اسلام میں خواتین کے حقوق اورلبرل وسیکولر طبقہ کی بے اعتدالیوں کاردبلیغ
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء ِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوٰلِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا}( ۳۴)
ترجمہ کنزالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لئے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لئے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کئے ،تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیںجس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہوتو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ بلند بڑا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:مرد عورتوں پرامیر ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں خاوندوں کی اطاعت کرنے والی اوران کی غیر موجودگی میں اللہ تعالی کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان کے نہ سمجھنے کی صورت میں ان سے اپنے بستر الگ کرلو اوراگر پھربھی نہ سمجھیںتوانہیں مارو پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو اب ان پرزیادتی کرنے کاراستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ تعالی بہت بلند، بہت بڑا ہے۔
عورت پر مردکوفضیلت کی وجہ
أَیْ یَقُومُونَ بِالنَّفَقَۃِ عَلَیْہِنَّ وَالذَّبِّ عَنْہُنَّ،وَأَیْضًا فَإِنَّ فِیہِمُ الْحُکَّامَ وَالْأُمَرَاء َوَمَنْ یَغْزُو،وَلَیْسَ ذَلِکَ فِی النِّسَاء ِوَدَلَّتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ عَلَی تَأْدِیبِ الرِّجَالِ نِسَاء َہُمْ، فَإِذَا حَفِظْنَ حقوق الرجال فلا ینبغی أن یسء الرَّجُلُ عِشْرَتَہَاوَ (قَوَّامٌ)فَعَّالٌ لِلْمُبَالَغَۃِ،مِنَ الْقِیَامِ عَلَی الشَّیْء ِوَالِاسْتِبْدَادِ بِالنَّظَرِ فِیہِ وَحِفْظِہِ بِالِاجْتِہَادِفَقِیَامُ الرِّجَالِ عَلَی النِّسَاء ِ ہُوَ عَلَی ہَذَا الْحَدِّ،وَہُوَ أَنْ یَقُومَ بِتَدْبِیرِہَا وَتَأْدِیبِہَا وَإِمْسَاکِہَا فِی بَیْتِہَا وَمَنْعِہَا مِنَ الْبُرُوزِ، وَأَنَّ عَلَیْہَا طَاعَتَہُ وَقَبُولَ أَمْرِہِ مَا لَمْ تَکُنْ مَعْصِیَۃً ،وَتَعْلِیلُ ذَلِکَ بِالْفَضِیلَۃِ وَالنَّفَقَۃِ وَالْعَقْلِ وَالْقُوَّۃِ فِی أَمْرِ الْجِہَادِ وَالْمِیرَاثِ وَالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ.ملتقطاً۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یعنی مرد عورتوں کاخرچ اٹھاتے ہیں اوران کادفاع کرتے ہیں ، اسی طرح مردوں میں حکام ، امراء اورمجاہدین ہوتے ہیں ، جبکہ یہ فرائض عورتوں پرلازم نہیں ہیں ۔
اوریہ آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مرد عورتوں کو ادب سکھائیں جب وہ مردوں کے حقوق کی حفاظت کریں تو پھرمرد کو ان کے ساتھ غیرمناسب طرز معاشرت نہیں اپناناچاہئے ۔ قوام فعال کے وزن پرمبالغہ کاصیغہ ہے ، اس کامطلب ہے کہ کسی چیز کی نگرانی کرنا، خود اس چیز میں غوروفکرکرنااوراس اجتہاد کے ساتھ اس چیز کی حفاظت کرنا، پس مردوں کاعورتوں پرقیام اس حدتک ہے اوروہ یہ ہے کہ ان کی تدبیر، تادیب ، گھرمیں ان کو رو کے رکھنے اورزیب وزینت ظاہرکرنے سے منع کرناہے اورعورت پر مرد کی اطاعت کرنااوراس کے حکم کو قبول کرناہے ، جب تک کہ معصیت نہ ہو، اس کی علت فضلیت نفقہ ، امرجہاد میں قوت وعقل ، میراث ، امرباالمعروف ونہی عن المنکرکی وجہ سے ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۱۶۸)
عورت کی نافرمانی کی صورت میں اس کو مارنے کی تفصیل
وَإِذَا ثَبَتَ ہَذَا فَاعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَأْمُرْ فِی شی مِنْ کِتَابِہِ بِالضَّرْبِ صُرَاحًا إِلَّا ہُنَا وَفِی الْحُدُودِ الْعِظَامِ، فَسَاوَی مَعْصِیَتَہُنَّ بِأَزْوَاجِہِنَّ بِمَعْصِیَۃِ الْکَبَائِرِ، وَوَلَّی الْأَزْوَاجَ ذَلِکَ دُونَ الْأَئِمَّۃِ، وَجَعَلَہُ لَہُمْ دُونَ الْقُضَاۃِ بِغَیْرِ شُہُودٍ وَلَا بَیِّنَاتٍ ائْتِمَانًا مِنَ اللَّہِ تَعَالَی لِلْأَزْوَاجِ عَلَی النِّسَاء ِ وَقَالَ ابْنُ خُوَیْزِ مَنْدَادُ:وَالنُّشُوزُ یُسْقِطُ النَّفَقَۃَ وَجَمِیعَ الْحُقُوقِ الزَّوْجِیَّۃِ، وَیَجُوزُ مَعَہُ أَنْ یَضْرِبَہَا الزَّوْجُ ضَرْبَ الْأَدَبِ غَیْرَ الْمُبَرِّحِ، وَالْوَعْظُ وَالْہَجْرُ حَتَّی تَرْجِعَ عَنْ نُشُوزِہَا، فَإِذَا رَجَعَتْ عَادَتْ حُقُوقُہَا، وَکَذَلِکَ کُلُّ مَا اقْتَضَی الْأَدَبَ فَجَائِزٌ لِلزَّوْجِ تَأْدِیبُہَا. وَیَخْتَلِفُ الْحَالُ فِی أَدَبِ الرَّفِیعَۃِ وَالدَّنِیئَۃِ، فَأَدَبُ الرَّفِیعَۃِ الْعَذْلُ، وَأَدَبُ الدَّنِیئَۃِ السَّوْطُ وَقَدْ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(رَحِمَ اللَّہُ امْرَأً عَلَّقَ سَوْطَہُ وَأَدَّبَ أَہْلَہُ)وَقَالَ:(إِنَّ أَبَا جَہْمٍ لَا یَضَعُ عَصَاہُ عَنْ عَاتِقِہ۔ملتقطاً۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب مبین میں کسی چیز کو مارنے کاصراحۃً حکم نہیں دیا، سوائے اس مقام کے اورحدود میں تومعلوم ہواکہ ان کے خاوندکی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے اوریہ کام ان کے خاوندوں کے سپردہے ، حکمرانوں کے سپردنہیں، یہ خاوندوں کے لئے روارکھاگیاہے جبکہ قاضیوں کے لئے بغیرگواہوں اوردلائل کے کسی کو سزادیناجائز نہیں ہے ۔ خاونداللہ تعالی کی طرف سے عورتوں کے امین بنائے گئے ہیں ۔
ابن خویز مندادرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نافرمانی نفقہ اورتمام حقوق زوجیت کو ساقط کردیتی ہے اورا سکی وجہ سے خاوندکوتادیبی کاروائی کرناجائز ہے ، جبکہ وہ سزااسے زخمی کرنے والی نہ ہواوراسے وعظ ونصیحت ہواوراس کے بسترکو ترک کردے حتی کہ وہ نافرمانی سے بازآجائے جب وہ واپس آجائے اوراطاعت کرنے لگے تواس کے سارے حقوق بھی واپس آجائیں گے ۔ اسی طرح ادب جس سزاکاتقاضاکرتاہے خاوندکے لئے ایسی سزادیناجائز ہے اورارفع وادنی میں ادب میں حالت مختلف ہوتی ہے ، رفیع ادب کے لئے جدائی ہے اورادنی ادب کے لئے کوڑاہے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جس نے اپناکوڑالٹکائے رکھااوراپنے گھروالوں کو ادب سکھایااورفرمایا: ابوجہم رضی اللہ عنہ اپناڈنڈااپنے کندھے سے اتارتاہی نہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۱۶۸)
عورت کو نہ مارنے میں بہت عافیت ہے
وکان بعض العلماء یقول التحمل علی أذی واحد من المرأۃ احتمال فی الحقیقۃ من عشرین أذی منہا مثلا فیہ نجاۃ الولد من اللطمۃ ونجاۃ القدر من الکسر ونجاۃ العجل من الضرب ونجاۃ الہرۃ من الزجر ای المنع من أکل فضول الخوان وسقاطہ والثوب من الحرق والضیف من الرحیل
ترجمہ:امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء کرام نے بیان کیاہے کہ عورت کی ایک دکھ درد کی بات کو برداشت کرنادراصل بیس دکھ درد برداشت کرنے ہیں ۔ اگرآپ نے عورت کواس کی کسی غلطی پرماردیاتو پھربچے کومارپڑے گی ، عورت غصے میں ہانڈی توڑدے گی ۔گھرمیں دوسرے جانوروں کو بھی اس کے ہاتھ سے مارپڑے گی ۔ بلی جوکچھ بھی کھانے لگے گی اس نے منع نہیں کرنا۔ اس طرح وہ مہمان جو آپ کے رشتہ دارہیں ان کی بھی جلدی رخصتی ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ ،ثابت یہ ہواکہ اگرآپ عورت کو ماریں گے تو گھرکاسارانظام درہم برہم ہوجائے گا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۲:۲۰۳)
خواتین کے حقوق قرآن کریم اورحدیث شریف کی روشنی میں
عورت کی تعلیم کی ذمہ داری بھی شوہرپر
عَن مُجَاہِد فِی قَوْلہ (الرِّجَال قوّامون علی النِّسَاء )قَالَ:بالتأدیب والتعلیم (وَبِمَا أَنْفقُوا من أَمْوَالہم) قَالَ: بِالْمہْرِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مردعورتوں کو ادب اورتعلیم دینے کے ذمہ دارہیں کیونکہ وہ مہرکی صورت میں ان پر اپنامال خرچ کرتے ہیں۔
(کتاب تفسیر القرآن:أبو بکر محمد بن إبراہیم بن المنذر النیسابوری (۲:۶۸۶)
تفسیرابن عباس رضی اللہ عنہما
عَن ابْن عَبَّاس (الرِّجَال قوّامون علی النِّسَاء )یَعْنِی أُمَرَاء عَلَیْہِنَّ أَن تُطِیعہُ فِیمَا أمرہَا اللہ بِہِ من طَاعَتہ وطاعتہ أَن تکون محسنۃ إِلَی أَہلہ حافظۃ لمَالہ (بِمَا فضل اللہ)وفضلہ عَلَیْہَا بِنَفَقَتِہِ وسعیہ (فالصالحات قانتات) قَالَ:مطعیات (حافظات للغیب) یَعْنِی إِذا کن کَذَا فَأحْسنُوا إلَیْہِنَّ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ مردعورتوں پرامیرہیں ، عورتوں پرلازم ہے کہ جن چیزوں کااللہ تعالی نے حکم دیاہے ان میں مردکی اطاعت کریں اورعورت کی مردکے لئے اطاعت یہ ہے کہ وہ خاوندکے گھروالوں کے ساتھ اچھابرتائوکرے اوراس کے مال کی حفاظت کرے کیونکہ اللہ تعالی نے مردکے نفقہ اورکمائی کے ذریعے اس پراحسان فرمایاہے ۔ {قانتات}کامعنی اطاعت کرنے والیاں اورغیرموجودگی میں مال کی حفاظت کرنے والیاں ہیں، جب وہ عورتیں ایسی ہیں تو ان کے ساتھ احسان کرو۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی، الحنظلی(۳:۹۳۹)
نیک عورت تاج کی مثل ہے
عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی، قَالَ:مَثَلُ الْمَرْأَۃِ الصَّالِحَۃِ عِنْدَ الرَّجُلِ کَمَثَلِ التَّاجِ الْمُتَخَوَّصِ بِالذَّہَبِ عَلَی رَأْسِ الْمَلِکِ، وَمَثَلُ الْمَرْأَۃِ السُّوء ِ عِنْدَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ مَثَلُ الْحِمْلِ الثَّقِیلِ عَلَی الشَّیْخِ الْکَبِیرِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نیک عورت جو صالح آدمی کے نکاح میں ہواس تاج کی مثل ہے جو سونے کابناہواہواوربادشاہ کے سرپرہواوربری عورت کی مثال صالح آدمی کے ہاں ایسے ہے جیسے بوڑھے آدمی پربھاری بوجھ ڈال دیاجائے۔
(مصنف ابن ابی شیہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ العبسی (۳:۵۵۹)
تین کمرتوڑ مصیبتیں
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو،قَالَ:أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالثَّلَاثِ الْفَوَاقِرِ؟قَالَ:وَمَا ہُنَّ؟ قَالَ:إِمَامٌ جَائِرٌ، إِنْ أَحْسَنْتَ لَمْ یَشْکُرْ،وَإِنْ أَسَأْتَ لَمْ یَغْفِرْ،وَجَارُ سُوء ٍ إِنْ رَأَی حَسَنَۃً غَطَّاہَا،وَإِنْ رَأَی سَیِّئَۃً أَفْشَاہَا،وَامْرَأَۃُ السُّوء ِ إِنْ شَہِدْتَہَا غَاضَبَتْکَ،وَإِنْ غِبْتَ عَنْہَا خَانَتْکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہمانے ارشاد فرمایا: کیامیں تمھیں تین کمرتوڑمصیبتوں کے بارے میں نہ بتائوں؟ عرض کی گئی کہ کونسی ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ظالم حکمران اگرتواچھاکام کرے تو تیراشکرادانہ کرے اوراگرتوغلط کام کرے تو پھرتجھے معاف نہ کرے ۔ براپڑوسی اگرتجھ میں کوئی نیکی دیکھے تو اسے چھپائے اوراگرتجھ میں کوئی برائی دیکھے تواس کو لوگوں میں مشہورکردے اوربری عورت اگرتواس کے پاس ہوتو تجھے غصہ دلائے اورتواس سے غائب ہوتو وہ تجھ سے خیانت کرے ۔
(مصنف ابن ابی شیہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ العبسی (۳:۵۵۹)
تم اللہ تعالی سے ڈرو، اپنے شوہروں کو راضی رکھو
عَنْ عَلِیٍّ،عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یَا مَعْشَرَ النِّسَاء ِ اتَّقِینَ اللَّہَ وَالْتَمِسُوا مَرْضَاتِ أَزْوَاجِکُنَّ،فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ لَوْ تَعْلَمُ مَا حَقُّ زَوْجِہَا،لَمْ تَزَلْ قَائِمَۃً مَا حَضَرَ غَدَاؤُہُ وَعَشَاؤُہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اے عورتوں کے گروہ! تم اللہ تعالی سے ڈرواوراپنے خاوندوں کو راضی رکھاکرو، اگرعورت اپنے خاوندکے حق کو پہچان لے تواس کے صبح وشام کھانے کے وقت نہ بیٹھے یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے۔
(مسند البزار :أبو بکر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق المعروف بالبزار (۲:۲۸۹)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اپنی شہزادی کو نصیحت
عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَیْحٍ،حَدَّثَنِی مَنْ، سَمِعَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ،یَعْنِی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِابْنَتِہِ:فَإِنِّی أَبْغَضُ أَنْ تَکُونَ الْمَرْأَۃُ تَشْکُو زَوْجَہَا ،وَقَالَ:تَشْکُو الْمَرْأَۃُ زَوْجَہَا ۔
ترجمہ :حضرت سیدنازیدبن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے پنی شہزادی رضی اللہ عنہاسے فرمایا: بے شک میں نفرت کرتاہوں کہ عورت اپنے شوہرکی شکایت کرنے والی ہو۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی (۱۱:۱۷۲)
عورت کی ناشکری
عَنِ ابْنِ أَبِی حُسَیْنٍ،سَمِعَ شَہْرًا یَقُولُ:سَمِعْتُ أَسْمَاء َ بِنْتَ یَزِیدَ إِحْدَی نِسَاء ِ بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ تَقُولُ:مَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِی نِسْوَۃٍ فَسَلَّمَ عَلَیْنَا وَقَالَ:إِیَّاکُنَّ وَکُفْرَ الْمُنَعَّمِینَ فَقُلْنَا:یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَمَا کُفْرُ الْمُنَعَّمِینَ؟قَالَ:لَعَلَّ إِحْدَاکُنَّ أَنْ تَطُولَ أَیْمَتُہَا بَیْنَ أَبَوَیْہَا، وَتَعْنُسَ فَیَرْزُقَہَا اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ زَوْجًا، وَیَرْزُقَہَا مِنْہُ مَالًا، وَوَلَدًا فَتَغْضَبَ الْغَضْبَۃَ فَتَقُولُ:مَا رَأَیْتُ مِنْہُ یَوْمًا خَیْرًا قَطُّ وَقَالَ:مَرَّۃً خَیْرًا قَطُّ۔
ترجمہ :حضرت سیدنااسماء بنت یزیدرضی اللہ عنہمافرماتی ہیں کہ ہم عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺہمارے درمیان سے گزرے اورفرمایا: احسان کرنے والوں کی ناشکری کرنے سے بچو! ہم نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیامراد ہے ؟ توآپ ﷺنے فرمایاکہ ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے والدین کے پاس زیادہ عرصہ تک بغیرشادی کے رہی ہو، پھراللہ تعالی کسی خاوندکے مقدرمیں کردے اوراللہ تعالی اس عورت کو خاوندسے مال اوراولاد دے وہ عورت جب غصے میں ہوتوکہے میں نے آج تک تم سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۴۵:۵۴۲)
یہ بات کسی سے نہ پوچھنا!
عُمَرَ بنَ الخطابِ رضی اللہ عنہ فقالَ لی:یا أشعَثُ،احفَظْ عَنِّی ثَلاثًا حَفِظتُہُنَّ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :لا تسألِ الرَّجُلَ فیمَ ضَرَبَ امرأتَہ؟ولا تَنامَن إلَّا علی وِترٍونَسیتُ الثّالِثَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنااشعث رضی اللہ عنہ کو فرمایاکہ اے اشعث ! تم تین چیزیں مجھ سے یادکرلو جومیںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے یادکی تھیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو مارے تم اس سے نہ پوچھنااورتم کبھی بھی وترپڑھے بغیرنہ سونااورتیسری چیز میں بھول گیاہوں۔
(السنن الکبیر:أبو بکر أحمد بن الحُسَین بن علیٍّ البیہقی(۱۵:۱۴۹)
خطبہ حجۃ الوداع اورحقوق نسواں
عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَبِی أَنَّہُ شَہِدَ حَجَّۃَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ وَذَکَّرَ وَوَعَظَ ثُمَّ قَالَ أَیُّ یَوْمٍ أَحْرَمُ أَیُّ یَوْمٍ أَحْرَمُ أَیُّ یَوْمٍ أَحْرَمُ قَالَ فَقَالَ النَّاسُ یَوْمُ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ فَإِنَّ دِمَاء َکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا أَلَا لَا یَجْنِی جَانٍ إِلَّا عَلَی نَفْسِہِ وَلَا یَجْنِی وَالِدٌ عَلَی وَلَدِہِ وَلَا وَلَدٌ عَلَی وَالِدِہِ أَلَا إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ فَلَیْسَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِیہِ شَیْء ٌ إِلَّا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِہِ أَلَا وَإِنَّ کُلَّ رِبًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ لَکُمْ رُء ُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ غَیْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّہُ مَوْضُوعٌ کُلُّہُ أَلَا وَإِنَّ کُلَّ دَمٍ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ دَمٍ وُضِعَ مِنْ دِمَاء ِ الْجَاہِلِیَّۃِ دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِی بَنِی لَیْثٍ فَقَتَلَتْہُ ہُذَیْلٌ أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاء ِ خَیْرًا فَإِنَّمَا ہُنَّ عَوَانٍ عِنْدَکُمْ لَیْسَ تَمْلِکُونَ مِنْہُنَّ شَیْئًا غَیْرَ ذَلِکَ إِلَّا أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیلًا أَلَا إِنَّ لَکُمْ عَلَی نِسَائِکُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلَی نِسَائِکُمْ فَلَا یُوطِئْنَ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَہُونَ وَلَا یَأْذَنَّ فِی بُیُوتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَہُونَ أَلَا وَإِنَّ حَقَّہُنَّ عَلَیْکُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَیْہِنَّ فِی کِسْوَتِہِنَّ وَطَعَامِہِنَّ قَالَ أَبُو عِیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناسلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد ماجد رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ موجود تھے، تو آپﷺنے اللہ کی تعریف اور ثنا کی، اور وعظ ونصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا:کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس والا ہے؟ کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقد س والاہے؟ کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس والا ہے؟ لوگوں نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!حج اکبر کا دن ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں، سن لو!کوئی انسان کوئی جرم نہیں کرے گا مگر اس کا وبال اسی پر آئے گا، کوئی باپ قصور نہیں کرے گا کہ جس کی سزا اس کے بیٹے کو ملے۔ اور نہ ہی کوئی بیٹا کوئی قصور کرے گا کہ اس کی سزا اس کے باپ کو ملے۔ آگاہ رہو!مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دے دے۔ سن لو!جاہلیت کا ہر سود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال (اصل پونجی)لے سکتے ہو، نہ تم کسی پر ظلم وزیادتی کرو گے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم وزیادتی کی جائے گی۔ سوائے حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے۔ خبردار!جاہلیت کا ہر خون ختم کر دیا گیا ہے ،دور جاہلیت میں ہوئے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے، وہ قبیلہ بنی لیث میں دودھ پیتے تھے، تو انہیں قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا، سنو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک (وبرتاو)کرو۔ کیوں کہ وہ تمہارے پاس بے کس ولاچار بن کر آئی ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں، اگر وہ کوئی قبیح گناہ کر بیٹھیں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاو کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم وزیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو، خبردار ہو جائو!تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پرنہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہنائو اور اچھا کھلائو۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی الترمذی، أبو عیسی (۳:۴۵۹)
معارف ومسائل
(۱) دنیابھر کے عقلاء وحکماء سب کے سب یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عورت ہزاردرجہ ہوشیار، تعلیم یافتہ اورسنجیدہ ہومگرمردکے مقابلے میں کمزوروضعیف اورناتوان ہے ، جبکہ وہ اپنے دفاع کے معاملے میں کمزوراورعاجزہے ، شرعی نقطہ نگاہ میں جوبرتری مردوں کو حاصل ہے صنف نازک عورتوںکو اس کاعشرعشیربھی حاصل نہیں ہے ۔ مثلاً عقل ، دین ، تعلیم ، قوت ، عزت ، عزم ، حزم ،نبوت ، خلافت ، امامت ، قضاء ، جہاد ی جذبہ، خطابت ، اذان ، خطبہ جمعہ ، عید، قیادت ، فوجی کمان ، مزدوری ، مشقت ، محنت وجفاکشی ، تجارت ، ملازمت وغیرہ انہیں امور کی بناء پر مردوںکو ان پرامارت حاصل ہے ۔
(۲) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ مردوں کی حاکمیت عورتوں پر ہمیشہ ہمیشہ اورقیامت تک کے لئے مسلم اورقائم رہے گی اورمفضول ہرزمانے میں افضل کاتابع رہے گا، اگرکوئی اس خدائی فیصلہ کے خلا ف اقدام کرے گاجیسے کہ یورپ نے کیااورمغرب نواز مسلمان ممالک نے کیااورپاکستان میں اب بہت زیادہ آوازیں اٹھ رہی ہیں جیسے حقوق نسواں کے نام سے اب ریلیاں نکالی جارہی ہیںاورایسے نعرے لگارہے ہیں، جن کو شریف انسان سن ہی نہیں سکتا۔ توانہیں بے شمارنقصانات اورتباہ کن نتائج سے دوچارہوناپڑے گا، جیساکہ وہ لوگ آج اس کی سزابھگت رہے ہیں ، نہ ادھرکے رہے اورنہ ہی ادھرکے ۔ ان کاپورامعاشرہ حیوانوں کے رنگ میں رنگاہواہے ، ان کی نسلیں تک تباہ ہوگئی ہیں ، ان کی عورتوں کو معلوم نہیں کہ ان کے حقیقی شوہرکون ہیں؟ جنسی بے ہودگیوں میں مبتلاء لاکھوں حرامی بچے پیداہورہے ہیں اوران کی پوری فوج حرامیوں پر مشتمل ہے ، دنیاکے اطراف واکناف میں ظلم وبربریت کادوردورہ ہے ، اولاد آدم انسانیت وشرافت سے محروم ، تباہی کے بھیانک راستوں پر بھٹک رہے ہیں ۔ شناختی کارڈوں میں صرف ماں کا نام اوروہ بھی مشکوک وغیرہ کے نام سے گھوم رہے ہیں ۔ باپ کاکوئی معلوم نہیں ہے کون ہے اورکتنے ہیں؟۔ ساری کائنات کاتحفظ اوربقاء اورانسانیت کاوجود صرف اورصرف اسلام کے نام سے روشن ہے ، جن ملکوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاںبھی بہت سے لوگ یورپ اورامریکہ کے حیوانوں کی طرح جنسی خواہشات کو پوراکرنے کے متوالے ہیں ، یہ لوگ نہ صرف یہ کہ خود بے حیائیوں ، فحاشیوں اوربدکاریوں میں مبتلاء ہیں بلکہ باقاعدہ ان کی سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں ، جن کی برابراورمستقل یہ کوشش ہے کہ نکاح اورحیاء اورشرم کو بالاتاک رکھ دیاجائے ، ایسے جرائد ، ہفتہ روزہ ، یک روزہ اورماہنامہ رسائل جاری ہیں جن میں بے حیائی کے کاموں کواچھالاجاتاہے اورننگی تصاویر شائع کی جاتی ہیں ۔ جذبات انسانی کو ابھاراجاتاہے اورایسی این جی اوز بنی ہوئی ہیں جو عامۃ المسلمین کو بے حیائی اورزناکاری کے غارمیں دھکیلنے کی پوری کوشش کررہی ہیں ۔ ننگے لوگوں کے کلب ہیں ، زناکاری کے اڈے ہیں ، حکومتیں ان کی پوری پوری سرپرستی کرتی ہیں ۔