جہاد میں سستی اختیارکرناجائز نہیں ہے
{وَلَا تَہِنُوْا فِی ابْتِغَآء ِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْ لَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ وَکَانَ اللہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا }(۱۰۴)
ترجمہ کنزالایمان:اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو اگر تمہیں دکھ پہنچتا ہے تو انہیں بھی دکھ پہنچتا ہے جیسا تمہیں پہنچتا ہے اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور کافروں کو تلاش کرنے میں سستی نہ کرو ۔اگر تم کودکھ پہنچتا ہے توجیسے تم کو دکھ پہنچتا ہے ویسے ہی انہیں بھی دکھ پہنچتا ہے حالانکہ تم اللہ تعالی سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔ اور اللہ تعالی جاننے والا حکمت والا ہے۔
دشمن کی تلاش میں کمزوری نہ دکھاوٓ
عَنْ قَتَادَۃَ: (وَلَا تَہِنُوا فِی ابْتِغَاء ِ الْقَوْمِ إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ)(النساء :۱۰۴)مِنْہُمْ (فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمُونَ) (النساء :۱۰۴)یَقُولُ لَا تَضْعُفُوا فِی طَلَبِ الْقَوْمِ فَإِنَّکُمْ إِنْ تَکُونُوا تَیْجَعُونَ فَإِنَّہُمْ یَیْجَعُونَ کَمَا تَیْجَعُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّہِ مِنَ الْأَجْرِ وَالثَّوَابِ مَا لَا یَرْجُونَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دشمن کی تلاش میں کمزوری نہ دکھائو، اگرتم کو دکھ پہنچتاہے تودشمنوں کو بھی دکھ پہنچتاہے جس طرح تم کو دکھ پہنچتاہے ، تم اجروثواب کی امیدرکھتے ہوجبکہ وہ تواجروثواب کی بھی امیدنہیں رکھتے ۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۷:۴۵۳)
تم تواللہ تعالی سے کامیابی کی امیدرکھتے ہو!
مقاتل ابن حَیَّانَ قَوْلَہُ:وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّہِ یَعْنِی:أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، الْحَیَاۃَ وَالرِّزْقَ وَالشَّہَادَۃَ وَالظَّفَرَ فِی الدُّنْیَا.
ترجمہ :حضرت سیدنامقاتل بن حیان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ارشافرمایاکہ دشمن کی تلاش میں کمزوری نہ دکھائو، اگرتم کو دکھ پہنچتاہے تودشمنوں کو بھی دکھ پہنچتاہے جس طرح تم کو دکھ پہنچتاہے ،اے اصحاب محمد(ﷺ) تم تواللہ تعالی کی طرف سے دنیامیں زندگی ، رزق ، شہادت اورکامیابی کی امید بھی رکھتے ہو۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۴:۱۰۵۸)
امام الرازی رحمہ اللہ تعالی کازبردست کلام
اعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا ذَکَرَ بَعْضَ الْأَحْکَامِ الَّتِی یَحْتَاجُ الْمُجَاہِدُ إِلَی مَعْرِفَتِہَا عَادَ مَرَّۃً أُخْرَی إِلَی الْحَثِّ عَلَی الْجِہَادِ فَقَالَ وَلا تَہِنُوا أَیْ وَلَا تَضْعُفُوا وَلَا تَتَوَانَوْا فِی ابْتِغاء ِ الْقَوْمِ أَیْ فِی طَلَبِ الْکُفَّارِ بِالْقِتَالِ، ثُمَّ أَوْرَدَ الْحُجَّۃَ عَلَیْہِمْ فِی ذَلِکَ فَقَالَ:إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَما تَأْلَمُونَ وَالْمَعْنَی أَنَّ حُصُولَ الْأَلَمِ قَدْرٌ مُشْتَرَکٌ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ، فَلَمَّا لَمْ یَصِرْ خَوْفُ الْأَلَمِ مَانِعًا لَہُمْ عَنْ قِتَالِکُمْ فَکَیْفَ صَارَ مَانِعًا لَکُمْ عَنْ قِتَالِہِمْ، ثُمَّ زَادَ فِی تَقْرِیرِ الْحُجَّۃِ وَبَیَّنَ أَنَّ الْمُؤْمِنِینَ أَوْلَی بِالْمُصَابَرَۃِ عَلَی الْقِتَالِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ، لِأَنَّ الْمُؤْمِنِینَ مُقِرُّونَ بِالثَّوَابِ وَالْعِقَابِ وَالْحَشْرِ وَالنَّشْرِ، وَالْمُشْرِکِینَ لَا یُقِرُّونَ بِذَلِکَ، فَإِذَا کَانُوا مَعَ إِنْکَارِہِمُ الْحَشْرَ وَالنَّشْرَ یُجِدُّونَ فِی الْقِتَالِ فَأَنْتُمْ أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ الْمُقِرُّونَ بِأَنَّ لَکُمْ فِی ہَذَا الْجِہَادِ ثَوَابًا عَظِیمًا وَعَلَیْکُمْ فِی تَرْکِہِ عِقَابًا عَظِیمًا، أَوْلَی بِأَنْ تَکُونُوا مُجِدِّینَ فِی ہَذَا الْجِہَادِ، وَہُوَ الْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہِ تَعَالَی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّہِ مَا لَا یَرْجُونَ وَیَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنَّ یَکُونَ الْمُرَادُ مِنْ ہَذَا الرَّجَاء ِ مَا وَعَدَہُمُ اللَّہ تَعَالَی فِی قولہ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ (التوبۃ:۳۳)(الفتح: ۲۸)(الصف: ۹)وفی قولہ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللَّہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ (الْأَنْفَالِ:۶۴) وَفِیہِ وَجْہٌ ثَالِثٌ، وَہُوَ أَنَّکُمْ تَعْبُدُونَ الْإِلَہَ الْعَالِمَ الْقَادِرَ السَّمِیعَ الْبَصِیرَ فَیَصِحُّ مِنْکُمْ أَنْ تَرْجُوا ثَوَابَہُ، وَأَمَّا الْمُشْرِکُونَ فَإِنَّہُمْ یَعْبُدُونَ الْأَصْنَامَ وَہِیَ جَمَادَاتٌ،فَلَا یَصِحُّ مِنْہُمْ أَنْ یَرْجُوا مِنْ تِلْکَ الْأَصْنَامِ ثَوَابًا أَوْ یَخَافُوا مِنْہَا عِقَابًا. وَقَرَأَ الْأَعْرَجُ إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ بِفَتْحِ الْہَمْزَۃِ بِمَعْنَی: وَلَا تَہِنُوا لِأَنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ، وَقَوْلُہُ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَما تَأْلَمُونَ تَعْلِیلٌ.ثُمَّ قَالَ:وَکانَ اللَّہُ عَلِیماً حَکِیماً أَیْ لَا یُکَلِّفُکُمْ شَیْئًا وَلَا یَأْمُرُکُمْ وَلَا یَنْہَاکُمْ إِلَّا بِمَا ہُوَ عَالِمٌ بِأَنَّہُ سَبَبٌ لِصَلَاحِکُمْ فی دینکم ودنیاکم.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے کچھ احکامات ایسے ذکرفرمائے جن کی معرفت مجاہدین کے لئے ضروری تھی تواب اس آیت کریمہ سے پھرجہاد کی ترغیب دلائی جارہی ہے اوراللہ تعالی نے فرمایاکہ {وَلا تَہِنُوا }نہ تم کمزوری دکھائواورنہ ہی تم سستی کرو۔ یعنی قتال کے لئے کافروں کو تلاش کرنے میں ، پھراس بارے میں حجت واردکی توفرمایا: جب خوف ِ تکلیف ان کے لئے تمھارے قتال سے مانع نہیں ہے تویہ تمھارے لئے ان کفارسے قتال کے لئے کیسے مانع ہوسکتی ہے ۔
پھرحجت کی تفصیل میں اضافہ کرتے ہوئے واضح فرمایاکہ اہل ایمان مشرکین سے جنگ میں صبرکرنے والے بہترہیں کیونکہ اہل ایمان تورب تعالی کے عذاب اورحشرونشرکااقرارکرتے ہیں اورمشرکین اس کااقرارنہیں کرتے جب وہ حشرونشرسے انکارکرتے ہوئے قتال میں تیزی دکھاتے ہیں تواہل ایمان تم تواقرارکرتے ہواس جہاد میں تمھارے لئے عظیم ثواب اورترک جہاد میں عظیم عذاب ہے اس لئے جہاد میں بطریق اولی مشغول ہونے والے بنو!اس ارشادالہی {وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّہِ مَا لَا یَرْجُونَ }تم امیدرکھتے ہواللہ تعالی سے وہ امیدنہیں رکھتے ۔
اس سے یہی مراد ہے اوریہ بھی ممکن ہے کہ اس امیدسے اللہ تعالی کاوعدہ مراد ہوجس کاذکران ارشادات الہیہ میں ہے { لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہ}کہ اسے سب دینوں پرغالب کردے ۔ { یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللَّہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ}اے حبیب کریمیم ﷺ!اللہ تعالی آپ کو کافی ہے اورجتنے مسلمان آپ ﷺکے پیروکارہوئے۔
اس میں تیسری صورت بھی بن سکتی ہے کہ اہل ایمان تم جس خداتعالی کی عبادت کرتے ہوجوجاننے والاہے ، قدرت رکھنے والاہے ، سننے اوردیکھنے والاہے لھذاتمھارااس سے ثواب کی امیدکرنادرست ہے لیکن مشرکین توبتوں کی عبادت کرتے ہیںجوجمادات ہیں ،تومشرکین کاان بتوں سے اجروثواب کی امیدلگانااوران سے عذاب کی امیدرکھنادرست نہیں ہے ۔
الشیخ اعرج رحمہ اللہ تعالی نے { إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ}کوہمزہ کی زیرکے ساتھ پڑھاہے یعنی نہ سستی کیاکروکہیں تم تکلیف اٹھانے والے نہ بن جائوتواللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے{ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَما تَأْلَمُونَ}اگرتم کو دکھ پہنچتاہے توانہیں بھی دکھ پہنچتاہے ۔
اس کی علت ہے {وَکانَ اللَّہُ عَلِیماً حَکِیما}اوراللہ تعالی جاننے والاحکمت والاہے ۔
یعنی وہ تمھیں نہ کسی چیز کامکلف بناتاہے اورنہ ہی تم کو حکم دیتاہے اورنہ ہی منع کرتاہے مگراس چیز کاجس کے بارے میں وہ جانتاہے کہ یہ تمھارے دین اوردنیاکے لئے بہتری کاسبب ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۲۱۰)
اس آیت کریمہ کامصداق کون؟
قِیلَ: نَزَلَتْ فِی حَرْبِ أُحُدٍ حَیْثُ أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْخُرُوجِ فِی آثَارِ الْمُشْرِکِینَ،وَکَانَ بِالْمُسْلِمِینَ جِرَاحَاتٌ، وَکَانَ أَمَرَ أَلَّا یَخْرُجَ مَعَہُ إِلَّا مَنْ کَانَ فِی الْوَقْعَۃِ، کَمَا تَقَدَّمَ فِی (آلِ عِمْرَانَ)وَقِیلَ: ہَذَا فِی کُلِّ جِہَاد۔
ترجمہ :بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ غزوہ احدمیں نازل ہوئی جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے مشرکین کاپیچھاکرنے کاحکم دیا، جبکہ اہل اسلام کو زخم لگ چکے تھے ، یہ امرتھاکہ اس کے ساتھ صرف وہی نکلے جو غزوہ احد میں شریک ہواتھاجیساکہ سورۃ آل عمران میں بیان ہوااوربعض علماء کرام نے یہ بھی فرمایاہے کہ یہ آیت کریمہ ہرجہاد کے بارے میں ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۲۷۳)