تفسیر سورۃ المومنون آیت ۷۶۔۷۷۔ وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیٰنِہِمْ یَعْمَہُوْنَ

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعائے جلال سے مکہ کے کافرکتے کھانے لگے

{وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیٰنِہِمْ یَعْمَہُوْنَ }(۷۵){وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّہِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ }(۷۶)حَتّٰٓی اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا ہُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ }(۷۷)

ترجمہ کنزالایمان:اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو مصیبت ان پر پڑی ہے ٹال دیں تو ضرور بھٹ پنا کریں گے اپنی سرکشی میں بہکتے ہوئے۔اور بیشک ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تو نہ وہ اپنے رب کے حضور میں جھکے اور نہ گڑگڑاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر کھولا کسی سخت عذاب کا دروازہ تو وہ اب اس میں ناامید پڑے ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اور اگر ہم ان پر رحم فرمادیتے اور جو مصیبت ان پر پڑی تھی وہ ٹال دیتے تو یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ضرور ڈھیٹ پن کامظاہرہ کرتے۔اور بیشک ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کردیا تو وہ نہ تب اپنے رب تعالی کی بارگاہ میں جھکے اور نہ ہی اب عاجزی کررہے ہیں۔یہاں تک کہ جب ہم اُن پرکسی سخت عذاب والادروازہ کھولتے ہیں تو اس وقت وہ اس میں ناامید پڑے ہوتے ہیں۔

شان نزول
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:نَزَلَتْ فِی قِصَّۃِ ثُمَامَۃَ بْنِ أَثَالٍ لَمَّا أَسَرَتْہُ السَّرِیَّۃُ وَأَسْلَمَ وَخَلَّی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبِیلَہُ،حَالَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَبَیْنَ الْمِیرَۃِ وَقَالَ:وَاللَّہِ لَا یَأْتِیکُمْ مِنَ الْیَمَامَۃِ حَبَّۃُ حِنْطَۃٍ حَتَّی یَأْذَنَ فِیہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّہُ قُرَیْشًا بِالْقَحْطِ وَالْجُوعِ حَتَّی أَکَلُوا الْمَیْتَۃَ وَالْکِلَابَ وَالْعِلْہِزَ، قِیلَ: وَمَا الْعِلْہِزُ؟ قَالَ:کَانُوا یَأْخُذُونَ الصُّوفَ وَالْوَبَرَ فَیَبُلُّونَہُ بِالدَّمِ ثُمَّ یَشْوُونَہُ وَیَأْکُلُونَہُ فَقَالَ لَہُ أَبُو سُفْیَانَ: أَنْشُدُکَ اللَّہَ وَالرَّحِمَ! أَلَیْسَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّہَ بَعَثَکَ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ؟ قَالَ (بَلَی، قَالَ:فَوَاللَّہِ مَا أَرَاکَ إِلَّا قَتَلْتَ الْآبَاء َ بِالسَّیْفِ، وَقَتَلْتَ الْأَبْنَاء َ بِالْجُوعِ، فَنَزَلَ قَوْلُہُ:وَلَوْ رَحِمْناہُمْ وَکَشَفْنا مَا بِہِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِی طُغْیانِہِمْ یَعْمَہُونَ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت سیدناثمامہ بن آثال حنفی رضی اللہ عنہ کے واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ، جب ان کو ایک لشکرنے گرفتارکرلیاتوانہوںنے بعد میں اسلام قبول کرلیااورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کو آزادکردیاتوانہوںنے اہل مکہ کے سامان رسدکوروک لیااورانہوںنے کہاکہ اللہ تعالی کی قسم !جب تک حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اجازت نہیں ہوگی تب تک یمامہ سے اہل مکہ کے لئے گندم کاایک دانہ بھی نہیں جاسکتا، اللہ تعالی نے قریش کو قحط میں مبتلاء فرمادیاحتی کہ انہوںنے مردار، کتے اورعلہزکھائے ۔ پوچھاگیاکہ علھزکیاہے ؟ فرمایاکہ اون اوراونٹوں کے بالوں کو خون کے ساتھ ترکرکے بھونتے تھے اوراسے ہی کھاجاتے تھے ۔ ابوسفیان نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں عرض کی : کیاآپﷺ کہتے نہیں ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکورحمت للعالمین بناکربھیجاہے ۔ آپﷺنے فرمایاکیوں نہیں۔ابوسفیان نے کہاکہ آپﷺ نے باپ دادا کو تلوارکے ساتھ قتل کردیااوراولاد کو بھوک کے ساتھ قتل کردیاہے تویہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
(دلائل النبوۃ:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۴:۸۱)
اس سے معلوم ہواکہ جب تک کافرکی پکڑنہ ہوتواس وقت تک ان کو قرآن کریم میں موجود دعوت ِ توحیدورسالت سمجھ نہیں آتی ، لیکن جیسے ہی اسلام پکڑے توپھران کو { رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ}والی آیات یادآتی ہیں ، جیساکہ کفارِ مکہ کے ساتھ ہوا، جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کو قرآن کریم پڑھ پڑھ کرسنایااوررات دن ان کو دعوت توحیدورسالت دی مگرانہوںنے ہمہ وقت انکارکادامن تھامااورتسلیم کی طرف نہ آئے ۔ جیسے ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اجازت سے آپ ﷺکے عظیم صحابی حضرت سیدناثمامہ حنفی رضی اللہ عنہ نے ان کا غلہ روکااوروہ بھوک سے مرے ساتھ ہی ان کو { رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ}والی آیت کریمہ یادآئی ، یہی کچھ حال پاکستان کے لبرل وسیکولر طبقہ کاہے ، یہاں سرعام گستاخ گستاخیاں کرتے رہیں ، دین کی دھجیاں اڑاتے رہیں ان کوقرآن کریم کی کوئی بھی آیت کریمہ یادنہیں آتی ، ساری حکومتی جماعتیں ان گستاخوں کے پیچھے کھڑی رہتی ہیں اورپاکستان میں موجود سارے لبرل وسیکولر ان کی حمایت میں نکل آتے ہیں جیسے ہی کوئی حضورتاجدارختم نبوتﷺکاغلام غازی ملک ممتاز حسین قادری شہیدیاغازی محمدتنویرحسین قادری یاپھرغازی فیصل جیسے اسلام کے سپاہی ان کے گلے تک پہنچتے ہیں توپھران کو { رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ}والی آیت یاد آتی ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتو{ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ}تھے ، وہ توسب کو معاف فرمادیاکرتے تھے ۔
اس سے معلوم ہواکہ جوبھی قوم حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شریعت مبارکہ کی غدارہواورآپ ﷺکی عزت وناموس کی دشمن ہوان کاکھاناپینابندکرنااوران کاراستہ روکناحضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کریمہ سے ثابت ہے ۔

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کاجہنم میں انجام

(حَتَّی إِذا فَتَحْنا عَلَیْہِمْ بَابًا ذَا عَذابٍ شَدِیدٍ)قَالَ عِکْرِمَۃُ: ہُوَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ جَہَنَّمَ، عَلَیْہِ مِنَ الْخَزَنَۃِ أَرْبَعُمِائَۃِ أَلْفٍ، سُودٌ وُجُوہُہُمْ، کَالِحَۃٌ أَنْیَابُہُمْ، وَقَدْ قُلِعَتِ الرَّحْمَۃُ مِنْ قُلُوبِہِمْ، إِذَا بَلَغُوہُ فَتَحَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {حَتَّی إِذا فَتَحْنا عَلَیْہِمْ بَابًا ذَا عَذابٍ شَدِید}کے تحت فرماتے ہیں کہ اس باب سے مراد دوزخ کادروازہ ہے جس پرچارلاکھ فرشتے مقررہیں ، ان کے چہرے کالے سیاہ ہیں ، ان کے دانت باہرنکلے ہوئے ہیں ، ان کے دلوں سے رحمت نکال دی گئی ہے ، جب یہ کافراس دروازے پرپہنچیں گے تواللہ تعالی اسے ان پرکھولے گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۱۲:۱۴۷)
گستاخ بدرمیں قتل ہورہے ہیں
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:ہُوَ قَتْلُہُمْ بِالسَّیْفِ یَوْمَ بَدْرٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ ان کابدرکے دن قتل ہونا۔
(المحرر الوجیز:أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (۴:۶۳)
قرآن کریم کے گستاخوں کاحشرمیں عبرتناک انجام
{تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَ ہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ }(۱۰۴){اَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی علَیْکُمْ فَکُنْتُمْبِہَا تُکَذِّبُوْنَ }(۱۰۵){قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ }(۱۰۶){رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ }(۱۰۷){ قَالَ اخْسَـُوْا فِیْہَا وَ لَا تُکَلِّمُوْنِ }(۱۰۸)
ترجمہ کنزالایمان:ان کے منہ پر آگ لپٹ مارے گی اور وہ اس میں منہ چڑائے ہوں گے۔ کیا تم پر میری آیتیں نہ پڑھی جاتی تھیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے۔کہیں گے اے رب ہمارے ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ اے ہمارے رب ہم کو دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں تو ہم ظالم ہیں۔رب فرمائے گا دُتکارے پڑے رہو اس میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔
ترجمہ ضیاء الایمان: ان کے چہروں کو آگ جلاڈالے گی اور وہ اس میں منہ چڑائے ہوں گے۔ کیا تم پر میری آیتیں نہ پڑھی جاتی تھیں؟ تو تم انہیں جھوٹاکہتے تھے۔وہ کہیں گے:اے ہمارے رب!ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ اے ہمارے رب!ہمیں جہنم سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ اللہ تعالی فرمائے گا:دھتکارے ہوئے جہنم میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔
ان آیات کریمہ سے معلوم ہواکہ جن لوگوں کے چہرے جلادیئے جائیں گے توان کو کہاجائے گاکہ تم ہی تھے جو ہماری آیات کریمہ کو جھوٹاکہتے تھے ۔ تویہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت کریمہ میں جن لوگوں کے عذاب کاذکرہوااس سے مراد وہی لوگ ہیں جو قرآن کریم کی توہین کیاکرتے تھے ۔
قرآن کے گستاخ کے ہونٹ ناف تک لٹک جائیں گے
عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَہُمْ فِیہَا کَالِحُونَ قَالَ تَشْوِیہِ النَّارُ فَتَقَلَّصُ شَفَتُہُ الْعُلْیَا حَتَّی تَبْلُغَ وَسَطَ رَأْسِہِ وَتَسْتَرْخِی شَفَتُہُ السُّفْلَی حَتَّی تَضْرِبَ سُرَّتَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس آیت کریمہ {وَ ہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ }(کافرجہنم کے اندر بد شکل ہوں گے)کے بارے میں فرمایا:ان کے چہروں کو آگ جھلس دے گی تو ان کے اوپر کا ہونٹ سکڑ کر بیچ سرتک پہنچ جائے گا اور نیچے کاہونٹ لٹک کر ناف سے جالگے گا۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۲۹۹)

قرآن کے گستاخ کاچہرہ بگڑجائے گا

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَیْضًاوَہُمْ فِیہا کالِحُونَ یُرِیدُ کَالَّذِی کَلَحَ وَتَقَلَّصَتْ شَفَتَاہُ وَسَالَ صَدِیدُہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ {وَ ہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ }سے مراد وہ شخص ہے جس کے ہونٹ سکڑگئے ہوں اوراس کی پیپ بہہ رہی ہو۔
(زہرۃ التفاسیر:محمد بن أحمد بن مصطفی بن أحمد المعروف بأبی زہرۃ (۱۰:۵۱۲۱)
قرآن کریم کے گستاخ کے سرمیں آگ کی کنگھی کی جائے گی
وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ:أَلَمْ تَرَ إِلَی الرَّأْسِ الْمُشَیَّطِ بِالنَّارِ، وَقَدْ بَدَتْ أَسْنَانُہُ وَقَلَصَتْ شَفَتَاہُ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیاآپ نے اس شخص کی طرف نہیں دیکھاجس کے سرمیں آگ کی کنگھی کی جائے گی اوراس کے دانت نکلے ہوئے ہوں گے اورہونٹ خشک ہوچکے ہوں گے ۔
(روائع التفسیر :زین الدین عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، الحنبلی (۲:۳۲)

قرآن کریم کے گستاخ کو تحفہ کیادیاجائے گا؟

عَنْ، مُغِیثِ بْنِ سُمِّیَ، قَالَ:إِذَا جِیء َ بِالرَّجُلِ إِلَی النَّارِ قِیلَ:انْتَظِرْ حَتَّی نُتْحِفَکَ قَالَ:فَیُؤْتَی بِکَأْسٍ مِنْ سُمِّ الْأَفَاعِی وَالْأَسَاوِدِ إِذَا أَدْنَاہَا مِنْ فِیہِ نَثَرَتِ اللَّحْمَ عَلَی حِدَۃٍ وَالْعَظْمَ عَلَی حِدَۃٍ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامغیث بن سمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ایک شخص کوجوقرآن کریم کو جھوٹاکہنے والاتھالایاجائے گاتواسے کہاجائے گاکہ تم یہاں انتظارکرو تم کو ایک تحفہ دیاجائے گا، تواس کے پاس سانپوں کے زہرکاپیالہ لایاجائے گا، جب وہ اس کے قریب منہ کولائے گاتواس کاگوشت علیحدہ جاپڑے گااوراس کی ہڈیاں علیحدہ ہوجائیں گی ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۷:۴۹)

قرآن کریم کے گستاخوں کی جہنم میں عذرخواہی قبول نہیں ہوگی

عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاء ِ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُلْقَی عَلَی أَہْلِ النَّارِ الْجُوعُ فَیَعْدِلُ مَا ہُمْ فِیہِ مِنْ الْعَذَابِ فَیَسْتَغِیثُونَ فَیُغَاثُونَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِیعٍ لَا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِی مِنْ جُوعٍ فَیَسْتَغِیثُونَ بِالطَّعَامِ فَیُغَاثُونَ بِطَعَامٍ ذِی غُصَّۃٍ فَیَذْکُرُونَ أَنَّہُمْ کَانُوا یُجِیزُونَ الْغَصَصَ فِی الدُّنْیَا بِالشَّرَابِ فَیَسْتَغِیثُونَ بِالشَّرَابِ فَیُرْفَعُ إِلَیْہِمْ الْحَمِیمُ بِکَلَالِیبِ الْحَدِیدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوہِہِمْ شَوَتْ وُجُوہَہُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُونَہُمْ قَطَّعَتْ مَا فِی بُطُونِہِمْ فَیَقُولُونَ ادْعُوا خَزَنَۃَ جَہَنَّمَ فَیَقُولُونَ أَلَمْ تَکُ تَأْتِیکُمْ رُسُلُکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا بَلَی قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَاء ُ الْکَافِرِینَ إِلَّا فِی ضَلَالٍ قَالَ فَیَقُولُونَ ادْعُوا مَالِکًا فَیَقُولُونَ یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ فَیُجِیبُہُمْ إِنَّکُمْ مَاکِثُونَ قَالَ الْأَعْمَشُ نُبِّئْتُ أَنَّ بَیْنَ دُعَائِہِمْ وَبَیْنَ إِجَابَۃِ مَالِکٍ إِیَّاہُمْ أَلْفَ عَامٍ قَالَ فَیَقُولُونَ ادْعُوا رَبَّکُمْ فَلَا أَحَدَ خَیْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَیَقُولُونَ رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّینَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ فَیُجِیبُہُمْ اخْسَئُوا فِیہَا وَلَا تُکَلِّمُونِ قَالَ فَعِنْدَ ذَلِکَ یَئِسُوا مِنْ کُلِّ خَیْرٍ وَعِنْدَ ذَلِکَ یَأْخُذُونَ فِی الزَّفِیرِ وَالْحَسْرَۃِ وَالْوَیْل۔

ترجمہ :حضرت سیدناابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور یہ عذاب کے برابر ہوجائے گی جس سے وہ دوچار ہوں گے، لہذا وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ضریع (خاردار پودا)کے کھانے سے کی جائے گی جو نہ انہیں موٹا کرے گا اورنہ ان کی بھوک ختم کرے گا، پھر وہ دوبارہ کھانے کی فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی گلے میں اٹکنے والے کھانے سے کی جائے گی، پھر وہ یاد کریں گے کہ دنیا میں اٹکے ہوئے نوالے کو پانی کے ذریعے نگلتے تھے، چنانچہ وہ پانی کی فریاد کریں گے اور ان کی فریاد رسی حمیم (جہنمیوں کے مواد)سے کی جائے گی جولوہے کے برتنوں میں دیاجائے گا جب مواد ان کے چہروں کے قریب ہوگا تو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور جب ان کے پیٹ میں جائے گاتو ان کے پیٹ کے اندر جوکچھ ہے اسے کاٹ ڈالے گا، وہ کہیں گے: جہنم کے داروغہ کوبلاو ، داروغہ کہیں گے :کیا تمہارے پاس رسول کریمﷺروشن دلائل کے ساتھ نہیں گئے تھے؟ وہ کہیں گے :کیوں نہیں ، داروغہ کہیں گے:پکارتے رہو ، کافروں کی پکار بے کار ہی جائے گی۔ آپ نے فرمایا:جہنمی کہیں گے:مالک کو بلائو اور کہیں گے:اے مالک!چاہیے کہ تیرارب ہمارا فیصلہ کردے(ہمیں موت دے دے)آپ نے فرمایا:ان کو مالک جواب دے گا:تم لوگ (ہمیشہ کے لیے)اسی میں رہنے والے ہو۔امام اعمش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:مجھ سے بیان کیاگیا کہ ان کی پکار اور مالک کے جواب میں ایک ہزار سال کا وقفہ ہوگا ، آپ نے فرمایا:جہنمی کہیں گے:اپنے رب کو پکارو اس لیے کہ تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں ہے، وہ کہیں گے:اے ہمارے رب! ہمارے اوپر شقاوت غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے، اے ہمارے رب!ہمیں اس سے نکال دے اگر ہم پھرویسا ہی کریں گے تو ظالم ہوں گے۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ انہیں جواب دے گا:پھٹکار ہو تم پر اسی میں پڑے رہواور مجھ سے بات نہ کرو، آپ نے فرمایا:اس وقت وہ ہر خیر سے محروم ہوجائیں گے اور اس وقت گدھے کی طرح ہینگنے لگیں گے اور حسرت وہلاکت میں گرفتار ہوں گے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۷۰۷)

گستاخوں کو کتے کی طرح جھڑکاجائے گا

وانزجروا انزجار الکلاب إذا زجرت من خسأت الکلب إذا زجرتہ مستہینا بہ فخسأ ای انزجر۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے گستاخوں کو جھڑکی اس طرح دی جائے گی جیسے کتے کودی جاتی ہے مثلاًکہاجاتاہے کہ { خسأت الکلب}یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں جب کتے کوذلت کے ساتھ جھڑکاجائے{ فخسا}پس وہ کتاجھڑکی کھاکردورہٹ گیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی , المولی أبو الفداء (۶:۱۰۹)

گستاخوں کی آواز کتے اورگدھے جیسی ہوجائے گی

وَقَالَ قَتَادَۃُ:صَوْتُ الْکُفَّارِ فِی النَّارِ کَصَوْتِ الْحِمَارِ، أَوَّلُہُ زَفِیرٌ وَآخِرُہُ شَہِیقٌوَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:یَصِیرُ لَہُمْ نُبَاحٌ کَنُبَاحِ الْکِلَابِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ دوزخ میں کافروں کی آوازگدھے کی آواز جیسی ہوجائے گی ، اس کااول زفیراوراس کاآخرشہیق ہوگا، حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ دوزخ کے اندر قرآن کریم کی تکذیب کرنے والوں کی آواز کتے جیسی ہوجائے گی اوریہ وہاں بھونکیں گے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۲:۱۵۴)

قرآن کریم کی ناموس کے محافظ جناب غازی محمدالیاس عمر شامی حفظہ اللہ

ناروے میں ایک اسلام مخالف تنظیم کی جانب سے قرآن کے نسخے کی سر عام بے حرمتی کو روکنے کے لئے ایک نوجوان محمد عمر نے اس بہادری اور جرات کا مظاہرہ کیا کہ انہیں عالم اسلام میں ایک ہیرو کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بہادری اور جرات سے قرآن کریم کی گستاخی روکنے والے ۲۳سالہ نوجوان کا نام عمر الیاس ہے اور اس کا تعلق شام سے ہے۔
قرآن کے نسخے کی بے حرمتی کا واقعہ گزشتہ سال ناروے کے شہر کرسٹینسانڈ میں سٹاپ اسلام آئزیشن آف ناروے (ایس آئی اے این)نامی تنظیم کے احتجاج میں اس وقت رونما ہوا جب اس تنظیم کے رہنما لارس تھورسن(ملعون) نے مقامی پولس کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قرآن کریم کے ایک نسخے کو بھرے مجمع کے سامنے جلانے کی کوشش کی۔ اس دوران مجمع میں سے ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر تھورسن کو دھکا دیا اور ہاتھا پائی کی کوشش کی جس کے بعد پولس نے دونوں افراد کو حراست میں لے لیا۔

قرآن کریم کی توہین ہوتے دیکھ کر وہاں موجود مسلمان نوجوان برداشت نہ کرسکے اور سبق سکھانے کے لیے اس تھورسن پر حملہ کردیا۔ پہلے ایک عمر الیاس رکاوٹیں توڑتا ہوا آگے بڑھا اور لارس تھورسن پر حملہ کردیا۔ اس اقدام سے مزید نوجوانوں کو ہمت ملی اور دیگر نوجوان بھی تھورسن پر حملہ آور ہوئے جس پر پولس اہلکار جو پہلے تماشا دیکھ رہے تھے، وہ آگے بڑھے اور حملہ آور نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جبکہ لارس تھورسن کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ کرسٹین سینڈ شہر میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے لیکن ناروے کی انتظامیہ نے نہ صرف اس اشتعال انگیز ریلی کی اجازت دی بلکہ قرآن کی توہین سے بھی نہ روکا۔

Leave a Reply