اہل ایمان اورکفاردونوں کے ساتھ بناکررکھنامنافقین کاشیوہ ہے
{سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْکُمْ وَیَاْمَنُوْا قَوْمَہُمْ کُلَّمَا رُدُّوْٓا اِلَی الْفِتْنَۃِ اُرْکِسُوْا فِیْہَا فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْکُمْ وَیُلْقُوْٓا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَیَکُفُّوْٓا اَیْدِیَہُمْ فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاُولٰٓئِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا}(۹۱)
ترجمہ کنزالایمان: اب کچھ اور تم ایسے پاؤ گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امان میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امان میں رہیں جب کبھی ان کی قوم انہیں فساد کی طرف پھیرے تو اس پر اوندھے گرتے ہیں پھر اگر وہ تم سے کنارہ نہ کریں اور صلح کی گردن نہ ڈالیں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور یہ ہیں جن پر ہم نے تمہیں صریح اختیار دیا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اب تم کچھ دوسرے لوگوں کو پائوگے جو یہ چاہتے ہیں کہ وہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں جب کبھی انہیں فتنے کی طرف پھیرا جاتا ہے تو اس میں اوندھے جاپڑتے ہیں۔ پھر اگر وہ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تمہارے ساتھ صلح نہ کریں اور اپنے ہاتھ تم سے لڑنے سے نہ روکیں تو تم انہیں پکڑ لو اور جہاں پائوانہیں قتل کردو اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہم نے تمہیں صریح اختیارعطافرما دیا ہے۔
شان نزول
عَنْ مُجَاہِدٍ:(یُرِیدُونَ أَنْ یَأْمَنُوکُمْ وَیَأْمَنُواقَوْمَہُمْ)(النساء :۹۱)قَالَ نَاسٌ کَانُوا یَأْتُونَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیُسْلِمُونَ رِیَاء ً ثُمَّ یَرْجِعُونَ إِلَی قُرَیْشٍ فَیَرْتَکِسُونَ فِی الْأَوْثَانِ یَبْتَغُونَ بِذَلِکَ أَنْ یَأْمَنُوا ہَہُنَا وَہَہُنَا فَأَمَرَ بِقِتَالِہِمْ إِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوا وَیُصْلِحُوا۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مجاہدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ عالیہ میں حاضرہوتے اوردکھاوے کااسلام قبول کرتے اورپھرقریش کی طرف پلٹ جاتے اوروہاں جاکربتوں کی عبادت کرناشروع کردیتے تھے ، اس طریقے سے وہ یہ خواہش کرتے کہ یہاں بھی امن سے رہیں اوروہاں بھی امن سے رہیںتواللہ تعالی نے اہل ایمان کو حکم دیاکہ اگروہ الگ تھلگ نہ رہیں اورمسلمانوں سے مصالحت نہ کریںتوان کے ساتھ جنگ کرو۔
(تفسیر الطبری:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۷:۳۰۱)
فتنے میں کیسے مبتلاء ہوتے تھے؟
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:(سَتَجِدُونَ آخَرِینَ یُرِیدُونَ أَنْ یَأْمَنُوکُمْ وَیَأْمَنُوا قَوْمَہُمْ کُلَّمَا رُدُّوا إِلَی الْفِتْنَۃِ أُرْکِسُوا فِیہَا) یَقُولُ:کُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ یَخْرُجُوا مِنْ فِتْنَۃٍ أُرْکِسُوا فِیہَاوَذَلِکَ أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ یُوجَدُ قَدْ تَکَلَّمَ بِالْإِسْلَامِ ,فَیُقَرَّبُ إِلَی الْعُودِ وَالْحَجَرِ وَإِلَی الْعَقْرَبِ وَالْخُنْفِسَاء ِ فَیَقُولُ الْمُشْرِکُونَ لِذَلِکَ الْمُتَکَلِّمِ بِالْإِسْلَامِ:قُلْ ہَذَا رَبِّی لِلْخُنْفِسَاء ِ وَالْعَقْرَبِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ وہ جب بھی فتنے سے نکلنے کاارادہ کرتے ہیں تو اس میں الٹے منہ گرپڑتے ہیں ، اس کی یہ صورت ہوتی کہ ایک آدمی اسلام قبول کرنے کادعوی کرتا، پھرمکڑی ، پتھر، مچھراورگبریلاکودیکھتے تومشرک اس مسلمان کوکہتے کہ تم کہوکہ یہ مچھراورگبریلامیرارب ہے ۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۲:۶۱۴)
معارف ومسائل
(۱) مومن وکفاردونوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرنادو نوںطرف ملتے جلتے رہنامنافقت ہے اورایساشخص منافق ہے اوریہ سب کے لئے خطرناک ہے ۔
(۲) منافق سے اگرکوئی علامت کفرپائی جائے خصوصاًجہاد میں کفارکی مددکرنااوراہل اسلام کی مخالفت کرناتوایسے شخص کاقتل کرناجائز ہے کہ اب وہ کھلاکافراورمرتدہوگیاہے جیساکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔
(۳) اس آیت کریمہ نے ان تمام آیات کریمہ کو منسوخ فرمادیاجن میں کفارسے نرمی ، چشم پوشی اوربے توجہی کرلینے کاحکم تھا، یہ آیت کریمہ محکم ہے اورتاقیامت اس پر عمل ہوگا۔جواسے ناقابل عمل مانے اورجہاد کو منسوخ مانے وہ کافرہے ۔ جہاد اسلامی کادائمی حکم ہے ، یہ فائدہ بھی اسی آیت کریمہ سے حاصل ہوا۔
(۴) حربی کفاراورمنافقین کواولاًسمجھانابلکہ ان کو سنبھل جانے کاموقع دینابہترہے تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم کو درست ہوجانے کاموقع نہ دیاگیا۔ یہ بھی آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔ (تفسیرنعیمی ( ۵:۲۹۵)