حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی رفاقت پانے والے خوش نصیب
{وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآء ِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا }(۶۹)
ترجمہ کنزالایمان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پراللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔
ترجمہ ضیا ء الایمان :اور جواللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہی ہوگا جن پر اللہ تعالی نے فضل کیا یعنی انبیاء کرام علیہم السلام اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
شان نزول
عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ:جَاء َ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ،وَاللَّہِ إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی،وَإِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَہْلِی،وَأَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ وَلَدِی،وَإِنِّی لَأَکُونُ فِی الْبَیْتِ،فَأَذْکُرُکَ فَمَا أَصْبِرُ حَتَّی آتِیَکَ،فَأَنْظُرُ إِلَیْکَ،وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِی ومَوْتَکَ عَرَفْتُ أَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّۃَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِیِّینَ، وَإِنِّی إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ خَشِیتُ أَنْ لَا أَرَاکَ فَلَمْ یُرِدَّ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی نَزَّلَ جِبْرِیلُ بِہَذِہِ الْآیَۃِ:(وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ) (النساء : ۶۹) الْآیَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ حاضرہوئے اورعرض کی : یارسول اللہﷺ!آپ ﷺمجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیزہیں ،ا ٓپﷺمجھے میری اولاد سے بھی زیادہ عزیزہیں، میں جب گھرمیں ہوتاہوں تو میں آپ ﷺکو یادکرتاہوںتومیں اس وقت صبرنہیں کرسکتاجب تک میں آپﷺکودیکھ نہ لوں، میں جب اپنی موت اورآپ ﷺکے وصال شریف کو یادکرتاہوں تو جان لیتاہوںکہ جب آپﷺجنت میں داخل ہوں گے توآپﷺتوانبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ بلندمرتبہ میں ہوں گے اورمیں جب جنت میں داخل ہوں گاتومجھے ڈرہے کہ میں آپﷺکی زیارت نہیں کرسکوں گاتو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے کوئی جواب نہیں دیاتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (ا:۱۵۲)
دوسراقول
قَالَ الْحَسَنُ:إِنَّ الْمُؤْمِنِینَ قَالُوا لِلنَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ:مَا لَنَا مِنْکَ إِلَّا الدُّنْیَا،فَإِذَا کَانَتِ الْآخِرَۃُ رُفِعْتَ فِی الْأُولَی فَحَزِنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَزِنُوا، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ عالیہ میں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!ہمارآپﷺکے ساتھ تعلق صرف اورصرف دنیامیں ہے ، جب آخرت ہوگی توآپﷺکو اعلی مقام پرٹھہرایاجائے گا، اس پرحضورتاجدارختم نبوت ﷺبھی پریشان ہوگئے اورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ۔تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز:أبو الحسن علی بن أحمد بن محمد بن علی الواحدی الشافعی (ا:۵۴۲)
تیسراقول
قَالَ السُّدِّیُّ:إِنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِقَالُوا:یَا رَسُولَ اللَّہ إِنَّکَ تَسْکُنُ الْجَنَّۃَ فِی أَعْلَاہَا،وَنَحْنُ نَشْتَاقُ إِلَیْکَ، فَکَیْفَ نَصْنَعُ؟ فَنَزَلَتِ الْآیَۃُ۔
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ لوگوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ عالیہ میں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!آپﷺجنت میں اعلی مقام پرجلوہ گرہوںگے اورہمیں آپ ﷺکی ملاقات کااشتیاق ہوگاتوہم کیاکریں گے تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(غرائب القرآن ورغائب الفرقان:نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری (۲:۴۴۲)
ایک شبہ کاازالہ
لَیْسَ الْمُرَادُ بِکَوْنِ مَنْ أَطَاعَ اللَّہ وَأَطَاعَ الرَّسُولَ مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ،کَوْنَ الْکُلِّ فِی دَرَجَۃٍ وَاحِدَۃٍ، لِأَنَّ ہَذَا یَقْتَضِی التَّسْوِیَۃَ فِی الدَّرَجَۃِ بَیْنَ الْفَاضِلِ وَالْمَفْضُولِ،وَإِنَّہُ لَا یَجُوزُبَلِ الْمُرَادُ کَوْنُہُمْ فِی الْجَنَّۃِ بِحَیْثُ یَتَمَکَّنُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ مِنْ رُؤْیَۃِ الْآخَرِ،وَإِنْ بَعُدَ الْمَکَانُ، لِأَنَّ الْحِجَابَ إِذَا زَالَ شَاہَدَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، وَإِذَا أَرَادُوا الزِّیَارَۃَ وَالتَّلَاقِیَ قَدَرُوا عَلَیْہِ، فَہَذَا ہُوَ الْمُرَادُ مِنْ ہَذِہِ الْمَعِیَّۃِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مرادیہ نہیں ہے کہ جس نے اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت کی تووہ انبیاء کرام علیہم السلام اورصدیقین کے ساتھ ایک درجہ میں ہوں گے کیونکہ یہ تقاضاکررہاہے کہ افضل اورمفضول درجہ میں برابرہوجائیں بلکہ امریہ ہے کہ وہ جنت میں اس طرح ہوں گے کہ ان میں سے ہرایک دوسرے کو دیکھ سکے گا، اگرچہ جگہ میں بعدنہ ہوکیونکہ پردہ جب زائل ہوجائے توایک دوسرے کو دیکھاجاسکتاہے ، جب وہ زیارت اورملاقات چاہیں تووہاں کرسکتے ہیں ، اس معیت سے یہی مراد ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۳۲)
شہادت پرامام الرازی رحمہ اللہ تعالی کازبردست کلام
الشَّہَادَۃُ:وَالْکَلَامُ فِی الشُّہَدَاء ِقَدْ مَرَّ فِی مَوَاضِعَ مِنْ ہَذَا الْکِتَابِ،وَلَا بَأْسَ بِأَنْ نُعِیدَ الْبَعْضَ فَنَقُولُ: لَا یَجُوزُ أَنْ تَکُونَ الشَّہَادَۃُ مُفَسَّرَۃً بِکَوْنِ الْإِنْسَانِ مَقْتُولَ الْکَافِرِ، وَالَّذِی یَدُلُّ عَلَیْہِ وُجُوہٌ: الْأَوَّلُ:أَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ دَالَّۃٌ عَلَی أَنَّ مَرْتَبَۃَ الشَّہَادَۃِ مَرْتَبَۃٌ عَظِیمَۃٌ فِی الدِّینِ،وَکَوْنُ الْإِنْسَانِ مَقْتُولَ الْکَافِرِ لَیْسَ فِیہِ زیارۃ شَرَفٍ،لِأَنَّ ہَذَا الْقَتْلَ قَدْ یَحْصُلُ فِی الْفُسَّاقِ وَمَنْ لَا مَنْزِلَۃَ لَہُ عِنْدَ اللَّہ الثَّانِی:أَنَّ الْمُؤْمِنِینَ قَدْ یَقُولُونَ: اللَّہُمَّ ارْزُقْنَا الشَّہَادَۃَ،فَلَوْ کَانَتِ الشَّہَادَۃُ عِبَارَۃً عَنْ قَتْلِ الْکَافِرِ إِیَّاہُ لَکَانُوا قَدْ طَلَبُوا مِنَ اللَّہ ذَلِکَ الْقَتْلَ وَإِنَّہُ غَیْرُ جَائِزٍ، لِأَنَّ طَلَبَ صُدُورِ ذَلِکَ الْقَتْلِ مِنَ الْکَافِرِ کُفْرٌ،فَکَیْفَ یَجُوزُ أَنْ یَطْلُبَ مِنَ اللَّہ مَا ہُوَ کُفْرٌ، الثَّالِثُ:رُوِیَ أَنَّہُ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِیقُ شَہِیدٌ،فَعَلِمْنَا أَنَّ الشَّہَادَۃَ لَیْسَتْ عِبَارَۃً عَنِ الْقَتْلِ، بَلْ نَقُولُ:الشَّہِیدُ فَعِیلٌ بِمَعْنَی الْفَاعِلِ،وَہُوَ الَّذِی یَشْہَدُ بِصِحَّۃِ دِینِ اللَّہ تَعَالَی تَارَۃً بِالْحُجَّۃِ وَالْبَیَانِ، وَأُخْرَی بِالسَّیْفِ وَالسِّنَانِ، فَالشُّہَدَاء ُہُمُ الْقَائِمُونَ بِالْقِسْطِ،وَہُمُ الَّذِینَ ذَکَرَہُمُ اللَّہ فِی قَوْلِہِ: شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلائِکَۃُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قائِماً بِالْقِسْطِ(آلِ عِمْرَانَ:۱۸)وَیُقَالُ لِلْمَقْتُولِ فِی سَبِیلِ اللَّہ شَہِیدٌ مِنْ حَیْثُ إِنَّہُ بَذَلَ نَفْسَہُ فِی نُصْرَۃِ دِینِ اللَّہ، وَشَہَادَتِہِ لَہُ بِأَنَّہُ ہُوَ الْحَقُّ وَمَا سِوَاہُ ہُوَ الْبَاطِلُ، وَإِذَا کَانَ مِنْ شُہَدَاء ِ اللَّہ بِہَذَا المعنی کان من شہداء اللَّہ فی نصرۃ دین اللَّہ، الْآخِرَۃِ،کَمَا قَالَ: وَکَذلِکَ جَعَلْناکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُہَداء َ عَلَی النَّاسِ (الْبَقَرَۃِ:۱۴۳) .
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگرچہ شہداء کے بارے اس کتاب میں پہلے کلام ہوچکاہے ، اس میں کچھ کو دوبارہ نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے توشہادت کی یہ تفسیرکرناجائز نہیں ہے کہ انسان کو کافرقتل کریں ، اس پریہ دلائل ہیں :پہلی دلیل: یہ آیت کریمہ بتارہی ہے کہ شہادت کامرتبہ دین میں عظیم مرتبہ ہے ، انسان کے کافرکے ہاتھوں قتل ہونے میں کوئی بلنددرجہ نہیں ہے کیونکہ ایساقتل توفساق کابھی اورایسے لوگوں کا بھی ہوسکتاہے جن کااللہ تعالی کے ہاں کوئی درجہ نہیں ہے ۔دوسری دلیل: اہل ایمان اللہ تعالی سے شہادت کی دعاکرتے ہیں ، اگرشہادت کافرکے قتل سے ہی ہوتوانہوںنے اللہ تعالی سے اس قتل کامطالبہ کیاجوجائز نہیں ہے کیونکہ یہ دعاکرناکہ مجھے کافرقتل کریں یہ کفرہے توکیسے جائز ہے کہ اللہ تعالی سے ایسی چیز مانگی جائے ۔؟تیسری دلیل:حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان شریف ہے کہ{الْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِیقُ شَہِید}پیٹ کی بیماری والاشہیداورغرق ہونے والابھی شہیدہے ۔ توہمیں علم ہوگیاکہ قتل شہادت کانام نہیں ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ شہیدفعیل بمعنی فاعل ہے ، یہ وہ ہوگاجواللہ تعالی کے دین کی صحت پرگواہ ہو، کبھی دلائل کے بیان سے توکبھی سیف وسنان سے ، شہداء وہی ہیں جو عدل پرقائم رہتے ہیں ، یہ وہی ہیں جن کاذکراللہ تعالی نے اس ارشادگرامی میں کیا{شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلائِکَۃُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قائِماً بِالْقِسْطِ}اللہ تعالی نے گواہی دی کہ اس کے سواکوئی معبودنہیں ہے اورفرشتوں نے اورعلماء نے انصاف سے قائم ہوکر۔ مقتول فی سبیل اللہ کو شہیداس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی ذات کو اللہ تعالی کے دین مبین کی مددکرنے کے لئے خرچ کردیایہ گواہی دی کہ اللہ تعالی کادین ہی حق ہے اوراس کے سواسب کچھ باطل ہے ، جب یہ لوگ اس معنی میں اللہ تعالی کے شہداء ہیں توآخرت میں بھی شہداء ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے {وَکَذلِکَ جَعَلْناکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُہَداء َ عَلَی النَّاسِ}اوربات یونہی ہے کہ ہم نے تمھیں سب امتوں سے افضل کیاکہ تم لوگوں پرگواہ ہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۳۲)
شہیدکون؟
وَأَمَّا الشَّہِیدُ:فَہُوَ الْمَقْتُولُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ،الْمَخْصُوصُ بِفَضْلِ الْمَیْتَۃِ وَفَرَّقَ الشَّرْعُ حُکْمَہُمْ فِی تَرْکِ الْغُسْلِ وَالصَّلَاۃِ، لِأَنَّہُمْ أَکْرَمُ مِنْ أَنْ یُشَفَّعَ فِیہِمْ.
ترجمہ :امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی: ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ شہیدسے مراد وہ ہے جو اللہ تعالی کے راستے میں قتل ہوجائے ، اس کی موت کو خصوصی فضیلت حاصل ہے اورشریعت مبارکہ نے ان کو امتیازی احکامات سے نوازاہے کہ انہیں غسل نہیں دیاجاتااوران پرنماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی کیونکہ وہ اس بات سے بہت بلندہیں کہ کوئی ان کی بخشش کے لئے نماز پڑھ کران کی سفارش کرے۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۳:۷)
ائمہ حنفیہ رحمہم اللہ تعالی کے نزدیک شہداء کرام کی نماز اداکی جاتی ہے جیساکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے شہداء احد کی نمازجنازہ ادافرمائی اورامام ابوحیان رحمہ اللہ تعالی نے یہ بات فقہ شافعی کی اتباع میں نقل فرمائی ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی رفاقت پانے کی تڑپ
مجھے جنت میں بھی آپ ﷺکی غلامی چاہئے
حَدَّثَنِی أَبُو سَلَمَۃَ، حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ کَعْبٍ الْأَسْلَمِیُّ،قَالَ:کُنْتُ أَبِیتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَتَیْتُہُ بِوَضُوئِہِ وَحَاجَتِہِ فَقَالَ لِی:سَلْ فَقُلْتُ:أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃ قَالَ:أَوْ غَیْرَ ذَلِکَ قُلْتُ:ہُوَ ذَاکَ قَالَ:فَأَعِنِّی عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رات کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا، آپﷺکے وضو کیلئے پانی لایا کرتا اور دیگر خدمت بھی بجا لایا کرتا تھا ۔ایک روز آپﷺنے مجھ سے فرمایا : مانگو!میں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا :میں آپ ﷺسے جنت میں آپﷺ کی غلامی مانگتا ہوں۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ارشاد فرمایا :اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نے عرض کی:میرا مقصود تو وہی ہے۔ آپﷺنے فرمایا تو پھر زیادہ سجدے کر کے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۳۵۳)
یااللہ !ان کے سارے گھرانے کوجنت میں میرارفیق بنادے
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی صَعْصَعَۃَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ:سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ زَیْدِ بْنِ عَاصِمٍ یَقُولُ:شَہِدْتُ أُحُدًا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْہُ دَنَوْتُ مِنْہُ أَنَا وَأُمِّی نَذُبُّ عَنْہُ فَقَالَ:ابْنُ أُمِّ عُمَارَۃَ؟ قُلْتُ:نَعَمْ قَالَ:ارْمِ فَرَمَیْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ رَجُلا مِنَ الْمُشْرِکِینَ بِحَجَرٍ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ فَأَصَبْتُ عَیْنَ الْفَرَسِ فَاضْطَرَبَ الْفَرَسُ حَتَّی وَقَعَ ہُوَ وَصَاحِبُہُ وَجَعَلْتُ أَعْلُوہُ بِالْحِجَارَۃِ حَتَّی نَضَدْتُ عَلَیْہِ مِنْہَا وَقْرًا.وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ یَتَبَسَّمُ(وَنَظَرَ جُرْحَ أُمِّی عَلَی عَاتِقِہَا فَقَالَ:أُمُّکَ أُمُّکَ اعْصِبْ جَرْحَہَا بَارَکَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ مِنْ أہل بیت مَقَامُ أُمُّکِ خَیْرٌ مِنْ مَقَامِ فُلانٍ وَفُلانٍ رَحِمَکُمُ اللَّہُ أَہْلِ الْبَیْتِ وَمَقَامُ رَبِیبِکَ یَعْنِی زَوْجَ أُمِّہِ خَیْرٌ مِنْ مَقَامِ فُلانٍ وَفُلانٍ رَحِمَکُمُ اللَّہُ أَہْلِ الْبَیْتِ قَالَتْ:ادْعُ اللَّہَ أَنْ نُرَافِقَکَ فِی الْجَنَّۃِ فَقَالَ:اللَّہُمُ اجْعَلْہُمْ رُفَقَائِی فِی الْجَنَّۃِ)فَقَالَتْ:مَا أُبَالِی مَا أَصَابَنِی مِنَ الدُّنْیَا.
ترجمہ :حضرت سیدناالحارث بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں نے حضرت سیدناعبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ میں غزوہ احدشریف میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ حاضرہواتھا، جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس سے لوگ ہٹ گئے تومیں اورمیری والدہ ماجدہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکادفاع کرنے لگے ، یہاں تک ایک کافرومشرک حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرحملہ کرنے کی غرض سے آگے بڑھاجوکہ گھوڑے پرسوارتھا ، میں اس پر پتھربرسانے لگا، اتنے میں ایک پتھراس کی آنکھ میں لگا، جس سے اس کاگھوڑابھاگااوراس نے اس مشرک کو نیچے گرادیاتومیں نے اوپرسے پتھروں کی بارش کردی ، ادھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺمجھے دیکھ کرمسکرارہے تھے ۔اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی نظرمیری والدہ کے زخموں پر گئی توآپ ﷺنے فرمایا:تیری امی !تیری امی نے بھی بہت زخم اٹھائے ہیں ، اللہ تعالی تمھارے سارے گھروالوں پراپنی برکات کانزول فرمائے ، بے شک تیری امی کامقام فلاں فلاں عورت سے بھی زیادہ ہے ، اوربے شک تیرے اباکامقام فلاں فلاں شخص سے بھی زیادہ ہے ، اللہ تعالی تم سب گھروالوں پررحم فرمائے ، اتنے میں میری اماں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دریائے رحمت کو جوش میں دیکھاتو فوراًعرض کرنے لگیں : یارسول اللہ ﷺ!دعافرمائیں جنت میں ہم سب آپ ﷺکی غلامی میں رہیں توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فوراًدعاکے لئے ہاتھ مبارک اٹھادیئے ، اے اللہ !ان سب کو جنت میں میراساتھی بنادے توحضرت ام عمارہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہازندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اس دعاکے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع البغدادی المعروف بابن سعد (۸:۳۰۵)
اب ان آنکھوں سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکودیکھوں گا
وَذَکَرَ مَکِّیٌّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ ہَذَا وَأَنَّہُ لَمَّا مَاتَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اللَّہُمَّ أَعْمِنِی حَتَّی لَا أَرَی شَیْئًا بَعْدَہُ، فَعَمِیَ (مَکَانَہُ وحکاہ القشری فَقَالَ:اللَّہُمَّ أَعْمِنِی فَلَا أَرَی شَیْئًا بَعْدَ حَبِیبِی حَتَّی أَلْقَی حَبِیبِی، فَعَمِیَ مَکَانَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مکی رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکاوصال شریف ہواتو انہوںنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : یااللہ !مجھے نابیناکردے تاکہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے بعد کسی کو نہ دیکھوں!تووہ اسی جگہ نابیناہوگئے۔ امام ابوالقاسم القشیری رحمہ اللہ تعالی کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ دعاکی کہ یااللہ !مجھے نابیناکردے تاکہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے بعد کسی کونہ دیکھوںحتی کہ میں اپنے حبیب کریم ﷺکے ساتھ جنت میں ملاقات کروں ، بس وہیں پرہی وہ نابیناہوگئے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۷۱)
جہادکی مشروعیت ہی دین متین کے دفاع کے لئے ہوئی ہے
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِانْفِرُوْا جَمِیْعًا }(۱۷۱)
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو ہوشیاری سے کام لوپھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے اہل ایمان!ہوشیاررہو!پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔
جہاد سے دین کی مضبوطی ہے
وَاعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی عَادَ بَعْدَ التَّرْغِیبِ فِی طَاعَۃِ اللَّہ وَطَاعَۃِ رَسُولِہِ إِلَی ذِکْرِ الْجِہَادِ الَّذِی تَقَدَّمَ، لِأَنَّہُ أَشَقُّ الطَّاعَاتِ،وَلِأَنَّہُ أَعْظَمُ الْأُمُورِ الَّتِی بِہَا یحصل تقویۃ الدین۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ جان لوکہ اللہ تعالی نے اپنی اطاعت اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت کے بعد جہاد کاذکرشریف کیاکیونکہ یہ مشقت والی طاعت ہے اوراس لئے کہ یہ بہت بڑی چیز ہے جس کے ذریعے دین متین کوتقویت ملتی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۳۷)
اسلحہ پکڑے رکھو!
وَقَالَ الْوَاحِدِیُّ رَحِمَہُ اللَّہ فِیہِ قَوْلَانِ:أحدہما:المراد بالحذر ہاہنا السِّلَاحُ، وَالْمَعْنَی خُذُوا سِلَاحَکُمْ، وَالسِّلَاحُ یُسَمَّی حِذْرًا، أَیْ خُذُوا سِلَاحَکُمْ وَتَحَذَّرُوا، وَالثَّانِی:أَنَّ یَکُونَ خُذُوا حِذْرَکُمْ بِمَعْنَی احْذَرُوا عَدُوَّکُمْ۔
ترجمہ :امام واحدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس میں دوقول ہیں :
پہلاقول: یہ ہے کہ حذرسے مراد اسلحہ ہے تواس کامطلب یہ ہواکہ اپنااسلحہ ساتھ لے لو۔
دوسراقول: یہ ہے کہ دشمن سے خود کو بچائواوردشمن سے بچائوبھی اسلحہ ہی کے ذریعے حاصل ہوتاہے ، تب بھی مطلب یہی ہواکہ اپنااسلحہ لے لو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۳۷)
دین کے دفاع کے لئے جہاد کرو!
(یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَکُمْ)ہَذَا خِطَابٌ لِلْمُؤْمِنِینَ الْمُخْلِصِینَ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَمْرٌ لَہُمْ بِجِہَادِ الْکُفَّارِ وَالْخُرُوجِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَحِمَایَۃِ الشَّرْعِ وَوَجْہُ النَّظْمِ وَالِاتِّصَالِ بِمَا قَبْلُ أَنَّہُ لَمَّا ذَکَرَ طَاعَۃَ اللَّہِ وَطَاعَۃَ رَسُولِہِ، أَمَرَ أَہْلَ الطَّاعَۃِ بِالْقِیَامِ بِإِحْیَاء ِ دِینِہِ وَإِعْلَاء ِدعوتہ،وأمر ہم أَلَّا یَقْتَحِمُوا عَلَی عَدُوِّہِمْ عَلَی جَہَالَۃٍ حَتَّی یَتَحَسَّسُوا إِلَی مَا عِنْدَہُمْ، وَیَعْلَمُوا کَیْفَ یَرُدُّونَ عَلَیْہِمْ، فَذَلِکَ أَثْبَتُ لَہُمْ فَقَالَ:(خُذُوا حِذْرَکُمْ)فَعَلَّمَہُمْ مُبَاشَرَۃَ الْحُرُوبِ وَلَا یُنَافِی ہَذَا التَّوَکُّلَ بَلْ ہُوَ (مَقَامُ )عَیْنِ التَّوَکُّلِ ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَکُم}میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی امت میں سے مخلص مومنین کو خطاب ہے اورانہیں کفارکے ساتھ جہاد کرنے اوراللہ تعالی کے راستے میں نکلنے اورشریعت شریف کی حمایت کرنے کاخطاب ہے ، ماقبل آیت کریمہ سے اس کی نظم اوراتصال کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اطاعت کاذکرکیاتواہل اطاعت کو دین کے احیاء ، اپنی دعوت کے اعلاء کاحکم دیااورانہیں حکم دیاکہ وہ بلاسوچے سمجھے دشمن کی صفوں میں نہ گھس جائیں حتی کہ جوہتھیارسامان جنگ ان کے پاس ہے اس کاخوب پتہ لگالیں ، اوریہ بھی جان لیں کہ وہ کفارپرکیسے حملہ کریں ، یہ ان کے لئے زیادہ مضبوطی کاباعث ہے۔اورفرمایاکہ {خُذُوا حِذْرَکُم}توجنگ کرنے کااسلوب سکھایااوریہ توکل کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ عین توکل کامقام ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۵:۲۷۳)
کسی کے لئے جہاد سے پیچھے رہناجائزنہیں ہے
وَأَخْرَجَ عَنْ قَتَادَۃَ فِی قَوْلِہِ:أَوِ انْفِرُوا جَمِیعاً أَیْ:إِذَا نَفَرَ نَبِیُّ اللَّہِ صَلَّی اللہ علیہ وَسَلَّمَ فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَتَخَلَّفَ عَنْہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کے تحت فرمایاکہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺجہا دکے لئے تشریف لے جائیں تو کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ گھربیٹھارہے ۔
(التَّفْسِیرُ البَسِیْط:أبو الحسن علی بن أحمد بن محمد بن علی الواحدی، النیسابوری، الشافعی (۱۱:۹۱)
معارف ومسائل
(۱) قرآن کریم کادستوریہ ہے کہ مشکل اورگراں احکامات پکارکردیتاہے تاکہ اس پکارکی لذت سے وہ کام آسان ہوجائے ، جہاد بھی گراں اورمشکل حکم تھا، اس لئے پہلے پکارااوربعد میں حکم سنایا۔ اللہ تعالی نے دوسری قوموں کو ان کے نسبی نام یاوطنی نسبت سے پکاراجیسے یابنی اسرائیل ، مگرہم کو ایمانی نسبت سے پکارا، یہ پکارہمارے لئے فخرہے ۔ اسلام میں نسب پرفخرنہیں ہے بلکہ ایمان واعمال صالحہ باعث فخرہیں۔
(۲)اگرمسلمان اپنی بقاچاہتے ہیں توہمیشہ دشمنوں سے محتاط رہیں ، ان کے مقابلے میں تیاری کریں ، اسلامی حکومتیں ان کے مقابلے کے لئے فوجی تیارکریں اورعلماء کرام دلائل کی تیاری کریں ، غرضیکہ بقدرطاقت ہرشخص تیاری کرے ۔
(۳) مسلمانوں اوراسلام کو ہمیشہ منافقوں سے واسطہ رہا، ان کاوجود بمقابلہ کھلے دشمنوں کے زیادہ خطرناک ہے (جیسے آجکل لبرل وسیکولر ہیں ) مسلمانوں کو چاہئے کہ کبھی ان سے بھی غافل نہ رہیں ، آج بھی پاکستان چھپے دشمنوں سے گھراہواہے ، قوم کو چاہئے کہ دشمن ودوست کی پہچان رکھیں ۔۔
(۴) جہاد توکبھی کبھی میسرہوتاہے مگرتیاری جہاد ہروقت رکھنی چاہئے ، جہاد کی تیاری پہلے اورجہاد بعد میں ہوناچاہیئے ، دیکھوجیسے اس آیت کریمہ میں تیاری کاحکم پہلے دیاگیااورنفرکاذکربعد میں جہاد کی تیاری کاثواب بھی جہاد ہی کی طرح ہے ۔
(۵) جہاد کے لئے الگ الگ چھوٹی جماعتیں بناکرجانایااکٹھے بڑے لشکرمیں جاناجیسا موقع ہوویساعمل کرنابہترہے ، جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلو م ہوا۔(ملخصاً از تفسیرنعیمی ( ۵:۲۱۶،۲۱۷)
(۶)اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے احکام سے محروم نہیں رکھا بلکہ ہر جگہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتے دار، پڑوسی، اپنے بیگانے سب کے متعلق واضح ہدایات عطا فرمائیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بھلائی کیلئے ہمیں ہوشیار رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرح دشمنوں کے مقابلے میں بھی ہوشیاری اور سمجھداری سے کام لو، دُشمن کی گھات سے بچو اور اُسے اپنے اوپر موقع نہ دو اور اپنی حفاظت کا سامان لے رکھو پھر موقع محل کی مناسبت سے دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔ یعنی جہاں جو مناسب ہو امیر کی اطاعت میں رہتے ہوئے اور تجربات و عقل کی روشنی میں مفید تدبیریں اختیار کرو۔ یہ آیت ِ مبارکہ جنگی تیاریوں ، جنگی چالوں ، دشمنوں کی حربی طاقت کے اندازے لگانے، معلومات رکھنے، ان کے مقابلے میں بھرپور تیاری اور بہترین جنگی حکمت ِ عملی کے جملہ اصولوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسباب کا اختیار کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ بغیر اسباب لڑنا مرنے کے مُتَرادِف ہے، تَوَکُّل ترک ِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرکے امیدیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے وابستہ کرنے کا نام ہے۔تفسیرصراط الجنان( ۲:۲۴۷)
(۷) آج پھربہت اشدضرورت ہے کہ دین متین کے دفاع کے لئے جہاد کیاجائے کیونکہ دین متین پرحملے ہمہ وقت بڑھتے جارہے ہیں ، کہیں کفارومشرکین کے حملے ، لبرل وسیکولرکے حملے، حکمرانوں کے دین پرحملے ۔ غرضیکہ ہرطرف سے دین متین پرحملے ہورہے ہیں مگراس کے دفاع کرنے کے لئے کوئی آگے بڑھنے کانام نہیں لیتا۔سوائے حضورامیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کے ، آپ ہی ہیں جو ہرہرمیدان میں لبرل وسیکولرطبقہ کی دین دشمنی کاردکررہے ہیں ۔ اللہ تعالی آپ کواورآپ کے متوسلین کو ہرمیدان میں کامیابی عطافرمائے۔