مسلمان کی ہجرت سے کفارکاذلیل ورسواہونا
{وَمَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہ عَلَی اللہِ وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا }(۱۰۰)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کر نکلے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے نکلا اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتا پھر اسے موت نے آلیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور جوشخص اللہ تعالی کے راستے میں ہجرت کرے تو وہ زمین میں بہت جگہ اور گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ تعالی و حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلا پھر اسے موت آگئی تو اس کا ثواب اللہ تعالی کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ تعالی بخشنے والا، مہربان ہے۔
شان نزول
عَنْ عِکْرِمَۃَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:خَرَجَ ضَمْرَۃُ بْنُ جُنْدُبٍ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا فَقَالَ لِأَہْلِہِ:احْمِلُونی فَأَخْرِجُونی مِنْ أَرْضِ الْمُشْرِکِینَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،قَالَ:فَمَاتَ فِی الطَّرِیقِ قَبْلَ أَنْ یَصِلْ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:فَنَزَلَ الْوَحْیُ (وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللہِ وَرَسُولِہِ)(النساء : ۱۰۰)حَتَّی بَلَغَ وَکَانَ (اللہُ غَفُورًا رَحِیمًا)۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ حضرت سیدناضمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اپنے گھرسے ہجرت کرتے ہوئے نکلے اورانہوںنے اپنے گھروالوں سے کہاکہ مجھے اٹھائواورمشرکین کے علاقہ سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس لے چلو۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں پہنچنے سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی تواللہ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (ا۱:۲۷۲)
حضرت سیدناضمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کاوقت وصال
رُوِیَ فی قصۃ جُنْدَبِ بْنِ ضَمْرَۃَ، أَنَّہُ لَمَّا قَرُبَ مَوْتُہُ أَخَذَ یُصَفِّقُ بِیَمِینِہِ عَلَی شِمَالِہِ، وَیَقُولُ: اللَّہُمَّ ہَذِہِ لَکَ، وَہَذِہِ لِرَسُولِکَ أُبَایِعُکَ عَلَی مَا بَایَعَکَ عَلَیْہِ رَسُولُکَ، ثُمَّ مَاتَ فَبَلَغَ خَبَرُہُ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: لَوْ تُوُفِّیَ بِالْمَدِینَۃِ لَکَانَ خَیْرًا لَہُ، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ.
ترجمہ :حضرت سیدناضمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے وصال شریف کاوقت قریب آیاتو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنادایاںہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پررکھااوراللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں عرض کی: یااللہ !یہ ہاتھ تیرے لئے ہے اوریہ ہاتھ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاہے اورمیں تیری بیعت کرتاہوں اس پرجس پرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے بیعت لی ، اس کے بعد ان کاوصال شریف ہوگیا۔ جب یہ خبرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک پہنچی تووہ کہنے لگے کہ کاش وہ مدینہ منورہ پہنچ پاتے توان کے لئے بہترہوتاتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۱۹۸)
اسلام قبول کرنااپنی قوم سے دشمنی کرناہے
إِنَّمَا سُمِّیَ مُہَاجَرًا وَمُرَاغَمًا لِأَنَّ الرَّجُلَ کَانَ إِذَا أَسْلَمَ عَادَی قَوْمَہُ وَہَجَرَہُمْ،فَسُمِّیَ خُرُوجُہُ مُرَاغَمًا، وَسُمِّیَ مَصِیرُہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہِجْرَۃً.
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہجرت گاہ کو مہاجراورمراغم اس لئے کہاجاتاہے کیونکہ جب کوئی آدمی اسلام قبول کرتاہے تواپنی قوم سے دشمنی کرتاہے اورانہیں چھوڑدیتاہے ، اس کے نکلنے کو مراغماًکہتے ہیں ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف نکلنے کو ہجرت کہتے ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۵:۳۴۷)
مسلمان کی ہجرت سے کافرکی ذلت کیسے ؟
وَہُوَ أَنْ یَکُونَ الْمَعْنَی:وَمَنْ یُہَاجِرْ فِی سَبِیلِ اللَّہ إِلَی بَلَدٍ آخَرَ یَجِدْ فِی أَرْضِ ذَلِکَ الْبَلَدِ مِنَ الْخَیْرِ وَالنِّعْمَۃِ مَا یَکُونُ سَبَبًا لِرَغْمِ أَنْفِ أَعْدَائِہِ الَّذِینَ کَانُوا مَعَہُ فِی بَلْدَتِہِ الْأَصْلِیَّۃِ وَذَلِکَ لِأَنَّ مَنْ فارق وذہب إلی بلدۃ أجنبیۃ فإذا اسْتَقَامَ أَمْرُہُ فِی تِلْکَ الْبَلْدَۃِ الْأَجْنَبِیَّۃِ، وَوَصَلَ ذَلِکَ الْخَبَرُ إِلَی أَہْلِ بَلْدَتِہِ خَجِلُوا مِنْ سُوء ِ مُعَامَلَتِہِمْ مَعَہُ،وَرَغِمَتْ أُنُوفُہُمْ بِسَبَبِ ذَلِکَ، وَحَمْلُ اللَّفْظِ عَلَی ہَذَا أَقْرَبُ مِنْ حَمْلِہِ عَلَی مَا قَالُوہُ واللَّہ أَعْلَمُ. وَالْحَاصِلُ کَأَنَّہُ قِیلَ:یَا أَیُّہَا الْإِنْسَانُ إِنَّکَ کُنْتَ إِنَّمَا تَکْرَہُ الْہِجْرَۃَ عَنْ وَطَنِکَ خَوْفًا مِنْ أَنْ تَقَعَ فِی الْمَشَقَّۃِ وَالْمِحْنَۃِ فِی السَّفَرِ، فَلَا تَخَفْ فَإِنَّ اللَّہ تَعَالَی یُعْطِیکَ مِنَ النِّعَمِ الْجَلِیلَۃِ وَالْمَرَاتِبِ الْعَظِیمَۃِ فِی مُہَاجَرَتِکَ مَا یَصِیرُ سَبَبًا لِرَغْمِ أُنُوفِ أَعْدَائِکَ،وَیَکُونُ سَبَبًا لِسَعَۃِ عَیْشِکَ، وَإِنَّمَا قَدَّمَ فِی الْآیَۃِ ذِکْرَ رَغْمِ الْأَعْدَاء ِ عَلَی ذِکْرِ سَعَۃِ الْعَیْشِ لِأَنَّ ابْتِہَاجَ الْإِنْسَانِ الَّذِی یُہَاجِرُ عَنْ أَہْلِہِ وَبَلَدِہِ بِسَبَبِ شِدَّۃِ ظُلْمِہِمْ عَلَیْہِ بِدَوْلَتِہِ مِنْ حَیْثُ إِنَّہَا تَصِیرُ سَبَبًا لِرَغْمِ أُنُوفِ الْأَعْدَاء ِ، أَشَدُّ مِنَ ابْتِہَاجِہِ بِتِلْکَ الدَّوْلَۃِ مِنْ حَیْثُ إِنَّہَا صَارَتْ سَبَبًا لِسَعَۃِ الْعَیْشِ عَلَیْہِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس آیت کریمہ کامعنی ایک اوربھی ہوسکتاہے اوروہ یہ کہ وہ لوگ جو اللہ تعالی کے راستے میں کسی دوسرے شہرکی طرف نکلتے ہیں ، وہ وہاں ایسی خیرونعمت پاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے وہ دشمن ذلیل ورسواہوجاتے ہیں ، وہ اپنے اصل وطن میں ہی رہے ، اسلئے کہ جولوگ اپنے شہرسے کسی اجنبی شہرمیں چلے جاتے ہیںتوجب دوسرے شہرمیں بھی ان کے لئے حالات سازگارہوجائیں توان کی اس اچھی حالت کی خبران کے شہرپہنچے تودشمن ان کے ساتھ کی گئی برائی پرشرمندہ ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کی ناک خاک آلودہ ہوجاتی ہے ، الفاظ آیت کااس معنی پرمحمول کرنادیگرکے بیان کردہ معنی سے اقرب ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ گویافرمایاجارہاہے کہ اے انسان تواپنے وطن سے ہجرت اس خوف پرناپسندکررہاتھاکہ کی کسی مشقت اورپریشانی میں نہ پڑجائوں ، یہ خوف ختم کرکیونکہ اللہ تعالی تمھیں عظیم نعمتیں اورعظیم مراتب ہجرت کی جگہ پربھی دے گاجوتیرے دشمنوں کے ناک کو خاک آلودہ کردیں گے اورتیری زندگی کو خوشحال زندگی کاسبب بنادیں گے ، اس آیت کریمہ میں دشمنوں کاذلیل ہونا، آسان زندگی کے ذکرسے اس لئے مقدم کیاکہ انسان اپنے اہل اورشہرسے ہجرت کرتاہے کیونکہ اس پرشدیدظلم وستم ہوتاہے تووہ دشمنوں کے ذلیل ہونے پراس سے زیادہ شدیدہوتاہے کہ وہ خوشحالی پائے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۱۹۸)
اہل اسلام مشرکین کی ناک کیسے خاک آلود کرتے تھے؟
وَہُوَ أَنْ یُرْغِمَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الْمُتَنَازِعَیْنِ أَنْفَ صَاحِبِہِ بِأَنْ یَغْلِبَہُ عَلَی مُرَادِہِ، فَکَأَنَّ کُفَّارَ قُرَیْشٍ أَرْغَمُوا أُنُوفَ الْمَحْبُوسِینَ بِمَکَّۃَ، فَلَوْ ہَاجَرَ مِنْہُمْ مُہَاجِرٌ لَأَرْغَمَ أُنُوفَ قُرَیْشٍ لِحُصُولِہِ فِی مَنَعَۃٍ مِنْہُم۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہردوجھگڑنے والے اپنے مخالف کی ناک کو خاک آلود کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنی مراد کے سلسلے میں مغلوب کردیتاہے ، کفارقریش گویااہل اسلام کی ناکوں کو خاک آلودکئے ہوئے تھے،پھراگران میں سے کوئی ہجرت کرتاتووہ قریش کی ناک کو خاک آلود کردیتاکیونکہ وہ ان کے مخالف ہوجاتاتھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۵:۳۴۷)
عمل پورانہیں ہوامگراجرکامل کامل عطاہوا
وَاعْلَمْ أَنَّ الْقَوْلَ الْأَوَّلَ أَوْلَی لِأَنَّہُ تَعَالَی إِنَّمَا ذَکَرَ ہذہ الآیۃ ہاہنا فِی مَعْرِضِ التَّرْغِیبِ فی الْجِہَادِ، وَہُوَ أَنَّ مَنْ خَرَجَ إِلَی السَّفَرِ لِأَجْلِ الرَّغْبَۃِ فِی الْہِجْرَۃِ، فَقَدْ وَجَدَ ثَوَابَ الْہِجْرَۃِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پہلاقول زیادہ بہترہے کیونکہ اس سے پورے عمل کااجرملے گاکیونکہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ کو ترغیب جہاد کے ضمن میں ذکرکیاہے اورہجرت اورجہاد کی یہ ترغیب تب ہوگی جب راستے میں مرنے والے کے لئے بھی اس عمل کے پورے اجرکااعلان ہوگا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۱۹۸)
فقہاء اہل مدینہ کامذہب
واحتج أہل المدینۃ بالآیۃ علی أن الغازی إذا مات فی الطریق وجب سہمہ فی الغنیمۃ۔
ترجمہ :مدینہ منورہ کے فقہاء کرام اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیںکہ جب غازی جہاد پرجاتے ہوئے راستے میں ہی انتقال کرجائے تواس جنگ کے مال غنیمت میں سے اسے حصہ ملے گایعنی اس کے ورثاء کو ۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی ۳:۱۲۴)
جہاں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیاںہوں یاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں ہوں وہاں اقامت اختیارکرنامنع ہے
جہاں سلف وصالحین کی گستاخیاں ہوں ؟
قَالَ مَالِکٌ:ہَذِہِ الْآیَۃُ دَالَّۃٌ عَلَی أَنَّہُ لَیْسَ لِأَحَدٍ الْمُقَامُ بِأَرْضٍ یُسَبُّ فِیہَا السَّلَفُ وَیُعْمَلُ فِیہَا بِغَیْرِ الْحَقِّ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی کے لئے وہاں ٹھہرناجائز نہیں ہے جہاں سلف صالحین کو گالیاں دی جاتی ہوں اورناجائز کام کیے جاتے ہوں۔
(الہدایۃ إلی بلوغ النہایۃ:أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش بن محمد بن مختار المالکی (۲:۱۴۴۳)
امام ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کاتائیدی کلام
قَالَ ابْنُ الْعَرَبِیِّ:وَہَذَا صَحِیحٌ، فَإِنَّ الْمُنْکَرَ إِذَا لَمْ تَقْدِرْ أَنْ تُغَیِّرَہُ فَزُلْ عَنْہُ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی:(وَإِذا رَأَیْتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فِی آیاتِنا فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابن العربی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہی قول صحیح ہے کیونکہ جب تم کو گستاخوں کو روکنے کی طاقت نہ ہوتوپھرتم پرلازم ہے کہ تم وہاں سے نکل جائوکیونکہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے کہ جب تم دیکھوکہ میری آیتوں کامذاق اڑارہے ہیں توتم ان سے منہ پھیرلو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۳۵۰)
گستاخوں کے شہرمیں اقامت اختیارکرناحرام ہے
ومن أجل ذلک أفتی الأئمۃ بتحریم الإقامۃ فی بلد یسب فیہ أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم .
ترجمہ
اوراسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فتوی شریفہ جاری فرمایاکہ جہاں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں ہوتی ہوں وہاں رہناحرام ہے ۔
جس کسی جگہ گستاخوں کودیکھتے تو۔۔
قَالَ یَحْیَی بنُ یَمَانٍ: سَمِعْتُ سُفْیَانَ یَقُوْلُ:إِنِّیْ لأَرَی المُنْکَرَ فَلاَ أَتکلَّمُ فَأَبُولُ أَکدمَ دَماً.
ترجمہ :امام یحیی ابن یمان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناسفیان ثوری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ میں جب بھی کہیں کسی گستاخ کو گستاخی کرتے ہوئے سنتاہوں تواگروہاں نہ بول سکوں تومجھے پیشاب کی جگہ خون آنے لگتاہے ۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۶:۶۴۱)
ذہن میں رہے کہ ہم نے یہاں المنکرکاترجمہ گستاخی اس لئے کیاہے کہ حضرت سیدناامام الذہبی رحمہ اللہ تعالی نے اس کلام کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کادفاع کرتے ہوئے نقل کیاہے ۔
گستاخوں کے علاقہ میں جانامنع ہے
قُلْتُ: أَکْثَرُ أَئِمَّۃِ السَّلَفِ عَلَی ہَذَا التَّحذِیرِ یَرَوْنَ أَنَّ القُلُوْبَ ضَعِیْفَۃٌ،وَالشُّبَہُ خَطَّافَۃٌ.
ترجمہ :امام شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی المتوفی : ۷۴۸ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے اکثرائمہ کرام نے اس سے بات سے سختی سے ڈرایاہے کہ جہاں دشمنان دین اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ رہتے ہوں وہاں نہ جائوکیونکہ دل کمزورہوگئے ہیں اورشبہات اچکنے والے ہیں۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۶:۶۴۱)
جس نے اپنے کان کسی گستاخ کی بات کی طرف متوجہ کئے۔
قَالَ عَطَاء ُ بنُ مُسْلِمٍ:قَالَ لِی الثَّوْرِیُّ:إِذَا کُنْتَ بِالشَّامِ فَاذْکُرْ مَنَاقِبَ عَلِیٍّ،وَإِذَا کُنْتَ بِالکُوْفَۃِ فَاذْکُرْ مَنَاقِبَ أَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَوَعَنْہُ:مَنْ أَصْغَی بِسَمْعِہِ إِلَی صَاحِبِ بِدْعَۃٍ،وَہُوَ یَعْلَمُ خَرَجَ مِنْ عِصمَۃِ اللہِ، وَوُکِلَ إلی نفسہ، وعنہ:من یسمع بِبِدْعَۃٍ فَلاَ یَحْکِہَا لِجُلَسَائِہِ لاَ یُلقِہَا فِی قُلُوْبِہِم.
ترجمہ :حضرت سیدناامام عطابن مسلم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدناسفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب توشام جائے تووہاں حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرنااورجب توکوفہ جائے توہاں حضرت سیدناابوبکرصدیق اورحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہماکے مناقب بیا ن کرنا۔
اورآپ رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان کیاکرتے تھے کہ جس شخص نے اپنے کان کسی گستاخ کی بات سننے کی طرف متوجہ کردیئے تووہ شخص اللہ تعالی کی حفاظت سے نکل جاتاہے اوراسے اس کی ذات کے ہی سپردکردیاجاتاہے اورآپ رضی اللہ عنہ بھی یہ فرمایاکرتے تھے کہ جب کوئی شخص کسی گستاخ کی بات سن لے تواسے اپنے دوستوں کے سامنے بیان نہ کرے اورنہ ہی ان کے دل میں یہ بات ڈالے (کیونکہ اس طرح وہ بات ان کے دل میں گھرکرجائے گی) ۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۶:۶۴۱)
یہ اس لئے کہ فرمایاکہ شام جاکرحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرناکیونکہ وہاں لوگ مولاعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کرنے والے نہ تھے اس لئے فرمایااورکوفے میں حضرت سیدناابوبکروعمررضی اللہ عنہماکے ساتھ محبت کرنے والے نہ تھے اس لئے فرمایاکہ جہاں جہاں جس کے محبت کرنے والے نہ ہوں وہاں تم ان کی عظمت وشان کو بیان کرنا۔
ہمارے اسلاف کاحکم ہے
کَانَ السَّلَفُ یَنْہَوْنَ عَنْ مُجَالَسَۃِ أَہْلِ الْبِدَعِ وَالنَّظَرِ فِی کُتُبِہِمْ وَالِاسْتِمَاعِ لِکَلَامِہِمْ۔
ترجمہ :محمد بن مفلح بن محمد بن مفرج، أبو عبد اللہ، شمس الدین المقدسی المتوفی :۷۶۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلاف ہمیں منع کرتے تھے کہ ہم کسی بدمذہب کی مجلس میں بیٹھیں یاان کی کتابوں کو پڑھیں یاان کاکلام سنیں۔
(الآداب الشرعیۃ :محمد بن مفلح بن محمد بن مفرج، أبو عبد اللہ، شمس الدین المقدسی(۱:۲۳۲)
امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ یہودونصاری کودیکھ کرآنکھیں بندکرلیاکرتے تھے
وَرُوِیَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ:أَنَّہُ کَانَ إذَا رَأَی یَہُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا غَمَّضَ عَیْنَیْہِ وَیَقُولُ:لَا تَأْخُذُوا عَنِّی ہَذَا فَإِنِّی لَمْ أَجِدْہُ عَنْ أَحَدٍ مِمَّنْ تَقَدَّمَ وَلَکِنِّی لَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَرَی مَنْ کَذَبَ عَلَی اللَّہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کی جب بھی نگاہ کسی یہودی یاعیسائی پرپڑتی توآپ رضی اللہ عنہ اپنی نگاہیں جھکالیتے تھے اورفرماتے تھے کہ کوئی بھی شخص میرے اس عمل پرمیرامواخذہ نہ کرے اوریہ نہ کہے کہ ہم نے اسلاف میں سے توکسی کو ایساعمل کرتے ہوئے نہیں دیکھاتوآپ کیوں کررہے ہیں؟ تواس کے لئے میراجواب یہ ہے کہ ہمارے اسلاف بڑے تھے رہی میری بات تومجھ میں اتنی قدرت نہیں ہے کہ میں کسی ایسے بندے کو دیکھوںجو اللہ تعالی کوجھوٹاکہتاہے ۔
(کشاف القناع عن متن الإقناع:منصور بن یونس البہوتی الحنبلی (۳:۱۳۱)
گستاخوں کے علاقہ کی طرف سفرکرناحرام ہے
(وَتُکْرَہُ التِّجَارَۃُ وَالسَّفَرُ إلَی أَرْضِ الْعَدُوِّ وَبِلَادِ الْکُفْرِ مُطْلَقًا)مَعَ الْأَمْنِ وَالْخَوْفِ (وَإِلَی بِلَادِ الْخَوَارِجِ وَالْبُغَاۃِ وَالرَّوَافِضِ،وَالْبِدَعِ الْمُضِلَّۃِ وَنَحْوِ ذَلِکَ) لِأَنَّ الْہِجْرَۃَ مِنْہَاأَنْ لَوْ کَانَ فِیہَا مُسْتَحَبَّۃٌ إنْ قَدَرَ عَلَی إظْہَارِ دِینِہِ (وَإِنْ عَجَزَ عَنْ إظْہَارِ دِینِہِ فِیہَا فَحَرَامٌ سَفَرُہُ إلَیْہَا) لِأَنَّہُ تَعَرَّضَ بِنَفْسِہِ إلَی الْمَعْصِیَۃِ.
ترجمہ :امام منصور بن یونس البہوتی الحنبلی المتوفی :۱۰۵۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دشمن کے شہرکی طرف سفرپرجانااوراس میں تجارت کے لئے جانامکروہ ہے چاہے امن ہویاخوف اوراسی طرح خوارج اورباغیوں اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کے علاقے میں جانابھی مکروہ ہے اورایسے بے دین گمراہوں کے علاقہ میں جانابھی منع ہے ، اس لئے کہ ایسے علاقہ سے ہجرت کرنامستحب ہے اگراسے قدرت ہوکہ وہ ان گستاخوں کو خاموش کروالے گااوراگروہ اس بات پرقدرت نہیں رکھتاتوپھراس کے لئے رہاں رہناہی حرام ہے اوراس کی طرف سفرکرنابھی حرام ہے ۔
(کشاف القناع عن متن الإقناع:منصور بن یونس البہوتی الحنبلی (۳:۱۳۱)
امام ابوالولیدرحمہ اللہ تعالی کاقول
فإذا وجب بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ علی من أسلم ببلد الحرب أن یہاجر ویلحق بدار المسلمین ولا یثوی بین المشرکین ویقیم بین أظہرہم، لئلا تجری علیہ أحکامہم، فکیف یباح لأحد الدخول إلی بلادہم،حیث تجری علیہ أحکامہم فی تجارۃ أو غیرہا۔
ترجمہ :أبو الولید محمد بن أحمد بن رشد القرطبی المتوفی : ۵۲۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب یہ کتاب وسنت اوراجماع امت کی روسے واجب ہے کہ جو شخص دارالحرب میں اسلام قبول کرے تووہ وہاں نہ رہے بلکہ اس شہرکی طرف ہجرت کرے جہاں اہل اسلام آبادہیں اوراس کو قطعاًاس بات کی اجاز ت نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے درمیان رہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ مشرکین اپنے کفریہ اورشرکیہ احکامات اس پرنہ جاری کردیں توپھراس کے لئے کیسے جائز ہوسکتاہے کہ جو اہل اسلام کے شہروں میں قیام پذیرہواورمشرکین اورکافروں کے علاقہ میں جائے تجارت یاکسی اورغرض سے ۔
(المقدمات الممہدات:أبو الولید محمد بن أحمد بن رشد القرطبی(۲:۱۵۳)
میں ایسے شہرمیں نہیں رہ سکتاجہاں صحابہ کرام کی گستاخیاں ہوں
الإِمَام أَبُو الْخَیْر الطَّالقَانِی الشَّافِعِی ۔۔۔۔ثمَّ إِنَّہ ترک بغداذ وَعَاد إِلَی قزوین فَقَالَ لَہُ بعض أَصْحَابہ مُنْکرا توجہہ من بغداذ مَعَ الوجاہۃ الَّتِی لَہُ فِیہَا فَقَالَ معَاذ اللہ أَن أسکن فِی بلد یسب فِیہِ أَصْحَاب رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم۔
ترجمہ :امام اأَبُو الْخَیْر الطَّالقَانِی الشَّافِعِی رحمہ اللہ تعالی نے بغدادمیں قیام کوترک کردیااورقزوین واپس آئے توان کے دوستوں نے بڑے تعجب سے پوچھاکہ آپ نے بغدادکوکیوں چھوڑدیاتورحمہ اللہ تعالی نے فرمایانعوذباللہ من ذلک( میں اللہ تعالی کی پناہ چاہتاہوں کہ ایسے شہرمیں رہوں جہاں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوگالیا ں دی جائیں ۔
(الوافی بالوفیات:صلاح الدین خلیل بن أیبک بن عبد اللہ الصفدی (۶:۱۵۹)
دوصحابہ کرام رضی اللہ عنہماکاگستاخوں کے علاقے سے ہجرت کرنا
وقال ابودائودخرج جریرالبجلی رضی اللہ عنہ من الکوفۃ عندفتنۃ علی فنزل قرقیسیاوعدی بن حاتم رضی اللہ عنہمامن الکوفۃ لماقتل عثمان بن عفان وقالالانقیم ببلدیسب فیہ عثمان رضی اللہ عنہ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابودائودرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناجریرالبجلی رضی اللہ عنہ نے فتنہ کے وقت کوفہ چھوڑدیااورقرقیسیامیں رہائش اختیارکرلی اورحضرت سیدناعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بھی کوفہ چھوڑدیاجب حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو شہیدکیاگیااوردونوں نے کوفہ چھوڑتے ہوئے ایک ہی بات کی تھی کہ ہم ایسے شہرمیں نہیں رہ سکتے جہاں حضرت سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی جائیں۔
(جامع الجرح والتعدیل :محمود محمدخلیل الصعیدی (۲:۱۹۴)
بنوالارقم رضی اللہ عنہم کاشہرکوفہ کوترک کوچھوڑنا
فَقَالَ بَنُو الْأَرْقَمِ: لَا نُقِیمُ بِبَلَدٍ یُشْتَمُ فِیہِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَخَرَجُوا إِلَی الْجَزِیرَۃِ، إِلَی الرَّہَا۔
ترجمہ :امام ابن سعد المتوفی :۲۳۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرات بنوالارقم رضی اللہ عنہم نے فرمایاکہ ہم کوفہ نہیں رہ سکتے کیونکہ یہاں حضرت سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی جاتی ہیں اورپھروہاں سے نکل کرانہوں نے جزیرہ اورالرہاکی طرف رہائش اختیارکرلی۔
(طبقات ابن سعد:أبو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع البغدادی المعروف بابن سعد (ا:۶۹۵)
یہ ذہن میں رہے کہ جو لوگ حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل تھے وہی ان کے گستاخ تھے ۔
حضرت سیدناحنظلہ رضی اللہ عنہ کاکوفہ کی رہائش ترک کرنا
خَرَجَ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ وَجَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ وَحَنْظَلَۃُ الْکَاتِبُ مِنَ الْکُوفَۃِ، فَنَزَلُوا قِرْقِیسِیَا وَقَالُوا:لا نُقِیمُ بِبَلَدٍ یُشْتَمُ فِیہِ عُثْمَانُ قال ابن ثابت:قال لی محمد بن علی الصوری:أنا رأیت قبورہم بقرقیسیاء .
ترجمہ :امام جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی : ۵۹۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناجریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناحنظلہ رضی اللہ عنہ جوکہ کاتب وحی تھے انہوںنے کوفہ کو چھوڑکرقرقیسیامیں رہائش رکھ لی تھی اورانہوںنے فرمایاتھاکہ ہم ایسے شہرمیں کبھی بھی نہیں رہیں گے جہاں حضرت سیدناعثمان بن عفا ن رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی جائیں اورابن ثابت رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مجھے محمدبن علی الصوری رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاکہ میں نے ان تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مزارات عالیہ کی قرقیسیامیں زیارت کی ہے ۔
(المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک: جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (۶:۷۹)
حضرت سیدناحنظلہ رضی اللہ عنہ کاتعارف
حنظلۃ الکاتب:کتب للنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مرۃ کتاباً، فمسی بذلک وقیل:إنہ سمی الکاتب لأنہ کتب للنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الوحی۔
ترجمہ :امام ابن عساکررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناحنظلہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاخط لکھاتھا، اس وجہ سے ان کانام کاتب رکھاگیاتھا۔اوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی وحی لکھاکرتے تھے۔
(مختصر تاریخ دمشق : أبو الفضل، جمال الدین ابن منظور الإفریقی( ۷:۲۸۲)