اہل حق کو چاہئے کہ وہ عزیمت کوہی اپنائیں
{مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ }(۱۰۶)
ترجمہ کنزالایمان:جو ایمان لا کر اللہ کا منکر ہو سوا اس کے جو مجبور کیا جا ئے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑاعذاب ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان : جو ایمان لانے کے بعد اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرے سوائے اس آدمی کے جسے کفرپرمجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پرجما ہوا ہولیکن وہ جو دل کھول کر کافر ہوں ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے۔
شان نزول
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:أَخَذَہُ الْمُشْرِکُونَ وَأَخَذُوا أَبَاہُ وَأُمَّہُ سُمَیَّۃَ وَصُہَیْبًا وَبِلَالًا وَخَبَّابًا وَسَالِمًا فَعَذَّبُوہُمْ، وَرُبِطَتْ سُمَیَّۃُ بَیْنَ بَعِیرَیْنِ وَوُجِئَ قُبُلُہَا بِحَرْبَۃٍ، وَقِیلَ لَہَا إِنَّکِ أَسْلَمْتِ مِنْ أَجْلِ الرِّجَالِ، فَقُتِلَتْ وَقُتِلَ زَوْجُہَا یَاسِرٌ، وَہُمَا أَوَّلُ قَتِیلَیْنِ فِی الْإِسْلَامِ وَأَمَّا عَمَّارٌ فَأَعْطَاہُمْ مَا أَرَادُوا بِلِسَانِہِ مُکْرَہًا، فَشَکَا ذَلِکَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ؟ قَالَ:مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:فَإِنْ عَادُوا فَعُدْوَرَوَی مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: أَوَّلُ شَہِیدَۃٍ فِی الْإِسْلَامِ أم عمار، قتلہا أبو جہل۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالمتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قریش نے حضرت عمار اور ان کے ماں باپ حضرت سیدنا یاسررضی اللہ عنہ اورحضرت سیدنا سمیّہ رضی اللہ عنہا کو مرتد ہونے پر مجبور کیا تو حضرت سیدتنا سمیّہ رضی اللہ عنہ کو دو اونٹوں کے درمیان باندھ کر نیزہ اُن میں گارڈ دیا اور کہا کہ تو مردوں کی خاطر مسلمان ہوئی ہے۔ اس بی بی رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند حضرت سیدنایاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیاگیا، اسلام میں یہ دو پہلے شہید ہیں۔ رہ گئے حضرت سیدناعمار بن یاسررضی اللہ عنہ تو انھوں نے مجبور ہو کر جان بچانے کے لئے زبان سے ان کا مطالبہ پورا کر دیا۔ پھر خود حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے حضور اس کی شکایت کر دی اس پرحضورتاجدارختم نبوتﷺ نے ان سے فرمایا:دل کا حال بتاؤ، کیا تھا؟ عرض کی اے حبیب کریمﷺ:دل ایمان پر مطمئن ہے ، اس پرحضورتاجدارختم نبوتﷺ نے فرمایا:اگر دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی ویسا ہی کرنا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے عرض کی:اگر اللہ نہ بچاتا تو بلال رضی اللہ عنہ کے سوا ہم سب ان کفار کے جبر کے سامنے کلمہ کفر بول دیتے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۱۰:۱۹۰)
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
(إِلا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإیمَانِ)فَہُوَ اسْتِثْنَاء ٌ مِمَّنْ کَفَرَ بِلِسَانِہِ وَوَافَقَ الْمُشْرِکِینَ بِلَفْظِہِ مُکْرَہًا لِمَا نَالَہُ مِنْ ضَرْبٍ وَاَذًی، وَقَلْبُہُ یَاْبَی مَا یَقُولُ،وَہُوَ مُطَمْئِنٌ بِالْإِیمَانِ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَقَدْ رَوَی العَوفِیّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:اَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِی عمَّار بْنِ یَاسِرٍ، حِینَ عَذَّبَہُ الْمُشْرِکُونَ حَتَّی یَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَوَافَقَہُمْ عَلَی ذَلِکَ مُکرَہا وَجَاء َ مُعْتَذِرًا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاَنْزَلَ اللَّہُ ہَذِہِ الْآیَۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ؟ قَالَ:مُطَمْئِنًا بِالْإِیمَانِ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنْ عَادُوا فَعُدْ۔
ترجمہ :امام ابن کثیرالمتوفی :۷۷۴ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور)ایمان سے مطمئن ہے یہ استثناء ہے اس شخص کا جس نے زبان سے کفر کیا اور حالت مجبوری میں مشرکوں سے موافقت کی، اس وجہ سے کہ اُسے مارپٹائی اور ایذاء دی گئی، اور اس کا دل اس کی بات سے انکاری تھا، وہ اللہ تعالی ورسول کریمﷺ پر ایمان پر مطمئن تھا۔ العوفی نے حضرت سیدناابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کی کہ یہ آیت حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی، جب مشرکوں نے ان پر تشدد کیا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کا انکار کریں تو انہوں نے مجبوراً ان سے موافقت کی اور پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی خدمت اقدس میں عذر پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے فرمایا:اپنے دل کا حال بتاؤ کیسا تھا؟ عرض کی:ایمان سے مطمئن۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے فرمایا:اگر دوبارہ یہی کچھ یعنی دوبارہ تشدد کریں تو تم بھی دوبارہ یہی کچھ کرنا۔
(تفسیرابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۲:۲۵)
امام ابن العربی المتوفی : ۵۴۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
لَمَّا سَمَحَ اللَّہُ تَعَالَی فِی الْکُفْرِ بِہِ، وَہُوَ اَصْلُ الشَّرِیعَۃِ، عِنْدَ الْإِکْرَاہِ، وَلَمْ یُؤَاخِذْ بِہِ، حَمَلَ الْعُلَمَاء ُ عَلَیْہِ فُرُوعَ الشَّرِیعَۃِ، فَإِذَا وَقَعَ الْإِکْرَاہُ عَلَیْہَا لَمْ یُؤَاخَذْ بِہِ، وَلَا یَتَرَتَّبُ حُکْمٌ عَلَیْہِ، وَعَلَیْہِ جَاء َ الْاَثَرُ الْمَشْہُورُ عِنْدَ الْفُقَہَاء ِرُفِعَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَاُ وَالنِّسْیَانُ وَمَا اُسْتُکْرِہُوا عَلَیْہِ.
ترجمہ :امام القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المعافری الاشبیلی المالکی المتوفی : ۵۴۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے حالت اکراہ میں کفر کی اجازت دے دی اور اس پر مواخذہ نہ کیا حالانکہ وہ شریعت کی اصل ہے تو علماء نے تمام فروعِ شرع کو، اسی پر قیاس کیا، سو جب ان امور پر کسی کو مجبور کیا جائے تو، اس مکروہ پر کوئی مواخذہ نہیں۔اور نہ اس پر کوئی حکم مرتب ہو گا۔ اور فقہاء کے ہاں حدیث مشہور بھی اسی کی تائید کرتی ہے جوحضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے کہ میری امت سے خطاء بھول اور جس کام پر اسے مجبور کیا جائے اور وہ جبراً و اکراہ کے نتیجہ میں وہ کام کر بیٹھے تواس پر گناہ کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
(أحکام القرآن:القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المعافری الاشبیلی المالکی(۳:۱۶۳)
رخصت والے سے عزیمت والے کااجرزیادہ ہے
أَجْمَعَ الْعُلَمَاء ُ عَلَی أَنَّ مَنْ أُکْرِہَ عَلَی الْکُفْرِ فَاخْتَارَ الْقَتْلَ أَنَّہُ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللَّہِ مِمَّنِ اخْتَارَ الرُّخْصَۃَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۷۶۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تمام علماء کرام کااجماع ہے کہ جس آدمی کو کفرپرمجبورکیاجائے لیکن وہ کلمہ کفرزبان پرنہ لائے تواللہ تعالی کے نزدیک اس کااجرزیادہ اورعظیم ہے اس سے جس نے رخصت پرعمل کیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۱۸۸)
رخصت پرعمل کرتے ہوئے کلمہ کفرزبان پرلاناواجب نہیں ہے
أَجْمَعُوا عَلَی أَنَّہُ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ التَّکَلُّمُ بِکَلِمَۃِ الْکُفْرِ، وَیَدُلُّ عَلَیْہِ وُجُوہٌ: أَحَدُہَا: أنا روینا أن بلالا صبر علی ذلک الْعَذَابِ، وَکَانَ یَقُولُ:أَحَدٌ أَحَدٌ، وَلَمْ یَقُلْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: بِئْسَ مَا صَنَعْتَ بَلْ عَظَّمَہُ عَلَیْہِ، فَدَلَّ ذَلِکَ عَلَی أَنَّہُ لَا یَجِبُ التَّکَلُّمُ بِکَلِمَۃِ الْکُفْرِ، وَثَانِیہَا:مَارُوِیَ أَنَّ مُسَیْلَمَۃَ الْکَذَّابَ أَخَذَ رَجُلَیْنِ فَقَالَ لِأَحَدِہِمَا:مَا تَقُولُ فِی مُحَمَّدٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ، فَقَالَ:مَا تَقُولُ فِیَّ؟ قَالَ أَنْتَ أَیْضًا، فَخَلَّاہُ وَقَالَ لِلَآخَرَ:مَا تقول فِی مُحَمَّدٍ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ، قَالَ:مَا تَقُولُ فِیَّ؟ قَالَ:أَنَا أَصَمُّ فَأَعَادَ عَلَیْہِ ثَلَاثًا فَأَعَادَ جَوَابَہُ فَقَتَلَہُ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَمَّا الْأَوَّلُ فَقَدْ أَخَذَ بِرُخْصَۃِ اللَّہِ، وَأَمَّا الثَّانِی فَقَدْ صَدَعَ بِالْحَقِّ، فَہَنِیئًا لَہُ ۔وَجْہُ الِاسْتِدْلَالِ بِہَذَا الْخَبَرِ مِنْ وَجْہَیْنِ: الْأَوَّلُ: أَنَّہُ سَمَّی التَّلَفُّظَ بِکَلِمَۃِ الْکُفْرِ رُخْصَۃًوَالثَّانِی:أَنَّہُ عَظَّمَ حَالَ مَنْ أَمْسَکَ عَنْہُ حَتَّی قُتِلَ وَثَالِثُہَا:أَنَّ بَذْلَ النَّفْسِ فِی تَقْرِیرِ الْحَقِّ أَشَقُّ، فَوَجَبَ أَنْ یَکُونَ أَکْثَرَ ثَوَابًالِقَوْلِہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ: أَفْضَلُ الْعِبَادَاتِ أَحْمَزُہَاأَیْ أَشَقُّہَاوَرَابِعُہَا:أَنَّ الَّذِی أَمْسَکَ عَنْ کَلِمَۃِ الْکُفْرِ طَہَّرَ قَلْبَہُ وَلِسَانَہُ عَنِ الْکُفْرِأَمَّا الَّذِی تَلَفَّظَ بِہَا فَہَبْ أَنَّ قَلْبَہُ طَاہِرٌ عَنْہُ إِلَّا أَنَّ لِسَانَہُ فِی الظَّاہِرِ قَدْ تَلَطَّخَ بِتِلْکَ الْکَلِمَۃِ الْخَبِیثَۃِ، فَوَجَبَ أَنْ یَکُونَ حَالُ الْأَوَّلِ أَفْضَلَ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ.
ترجمہ
امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس بات پرتمام ائمہ کااتفاق ہے کہ مکرہ(جس کو کلمہ کہنے پرمجبورکیاگیاہو) پرکلمہ کفربولناواجب نہیں ہے اوراس پریہ دلائل ہیں :
پہلی دلیل: منقول ہے کہ حضرت سیدنابلال رضی اللہ عنہ نے اس عذاب پرصبرسے کام لیااورکہتے رہے :احداحداورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کے عمل کو برانہیں کہابلکہ اس پران کو عزت دی جواس پردلالت کرتاہے کہ کلمہ کفربولنالازم نہیں ہے ۔
دوسری دلیل :منقول ہے کہ مسیلمہ دجال نے دوصحابہ کرام رضی اللہ عنہماکوپکڑا، ایک سے پوچھاکہ توحضورتاجدارختم نبوتﷺکے بارے میں کیاکہتاہے ؟ اس نے کہاکہ وہ اللہ تعالی کے رسول ہیں ، پوچھاکہ تومیرے بارے میں کیاکہتاہے ؟ کہنے لگاکہ توبھی اللہ تعالی کارسول ہے ۔ تواسے اس دجال نے چھوڑدیا، اتنے میں اس نے دوسرے سے پوچھاکہ تومحمدﷺکے بارے میں کیاکہتاہے ؟ انہوںنے فرمایاکہ وہ اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اس نے کہاکہ میرے بارے میں کیاکہتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں بہراہوں سنتانہیں ہوں ، مسیلمہ نے تین دفعہ سوال دہرایا، انہوں نے ہرباریہی جواب دیا، اس نے انہیں قتل کردیا، جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکواس کی اطلاع دی گئی توآپ ﷺنے فرمایا: پہلے نے اللہ تعالی کی دی ہوئی رخصت پرعمل کیاجبکہ دوسرے نے حق کوظاہرکیا، اسے مبارک ہو۔
اس روایت سے استدلال دووجہ سے ہے : پہلی وجہ : کلمہ کفرکے تلفظ کانام آپ ﷺنے رخصت رکھا، دوسری وجہ آپ ﷺنے اس آدمی کو عظیم قراردیاجوایسی بات سے رکااوروہ شہیدکردیاگیا۔
تیسری دلیل :نفس کو حق کے لئے قر بان کردینانہایت ہی مشکل ہے لھذااس کااجربھی زیادہ ہوناضروری ہے کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے کہ سب سے افضل عبادت وہ ہوتی ہے جومشکل ہو۔
چوتھی دلیل: جوکفرسے رک گیااس نے اپنے دل اورزبان کو کفرسے پاک رکھا، جس نے کفربول دیااس کادل توپاک رہامگرزبان ظاہری طورپرخبیث کلمہ میں ملوث ہوگئی توضروری ہے کہ پہلے شخص کاحال بہترہو۔ واللہ تعالی اعلم ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲۰:۲۷۵)
امام الرازی رحمہ اللہ تعالی کے کلام سے ثابت ہواکہ رخصت پرعمل کرناواجب نہیں ہے اورعزیمت پرعمل کرنامرجح ہے ۔ اس سے ان نام نہاد پیروں کو عبرت پکڑنی چاہئے جو ہرحال میں رخصت پرعمل پیراہوتے ہیں چاہے ا ن کے سامنے کفربواح مسلط کردیاجائے ان کو کوئی پراوہ نہیں ہے ۔
عزیمت کی تعلیم حدیث شریف کی روشنی میں
حَدَّثَنَا قَیْسٌ عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ قَالَ شَکَوْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَۃً لَہُ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ قُلْنَا لَہُ أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلَا تَدْعُو اللَّہَ لَنَا قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِیمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ فِی الْأَرْضِ فَیُجْعَلُ فِیہِ فَیُجَاء ُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ فَیُشَقُّ بِاثْنَتَیْنِ وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ مَا دُونَ لَحْمِہِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ وَاللَّہِ لَیُتِمَّنَّ ہَذَا الْأَمْرَ حَتَّی یَسِیرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاء َ إِلَی حَضْرَمَوْتَ لَا یَخَافُ إِلَّا اللَّہَ أَوْ الذِّئْبَ عَلَی غَنَمِہِ وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکعبہ کے سائے تلے اپنی چادر سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے ہم نے آپ ﷺسے کفارکی ایذا کے متعلق شکایت کی۔ ہم نے عرض کیا:آپﷺ ہمارے لیے مدد کیوں نہیں مانگتے ؟آپ ﷺاللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟آپ ﷺنے فرمایا:تم لوگوں سے پہلے کچھ لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھوداجاتا۔ پھر اس میں انھیں کھڑا کر دیا جاتا۔ پھر آرا لایا جا تا اور ان کے سر پر رکھ کر ان کے دوٹکڑے کردیے جاتے لیکن اس قدر سختی ان کو دین سے برگشتہ نہ کرتی تھی۔ پھر ان کے گوشت کے نیچے ہڈی اور پٹھوں پر لوہے کی کنگھیاں کھینچ دی جاتیں تھیں، لیکن یہ اذیت بھی انھیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکی۔ اللہ کی قسم!یہ دین ضرور مکمل ہوگا، اس حدتک کہ اگر کوئی مسافر صنعاء سے حضر موت کا سفر کرے گا تو اسے اللہ تعالی کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور نہ کوئی اپنی بکریوں کے لیے بھیڑیے کا خوف کرے گا مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۲۰)
بحمداللہ تعالی سورۃ النحل کااختتام ۱۲ذوالحج ۱۴۴۱ھ/۳ اگست ۲۰۲۰) بروز پیرشریف بوقت ۲ بج کر۳۳منٹ )