مسلمان قیدیوں کی آزادی کے لئے جہاد کرناواجب ہے
{وَمَا لَکُمْ لَا تُقٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء ِ وَالْوِلْدٰنِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا }(۷۵)
ترجمہ کنزالایمان: اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جویہ دعا کر رہے ہیں کہ اے رب ہمارے ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور تم کوکیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالی کی راہ میں نہ لڑواور کمزور مرد وں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر جویہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب!ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی مددگار بنادے۔
قیدیوں کوچھڑواوٓچاہے سارامال خرچ کرناپڑے
قَوْلُہُ تَعَالَی:(وَما لَکُمْ لَا تُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ)حَضٌّ عَلَی الْجِہَادِوَہُوَ یَتَضَمَّنُ تَخْلِیصَ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنْ أَیْدِی الْکَفَرَۃِ الْمُشْرِکِینَ الَّذِینَ یَسُومُونَہُمْ سُوء َ الْعَذَابِ،وَیَفْتِنُونَہُمْ عَنِ الدِّینِ،فَأَوْجَبَ تَعَالَی الْجِہَادَ لِإِعْلَاء ِکَلِمَتِہِ وَإِظْہَارِ دِینِہِ وَاسْتِنْقَاذِ الْمُؤْمِنِینَ الضُّعَفَاء ِمِنْ عِبَادِہِ،وَإِنْ کَانَ فِی ذَلِکَ تَلَفُ النُّفُوسِ وَتَخْلِیصُ الْأُسَارَی وَاجِبٌ عَلَی جَمَاعَۃِ الْمُسْلِمِینَ إِمَّا بِالْقِتَالِ وَإِمَّا بِالْأَمْوَالِ،وَذَلِکَ أَوْجَبُ لِکَوْنِہَا دُونَ النُّفُوسِ إِذْ ہِیَ أَہْوَنُ مِنْہَاقَالَ مَالِکٌ:وَاجِبٌ عَلَی النَّاسِ أَنْ یَفْدُوا الْأُسَارَی بِجَمِیعِ أَمْوَالِہِمْ وَہَذَا لَا خِلَافَ فِیہِ، لِقَوْلِہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ (فُکُّوا الْعَانِیَ)وَقَدْ مَضَی فِی (الْبَقَرَۃِ )وَکَذَلِکَ قَالُوا:عَلَیْہِمْ أَنْ یُوَاسُوہُمْ فَإِنَّ الْمُوَاسَاۃَ دُونَ الْمُفَادَاۃِفَإِنْ کَانَ الْأَسِیرُ غَنِیًّا۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے جہاد پرابھاراہے ، یہ اپنے ضمن میں اس بات کو لئے ہوئے کہ کمزورمسلمانوں کو مشرکوں کے ہاتھوں سے آزادکرواناہے جوکمزورلوگوں کوایذائیں دیتے ہیں اورانہیں دین میں فتنہ میں مبتلاء کرتے ہیں، پس اللہ تعالی نے اعلائے کلمۃ اللہ ،دین کے غلبہ اورکمزورمسلمانوں کونجات دلانے کے لئے جہاد کو واجب قراردیااگرچہ اس میں جانوں کاضیاع ہوجائے اورقیدیوں کوچھڑانامسلمانوں کی جماعت پرواجب ہے ، خواہ وہ جہاد سے ہویااموال خرچ کرکے ہو۔ اوریہ ضروری ہے کیونکہ یہ نفس سے کم درجہ رکھتے ہیں ۔ حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں پرواجب ہے کہ وہ مسلمان قیدیوں کو آزادکروائیں چاہے ان کے سارے اموال خرچ ہوجائیں ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ قیدی چھڑوائو۔ اسی طرح علماء کرام نے فرمایاکہ ان پرلازم ہے کہ وہ قیدیوں کو چھڑوائیں اوران کے ساتھ غم خواری کریں کیونکہ مواسات فدیہ دینے سے کم ہے اگرچہ قیدی غنی ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۷۹)
جہاد کے ترک پراہل اسلام کو ملامت کی جارہی ہے
اعْلَمْ أَنَّ الْمُرَادَ مِنْہُ إِنْکَارُہُ تَعَالَی لِتَرْکِہِمُ الْقِتَالِ، فَصَارَ ذَلِکَ تَوْکِیدًا لِمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْأَمْرِ بِالْجِہَادِ قَوْلُہُ: وَما لَکُمْ لَا تُقاتِلُونَ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ الْجِہَادَ وَاجِبٌ،وَمَعْنَاہُ أَنَّہُ لَا عُذْرَ لَکُمْ فِی تَرْکِ الْمُقَاتَلَۃِ وَقَدْ بَلَغَ حَالُ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء ِوَالْوِلْدَانِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَی مَا بَلَغَ فِی الضَّعْفِ،فَہَذَا حَثٌّ شَدِیدٌ عَلَی الْقِتَالِ،وَبَیَانُ الْعِلَّۃِ الَّتِی لَہَا صَارَ الْقِتَالُ وَاجِبًا،وَہُوَ مَا فِی الْقِتَالِ مِنْ تَخْلِیصِ ہَؤُلَاء ِ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَیْدِی الْکَفَرَۃِ،لِأَنَّ ہَذَا الْجَمْعَ إِلَی الْجِہَادِ یَجْرِی مَجْرَی فِکَاکِ الْأَسِیرِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالی کاترک قتال کو ناپسندکرنامراد ہے تویہ سابقہ حکم جہا دمیں تاکیدہے اوراللہ تعالی کایہ فرمان شریف بتارہاہے کہ جہاد کرنالازم ہے ، اس کامعنی یہ ہے کہ دشمن سے ترک قتال میںتمھاراکوئی عذرقابل قبول نہیں ہے حالانکہ مسلمان مرد اورعورتیں کمزوری اورظلم میں انتہاء کوپہنچے ہوئے ہیں ، اب یہ قتال پر شدیدرغبت ہے اورقتال کے ترک پر ملامت کی جارہی ہے ، جس کی وجہ سے قتال لازم ہے وہ یہ کہ قتال کے ذریعے کفارکے بدلہ سے کمزوراہل اسلام کو چھٹکاراہوجائے جبکہ جہاد کی طرف اجتماع قیدیوں کو چھڑانے کی طرح ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۰)
کافربچوں پربھی ظلم کرنے سے باز نہیں آتا
إِنَّمَا ذَکَرَ اللَّہ الْوِلْدَانَ مُبَالَغَۃً فِی شَرْحِ ظُلْمِہِمْ حَیْثُ بَلَغَ أَذَاہُمُ الْوِلْدَانَ غَیْرَ الْمُکَلَّفِینَ إِرْغَامًا لِآبَائِہِمْ وَأُمَّہَاتِہِمْ، وَمَبْغَضَۃً لَہُمْ بِمَکَانِہِمْ، وَلِأَنَّ الْمُسْتَضْعَفِینَ کَانُوا یُشْرِکُونَ صِبْیَانَہُمْ فِی دُعَائِہِمِ اسْتِنْزَالًا لِرَحْمَۃِ اللَّہ بِدُعَاء ِ صِغَارِہِمُ الَّذِینَ لَمْ یُذْنِبُوا،کَمَا وَرَدَتِ السُّنَّۃُ بِإِخْرَاجِہِمْ فِی الِاسْتِسْقَاء ِ،ثُمَّ حَکَی تَعَالَی عَنْ ہَؤُلَاء ِ الْمُسْتَضْعَفِینَ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقُولُونَ:رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْ ہذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہا وَاجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیراً ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بچوں کاذکراللہ تعالی نے اس لئے کیاکہ یہ ان کے ظلم کی انتہاء ہے کہ ان کاظلم غیرمکلف بچوں تک پہنچا، ان کے آباء ان کی مائوں کی جگہ بچوں سے دشمنیاں کرتے ہیںاوراس لئے بھی کہ کمزورلوگ بچوں کو اپنی دعائوں میں شامل کرتے ہیںتاکہ وہ چھوٹے بچے جنہوںنے کوئی گناہ نہیں کیاان کی دعائوں کی وجہ سے اللہ تعالی کی رحمت کانزول ہوجیسے احادیث شریفہ میں آیاہے ، وہ بچوں کو نماز استسقاء کے لئے لے کرنکلتے ،اللہ تعالی ان کمزوروں کی وجہ سے ان کی دعائیں بھی قبول فرمالے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۴۰)
مظلومین کی مددکرنا
عَنْ مُجَاہِدٍ:(وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء ِ وَالْوِلْدَانِ)(النساء :۷۵)الصِّبْیَانُ (الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا)(النساء :۷۵)مَکَّۃُ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْ یُقَاتِلُوا عَنْ مُسْتَضْعَفِینَ مُؤْمِنِینَ کَانُوا بِمَکَّۃَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کمزورمرداورخواتین اوربچے جو یہ کہتے ہیں اے ہمارے رب!ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی مددگار بنادے۔
اس سے مراد مکہ مکرمہ میں موجود اہل ایمان ہیں جن پر مشرکین مکہ ظلم کیاکرتے تھے ۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۷:۲۲۶)
اللہ تعالی نے اہل مکہ کی دعاقبول فرمائی
وَالْجُمْہُورُ عَلَی أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی اسْتَجَابَ دُعَاء َہُمْ،فَجَعَلَ لَہُمْ مِنْ لَدُنْہُ خَیْرَ وَلِیٍّ وَنَاصِرٍ وَہُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ علیہ وسلّم،فَتَوَلَّاہُمْ أَحْسَنَ التَّوَلِّی، وَنَصَرَہُمْ أَقْوَی النَّصْرِوَلَمَّا خَرَجَ مِنْ مَکَّۃَ وَلَّی عَلَیْہِمْ عَتَّابَ بْنَ أُسَیْدٍ وَعُمْرُہُ أحد وَعِشْرُونَ سَنَۃً،فَرَأَوْا مِنْہُ الْوِلَایَۃَ وَالنَّصْرَ کَمَا سَأَلُوا.
ترجمہ:امام ابو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ یعنی جمہورائمہ کاقول ہے کہ اللہ تعالی نے ان کمزورمسلمانوں کی دعاکوشرف قبول عطافرمایااوراپنی طرف سے ان کو بہترین مددگارحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی صورت میں عطافرمایاجنہوں نے ان کی خوب مددکی اوران کی حمایت کی اورجب آپ ﷺمکہ مکرمہ سے واپس تشریف لائے توان پر حضرت سیدناعتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کووالی بناگئے اوراس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی ، مکہ کے مظلوموں نے ان کی طرف ویسی یاری اورمدددیکھی جیسی انہوںنے اللہ تعالی سے مانگی تھی ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف أثیر الدین الأندلسی(۳: ۷۱۲)
اللہ تعالی نے مظلوموں کو غلبہ عطافرمایا
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:کَانَ یُنْصِفُ الضَّعِیفَ مِنَ الْقَوِیِّ،حتی کانوا أعزبہا مِنَ الظَّلَمَۃِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعتاب بن اسید رضی اللہ عنہ طاقتورلوگوں کے مقابلے میں کمزوروں کی مددکیاکرتے تھے یہاں تک کہ یہ کمزورلوگ ظالموں سے زیادہ معززاورمضبوط ہوگئے ۔
(تفسیر النسفی :أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (ا:۳۷۵)
عافیہ صدیقی حفظہااللہ تعالی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سائنس دان ہے جسے امریکی حکومت نے (۲۰۰۳ء) میں اغوا کر کے غیر قانونی طور پر قید کیا ہوا ہے۔(۳۰مارچ ۲۰۰۳ء)کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈا کی طرف روانہ ہوئیں مگر راستے سے غائب ہو گئیں بعدمیں خبریں آئیں کہ ان کو امریکنز نے اغوا کر لیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر ۳۰سال تھی اور بڑے بچہ کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ۔ مقامی اخباروں میں عافیہ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں۔
عالمی اداروں نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر۶۵۰شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بے حد بری حالت میں قید تھی۔پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو( ۲۷جولائی، ۲۰۰۸ء) کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین قرار دیا۔افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا، تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت کو گلاسگو غشی میزان پر (یعنی مرنے کے قریب)بتایا۔ تاہم امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی پر بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر انھوں نے اس پر گولیاں چلا دیں۔
(۲۳ستمبر، ۲۰۱۰ء) میں نیویارک امریکی کورٹ نے عافیہ صدیقی کو ۸۶سال قید کی سزا سنائی۔( جون ۲۰۱۳ء) میں امریکی فوجی زندان فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بیہوش رہی۔ بالاخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔
پاکستانی غیرت مندکے کلام سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں
لیکن میراسر شرم سے اس لئے جھکتا ہے کہ میں بھی اس مملکت ِخداداد پاکستان کا شہری ہوں جس کے حکمرانوں میں فلپائن جیسے امریکی امداد پر پلنے والے ملک جتنی بھی غیرت نہیں۔جس ملک کا ایک ڈرائیور اینجلووڈی لاکروز عراق جنگ کے شروع میں اغوا ہوا تھا اور اغوا کاروں نے مطالبہ کیا تھا کہ عراق سے اپنی فوجیں واپس بلائو تو فلپائن جو سو سال سے امریکہ کا دست ِنگر تھا، اُس نے امریکہ کی اس دوستی پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنی فوجیں عراق سے واپس بلا لی تھیں اور اس حکومت کے ترجمان نے کہا تھا: ”یہ ایک ڈرائیور نہیں، فلپائن کے ہر جیتے جاگتے انسان کا استعارہ ہے۔
ہم ان بے حس حکمرانوں کے دور میں بھی زندہ رہے جن سے برطانوی حکومت ایک پاکستانی برطانوی شہری مرز ا طاہر حسین کو پرویز مشرف سے چھین کر لے جاتی ہے جسے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے قتل میں موت کی سزا ہوچکی ہوتی ہے اورکہتی ہے کہ ہم اپنے شہری کو پھانسی نہیں ہونے دیں گے خواہ وہ مسلمان اور پاکستانی کیوں نہ ہو۔
اس قوم کی حالت ِزار کی طرف دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے، جہاں مختاراں مائی کے لئے سڑکیں، شہر اور میڈیا سب احتجاج کرتے ہیں اور عافیہ صدیقی پر ساری انسانی حقوق کی ترجمانی کرتی انجمنوں کو چپ لگ جاتی ہے، سانپ سونگھ جاتا ہے۔ آئیے اس فردِ جرم کے بارے میں ذرا جان لیں جو ہم پر لگ چکی۔ پھر بھی ہم یہ سوال کرتے ہیں، ہم پر عذاب کیوں نازل ہوتے ہیں، ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی، ہم دربدر اور رسوا کیوں ہیں؟ جن قوموں میں ایسے مجرم حکمران دندناتے پھریں، اس طرح کے ظلم پر بے حسی اور خاموشی طاری رہے، ظلم کرنے والوں کے وکیل گلی گلی، محلے محلے موجود ہوں اور چاہنے والوں کے گروہ در گروہ بھی، ان کے نقش قدم پرچلنے والوں کو اپنے ووٹوں سے جس ملک کی اکثریت اپنی محبتوں سے اقتدار پر سرفراز کرے، وہاں سے رحمتیں روٹھ جاتیں ہیں اور غیض و غضب کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔
یادرہے عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرنے والاغدارجنرل مشرف ہے ، اورآج وہ اللہ تعالی کی پکڑمیں ہے ۔ اللہ کرے یہ سارے کے سارے ذلیل ورسواہوں۔