تفسیر سورہ النساء آیت ۱۵۹۔ وَ اِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا

یہودونصاری کو مرتے ہوئے ایمان نفع نہ دے گا

{وَ اِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا }(۱۵۹)
ترجمہ کنزالایمان:کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔
ترجمہ ضیاء الایمان: کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔

ہریہودی ونصرانی مرتے ہوئے کلمہ پڑھنے لگتاہے

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَالْحَسَنُ وَمُجَاہِدٌ وَعِکْرِمَۃُ:الْمَعْنَی لَیُؤْمِنَنَّ بِالْمَسِیحِ قَبْلَ مَوْتِہِ أَیِ الْکِتَابِیِّ، فَالْہَاء ُ الْأُولَی عَائِدَۃٌ عَلَی عِیسَی،وَالثَّانِیۃُ عَلَی الْکِتَابِیِّ،وَذَلِکَ أَنَّہُ لَیْسَ أحد من أہل الکتاب الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی إِلَّا وَیُؤْمِنُ بِعِیسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ إِذَا عَایَنَ الْمَلَکَ، وَلَکِنَّہُ إِیمَانٌ لَا یَنْفَعُ، لِأَنَّہُ إِیمَانٌ عِنْدَ الْیَأْسِ وَحِینَ التَّلَبُّسِ بِحَالَۃِ الْمَوْتِ، فَالْیَہُودِیُّ یُقِرُّ فِی ذَلِکَ الْوَقْتِ بِأَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ، وَالنَّصْرَانِیُّ یُقِرُّ بِأَنَّہُ کَانَ رَسُولَ اللَّہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناامام مجاہد رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی ہے کہ ہرکتابی اپنے مرنے سے پہلے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام پر ایمان لے آئے گا۔ پہلی ضمیرکامرجع حضرت سیدناعیسی علیہ السلام ہیں اوردوسری ضمیرکامرجع اہل کتاب ہیں ۔
ہریہودی ونصرانی جب موت کے فرشتے کودیکھتاہے توحضرت سیدناعیسی علیہ السلام پرایمان لے آتاہے لیکن ایساایمان نفع بخش نہیں ہوتاکیونکہ یہ مایوسی کے وقت کاایمان ہے اورموت کی حالت سے متصل ایمان ہے ۔ ہریہودی اس وقت اقرارکرتاہے کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے رسول ہیں اورنصرانی بھی یہی اقرارکرتاہے کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے رسول تھے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۱۱)

یہودونصاری کو مرتے ہوئے ایمان لانانفع نہیں دے گا

وَرُوِیَ أَنَّ الْحَجَّاجَ سَأَلَ شَہْرَ بْنَ حَوْشَبٍ عَنْ ہَذِہِ الْآیَۃِ فَقَالَ:إِنِّی لَأُوتَی بِالْأَسِیرِ مِنَ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی فَآمُرُ بِضَرْبِ عُنُقِہِ، وَأَنْظُرُ إِلَیْہِ فِی ذَلِکَ الْوَقْتِ فَلَا أَرَی مِنْہُ الْإِیمَانَ، فَقَالَ لَہُ شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ: إِنَّہُ حِینَ عَایَنَ أَمْرَ الْآخِرَۃِ یُقِرُّ بِأَنَّ عِیسَی عَبْدُ اللَّہِ وَرَسُولُہُ فَیُؤْمِنُ بِہِ وَلَا یَنْفَعُہُ،فَقَالَ لَہُ الْحَجَّاجُ:مِنْ أَیْنَ أَخَذْتَ ہَذَا؟ قَالَ:أَخَذْتُہُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ، فَقَالَ لَہُ الْحَجَّاجُ: أَخَذْتَ مِنْ عَیْنٍ صَافِیَۃٍ.
ترجمہ :روایت ہے کہ حجاج نے حضرت سیدناشہربن حوشب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کے متعلق سوال کیاتوانہوں نے فرمایا:میں ایک یہودونصاری سے قیدی لاتاہوں اوراس کی گردن مارنے کاحکم دیتاہوں ، پھرمیں اس وقت اسے دیکھتاہوں ، میں اس سے ایمان نہیں دیکھتا۔ شہربن حوشب نے اسے کہا: جب وہ آخرت کے امرکو دیکھتاہے تووہ اقرارکرتاہے کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔ وہ اس وقت ایمان لے آتاہے لیکن ایمان اسے نفع نہیں دیتا۔ حجاج نے شہربن حوشب رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ تم نے یہ قول کہاں سے لیاہے ؟ توآپ نے جواب دیاکہ میں نے یہ قول حضرت سیدنامحمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے لیاہے توحجاج نے کہاکہ تونے یہ قول چشمہ صافی سے لیاہے۔
(بحر العلوم:أبو اللیث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراہیم السمرقندی (ا:۳۵۵)

مرتے ہوئے یہودونصاری کاحضورتاجدارختم نبوتﷺپرایمان لانانفع نہ دے گا

وَقِیلَ:لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ أَیْ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَإِنْ لَمْ یَجْرِ لَہُ ذِکْرٌ، لِأَنَّ ہَذِہِ الْأَقَاصِیصَ أُنْزِلَتْ عَلَیْہِ وَالْمَقْصُودُ الْإِیمَانُ بِہِ،وَالْإِیمَانُ بِعِیسَی یَتَضَمَّنُ الْإِیمَانَ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَیْضًا،إِذْ لَا یَجُوزُ أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَہُمْ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ بعض علماء کرام نے فرمایاکہ{لَیُؤْمِنَنَّ بِہ}میں ضمیرکامرجع حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات اقدس ہے ، اگرچہ اس کاپہلے ذکرنہیں ہے ، کیونکہ یہ تمام واقعات آپ ْﷺپرنازل ہوئے اورمقصود آپﷺپرایمان لاناہے اورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام پر ایمان لاناحضورتاجدارختم نبوتﷺپرایمان لانے کو متضمن ہے کیونکہ ان کے درمیان تفریق جائز نہیں ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۱۱)

یہودونصاری کو موت کے وقت فرشتے ان کے منہ اورپشتوں پرضربیں لگاتے ہیں

مَا رُوِیَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ:قَالَ الْحَجَّاجُ إِنِّی مَا قَرَأْتُہَا إِلَّا وَفِی نَفْسِی مِنْہَا شَیْء ٌ،یَعْنِی ہَذِہِ الْآیَۃَ فَإِنِّی أَضْرِبُ عُنُقَ الْیَہُودِیِّ وَلَا أَسْمَعُ مِنْہُ ذَلِکَ فَقُلْتُ:إِنَّ الْیَہُودِیَّ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ ضَرَبَتِ الْمَلَائِکَۃُ وَجْہَہُ وَدُبُرَہُ،وَقَالُوا یَا عَدُوَّ اللَّہ أَتَاکَ عِیسَی نَبِیًّا فَکَذَّبْتَ بِہِ، فَیَقُولُ آمَنْتُ أَنَّہُ عَبْدُ اللَّہ، وَتَقُولُ لِلنَّصْرَانِیِّ:أَتَاکَ عِیسَی نَبِیًّا فَزَعَمْتَ أَنَّہُ ہُوَ اللَّہ وَابْنُ اللَّہ،فَیَقُولُ:آمَنْتُ أَنَّہُ عَبْدُ اللَّہ فَأَہْلُ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِہِ، وَلَکِنْ حَیْثُ لَا یَنْفَعُہُمْ ذَلِکَ الْإِیمَانُ، فَاسْتَوَی الْحَجَّاجُ جَالِسًا وَقَالَ:عَمَّنْ نَقَلْتَ ہَذَا؟ فَقُلْتُ:حَدَّثَنِی بِہِ محمد بن علی بن الْحَنَفِیَّۃِ فَأَخَذَ یَنْکُتُ فِی الْأَرْضِ بِقَضِیبٍ ثُمَّ قَالَ:لَقَدْ أَخَذْتَہَا مِنْ عَیْنٍ صَافِیَۃٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناشہربن حوشب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجاج نے کہاکہ میں جب یہ آیت کریمہ پڑھتاہوں تومیرے دل میں کچھ نہ کچھ ہوتاہے کہ میں یہودیوں کی گردن اڑادوں اوراسے میں نہ سنوں تومیں نے کہا: کسی یہودی پرجب موت کاوقت آتاہے تواس کے چہرے اورپشت پرفرشتے ضربیں لگاتے ہوئے کہتے ہیں : اے اللہ تعالی کے دشمن !تیرے پاس حضرت سیدناعیسی علیہ السلام نبی بن کرآئے لیکن تونے ان کی تکذیب کی تووہ کہتاہے کہ میں ایمان لاتاہوں کہ وہ اللہ تعالی کے بندے ہیں اوروہ فرشتے اس نصرانی سے کہتے ہیں کہ تیرے پاس حضرت سیدناعیسی علیہ السلام بطورنبی تشریف لائے تونے ان کو اللہ اورابن اللہ بنادیاتووہ کہتاہے میں ایمان لاتاہوں کہ وہ اللہ تعالی کے بندے تھے تواہل کتاب یوں آپ پر ایمان لائیں گے لیکن اس وقت یہ ایمان ان کو نفع نہیں دے گا، حجاج سن کراٹھ کربیٹھ گیااورکہنے لگاکہ یہ تونے کس سے نقل کیاہے ؟ میں نے کہاکہ حضرت سیدناامام محمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی تووہ چھڑی لے کرزمین کریدتے ہوئے کہنے لگاتم نے یہ بات بڑے صاف وشفاف چشمے سے حاصل کی ہے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۱:۲۶۳)

نزع کے وقت ایمان لانانفع مندنہیں ہے

لا یموت یہودی ولا صاحب کتاب حتی یؤمن بعیسی وان احترق او غرق او تردی او سقطہ علیہ جدار او أکلہ سبع او أی میتۃ کانت حتی قیل لابن عباس رضی اللہ عنہما لو خر من بیتہ قال یتکلم بہ فی الہواء قیل أرأیت لو ضرب عنق أحدہم قال یتلجلج بہ لسانہ وہذا کالوعید لہم والتحریض علی معاجلۃ الایمان بہ قبل ان یضطروا الیہ ولم ینفعہم ایمانہم.
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ منقول ہے کہ ہریہودی ونصرانی مرتے وقت حضرت سیدناعیسی علیہ السلام پرایمان لاتاہے خواہ آگ میں جل کرمرے یاپانی میں ڈوب کر یادیوارسے گرکریادیوارکے نیچے دب کریااسے کوئی درندہ کھاجائے یاکوئی موذی جانورکھاجائے ۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی خدمت میں عرض کی گئی کہ تجربۃ ًبھی ثابت ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ جب اس کی گردن ماری جائے تواس کے لئے اس کی زبان خود بخود چلنے لگ جاتی ہے ۔
اس آیت کریمہ میں جہاں اہل کتاب کو وعیدسنائی گئی وہیں یہ بھی بیان کیاگیاکہ ہرشخص کو موت سے پہلے ایمان لاناضروری ہے اوراس پرثابت قدم رہنالازمی ہے ورنہ نزع کے وقت توپھرایمان لانابے کارہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۲:۳۲۰)

Leave a Reply