تفسیر سورہ نساء آیت ۶۰ تا ۶۵۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاحکم شریف نہ ماننے والے کافرہیں

{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطّٰغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلًابـَعِیْدًا }۰(۶){وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا }(۶۱){فَکَیْفَ اِذَآ اَصٰبَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ثُمَّ جَآء ُوْکَ یَحْلِفُوْنَ بِاللہِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسٰنًا وَّتَوْفِیْقًا }(۶۲){اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً بَلِیْغًا }(۶۳){وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآء ُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا }(۶۴){فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا }(۶۵)
ترجمہ کنزالایمان:کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعوی ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور اُن کا تو حکم یہ تھا کہ اُسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور بہکاوے ۔اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اُتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں ،کیسی ہوگی جب ان پر کوئی افتاد پڑے بدلہ اس کا جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا پھر اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اللہ کی قسم کھاتے کہ ہمارا مقصود تو بھلائی اور میل ہی تھا۔ان کے دلوں کی تو بات اللہ جانتا ہے تو تم اُن سے چشم پوشی کر و اور انہیں سمجھا دو اور انکے معاملہ میں اُن سے رسا بات کہو ۔او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔تو اے محبوب! تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اُس پر ایمان لے آئے ہیں جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا ، وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے شیطان کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں تو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے بالکل نہ مانیں اورشیطان یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں بھٹکاتا رہے۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب ( قرآن کریم )اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ تو کیسی (حالت)ہوگی جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آجاتی ہے پھر اے حبیب کریم ﷺ!قسمیں کھاتے ہوئے تمہاری بارگاہ میںحاضر ہوتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی اور صلح کرانا تھا۔ ان کے دلوں کی بات تواللہ تعالی جانتا ہے پس تم ان سے چشم پوشی کرتے رہو اور انہیں سمجھاتے رہو اور ان کے بارے میں ان سے پُراثرکلام کرتے رہو۔ اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ تعالی کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب کریم ﷺ!تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ تعالی سے معافی مانگتے اور رسول کریمﷺ بھی ان کی مغفرت کی دعا کرتے تو ضرور اللہ تعالی کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔تو اے حبیب کریم ﷺ!تمہارے رب تعالی کی قسم!یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں۔
شانِ نزول
نَازَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُنَافِقِینَ رَجُلًا مِنَ الْیَہُودِ فَقَالَ الْیَہُودِیُّ:بَیْنِی وَبَیْنَکَ أَبُو الْقَاسِمِ،وَقَالَ الْمُنَافِقُ:بَیْنِی وَبَیْنَکَ کَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ،وَالسَّبَبُ فِی ذَلِکَ أَنَّ الرَّسُولَ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْضِی بِالْحَقِّ وَلَا یَلْتَفِتُ إِلَی الرِّشْوَۃِ،وَکَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ کَانَ شَدِیدَ الرَّغْبَۃِ فِی الرِّشْوَۃِ،وَالْیَہُودِیَّ کَانَ مُحِقًّا، وَالْمُنَافِقَ کَانَ مُبْطِلًا، فَلِہَذَا الْمَعْنَی کَانَ الْیَہُودِیُّ یُرِیدُ التَّحَاکُمَ إِلَی الرَّسُولِ،وَالْمُنَافِقُ کَانَ یُرِیدُ کَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ،ثُمَّ أَصَرَّ الْیَہُودِیُّ عَلَی قَوْلِہِ،فَذَہَبَا إِلَیْہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَحَکَمَ الرَّسُولُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ لِلْیَہُودِیِّ عَلَی الْمُنَافِقِ،فَقَالَ الْمُنَافِقُ لَا أَرْضَی انْطَلِقْ بِنَا إِلَی أَبِی بَکْرٍ،فَحَکَمَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُ لِلْیَہُودِیِّ فَلَمْ یَرْضَ الْمُنَافِقُ،وَقَالَ الْمُنَافِقُ:بَیْنِی وَبَیْنَکَ عُمَرُ،فَصَارَا إِلَی عُمَرَ فَأَخْبَرَہُ الْیَہُودِیُّ أَنَّ الرَّسُولَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَأَبَا بَکْرٍ حَکَمَا عَلَی الْمُنَافِقِ فَلَمْ یَرْضَ بِحُکْمِہِمَا،فَقَالَ لِلْمُنَافِقِ: أَہَکَذَا فَقَالَ نَعَمْ، قَالَ:اصْبِرَا إِنَّ لِی حَاجَۃً أَدْخُلُ فَأَقْضِیہَا وَأَخْرُجُ إِلَیْکُمَافَدَخَلَ فَأَخَذَ سَیْفَہُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَیْہِمَا فَضَرَبَ بِہِ الْمُنَافِقَ حَتَّی بَرَدَ وَہَرَبَ الْیَہُودِیُّ، فَجَاء َ أَہْلُ الْمُنَافِقِ فَشَکَوْا عُمَرَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ عُمَرَ عَنْ قِصَّتِہِ،فَقَالَ عُمَرُ:إِنَّہُ رَدَّ حُکْمَکَ یَا رَسُولَ اللَّہ،فَجَاء َ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الْحَالِ وَقَالَ:إِنَّہُ الْفَارُوقُ فَرَّقَ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: أَنْتَ الْفَارُوقُ وَعَلَی ہَذَا الْقَوْلِ الطَّاغُوتُ ہُوَ کَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ.
ترجمہ :اکثرمفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایک منافق کی یہودی کے ساتھ لڑائی ہوگئی ، یہودی نے کہاکہ میرے اورتیرے درمیان حضورتاجدارختم نبوت ﷺفیصلہ فرمائیں گے ۔ منافق نے کہاکہ میرے اورتیرے درمیان کعب بن اشرف فیصلہ کرے گا۔ اس کاسبب یہ تھاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺحق پر فیصلہ دیتے اوررشوت کی طرف متوجہ تک نہ ہوتے ، کعب بن اشرف یہودی رشوت خوری میں بہت زیادہ شوق رکھتاتھا، یہودی سچاجبکہ منافق جھوٹاتھا، اس وجہ سے یہودی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طرف اورمنافق کعب بن اشرف کی طرف مقدمہ لیکرجاناچاہتاتھا، یہودی نے اپنی بات پراصرارکیاتوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس مقدمہ لے گئے توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے یہودی کے حق میں اورمنافق کے خلاف فیصلہ دیاتومنافق کہنے لگاکہ میں اس فیصلے پرراضی نہیں ہوں ، اسے حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لے چلتے ہیں ، حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیالیکن منافق خوش نہ ہواتوکہنے لگاکہ میرے اورتیرے درمیان حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ فیصلہ کریں گے تودونوں حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، یہودی نے حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ اطلاع دی کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورحضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ نے منافق کے خلاف فیصلہ دیاہے تویہ دونوں کے فیصلہ پرراضی نہیں ہوا۔ توحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے منافق سے سوال کیاکہ کیامعاملہ اسی طرح ہے ؟ تواس نے کہاکہ ہاں ایساہی ہے ۔ فرمایاکہ تم یہیں بیٹھو!میں ضروری کام کے لئے اندرجارہاہوں ، پھرواپس آکرتمھارافیصلہ کروں گا۔ اندرگئے اورتلوارلی اورواپس آکراس منافق کو ماردی اوراس کو قتل کردیا، یہودی بھاگ گیااورمنافق کے گھروالوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کی شکایت کی ، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں مکمل واقعہ عرض کیاکہ اس نے آپ ﷺ کے فیصلے کو ردکیا، اسی وقت جبریل امین علیہ السلام آگئے اورکہاکہ یہ حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں ۔ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے فرمایا: انت الفاروق توحق وباطل میں فر ق کرنے والاہے۔ اس قول اورتفسیرکے مطابق طاغوت سے کعب بن اشرف یہودی مراد ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۱۹)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافیصلہ نہ ماننے والاکافرہے

مَقْصُودُ الْکَلَامِ أَنَّ بَعْضَ النَّاسِ أَرَادَ أَنْ یَتَحَاکَمَ إِلَی بَعْضِ أَہْلِ الطُّغْیَانِ وَلَمْ یُرِدِ التَّحَاکُمَ إِلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْقَاضِی:وَیَجِبُ أَنْ یَکُونَ التَّحَاکُمُ إِلَی ہَذَا الطَّاغُوتِ کَالْکُفْرِ، وَعَدَمُ الرِّضَا بِحُکْمِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کُفْرٌوَہَذَا نَصٌّ فِی تَکْفِیرِ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِحُکْمِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کلام سے مقصود یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے مقدمات اہل سرکشی کے پاس لے جاناچاہتے تھے ، وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طرف نہ آتے ، امام قاضی بیضاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں اس طاغوت کی طرف مقدمات کو لے جانالازماًکفرکی طرف جاناہے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے پرراضی نہ ہوناکفرہے ۔
یہ آیت کریمہ اس بات پرنص ہے کہ جوشخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے پرراضی نہ ہووہ قطعی کافرہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۱۹)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے نہ ماننے والوں پر رب تعالی کاعذاب

قَالَ أَبُو مُسْلِمٍ الْأَصْفَہَانِیُّ:إِنَّہُ تَعَالَی لَمَّا أَخْبَرَ عَنِ الْمُنَافِقِینَ أَنَّہُمْ رَغِبُوا فِی حُکْمِ الطَّاغُوتِ وَکَرِہُوا حُکْمَ الرَّسُولِ،بَشَّرَ الرَّسُولَ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ سَتُصِیبُہُمْ مَصَائِبُ تُلْجِئُہُمْ إِلَیْہِ،وَإِلَی أَنْ یُظْہِرُوا لَہُ الْإِیمَانَ بِہِ وَإِلَی أَنْ یَحْلِفُوا بِأَنَّ مُرَادَہُمُ الْإِحْسَانُ وَالتَّوْفِیقُ.
ترجمہ :امام ابومسلم الاصفہانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی نے منافقین کے بارے میں جب خبردی کہ طاغوت کے حکم میں رغبت رکھتے ہیں اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے کوناپسندکرتے ہیں تواللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکو یہ بشارت دی کہ ان پرایسے مصائب آئیں گے کہ جوان کو آپﷺ کی طرف آنے پرمجبورکریں گے اوریہ آپ ﷺپرایمان لانے کافیصلہ ظاہرکریں گے اورقسمیں اٹھائیں گے کہ ان کامدعااحسان اورتوفیق ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۱۹)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافیصلہ ماننے سے انکارآپ ﷺکی توہین ہے

أَنَّ ذَلِکَ التَّحَاکُمَ إِلَی الطَّاغُوتِ کَانَ مُخَالَفَۃً لِحُکْمِ اللَّہ،وَکَانَ أَیْضًا إِسَاء َۃً إِلَی الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَإِدْخَالًا لِلْغَمِّ فِی قَلْبِہِ،وَمَنْ کَانَ ذَنْبُہُ کَذَلِکَ وَجَبَ عَلَیْہِ الِاعْتِذَارُ عَنْ ذَلِکَ الذَّنْبِ لِغَیْرِہِ، فَلِہَذَا الْمَعْنَی وَجَبَ عَلَیْہِمْ أَنْ یَطْلُبُوا مِنَ الرَّسُولِ أَنْ یَسْتَغْفِرَ لَہُمْ الثَّانِی:أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا لَمْ یَرْضَوْا بِحُکْمِ الرَّسُولِ ظہر منہم ذلک التمر،فَإِذَا تَابُوا وَجَبَ عَلَیْہِمْ أَنْ یَفْعَلُوا مَا یُزِیلُ عَنْہُمْ ذَلِکَ التَّمَرُّدَ، وَمَا ذَاکَ إِلَّا بِأَنْ یَذْہَبُوا إِلَی الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَطْلُبُوا مِنْہُ الِاسْتِغْفَارَالثَّالِثُ:لَعَلَّہُمْ إِذَا أَتَوْا بِالتَّوْبَۃِ أَتَوْا بِہَا عَلَی وَجْہِ الْخَلَلِ، فَإِذَا انْضَمَّ إِلَیْہَا اسْتِغْفَارُ الرَّسُولِ صَارَتْ مُسْتَحِقَّۃً لِلْقَبُولِ واللَّہ أَعْلَمُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ طاغوت کی طرف اپنامقدمہ لے جانااللہ تعالی کے حکم شریف کی مخالفت ہے اوریہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی گستاخی اورآپ ﷺکے دل مبارک کو غم میں مبتلاء کرناہے ، جس کاگناہ اس طرح کاہواس پردوسرے سے اس گناہ پر معذرت ضروری ہے ، اس حقیقت کی وجہ سے ان پرلازم کیاکہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں عرض کریں کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں بخشش طلب کریں ۔
جب وہ لو گ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے پرراضی نہ ہوئے توان سے سرکشی کاظہورہواجب انہوںنے توبہ کی توان پرایساعمل کرنالازم ہے جوان سے اس سرکشی کو ختم کرے وہ یہ عمل ہے کہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں جائیں اورآپ ﷺسے استغفارکاعرض کریں ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۱۹)

حضورتاجدارختم نبو ت ﷺ کے فیصلہ پردل وجان سے راضی ہونافرض ہے

قَوْلُہُ: ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ قَالَ الزَّجَّاجُ: لَا تَضِیقُ صُدُورُہُمْ مِنْ أَقْضِیَتِکَ وَاعْلَمْ أَنَّ الرَّاضِیَ بِحُکْمِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ قَدْ یَکُونُ رَاضِیًابِہِ فِی الظَّاہِرِ دُونَ الْقَلْبِ فَبَیَّنَ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ أَنَّہُ لَا بُدَّ مِنْ حُصُولِ الرِّضَا بِہِ فِی الْقَلْبِ،وَاعْلَمْ أَنَّ مَیْلَ الْقَلْبِ وَنُفْرَتَہُ شَیْء ٌ خَارِجٌ عَنْ وُسْعِ الْبَشَرِ، فَلَیْسَ الْمُرَادُ مِنَ الْآیَۃِ ذَلِکَ،بَلِ الْمُرَادُ مِنْہُ أَنْ یَحْصُلَ الْجَزْمُ وَالْیَقِینُ فِی الْقَلْبِ بِأَنَّ الَّذِی یَحْکُمُ بِہِ الرَّسُولُ ہُوَ الْحَقُّ وَالصِّدْقُ الشَّرْطُ الثَّالِثُ:قَوْلُہُ تَعَالَی:وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیماً وَاعْلَمْ أَنَّ مَنْ عَرَفَ بِقَلْبِہِ کَوْنَ ذَلِکَ الْحُکْمِ حَقًّا وَصِدْقًا قَدْ یَتَمَرَّدُ عَنْ قَبُولِہِ عَلَی سَبِیلِ الْعِنَادِ أَوْ یَتَوَقَّفُ فِی ذَلِکَ الْقَبُولِ،فَبَیَّنَ تَعَالَی أَنَّہُ کَمَا لَا بُدَّ فِی الْإِیمَانِ مِنْ حُصُولِ ذَلِکَ الْیَقِینِ فِی الْقَلْبِ فَلَا بُدَّ أَیْضًا مِنَ التَّسْلِیمِ مَعَہُ فِی الظَّاہِرِ، فَقَوْلُہُ:ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ الْمُرَادُ بِہِ الِانْقِیَادُ فِی الْبَاطِنِ، وَقَوْلُہُ:وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیماً الْمُرَادُ مِنْہُ الِانْقِیَادُ فِی الظَّاہِرِ واللَّہ أَعْلَمُ.
ترجمہ :{ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْت}اے حبیب کریم ﷺجوآپ ﷺحکم فرمادیں تو اپنے دلوںمیں اس سے رکاوٹ نہ پائیں الشیخ زجاج رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان کے سینے آپ ﷺکے فیصلوں پرتنگ نہ ہوں ، بعض اوقات حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حکم پربندہ ظاہراًخوش ہوتاہے لیکن قلبی طورپرنہیں ، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ واضح فرمادیاکہ قلبی رضاکاہوناضروری ہے ، یادرہے کہ دل کامیلان اورنفرت یہ انسان کی طاقت سے باہرہے توآیت کریمہ میں یہ مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ دل میں یہ جزم اوریقین حاصل ہوجائے جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فیصلہ فرمایاوہی حق وسچ ہے ۔ {یُسَلِّمُوا تَسْلِیماً}فرمایاجوآدمی اسے پہچان لے گاکہ یہ فیصلہ حق اورسچ ہے توایسا نہیںہو سکتا کہ وہ بطورعناد اس کے قبول کرنے میں سرکشی کرے، یااس کی قبولیت میں توقف کرے گاتواللہ تعالی نے واضح فرمادیاکہ حصول ایمان کے لئے دل میں یقین کاہوناجیسے ضروری ہے ایسے ہی اس کو ظاہراًماننابھی ضروری ہے ۔ تو{ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْت}پھرجوکچھ تم حکم فرمادواپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں سے مراد دل اورباطنی فرمانبرداری اورارشاد {یُسَلِّمُوا تَسْلِیماً}سے مراد ظاہراًفرمانبردادی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۰:۱۱۹)
جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلہ پرطعن کرے وہ کافرہے
وَہُوَ الصَّحِیحُ، فَکُلُّ مَنِ اتَّہَمَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحُکْمِ فَہُوَ کَافِرٌ۔
ترجمہ :القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المتوفی : ۵۴۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پس جس شخص نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے کسی فیصلہ پر متہم کیاوہ کافرہے ۔
(أحکام القرآن:القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی (۱:۵۷۸)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حکم شریف کی مخالفت کرنے والاکافرہے

وفی ہذہ الآیات دلائل علی ان من رد شیأ من أوامر اللہ وأوامر الرسول صلی اللہ علیہ وسلم فہو خارج عن الإسلام سواء ردہ من جہۃ الشک او من جہۃ التمرد وذلک یوجب صحۃ ما ذہبت الصحابۃ الیہ من الحکم بارتداد مانعی الزکاۃ وقتلہم وسبی ذراریہم فاتباع الرسول علیہ السلام فرض عین فی الفرائض العینیۃ وفرض کفایۃ فی الفروض علی سبیل الکفایۃ وواجب فی الواجبات وسنۃ فی السنن وہکذا ومخالفتہ تزیل نعمۃ الإسلام
خلاف پیمبر کسی رہ کزید … کہ ہرکز بمنزل نخواہد رسید
فالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو الدلیل فی طریق الحق ومخالفۃ الدلیل ضلالۃ: قال الحافظ
بکوی عشق منہ بی دلیل راہ قدم … کہ من بخویش نمودم صد اہتمام ونشد
ترجمہ
امام اسماعیل حقی حنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان آیات کریمہ سے ثابت ہواکہ جو بھی اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حکم شریف سے سرتابی کرتاہے شک کرکے یاسرکش ہوکرتووہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے ، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاطریقہ بتاتاہے کہ جب حضرت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ سے زکوۃ روکی گئی تو حکم ہواکہ زکوۃ کاانکارکرنے والوں کو قتل کردیاجائے اوران کی اولاد کو قیدی بنایاجائے ۔
مسئلہ : حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اتباع فرائض میں سے فرض عین اورفروض میں سے فرض کفایہ اورواجبات میں سے واجب اورسنن میں سے سنت ہے ۔
مسئلہ : حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مخالفت سے دولت اسلام چھین لی جاتی ہے۔
خلاف پیمبر کسی رہ کزید کہ ہرکز بمنزل نخواہد رسید
ترجمہ :جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے خلاف راستہ اختیارکرتاہے وہ منزل کو ہرگزنہیں پہنچے گا۔
حضورتاجدارختم نبوت ﷺحق کے رہبراعظم ہیں اوررہبراعظم کی مخالفت شدیدترین گمراہی ہے ۔
نکتہ
بکوی عشق منہ بی دلیل راہ قدم کہ من بخویش نمودم صد اہتمام ونشد
ترجمہ :حافظ شیرازی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اپنی رائے کو عشق میں امام نہ بنا، میں نے تواس کابڑااہتمام کیالیکن مقصدنہ پاسکا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی(۲:۲۳۱)

جوحاکم اسلام کے فیصلے پرطعنہ زنی کرے؟

وَکُلُّ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِحُکْمِ الْحَاکِمِ وَطَعَنَ فِیہِ وردہ فہی ردۃ یستتاب وأما إِنْ طَعَنَ فِی الْحَاکِمِ نَفْسَہُ لَا فِی الْحُکْمِ فَلَہُ تَعْزِیرُہُ وَلَہُ أَنْ یَصْفَحَ عَنْہُ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہروہ شخص جو حاکم اسلام کے فیصلے سے راضی نہ ہواوراس میں طعن کرے اوراسے ردکرے تووہ گناہگارہوگاتواس سے توبہ طلب کی جائے گی اورجو حاکم اسلام کی ذات میںطعنہ زنی کرے اوراس کے فیصلے میں طعنہ زنی نہ کرے تواس کو تعزیزلگانے اوراس کو معاف کرنے کاحق ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۵:۲۶۷)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے کامنکرحضورتاجدارختم نبوتﷺکے فیصلوں کی نظرمیں
جب قرآن کریم نے امت کے تمام جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کو منصف قرار دیا ہے تو لازم ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺہی سے اس کا فیصلہ لے لیا جائے کہ آپ ﷺکے لائے ہوئے دین میں آپ ﷺ کی احادیث کا کیا مرتبہ ہے؟ آپ ﷺکے فیصلہ کے بعد کسی قسم کی کٹ حجتی کی ضرورت نہ رہے گی۔ آیات بینات کے بعد اب فیصلہ نبوت سنئے۔

(۱)پوری امت کو مخاطب کرکے فرمایاجاتا ہے کہ ایسا شخص ایمان سے محروم ہے جس کی خواہشات حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی لائی ہوئی ہر چیز سے ہم آہنگ نہیں ہوجاتیں۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی یَکُونَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس (شریعت)کے تابع نہیں ہوجاتیں جس کو میں لے کر آیا ہوں۔
(مشکاۃ المصابیح:محمد بن عبد اللہ الخطیب العمری، أبو عبد اللہ التبریزی (ا:۵۹)
(۲)حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کے فیصلہ کے تارک اور آپﷺ کے اوامر کی اقتداء نہ کرنے والے ناخلف دروغ گو اور غلط کار ہیں اور جو شخص ان کے ساتھ ہاتھ زبان یادل کے ساتھ جہاد نہیں کرتا وہ بھی ذرہ ایمان سے محروم ہے۔
عن ابنِ مَسْعودٍ رَضی اللہ عَنْہُ قال قال رسولُ اللّٰہِ ما مِنْ نَبیٍ بَعَثہ اللّٰہُ فِیْ أمتہِ قَبلی الا کَانَ لَہُ فی أمتہ حَوارِیُونَ وأصحابٍ یأخُذُون بِسُنتِہ ویقتدون بأمرِہِ،ثُمَّ انَّہا تخلُف مِن بَعْدِہم خُلُوفٌ یقُولُونَ ما لا یَفْعَلُوْنَ ویفعلُونَ ما لا یُوئمَرُونَ فَمَن جَاہَدہُمْ بِیَدہ فَہُو مُوئْمِنٌ ومَن جَاہَدَہم بِلِسانِہِ فہُو مُوئْمِنٌ ومَن جَاہَدَہم بِقلبِہِ فَہُو مُوئْمِنٌ ولیس وراء ذلِکَ مِن الایمان حبَۃُ خردلٍ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ تعالیٰ نے بھیجا اس کی امت میں ضرور ایسے خاص لوگ اس کے دین کے مددگار کیے جو اس کی سنت پر عمل پیراہوتے اور اس کے حکم کی اقتداء کرتے۔ پھر ان کے بعدایسے ناخلف پیداہوئے جو ایسی باتیں کہتے جن پر عمل نہ کرتے اور ایسے افعال کرتے جن کا ان کو حکم نہیں دیاگیا (یہی اس امت میں ہوگا)پس جو شخص ان لوگوں کے ساتھ ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان کے ساتھ دل سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اس کے علاوہ ایمان کا ذرہ نہیں۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۱:۱۶۹)
(۳)حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے سے اعراض کرنے والوں کاحضورتاجدارختم نبوت ﷺسے کوئی تعلق نہیں۔
عن أنسٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی حدیثٍ فیہِ قِصۃٌ)فَمَن رَغِبَ عَن سُنّتِی فَلیس منی ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۲:۱۰۲۰)
(۴)حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلوں کاانکارکرنے والے دجال ہیں
أَخْبَرَنِی مُسْلِمُ بْنُ یَسَارٍ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ، یَأْتُونَکُمْ مِنَ الْأَحَادِیثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُکُمْ، فَإِیَّاکُمْ وَإِیَّاہُمْ، لَا یُضِلُّونَکُمْ،وَلَا یَفْتِنُونَکُمْ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ارشاد فرمایا:آخری زمانہ میں ایسے ایسے دجال اور کذاب ہوں گے جو تمہیں ایسی ایسی باتیں سنائیں گے جو نہ تم نے کبھی سنی ہوں گی نہ تمہارے باپ دادا نے۔ پس ان سے بچو، ایسا نہ ہو کہ تمہیں گمراہ کردیں یا فتنہ میں ڈال دیں۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۱:۱۲)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ایسے نظریات پیش کرتے ہیں جوامت کی گذشتہ صدیوں میں کبھی نہیں سنے گئے وہ دجال وکذاب ہیں انکار حدیث کا نظریہ بھی اسی قسم کا ہے۔
(۵)حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے کے انکار کا منشاء شکم سیری،ہوا پرستی اور گندم خوری کے سوا کچھ نہیں۔
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ الْکِنْدِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ أَشْیَاء َ فَذَکَرَ الْحُمُرَ الْإِنْسِیَّۃَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوشِکُ الرَّجُلُ یَتَّکیئُ عَلَی أَرِیکَتِہِ یُحَدِّثُ بِحَدِیثٍ مِنْ حَدِیثِی فَیَقُولُ:بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ کِتَابُ اللَّہِ،فَمَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاہُ وَمَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاہُ، أَلَا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّہِ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّہُ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا۔ سن رکھو!مجھے قرآن بھی دیاگیا اور قرآن کے ساتھ اس کے مثل بھی، سن رکھو!قریب ہے کہ کوئی پیٹ بھرا تکیہ لگائے ہوئے یہ کہنے لگے کہ لوگوں! تمہیں یہ قرآن کافی ہے بس جو چیز اس میں حلال ملے اسی کو حلال سمجھو!حالانکہ اللہ کے رسولﷺ کی حرام بتلائی ہوئی چیزیں بھی ویسی ہیں جیسی اللہ تعالیٰ کی حرام بتلائی ہوئی۔
(مسند ابن أبی شیبۃ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۲:۴۰۳)
(۶)جب امت میں اختلاف رونما ہوجائے اور ہر فرقہ اپنے مذہب کوقرآن کریم سے ثابت کرنے لگے اس وقت حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فیصلے کو لازم پکڑنا اور قرآنی مطالب کے افہام وتفہیم میں اسوئہ نبوت کو فیصل قرار دینا ہی اصل منشاء دین ہے۔ ایسے نازک وقت میں حدیث نبوی سے دست کشی گمراہی کا پہلا زینہ ہے۔ اورنئے نظریات اوراعمال کااختراع کج روی کا سنگ بنیاد ہے۔
عَنِ العِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ، قَالَ:وَعَظَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا بَعْدَ صَلاَۃِ الغَدَاۃِ مَوْعِظَۃً بَلِیغَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا العُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا القُلُوبُ،فَقَالَ رَجُلٌ:إِنَّ ہَذِہِ مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ:أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ،وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ،فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ یَرَی اخْتِلاَفًا کَثِیرًا، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِفَإِنَّہَا ضَلاَلَۃٌ فَمَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ فَعَلَیْہِ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ، عَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ.ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.
ترجمہ:حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ پس ہمیں بہت ہی موثر وعظ فرمایا۔ جس سے آنکھیں بہہ پڑیں، اور دل کانپ گئے۔ آپﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! یہ تو ایسالگتا ہے، جیسے کسی رخصت کرنے والے کی نصیحت ہو۔ پس ہمیں وصیت فرمائیے۔ فرمایا کہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اپنے حکام کی بات سننا اور ماننا خواہ حاکم حبشی غلام ہو۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۳۴۱)
(۷)حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلوں پرمبنی حدیث جیسے بدیہی اور اجماعی مسائل میں نزاع اور جدال پیدا کرنے والے ہدایت چھوڑکر راہ ضلالت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ ہُدًی کَانُوا عَلَیْہِ إِلاَّ أُوتُوا الجَدَلَ، ثُمَّ تَلاَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذِہِ الآیَۃَ:(مَا ضَرَبُوہُ لَکَ إِلاَّ جَدَلاً بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ)۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا ارشاد ہے۔ جب بھی کوئی قوم ہدایت کھوکر گمراہ ہوجاتی ہے۔انہیں جھگڑا دے دیا جاتا ہے (پھر وہ ایسے واضح مسائل میں بھی جھگڑتے ہیں، جن میں نہ کبھی نزاع کی نوبت آئی اور نہ عقل سلیم ایسے امور میں بحثا بحثی کا تصور کرسکتی ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۳۳۲)

(۸)زہر ضلالت کیلئے اسوہ نبوت تریاق اعظم ہے جب تک کتاب اللہ کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلوں کو دینی سند کی حیثیت سے تسلیم کیاجاتا رہے گا۔ امت گمراہی سے محفوظ رہے گی، لیکن جونہی کتاب وسنت میں تفریق کی جانے لگے گی اورامت کی آوارہ مزاجی کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول اللہﷺ کی اتباع کو بار دوش تصور کرنے لگے گی، اس وقت امت قعر ضلالت میں جاگرے گی۔
حَدَّثَنَا مَالِکٌ أَنَّہُ بَلَغَہُ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللہِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہِ صَلی اللہ عَلَیہ وَسَلم۔
ترجمہ:امام مالک نے مرسلاً روایت کیا ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جب تک ان دونوں کا دامن مضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (۱)کتاب اللہ (۲)سنت رسول اللہ(ﷺ)۔
(موطأ الإمام مالک:مالک بن أنس بن مالک بن عامر الأصبحی المدنی (۲:۷۰)
(۹)جب تک حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہرہرفیصلے کو دل وجان سے تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے ۔

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہرہرفیصلے کودل وجان سے تسلیم کرناایمان ہے

وَأخرج ابْن الْمُنْذر عَن أبی سعید الْخُدْرِیّ أَنہ نَازع الْأَنْصَار فِی المَاء من المَاء فَقَالَ لَہُم:أَرَأَیْت لَو أَنِّی علمت أَن مَا تَقولُونَ کَمَا تَقولُونَ واغتسل أَنا فَقَالُوا لَہُ:لَا وَاللہ حَتَّی لَا یکون فِی صدرک حرج مِمَّا قضی بِہِ رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کاایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ غسل جنابت کے حوالے سے مباحثہ ہوااورابوسعیدالخدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بتائوکہ اگرمیں مان لوںجو تم کہتے ہو، حکم اسی طرح ہے جس طرح کہتے ہواس کے باوجود میں غسل کروں ؟ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالی کی قسم !نہیں ۔ یہاں تک کہ تیرے سینے میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فیصلے کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو۔
(کتاب تفسیر القرآن:أبو بکر محمد بن إبراہیم بن المنذر النیسابوری (۲:۷۷۷)

معارف ومسائل

(۱)اللہ تعالی نے اپنے رب ہونے کی نسبت اپنے حبیبﷺَ کی طرف فرمائی اور فرمایا اے حبیبﷺ!تیرے رب کی قسم۔ یہ نبی کریمﷺکی عظیم شان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پہچان اپنے حبیبﷺکے ذریعے سے کرواتا ہے۔
(۲)حضور پرنورﷺکا حکم ماننا فرض قرار دیا اور اس بات کو اپنے رب ہونے کی قسم کے ساتھ پختہ کیا۔
(۳)حضور اکرم ﷺکا حکم ماننے سے انکار کرنے والے کو کافر قرار دیا۔(۴)تاجدارِ مدینہﷺحاکم ہیں۔
(۵)اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی حاکم ہے اور حضورﷺبھی البتہ دونوں میں لامُتَناہی فرق ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی صفات جواللہ تعالیٰ کیلئے استعمال ہوتی ہیں اگر وہ حضور ﷺکے لئے استعمال کی جائیں تو شرک لازم نہیں آتا جب تک کہ شرک کی حقیقت نہ پائی جائے۔
(۶)رسو لِ کریمﷺکا حکم دل و جان سے ماننا ضروری ہے اور اس کے بارے میں دل میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ اسی لئے آیت کے آخر میں فرمایا کہ پھر اپنے دلوں میں آپﷺکے حکم کے متعلق کوئی رکاوٹ نہ پائیں اور دل و جان سے تسلیم کرلیں۔
(۷)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی احکام کا ماننا فرض ہے اور ان کو نہ ماننا کفر ہے نیز ان پر اعتراض کرنا، ان کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو کافروں کے قوانین کو اسلامی قوانین پرفَوْقِیَّت دیتے ہیں۔ (ماخوذ از تفسیرصراط الجنان(۲:۲۴۰)

Leave a Reply

%d bloggers like this: