حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی وفات شریف کے متعلق غامدی اورمرزائیوں کے نظریات کارد بلیغ
{وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا}(۱۵۷){بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا }(۱۵۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور اُن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اُسے قتل کیا اور نہ اُسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اُس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا ۔بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ تعالی کے رسول کو شہید کیا حالانکہ انہوں نے نہ توانہیں قتل کیا اور نہ انہیں سولی دی بلکہ ان یہودیوں کے لئے (حضرت سیدنا)عیسیٰ سے ملتا جلتا ایک شخص بنادیا گیا اور بیشک یہ یہود ی جو ان ( عیسیٰ )کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور ان کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سوائے گمان کی پیروی کے ان کواس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالی نے اسے اپنی طرف اٹھالیا تھا اور اللہ تعالی غلبے والا،حکمت والا ہے۔
قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود یوں نے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن کریم نے جو فرمایا کہ ’’اللہ تعالی نے ا نہیں اپنی طرف بلند کردیا ‘‘وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ انکے درجات بلند کردیئے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلند ی کا یہ فائدہ ہوا کہ صلیب پر وہ زندہ رہے اور یہود کو شبہ لگ گیا کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے، حضرت سیدناعیسی علیہ السلام پھر کسی اور علاقہ میں چلے گئے وہاں تقریبا نصف صدی حیات رہے پھر طبعی وفات پائی اور انکامزارمبارک کشمیر(سرینگر) میں ہے، اب ایک نیا مسیح پیدا ہونا تھا جو کہ ایک مخبوط الحواس بھینگے میٹرک فیل دجال و کذاب مرزاقادیانی کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔یہی عقیدہ تھوڑی سی کمی پیشی کیساتھ(منکرحدیث اورملحداعظم جاوید غامدی کا بھی ہے ، یہ بھی ان قادیانیوں کی طرح وفات عیسی کا عقیدہ رکھتاہے لیکن کہانی تھوڑی سی مختلف بیان کرتا ہے۔ غامدی کہتاہے کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو صلیب کے قریب ہی موت دی گئی پھر انہیں کہیں دفن کرنے کے بجائے انکا جسم آسمان پر اٹھا لیا گیااور اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ غامدی اور قادیانی دونوں اس آیت کے منکر ہے۔
{اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ}( سورۃ آل عمران :۵۵)
ترجمہ کنزالایمان:یاد کرو جب اللہ نے فرمایا: اے عیسٰی! میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گااور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پیرووں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤگے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو ۔
اس آیت کریمہ میں متوفیک سے مو ت مر اد لیتے ہیں اور اس لفظ کو اپنے عقیدہ وفات مسیح کے لیے نص قطعی قرار دیتے ہیں۔ غامدی اس آیت کی تشریح کرنے والی متواترصحیح احادیث اور اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فرامین شریفہ کو تسلیم نہیں کرتا جبکہ قادیانی انہی احادیث سے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونیکا عقیدہ گھڑ کر مرزا قادیانی کو مسیح قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مرز ا قادیانی نے تو محض حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی زمین پرعدم موجودگی دیکھ کر خود کو مسیح کہلوانے کے لیے قرآن سے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ اور آپ علیہ السلام کی قبر کے قصے گھڑے، اسکی کذب، چال بازیوں ، بیہودہ تاویلات پر سینکڑوں دفعہ بات چیت ہوچکی ہے،
اس مقام پر ہم غامدی ملحدکی اس عقیدہ کے متعلق عبارات پر تبصرہ اس کی پسند کے مطابق صرف قرآن سے پیش کریں گے۔
غامدی لکھتاہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ انکی روح قبض کی گئی اور اسکے فورا بعد انکا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا تاکہ یہود اسکی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک انکے منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔{ إِنِّی مُتَوَفِّیکَ وَرَافِعُکَ إِلَی} اس میں دیکھ لیجیے تو فی وفات کے لئے اور ’’رفع‘‘ اسکے بعد رفع جسم کے لیے بالکل تصریح ہے ۔(ماہنامہ اشراق، اپریل ۱۹۹۵:۴۵)
ایک اور جگہ لکھتاہے کہ حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے انکی روح ہی قبض نہیں کی انکا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اسکی توہین کرے۔(اشراق جولائی۱۹۹۴:۳۲)
قرآن کریم کی تفسیرکاپہلادرجہ
قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن کریم میں دیکھا جائے گاکہ آیا کوئی دوسری آیت کریمہ اسکے مطلب کی وضاحت کررہی ہے، پھر حضور تاجدارختم نبوتﷺکی احادیث شریفہ، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفع ، نزول و حیات عیسی کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں، بیس سے زائدجید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت کررہے ہیں ، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت رضی اللہ عنہم کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے انکو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ غامدی حضور تاجدارختم نبوتﷺ کی تشریح اور آپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ تفاسیر کو قبول کرنے کے لیے تو تیار نہیں ہم اس کی پسند کے مطابق اس کے اس عقیدہ کی بنیاد سورۃ آل عمران کی اس آیت کی القرآن یفسّر بعضہ بعضاً (قرآن کے کچھ حصّوں کی قرآن کی دوسرے حصّے سے تفسیر کرتے ہیں)کے تحت قرآن سے ہی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا قرآن کی دوسری آیات اسکی (غامدی )اس آیت کی تشریح کی تائید کرتی ہیں؟ کیا واقعی احادیث شریفہ اور صحابہ و علمائے امت رضی اللہ عنہم کا
اجماع قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف ہے؟
حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی حیات کامسئلہ قرآن کریم کی روشنی میں
غامدی نے جو آیت پیش کی ہے اس سے پہلے آنے والی آیت میں ہے {و مکرو ا و مکراللہ واللہ خیر المکرین}۔ اور ان کافروں نے (حضرت سیدناعیسی علیہ السلام )کے خلاف خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالی نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اس تدبیر کی اور پھر اگلی آیت جس کے ایک لفظ کی بنیاد پر غامدی ساری امت سے عقیدہ میں اختلاف کیے بیٹھا ہے کی وضاحت سورۃ النساء آیت ۱۵۷یوں کرتی ہے :
{وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا}(۱۵۷}{بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا }(۱۵۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور اُن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اُسے قتل کیا اور نہ اُسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اُس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا ۔بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے
اس آیت کریمہ سے دو باتیں بالکل واضح ہیں ۔ پہلی بات آیت میں{وَمَا قَتَلُوْہُ}۔۔۔۔{ وَمَا صَلَبُوْہُ}۔۔۔۔{ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا} کے الفاظ سے ان کے قتل ،موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ {بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیْہ} بلکہ اللہ تعالی نے اٹھا لیا ان کو اپنی طرف۔ یہاں{بَل}کے بعد بصیغہ ماضی{رَّفَعَہ}کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے{ اِلَیْہِ}یعنی اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔{وَکَانَ اللہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا }
لفظ توفی سے مرزائیوں اورغامدیوں کے نظریات کارد
منکر حدیث، قادیانی اور غامدی آیت {اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ }میں متوفیک سے مطلق موت مراد لیتے ہیں، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جبکہ قرآن کریم کہہ رہا ہے کہ بہتر تدبیر اللہ تعالی کی ہی رہی۔ لفظ’’توفی‘‘کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں ۔
پہلی آیت کریمہ
{اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ }( سورۃ الزمر: ۴۲)
ترجمہ کنزالایمان : اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سوتے میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیا اسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لئے ۔
اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ توفی بمعنی موت کے نہیں ہیں ،بلکہ توفی موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوجاتی ہے تو کبھی نیند کے ساتھ ۔ اور{حِینَ مَوْتِہَا }کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ توفی موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ۔جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو رات کو’’توفی‘‘دیتا ہے اور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہوکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اسی طرح حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ’’توفی‘‘کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، جسکی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔
دوسری آیت کریمہ
{وَ ہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰیکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ }(سورۃ الانعام:۶۰)
ترجمہ کنزالایمان:اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اورجانتا ہے جو کچھ دن میں کماؤ پھر تمہیں دن میں اٹھاتا ہے کہ ٹھہرائی ہوئی میعاد پوری ہوپھر اسی کی طرف پھرنا ہے پھر وہ بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔
اگر توفی سے مراد صرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔
تیسری آیت کریمہ
{وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفٰحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰیہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا }(سورۃ النساء: ۱۵)
ترجمہ کنزالایمان :اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں ان پر خاص اپنے میں سے چار مردوں کی گواہی لو پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھالے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے ۔
اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ ’’موت‘‘لانے کی کیا ضرورت تھی ؟حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ’’ توفی ‘‘کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔اس جگہ توفی سے مراد موت لی جائے گی ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
{قُلْ یَتَوَفّٰیکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ }( سورۃ السجدہ :۱۱)
ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤ تمہیں وفات دیتا ہے موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف واپس جاؤ گے ۔
اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے توفی سے مرادموت لی جائے گی ۔
اسی طرح قرآن کریم میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے وصال شریف کا جہاں کہیں تذکرہ ہے وہاں ’’موت ‘‘کا لفظ استعمال فرمایا گیا ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے لیے{اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ}( سورۃ الزمر: ۳۰)بیشک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے ۔{وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ }سورۃ الانبیاء :۳۴)ترجمہ کنزالایمان :اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لئے دنیا میں ہمیشگی نہ بنائی تو کیا اگر تم انتقال فرماؤ تو یہ ہمیشہ رہیں گے ۔
اسی طرح حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم نے بیان فرمایا
{فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ }( سورۃ السباء :۱۴)
ترجمہ کنزالایمان :پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا جنّوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی پھر جب سلیمان زمین پر آیا جنّوں کی حقیقت کُھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے۔
جبکہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔اور توفی جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے جبکہ غامدی کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعد موت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کریم کی دوسری آیت کی ہی تائید میں رافعک کا ذکر ہے، یہی بات
{مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ شَہِیْدٌ }( سورۃ المائدۃ : ۱۱۷)
ترجمہ کنزالایمان :میں نے تو ان سے نہ کہا مگر وہی جو مجھے تو نے حکم دیا تھا کہ اللہ کو پوجو جو میرا بھی رب اور تمہارا بھی رب اور میں ان پر مطلع تھا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھا اور ہر چیز تیرے سامنے حاضر ہے۔
اس آیت کریمہ کے اس حصہ { فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ} میں بھی ہے۔اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہے کہ حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کے متعلق غامدی کے عقیدہ کو قرآن کریم بھی غلط قرار دے رہا ہے۔
مرزائی اورغامدی محض ایک ذومعنی لفظ کی بنیاد پرحضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ گھڑتے ہیں پھر جسم اوپر اٹھائے جانے کا واضح قرآنی فرمان شریف نظر آتا ہے تو لاش کو بھی آسمانوں پر اٹھانے لینے کی وجہ گھڑ لیتے ہیں کہ جی سرپھری قوم کہیں اسکی توہین نہ کریں اور یہ منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔ شاید انکے علم میں نہیں کہ یہود نے حضرت سیدنازکریا علیہ السلام اورحضرت سیدنا یحیی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے دوسرے بے شمارانبیاء کرام علیہم السلام کس بے دردی سے شہید کیے تھے ، حیرت ہے اس سے منصب نبوت یا شان الہی میں کوئی فرق نہیں آیا ؟ آسان اور سادہ سی بات تھی کہ یہود نے مل کرحضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی ، اللہ تعالی نے اسکو ناکام بناتے ہوئے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو زندہ سلامت اپنی طرف اٹھالیا۔ غامدی نے اپنے تفرد میں اس واضح اور متفقہ عقیدہ کی بھی عجیب کھچڑی بنا کر رکھ دی۔
حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے نزول کامسئلہ اورقرآن کریم
غامدی لکھتاہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہوجانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہوسکتے ہیں؟ اسے باور کرنا آسان نہیں ہے۔ (میزان:۱۷۸ طبع سوئم )
غامدی نے لفظ توفی سے حیات عیسی کے انکار کا عقیدہ تیار کیا پھر اس عقیدہ کے دفاع میں نا صرف انہیں اس متعلق تمام احادیث کا انکار کرنا پڑا اور ساری امت کی مخالفت کرنی پڑی بلکہ نزول عیسی کا منکر بھی ہونا پڑا۔اپنے نزول عیسی کے انکار کے عقیدہ کی یہ دلیل دے رہا ہے کہ اس متعلق قرآن میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ۔ ۔ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ جب تمہاری تحقیق کے مطابق قرآن نزول عیسی کے حق یا خلاف میں کچھ نہیں بتا رہا تو پھر تم صحیح احادیث کو کیوں رد کررہے ہو؟۔ یہاں تمہارے پاس کونسی نص قطعی ہے جسکی ان احادیث کو صحیح مان لینے سے خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ؟ پرویز ی تو چلیں حدیث کے صریح منکر ہیں وہ ایسا عقیدہ رکھ بھی سکتے ہیں تم تو اپنی کتابوں اور سائیٹس پر’’ قرآن و سنت کی روشنی میں ‘‘کے الفاظ سجا سجا کر لکھتے ہو ۔اس سنت سے کس کی سنت مراد ہے؟ جب تمہیں اتنی متواتر اور صحیح احادیث قبول نہیں اور صرف قرآن کریم ہی تمہاری ساری شریعت کا ماخذ ہے تو پھر اس سنت کے لفظ کوقرآن کے ساتھ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے تاکہ لوگوں کو واضح پتا چل جائے کہ یہ بھی اہل قرآن (منکر حدیث )ہیں۔۔پھر تمہیں ان لوگوں پر اعتراض کیوں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ غامدی مکتبہ فکر صرف اسی صحیح یا ضعیف حدیث کو مانتا ہے جو انکی بات کی تائید کرتی ہو یا جس سے انکو اپنے موقف کی دلیل مل سکتی ہو، اس کے علاوہ کسی مسئلہ میں بھی صحیح سے صحیح حدیث کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے نزول عیسی کے متعلق ارشادات کے علاوہ قرآن کریم میں بھی انکے نزول کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلا قرآن میں دو جگہ انکے بچپن اور ادھیڑ عمر میں بات کرنے کے معجزے کا ذکر ہے۔
{وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِیْنَ}( سورۃ آل عمران: ۴۶)
ترجمہ کنزالایمان:اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا ادھیڑ عمرمیں تو مومن، کافر، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی،؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روایات حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں جبھی کلام ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح انکے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑ کران کے دوبارہ نزول کے منکر ہوجائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرورتشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے ۔ اسی کی وضاحت ایک اور آیت سے ہورہی ہے۔
{وَ اِنَّہ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوْنِ ہٰذَا صِرٰطٌ مُّسْتَقِیْمٌ }( سورۃ الزخرف : ۶۱)
ترجمہ کنزالایمان :اور بیشک عیسٰی قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے ۔
بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ انکی دوبارہ تشریف آوری اس بات کی نشانی ہوگی کہ قیامت قریب آگئی ہے ، اس بات کی تائید صحیح احادیث بھی کررہی ہیں۔قرآن کریم اسکا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ قیامت کے قریب اہل کتاب کا انکو دیکھ کر ردعمل کیا ہوگا ؟
{وَ اِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا }( سورۃ النساء : ۱۵۹)
ترجمہ کنزالایمان:کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔
اس آیت کریمہ کے تحت ائمہ مفسرین کاقول
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَیْضًا وَعِکْرِمَۃُ، وَالضَّحَّاکُ، وَالْحَسَنُ، أَیْضًا وَمُجَاہِدٌ،وَغَیْرُہُمْ:الضَّمِیرُ فِی بِہِ لِعِیسَی، وَفِی مَوْتِہِ لِکِتَابِیٍّ وَقَالُوا:وَلَیْسَ یَمُوتُ یَہُودِیٌّ حَتَّی یُؤْمِنَ بِعِیسَی وَیَعْلَمَ أَنَّہُ نَبِیٌّ، وَلَکِنْ عِنْدَ الْمُعَایَنَۃِ لِلْمَوْتِ فَہُوَ إِیمَانٌ لَا یَنْفَعُہُ کَمَا لَمْ یَنْفَعْ فِرْعَوْنَ إِیمَانُہُ وَقْتَ الْمُعَایَنَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا، حضرت سیدناعکرمہ ، الضحاک ، امام حسن بصری ، امام مجاہدرضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ’’بہ‘‘میں ضمیرحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی طرف راجع ہے ۔ اورانہوںنے یہ بھی فرمایاکہ تب تک کوئی بھی یہودی نہیں مرے گاجب تک وہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام پرایمان نہ لے آئے اوراس وقت جان لے گاکہ آپ علیہ السلام اللہ تعالی کے نبی ہیں لیکن ان کا اس طرح ایمان لاناان کونفع نہ دے گاجیساکہ فرعون حضرت سیدناموسی علیہ السلام پر تب ایمان لایاتھاجب یہ ڈوبنے لگاتھاتوجیسے اس کو ایمان نے نفع نہیں دیااسی طرح ایمان ان کو نفع نہ دے گاکیونکہ وہ بھی عذاب دیکھ کرایمان لایاتھااوران کامعاملہ بھی اسی طرح ہے ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۴:۱۲۹)
غامدی مکتبہ فکر عقیدہ حیات نزول مسیح کی قرآن و احادیث کی واضح تائید کو جھٹلا کر محض اپنے تفرد میں اپنے گھڑے ہوئے عقیدہ پر بضد ہے۔ اگر انکے اس عقیدہ کے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو مردہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا کو صحیح بھی مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اگر انکے عقیدہ کے مطابق واقعی حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی لاش آسمانوں پر اٹھائی گئی ہے تو وہ دنیا میں کب آئے گی ؟ حشر کا میدان تو زمین پر لگے گا، اس دن حضورتاجدارختم نبوتﷺسمیت سب انسان اپنی انہی قبروں سے اٹھیں گے، کیا حضرت سیدناعیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ کیے جائیں گے اور آسمان سے نازل ہوں گے ؟ قرآن میں اسکی تصریح یا اشارہ کہاں ہے؟ عقیدہ حیات و نزول عیسی کو عیسائیوں سے درآمد شدہ کہنے والے خود ناصرف حیات عیسی کے متعلق نصاری کے عقیدہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ انہیں الوہیت عیسی کے بھرپور دلائل بھی فراہم کررہے ہیں۔’’اسکالر اسلام ‘‘کی دورخی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف صاحب پرانے صحائف میں موسیقی کے تذکرے کی آیات کی تصدیق قرآن میں موجودحضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کے زبور پڑھنے کی آیات سے کرتے ہیں اور انہیں قرآن کریم سے موسیقی کا اشارہ کہتے اور پرانے صحائف میں موجود موسیقی کے متعلق آیات کو انکی وضاحت کہہ کر موسیقی کو جائز قرار دیتے ہیں، دوسری طرف نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں انجیل اور قرآن میں موجود واضح دلائل کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔
کتاب مقدس کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں
اورجب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہاہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار!کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ (متی:۲۴۔۳۔۵)
حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے نزول کے متعلق احادیث شریفہ کی شہادتیں
پہلی حدیث شریف
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْأَنْبِیَاء ُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ، وَإنِّی أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ، لِأَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بَیْنِی وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ،وَإِنَّہُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ فَاعْرِفُوہُ:رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ،عَلَیْہِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ کَأَنَّ رَأْسَہُ یَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ، فَیَدُقُّ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ،وَیَدْعُو النَّاسَ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَیُہْلِکُ اللہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَیُہْلِکُ اللہُ فِی زَمَانِہِ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ،ثُمَّ تَقَعُ الْأَمَنَۃُ عَلَی الْأَرْضِ حَتَّی تَرْتَعَ الْأُسُودُ مَعَ الْإِبِلِ، وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ،وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ،وَیَلْعَبَ الصِّبْیَانُ بِالْحَیَّاتِ، لَا تَضُرُّہُمْ، فَیَمْکُثُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً، ثُمَّ یُتَوَفَّی، وَیُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲعنہ سے روایت ہے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:انبیاء کرام علیہم السلام ان بھائیوں کی طرح ہیں جن کے باپ ایک اورمائیں مختلف ہوں۔ بنیادی طور پر ان سب کا دین ایک ہی ہے۔ میں باقی لوگوں کی نسبت حضرت سیدناعیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے قریب ترہوں۔ کیونکہ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ (دوبارہ)دنیا میں آنے والے ہیں۔ تم انہیں دیکھتے ہی پہچان لوگے۔ ان کا قددرمیانہ، رنگ سرخی مائل گوراہوگا ، وہ زرد لباس میں ملبوس ہوں گے، یوں محسوس ہوگا کہ ان کے سرسے پانی کے قطرے گررہے ہیں اگرچہ اسے پانی نہ لگا ہوگا، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے اور لوگوں کو حقیقی دین اسلام کی طرف بلائیں گے اﷲتعالیٰ ان کے زمانے میں (ان ہی کے ہاتھوں )دجّال کا خاتمہ کرے گا۔ زمین پر مکمل امن، سکون ہوگااور اس قدرآسودگی ہوگی کہ شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف وخطر اکٹھے چرتے ہوں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہوں گے اور سانپ ان کو کچھ بھی نہ کہیں گے ۔حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس گزاریں گے اس کے بعد ان کی وفات ہوگی ، مسلمان ان کی نماز جنازہ اداکریں گے اور پھر ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۵:۱۵۴)
اس حدیث شریف کی روشنی میں قادیانیوں سے کچھ سوالات
(۱)…کیا مرزا قادیانی ابن مریم تھا یا ابن چراغ بی بی؟
(۲)…کیا مرزا قادیانی وہی عیسیٰ ابن مریم ہے جوحضورتاجدارختم نبوتﷺ سے پہلے تشریف لائے تھے۔جن کے اور حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے درمیان کوئی نبی نہ تھا؟
(۳)…کیا مرزا غلام قادیانی کے زمانے میں تمام ادیان باطلہ ، یہودیت، نصرانیت مٹ گئی یا خود مرزا قادیانی کی جنم بھونی ہندوستان میں بھی مرزا کے زمانے میں نصرانیوں کی حکومت تھی ۔؟
(۴)…کیا مرزا قادیانی کے زمانے میں اسلام کا غلبہ ہوا یا مرزا قادیانی نے دین اسلام کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں کو بھی کافر قرار دے کر ان کی بیخ کنی کی؟
(۵)… کیامرزا قادیانی کے زمانے میں دجال معہود کا قتل ہوا؟
(۶)…کیامرزا قادیانی کے زمانے میں امن و امان ہوا ؟ یا خود وہ مقدمات کے لیے ٹھوکریں کھاتا رہا اور غیر مامون ہوا؟
(۷)… کیامرزا قادیانی کے زمانے میں شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف وخطر اکٹھے چرے؟
(۸)…حضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی نماز جنازہ مسلمان پڑھیں گئے کیا قادیانی کسی صحیح حدیث ، قد صلی علیہ المسلمون، کہ مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھ چکے دکھا سکتے ہیں؟
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی وفات ابھی نہیں ہوئی ۔ آسمان سے نزول کے بعد یہ سب باتیں ظاہر ہوں گی تب حضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہو گی۔
دوسری حدیث شریف
قَالَ الْحَسَنُ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ لِلْیَہُودِ:إِنَّ عِیسَی لَمْ یَمُتْ،وَإِنَّہُ رَاجِعٌ إِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مرسلا ًروایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے یہود سے ارشاد فرمایا کہ حضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام نے ابھی وفات نہیں پائی وہ قیامت کے قریب ضرور لوٹ کر آئیں گئے۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۵:۴۴۸)
(۱)…اب اس حدیث میں نہایت صراحت کے ساتھ یہ بیان ہے کہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ابھی نہیں ہوئی۔
(۲)…اس روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت سے قبل تم میں واپس لوٹیں گے۔
(۳)…کیا کسی روایت میں قادیانی یہ دکھا سکتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے سامنے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذکر ہو آپ ﷺنے اس کی تصدیق فرمائی ہو۔
(۴)… کیا قادیانی کسی حدیث میں انہ لا یرجع الیکم دکھا سکتے ہیں؟
(۵)…قادیانی عموما اس حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لیے قابل قبول نہیں ۔لیکن حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی مرسل حدیث پر وہی کلام کرے گا جس کو ان کے مرسل اقوال کا پورا علم نہیں۔ تہذیب الکمال میں مرقوم ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں جتنی احادیث میں قال رسول اللہﷺ کہوں اور صحابی کا نام نہ لوں سمجھ لو وہ حضرت سیدنامولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کیونکہ میں ایسے زمانے (یعنی حجاج)میں ہوں کہ حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ کانام نہیں لے سکتا۔
تیسری حدیث شریف
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ فِیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ فَأَمَّکُمْ مِنْکُمْ؟، فَقُلْتُ لِابْنِ أَبِی ذِئْبٍ:إِنَّ الْأَوْزَاعِیَّ، حَدَّثَنَا عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ نَافِعٍ،عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، وَإِمَامُکُمْ مِنْکُمْ قَالَ ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ:تَدْرِی مَا أَمَّکُمْ مِنْکُمْ؟ قُلْتُ:تُخْبِرُنِی،قَالَ:فَأَمَّکُمْ بِکِتَابِ رَبِّکُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالَی، وَسُنَّۃِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے اُتریں گے تم لوگوں میں پھر امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے(ابن ابی ذئب نے کہا جو(راوی حدیث ہیں)امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے مراد ہے کہ حضرت سیدنا عیسٰی علیہ السلام امامت کریں گے اللہ تعالی کی کتاب اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت سے (یعنی تابع ہوں گے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شریعت کے اور پیروی کریں گے قرآن و حدیث کی۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۱۳۵)
چوتھی حدیث شریف
قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ، أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ، یَقُولُ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی یُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِینَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، قَالَ:فَیَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَقُولُ أَمِیرُہُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا، فَیَقُولُ:لَا،إِنَّ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ أُمَرَاء ُ تَکْرِمَۃَ اللہِ ہَذِہِ الْأُمَّۃَ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو فرماتے ہوئے سناکہ ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا جہادکرتارہے گا ،حق پر قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا ۔پھر حضرت سیدناعیسٰی علیہ السلام اتریں گے اور اس گروہ کا امام کہے گا نماز پڑھایئے وہ کہیں گے تم میں سے ایک دوسرے پر حاکم رہیں ۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعا لٰی عنایت فرمائے گا اس امت کو۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۱۳۵)
پانچویں حدیث شریف
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،قَالَ:لَمَّا أُسْرِیَ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقِیَ إِبْرَاہِیمَ، وَمُوسَی، وَعِیسَی فَتَذَاکَرُوا السَّاعَۃَ فَبَدَء ُوا بِإِبْرَاہِیمَ فَسَأَلُوہُ عَنْہَا، فَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ مِنْہَا عِلْمٌ، ثُمَّ مُوسَی، فَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ مِنْہَا عِلْمٌ، فَتَرَاجَعُوا الْحَدِیثَ إِلَی عِیسَی،فَقَالَ عِیسی:عَہِدَ اللَّہُ إِلَیَّ فِیمَا دُونَ وَجْبَتِہَا فَلَا نَعْلَمُہَا، قَالَ: فَذَکَرَ مِنْ خُرُوجِ الدَّجَّالِ، فَأَہْبِطُ فَاقْتُلُہ۔ملخصاً۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے فرمایا: میں نے شب معراج میں حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام ، حضرت سیدناموسیٰ علیہ السلام ، اورحضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی تو وہ قیامت کے بارے میں باتیں کرنے لگے ۔ پس انہوں نے اس معاملہ میںحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام سے رجوع کیا ، حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں پھرحضرت سیدناموسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں پھر حضرت سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کیا تو انھوں نے فرمایا: جہاں تک وقت قیامت کا معاملہ ہے تو اس کا علم سوائے اللہ تعالی کے کسی کو نہیں یہ بات تو اتنی ہی ہے البتہ جو عہد پروردگا ر نے مجھ سے کیا ہے اس میں یہ ہے کہ دجال نکلے گا اور میرے پاس دو باریک سی نرم تلواریں ہوں گی پس وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ (سیسیہ)کی طرح پگھلنے لگے گا پس اللہ تعالی ا س کو ہلاک کر دے گا ۔ یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی کہیں گے کہ اے مرد مسلم !میرے نیچے کافر چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کردے چنا نچہ اللہ تعالی ان سب (کافروں)کو ہلاک کر دے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۷:۴۹۸)
اب ذرا اس حدیث کے نتائج پر ایک نظر ڈالیئے
(۱)… یہ واقعہ آسمانوں کا ہے اور تمام انبیا ء کرام علیہم السلام کی موجودگی میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قتل دجال کے لیے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر کر رہے ہیں ۔ کسی نبی نے ان پر نکیر نہ کی گویا انبیاء کرام علیہم السلام کا قرب قیامت نزول مسیح پر اجماع ثابت ہوا۔
(۲)… اس واقعہ کو حضورتاجدارختم نبوتﷺ بیان فرما تے ہیں۔(۳)… حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو وعدہ خداوندی فرماتے ہیں ۔(۴)… حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دجال سے لڑائی کے وقت میں پتھر اور ورخت کلام کریں گئے۔(۵)… دجال کے ساتھی جو جنگ میں شریک ہوں گے ہلاک ہو جائیں گے۔
اب قادیانی جواب دیں
(۱)… انبیاء علیہم السلام کے اجماع کا مرزا قادیانی اوراس کے متبعین منکر ہیں یا نہیں؟(۲)… جو شخص حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بیان کردہ واقعہ کو تسلیم نہ کرے وہ کون ہے؟۔(۳)… جو شخص اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا منکر ہو وہ کون ہے؟(۴)…مرزا کے زمانہ میں لڑائی ہوئی ؟(۵)… پتھر اور درختوں نے کلام کیا ؟(۶)…دجال کے ساتھی ہلاک ہوئے؟
چھٹی حدیث شریف
عَنِ ابْنِ المُسَیِّبِ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فِیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا، فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلَ الخِنْزِیرَ، وَیَضَعَ الجِزْیَۃَ، وَیَفِیضَ المَالُ حَتَّی لاَ یَقْبَلَہُ أَحَدٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدناسعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سناکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں ابن مریم حاکم عادل بن کر اتریں گے، پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے۔ملخصاً۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۳:۸۲)
منکر حیات و نزول مسیح کے بارے میں علمائے امت کی رائے
ہمارے ہاں قادیانی مسائل پر کی گئی پاکستان و ہندوستان کے جید علماء کی تحقیقات ہر دوسرے مذہب کے مسئلہ پر کی گئی تحقیقات سے زیادہ ہیں، ہزاروں علماء نے جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ ہرطرح کے قادیانی دلائل اور شبہات کے معقولی و منقولی انداز میں جوابات دے کر اپنے لیے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی شفاعت کا انتظام کیا ، ختم نبوت کے متعلق ایک ایک بات کو پرکھا ، تولا گیا، اس پر ہر رخ سے دلائل دیے گئے۔ ہزاروں صفحات کی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ مرزاغلام قادیانی چونکہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی حیات و نزول کا بھی منکر تھا اس لیے اس مسئلہ پر بھی پہلے سے کافی تحقیق موجود ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر ناصرف قرآنی دلائل کو جھٹلاتا ہے بلکہ متواتر احادیث کا بھی انکار کرتا ہے۔ برصغیر کے علماء نے قرآن کریم و سنت شریفہ کی روشنی میں حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے آسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کافر قرار دیا، اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور بڑے بڑے اجلہ عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی ۔ خطرہ کی بات یہ ہے کہ غامدی قادیانیوں، پرویزیوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی اپنی کم علمی، جدت پسندی اور تفرد کی وجہ سے نہ صرف خود کو کفر کے گڑھے کی طرف لے جاچکاہے اورساتھ ساتھ انگریزی تعلیم یافتہ لبر ل وسیکرلرطبقہ کی ایک بڑی اکثریت کو بھی اپنے ساتھ انکاردین کی طرف لے جاچکاہے۔