجِہَادِ بَیَّنَ أَنَّہُ لَا عِبْرَۃَ بِصُورَۃِ الْجِہَادِبَلِ الْعِبْرَۃُ بِالْقَصْدِ وَالدَّاعِی، فَالْمُؤْمِنُونَ یُقَاتِلُونَ لِغَرَضِ نُصْرَۃِ دِینِ اللَّہ وَإِعْلَاء ِ کَلِمَتِہِ، وَالْکَافِرُونَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطاغوت، وہذہ الآیۃ کالدلالۃ عَلَی أَنَّ کُلَّ مَنْ کَانَ غَرَضُہُ فِی فِعْلِہِ رِضَا غَیْرِ اللَّہ فَہُوَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ، لِأَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا ذَکَرَ ہَذِہِ الْقِسْمَۃَ وَہِیَ أَنَّ الْقِتَالَ إِمَّا أَنْ یَکُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہ:أَوْ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ وَجَبَ أَنْ یَکُونَ مَا سِوَی اللَّہ طَاغُوتًا،ثُمَّ إِنَّہُ تَعَالَی أَمَرَ الْمُقَاتِلِینَ فِی سَبِیلِ اللَّہ بِأَنْ یُقَاتِلُوا أَوْلِیَاء َ الشَّیْطَانِ، وَبَیَّنَ أَنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا،لِأَنَّ اللَّہ یَنْصُرُ أَوْلِیَاء َہُ،وَالشَّیْطَانُ یَنْصُرُ أَوْلِیَاء َہُ وَلَا شَکَّ أَنَّ نُصْرَۃَ الشَّیْطَانِ، لِأَوْلِیَائِہِ أَضْعَفُ مِنْ نُصْرَۃِ اللَّہ لِأَوْلِیَائِہِ، أَلَا تَرَی أَنَّ أَہْلَ الْخَیْرِ وَالدِّینِ یَبْقَی ذِکْرُہُمُ الْجَمِیلُ عَلَی وَجْہِ الدَّہْرِ وَإِنْ کَانُوا حَالَ حَیَاتِہِمْ فِی غَایَۃِ الْفَقْرِ وَالذِّلَّۃِ، وَأَمَّا الْمُلُوکُ وَالْجَبَابِرَۃُ فَإِذَا مَاتُوا انْقَرَضَ أَثَرُہُمْ وَلَا یَبْقَی فِی الدُّنْیَا رَسْمُہُمْ وَلَا ظُلْمُہُمْ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے جہاد کاحکم دیاتویہاں واضح فرمایاکہ صورت جہاد کااعتبارنہیں بلکہ اعتبارارادہ اورداعیہ کاہے ۔ اہل ایمان اللہ تعالی کے دین کی مدداوراس کے کلمہ کی بلندی کے لئے جہاد کرتے ہیں اورکافرطاغوت کے راستے میں قتال کرتے ہیں۔
اوریہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کی اپنے فعل میں غیراللہ کی رضاہوگی وہ طاغوت کے راستے میں ہوگا، اس لئے کہ جب اللہ تعالی نے یہ تقسیم ذکرفرمائی کہ قتال اللہ تعالی کی راہ میں ہوگایاطاغوت کی راہ میں تولازم ہے کہ اللہ تعالی کے ماسواطاغوت ہو، پھراللہ تعالی نے اپنی راہ میں قتال کرنے والوں کوحکم دیاکہ وہ شیطان کے دوستوں سے لڑیں اوریہ واضح کیاکہ شیطان کامکروفریب کمزورہے ۔اس لئے اللہ تعالی اپنے دوستوں کی مددفرمائے گابلاشبہ شیطان کااپنے دوستوں کی مددکرنااس سے بھی بہت کمزورہے جواللہ تعالی اپنے دوستوں کی مددفرماتاہے ۔ کیاتم نہیں چاہتے کہ اہل خیرودین کاذکرجمیل رہتی دنیاتک باقی رہتاہے ، حالانکہ وہ دنیامیں حالت فقروکمزوری میں ہوتے ہیں۔لیکن بڑے بڑے جابربادشاہ جب مرجاتے ہیں توان کے نشان مٹ جاتے ہیں اورنہ دنیامیں ان کاطریقہ رہتاہے اورنہ ہی ان کاظلم ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۲)

جہاد سے ڈرنے والاکون تھا؟

وَمَعَاذَ اللَّہِ أَنْ یَصْدُرَ ہَذَا الْقَوْلُ مِنْ صَحَابِیٍّ کَرِیمٍ یَعْلَمُ أَنَّ الْآجَالَ مَحْدُودَۃٌ وَالْأَرْزَاقَ مَقْسُومَۃٌ، بَلْ کَانُوا لِأَوَامِرِ اللَّہِ مُمْتَثِلِینَ سَامِعِینَ طَائِعِینَ، یَرَوْنَ الْوُصُولَ إِلَی الدَّارِ الْآجِلَۃِ خَیْرًا مِنَ الْمُقَامِ فِی الدَّارِ الْعَاجِلَۃِ، عَلَی مَا ہُوَ مَعْرُوفٌ مِنْ سِیرَتِہِمْ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ اللَّہُمَّ إِلَّا أَنْ یَکُونَ قَائِلُہُ مِمَّنْ لَمْ یَرْسَخْ فِی الْإِیمَانِ قَدَمُہُ، وَلَا انْشَرَحَ بِالْإِسْلَامِ جَنَانُہُ،فَإِنَّ أَہْلَ الْإِیمَانِ مُتَفَاضِلُونَ فَمِنْہُمُ الْکَامِلُ وَمِنْہُمُ النَّاقِصُ،وَہُوَ الَّذِی تَنْفِرُ نَفْسُہُ عَمَّا یُؤْمَرُ بِہِ فِیمَا تَلْحَقُہُ فِیہِ الْمَشَقَّۃُ وَتُدْرِکُہُ فِیہِ الشِّدَّۃُ.وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کی پناہ کہ کسی معززصحابی رضی اللہ عنہ سے یہ قول صادرہوجویہ جانتاہو کہ اس زندگی کی عمرمحدودہے اوررزق تقسیم شدہ ہے ، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تواللہ تعالی کے اوامرکی پیروی کرنے والے ، سننے والے اوراطاعت کرنے والے تھے جویہ جانتے تھے کہ اس دنیامیں رہنے کی نسبت آخرت کے گھرمیں پہنچنابہترہے جیساکہ ان کی سیرت سے ظاہرہے ، مگریہ کہ اس کاقائل ایساشخص ہوجس کاایمان ابھی راسخ نہ ہواورابھی اس کادل اسلام کی عظمتوں کے ساتھ کشادہ نہ ہواہوکیونکہ اہل ایمان ایک دوسرے پرفضیلت رکھتے تھے ، ان میں سے کچھ کامل تھے اورکچھ نے ابھی وہ کمال نہیں پایاتھاجو کاملین نے پایاتھا۔ یہ وہ تھے جس کانفس متنفرتھااس حکم سے جس کااسے حکم دیاگیا، جس میں اسے مشقت لاحق ہوتی تھی اورشدت کاسامناکرناپڑتاتھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۸۰)

متاع دنیاقلیل کیوں ؟

ومتاع الدنیا منفعتہا والاستمتاع بلذاتہاوَسَمَّاہُ قَلِیلًا لِأَنَّہُ لَا بَقَاء َ لَہُ وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَثَلِی وَمَثَلُ الدُّنْیَا کَرَاکِبٍ قَالَ قَیْلُولَۃً تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا۔
ترجمہ :اس آیت کریمہ میں دنیاکی منفعت کوقلیل فرمایاکیونکہ اس کے لئے بقاء نہیں ہے ، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: میری مثال اوردنیاکی مثال سوارکی طرح ہے جس نے ایک درخت کے نیچے قیلولہ کیاپھروہ پچھلے پہراس کو چھوڑکرچلاگیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۸۰)

شیطان کے راستے سے مراد ؟

الَّذِینَ آمَنُوا یُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ای المؤمنون انما یقاتلون فی دین اللہ الحق الموصل لہم الی اللہ عز وجل فی إعلاء کلمتہ فہو ولیہم وناصرہم لا محالۃ وَالَّذِینَ کَفَرُوا یُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ ای فیما یوصلہم الی الشیطان فلا ناصر لہم سواہ فَقاتِلُوا أَوْلِیاء َ الشَّیْطانِ کأنہ قیل إذا کان الأمر کذلک فقاتلوا یا اولیاء اللہ اولیاء الشیطان إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطانِ الکید السعی فی فساد الحال علی جہۃ الاحتیال کانَ ضَعِیفاً ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیںکہ {الَّذِینَ آمَنُوا یُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہ}وہ لوگ جو لڑتے ہیں اللہ تعالی کے راستے میں ان سے مراداہل ایمان ہیں یعنی وہ حضرات اللہ تعالی کے دین حق (موصل الی اللہ ) اوراعلاء کلمۃ اللہ کے لئے لڑتے ہیں ، پس وہی ان کاحامی اورمددگارہے ، { وَالَّذِینَ کَفَرُوا یُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ}اوروہ لوگ جو طاغوت کے لئے لڑتے ہیں جوان کو شیطان کی طرف پہنچاتے ہیں ، پس ان کاسوائے شیطان کے کوئی بھی مددگارنہیں ہے ۔ {فَقاتِلُوا أَوْلِیاء َ الشَّیْطانِ }یہ سوال مقدرکاجوا ب ہے ، سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے فرمایا: میرے دوست میرے راستے میں لڑتے ہیںاورشیطان کے دوست طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں توگویاپھرسوال کیاگیاکہ اب اہل ایمان کو کیاکرناچاہئے ؟ توجواباًفرمایا: اے اللہ تعالی کے دوستو! شیطان کے یاروں کے ساتھ لڑو!{إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطانِ کانَ ضَعِیفاً }بے شک شیطان کامکرکمزورہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی(۲:۲۳۷)

اہل ایمان کو جہاد کی ترغیب دی گئی ہے

الَّذِینَ آمَنُوا یُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کلام مستأنف سیق لتشجیع المؤمنین وترغیبہم فی الجہاد أی المؤمنون إنما یقاتلون فی دین اللہ تعالی الموصل لہم إلیہ عز وجل وفی إعلاء کلمتہ فہو ولیہم وناصرہم لا محالۃ.
ترجمہ :امام شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی الحنفی المتوفی : ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ یعنی اس نئے جملے میں اہل اسلام کی ہمت بڑھائی جارہی ہے اوران کو جہاد کے لئے ترغیب دی جارہی ہے کہ ایمان والے صرف اورصرف اللہ تعالی کے دین کی خاطرلڑتے ہیں جو دین ان کو اللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچاتاہے اوریہ لوگ اللہ تعالی کے کلمہ کی بلندی کے لئے لڑتے ہیں ۔ پس اللہ تعالی ضروران کی نصرت اورمددفرماتاہے جبکہ کافرطاغوت کے اس راستے کی خاطرلڑتے ہیں جوان کو شیطان تک لے جاتاہے ۔
(روح المعانی :شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی(۳:۸۲)

اللہ تعالی نے تقسیم فرمادی

لَمَّا أَمَرَ تَعَالَی الْمُؤْمِنِینَ أَوَّلًا بِالنَّفْرِ إِلَی الْجِہَادِ ،ثُمَّ ثَانِیًابِقَوْلِہِ:فَلْیُقاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ثُمَّ ثَالِثًا عَلَی طَرِیقِ الْحَثِّ وَالْحَضِّ بِقَوْلِہِ:وَما لَکُمْ لَا تُقاتِلُونَ أَخْبَرَ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ بِالتَّقْسِیمِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ ہُوَ الَّذِی یُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ، وَأَنَّ الْکَافِرَ ہُوَ الَّذِی یُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ، لِیُبَیِّنَ لِلْمُؤْمِنِینَ فَرْقَ مَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْکُفَّارِ، وَیُقَوِّیَہُمْ بِذَلِکَ وَیُشَجِّعَہُمْ وَیُحَرِّضَہُمْ.
ترجمہ :امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی ـ: ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے پہلے اہل اسلام کو جہا دکرنے کے لئے نکلنے کاحکم دیاپھردوبارہ حکم دیا{فَلْیُقاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّہ}پھرتیسری بار رغبت اورشوق دلاکرحکم دیا{وَما لَکُمْ لَا تُقاتِلُونَ}اوراب اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اہل اسلام اورکفارکوالگ الگ تقسیم فرمادیا۔یعنی مومن وہ ہے جو اللہ تعالی کے راستے میں لڑتاہے اورکافروہ ہے جو طاغوت کے راستے میں لڑتاہے یہ تقسیم اس لئے فرمائی تاکہ اہل ایمان کو وہ فرق سمجھادے جو ان کے اورکافروں کے درمیان ہے اوران کو حوصلہ اورقوت اورجہاد کی ترغیب دے ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی(۳:۷۱۲)

آسان احکاما ت کو پسندکرنے والے جہاد سے انکاری کیوں ؟

وَقَالَ قَوْمٌ:کَانَ کَثِیرٌ مِنَ الْعَرَبِ اسْتَحْسَنُوا الدُّخُولَ فِی الدِّینِ عَلَی فَرَائِضِہِ الَّتِی قَبْلَ الْقِتَالِ مِنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَنَحْوِہَا،وَالْمُوَادَعَۃِ،فَلَمَّا نَزَلَ الْقِتَالُ شَقَّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ وَجَزِعُوا لَہُ،فَنَزَلَتْ.
ترجمہ :امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی ـ: ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عرب کے بہت سے لوگوں نے دین اسلام کے جہاد سے پہلے والے فرائض نماز ، زکوۃ اورصلح وغیرہ کو پسندکیااوردین اسلام میں داخل ہوگئے ، جب جہاد فرض ہواتویہ حکم ان پربھاری گزرااوروہ گھبرااٹھے تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی(۳:۷۱۲)

معارف ومسائل

(۱) طاغوت ہراس قوت اورطاقت کانام ہے جو دین اسلام کے خلاف سرگرم ہواورطاغوت ہر فردکانام ہے جو لوگوں کو دین حق سے گمراہ کرتاہے خواہ وہ انسان ہویاجن اورطاغوت ہراس فردکانام ہے جو اسلام اوراہل اسلام کے خلاف لڑتاہواورطاغوت ہر اس نظام کانام ہے جس کے گردجمع ہوکرلوگ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف تدبیریاجنگ کرتے ہوں اورطاغوت ہر اس ادارے کانام ہے جہاں دین حق کے خلاف کسی طرح کے محاذ قائم ہوتے ہوں ۔ اپنی قوت اورطاقت کے ذریعے اسلام کاراستہ روکنے اوراسلامی قوانین کی تنفیذ کوروکنے اورمسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مددکرنے والے طاقتورلوگ بھی طاغوت ہی ہیں چاہے وہ کلمہ اسلام کاپڑھتے ہوں۔اورشیطان انسان ہوں یاجنات اورمعبودان باطلہ طاغوت کے اولین معنی ہیں واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔
(۲) ماضی میں لندن یعنی برطانوی حکومت طاغوت بن کرابھری جس نے اسلامی خلافت کو ختم کیااورمسلمانوں کے ممالک اپنے قبضے میں لئے اوراس زمانے میں علماء حقہ نے مسلمانوں کو انگریزی فوج میں بھرتی ہونے سے منع کیاتاکہ وہ طاغوت کے راستے میں نہ لڑیں، خوش نصیب لوگوں نے اس حکم قرآنی پرعمل کیا، مگرکئی لوگ وقت کی بدترین غلطی میں مبتلاء ہوکرطاغوت کے سپاہی بن گئے ، آج امریکہ سمیت دنیامیں کئی طاغوت اسلام اوراہل اسلام کے خلاف برسرپیکارہیں جو لوگ مسلمان ہیں وہ اس آیت کریمہ کو پڑھیں اورخود کوطاغوت کامددگاراورسپاہی نہ بنائیں ، اس لئے کہ اللہ تعالی فرمارہاہے {وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطّٰغُوْت}اوروہ لوگ جوکافرہیں وہ طاغوت کی خاطرلڑتے ہیں ، سب لوگوں کو مرناہے اوراللہ تعالی کے سامنے حاضرہوناہے ، ایمان سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے اورروزی کامالک صرف اورصرف اللہ تعالی ہی ہے ، تھوڑی سی تنخواہ اورحقیر سے مال کی خاطرطاغوت کومضبوط کرنامسلمان کاکام نہیں ہے ۔
(۳) جہاد تاقیامت جاری رہے گااورکبھی بھی منسوخ نہیں ہوگاجیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا، جہاد کی وجہ کفارکی موجودگی ہے توکفارقیامت تک موجود رہیں گے توجہادبھی قیامت تک ہی رہے گا۔ جہاد اس جنگ کانام ہے جو کفارکے ساتھ کی جائے ، باغی مسلمانوں کے خلاف جنگ جہاد نہیں کہلاتی ۔ مسلمان اگراخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کریں گے توکفارپرفتح پائیں گے ۔ کفرواسلام میں کبھی بھی اتفاق نہیں ہوگا، اگرکبھی ہواتوبھی عارضی ہوگااوروہ کفارکی چال ہوگی لھذابجائے ان کی خوشامدکرنے کے مسلمانوںکو قوت پیداکرنی چاہئے جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔ سارے مسلمان کفارکے مقابلے میں ایک ہیں چاہے ان کے آپس میںکتنے ہی اختلاف ہوں۔ (تفسیرنعیمی ( ۵: ۲۳۰)

Leave a Reply