اللہ تعالی سے صرف اولاد نہیں بلکہ دین کی اقامت کے لئے کام کرنے والی اولاد مانگنے کاحکم ہے
{قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَہَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا }(۴){وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوٰلِیَ مِنْ وَّ رَآء ِیْ وَکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا }(۵){یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَ اجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّا }(۶)
ترجمہ کنزالایمان:عرض کی اے میرے رب میری ہڈی کمزور ہوگئی اور سر سے بڑھاپے کا بھبھوکا پھوٹا اور اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی نامراد نہ رہا۔اور مجھے اپنے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے اور میری عورت بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا دے ڈال جو میرا کام اٹھالے۔وہ میرا جانشین ہو اور اولادِ یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے رب اسے پسندیدہ کر۔
ترجمہ ضیاء الایمان:حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام نے عرض کی:اے میرے رب !بیشک میری ہڈی کمزور ہوگئی اور سرکے بال بھی بڑھاپے کی وجہ سے سفیدہوگئے ہیںاور اے میرے رب!میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔اور بیشک مجھے اپنے بعد اپنے رشتے داروں کا ڈر ہے اور میری زوجہ بانجھ ہے، تو مجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا وارث عطا فرمادے ۔جو میرا جانشین ہو اور یعقوب (علیہ السلام )کی اولاد کا وارث ہو اور اے میرے رب!اسے پسندیدہ بنادے۔
حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام کی دعا
وَقَالَتْ طَائِفَۃٌ:إِنَّمَا کَانَ مَوَالِیہِ مُہْمِلِینَ لِلدِّینِ فَخَافَ بِمَوْتِہِ أَنْ یَضِیعَ الدِّینُ، فَطَلَبَ وَلِیًّا یَقُومُ بِالدِّینِ بَعْدَہُ، حَکَی ہَذَا الْقَوْلَ الزَّجَّاجُ۔
ترجمہ :امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام کے رشتہ داردین کے معاملے میں سستی کرنے والے تھے اس لئے حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام کواپنے وصال شریف سے دین کے ضائع ہونے کاخوف لاحق ہواتوآپ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے ایساولی طلب کیاجوان کے بعد اقامت ِدین کاکام کرے ۔
(المحرر الوجیز :أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (۴:۴)
دین کی اقامت کے لئے اولاد مانگناانبیاء کرام علیہم السلام کی سنت کریمہ ہے
معناہ، خفت بنی عمی عن الدین:یعنی شرارہم فسأل اللہ تعالی فی ولد یقوم بالدین بعدہ۔
ترجمہ :الامام أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش بن محمد القرطبی المالکی المتوفی : ۴۳۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : مجھے اپنے چچاکے بیٹیوں سے دین کے متعلق خوف ہے یعنی وہ دین کے دشمن تھے ، اس لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی کہ وہ ایسابیٹادے جو ان کے بعد دین کی اقامت کے لئے کام کرے ۔
(الہدایۃ :أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش بن محمد القرطبی المالکی (۷:۴۴۹۴)
امام ابن عطیہ المحاربی رحمہ اللہ تعالی کاقول
والأظہر الألیق بزکریا علیہ السلام أن یرید وراثۃ العلم والدین فتکون الوراثۃ مستعارۃ، ألا تری أنہ إنما طلب وَلِیًّا، ولم یخصص ولدا فبلغہ اللہ أملہ علی أکمل الوجوہ۔
ترجمہ :امام أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ الأندلسی المحاربی المتوفی : ۵۴۲ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اظہرومناسب حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام کے لئے یہ ہے کہ انہوںنے وراثت علم ودین مراد لی ہے ، اس صورت میں وراثت مستعارہ ہوگی ، کیاآپ نے ملاحظہ نہیں فرمایاکہ جب انہوںنے اللہ تعالی سے ولی طلب کیاہے توانہوںنے بچے کوخاص نہیں فرمایا، اللہ تعالی نے ان کی تمناکوکامل طورپرپورافرمایا۔
(المحرر الوجیز :أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (۴:۴)
امام ابن حیان الاندلسی رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَالظَّاہِرُ اللَّائِقُ بِزَکَرِیَّا عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنْ حَیْثُ ہُوَ مَعْصُومٌ أَنَّہُ لَا یَطْلُبُ الْوَلَدَ لِأَجْلِ مَا یُخْلِفُہُ مِنْ حُطَامِ الدُّنْیَا۔
ترجمہ: أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورظاہراورلائق حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام کے یہی ہے کہ آپ معصوم ہیں اس بات سے کہ وہ اللہ تعالی سے اس لئے بیٹاطلب کریں کہ جوان کے دنیاسے جانے کے بعد دنیاکامال ودولت سنبھالے ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی(۷:۲۴۰)
اصل غم ہی دین کاغم ہے
کَانَ مَوَالِیہِ وَہُمْ عَصَبَتُہُ إِخْوَتُہُ وَبَنُو عَمِّہِ شِرَارَ بَنِی إِسْرَائِیلَ فَخَافَہُمْ عَلَی الدِّینِ أَنْ یُغَیِّرُوہُ وَأَنْ لَا یُحْسِنُوا الْخِلَافَۃَ عَلَی أُمَّتِہِ، فَطَلَبَ عَقِبًا صَالِحًا مِنْ صُلْبِہِ یَقْتَدِی بِہِ فِی إِحْیَاء ِ الدِّینِ.
ترجمہ :أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الزمخشری جار اللہ المتوفی : ۵۳۸ھ) لکھتے ہیں کہ موالی سے مراد ان کے عصبہ ہیں ،ان کے بھائی ، اوران کے چچاکے بیٹے بنی اسرائیل میں دین دشمن تھے ، حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام کوخوف لاحق ہواکہ میرے جانے کے بعد یہ دین کو بدل کررکھ دیں گے اورمیرے بعد حق ِ خلافت صحیح طورپرادانہ کریںگے ، اس لئے انہوںنے اللہ تعالی سے اپنی صلب سے خلیفہ نیک صالح مانگاجوان کی اقتداء میں اقامت دین کے لئے کام کرے ۔
(الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل:أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الزمخشری جار اللہ(۳:۴)
یہ علامہ الزمخشری کی اپنی رائے ہے کہ حضرت سیدنازکریاعلیہ السلا م نے اللہ تعالی سے اپناصلبی بیٹامانگاتھاجیساکہ ہم مفسرین کرام کے حوالے سے نقل کرآئے ہیں۔
تفسیرمذکورکے راجح ہونے کے تین اسباب
والراجح التأویل الثانی لثلاثۃ أسباب:
(۱)…الأنبیاء أعظم قدرًا ومنزلۃ من الإشفاق علی أموالہم ودنیاہم من بعدہم.(۲)…لم یذکر أن زکریا کان کثیر المال، بل کان نجارًا یأکلُ من عمل یدہِ(۳)…لقد ثبتَ فی الصحیحین وبعض السنن من حدیث أبی بکر مرفوعًا(إنا معشر الأنبیاء لا نورث ما ترکنا صدقۃ)وکذلکَ فی سنن أبی داود وابن ماجہ بسند صحیح من حدیث أبی الدرداء مرفوعًا:(وإن العلماء ورثۃ الأنبیاء ، وإن الأنبیاء لم یورثوا دینارًا ولا درہمًا، ورثوا العلمَ فمن أخذہ أخذ بحظ وافر)
ترجمہ :الأستاذ الدکتور مأمون حموش لکھتے ہیں کہ اس تفسیرکو’’کہ حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام نے اللہ تعالی سے دینی وارث مانگا‘‘کوترجیح دیکراس پرتین اسباب بیان کرتے ہیں کہ
(۱)…انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت وشان بہت بلندہے اس بات سے کہ وہ اپنے بعد دنیایااس کے مال کی فکرکریں۔
(۲)…یہ بات توکہیں بھی مذکورنہیں ہے کہ حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام بہت زیادہ مال رکھتے تھے بلکہ آپ تولکڑی کاکام کرتے تھے تاکہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاسکیں۔ (اس سے معلوم ہواکہ حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام اپنے بعد مال وجائیدادکاوارث نہیں مانگ رہے تھے بلکہ دین کاوارث مانگ رہے تھے )
(۳)…اوریہ بات صحیحین شریفین اوربعض سنن کی کتب میں حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: ہم انبیاء کرام علیہم السلام جوکچھ چھوڑجائیں اس کاوارث نہیں بناتے بلکہ وہ صدقہ ہوتاہے ۔ حضرت سیدناابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: بے شک علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں اوربے شک انبیاء کرام علیہم السلام درہم ودینارکاوارث نہیں بناتے ، وہ علم دین کاوارث بناتے ہیں اورجس نے علم دین حاصل کرلیااس نے ایک وافرحصہ پالیا۔
(التفسیر المأمون علی منہج التنزیل والصحیح المسنون :الأستاذ الدکتور مأمون حموش(۴:۶۳۸)
{فَہَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا}کامعنی
قَوْلُہُ تَعَالَی:فَہَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّاسُؤَالٌ وَدُعَاء ٌوَلَمْ یُصَرِّحْ بِوَلَدٍ لِمَا عَلِمَ مِنْ حَالِہِ وَبُعْدِہِ عَنْہُ بِسَبَبِ الْمَرْأَۃِ قَالَ قَتَادَۃُ:جَرَی لَہُ ہَذَا الْأَمْرُ وَہُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَسَبْعِینَ سَنَۃًمُقَاتِلٌ:خَمْسٍ وَتِسْعِینَ سَنَۃً، وَہُوَ أَشْبَہُ، فَقَدْ کَانَ غَلَبَ عَلَی ظَنِّہِ أَنَّہُ لَا یُولَدُ لَہُ لِکِبَرِہِ، وَلِذَلِکَ قَالَ:وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّاوَقَالَتْ طائفۃ:بل طلب الولدثُمَّ طَلَبَ أَنْ تَکُونَ الْإِجَابَۃُ فِی أَنْ یَعِیشَ حَتَّی یَرِثَہُ، تَحَفُّظًا مِنْ أَنْ تَقَعَ الإجابۃ فی الولد ولکن یحترم، وَلَا یَتَحَصَّلُ مِنْہُ الْغَرَضُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ فرمان شریف {فَہَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا}یہ سوال اوردعاہے بیٹے کے لئے ، صراحتاًدعانہیں کی کیونکہ انہیں اپنی حالت بھی معلوم تھی اوراپنی زوجہ محترمہ کے بارے میں بھی علم تھا۔
حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے یہ امرجاری ہواجب کہ آپ علیہ السلام کی عمرشریف سترسال سے زیادہ تھی ، مقاتل رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ ان کی عمرشریف بچھترسال تھی ، یہ زیادہ مناسب ہے ، حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام کاغالب گمان تھاکہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کابچہ پیدانہ ہوگا، اسی وجہ سے کہاکہ {وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا}ایک جماعت نے کہاکہ بلکہ انہوںنے بچہ طلب کیا، پھراس بات کی قبولیت طلب کی کہ وہ زندہ رہے کہ وہ وارث بنے ، اس بات سے حفاظت کے لئے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ بچے کے بارے میں دعاقبول ہولیکن وہ پھرختم ہوجائے اوراس سے غرض پوری نہ ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۱:۷۵)
علماء کاایک پسندیدہ قول
قَالَ الْعُلَمَاء ُ دُعَاء ُ زَکَرِیَّا عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الْوَلَدِ إِنَّمَا کَانَ لِإِظْہَارِ دِینِہِ، وَإِحْیَاء ِ نُبُوَّتِہِ، وَمُضَاعَفَۃٍ لِأَجْرِہِ لَا لِلدُّنْیَا۔
ترجمہ :علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنازکریاعلیہ السلا م نے بچے کے لئے دعاکی تاکہ ان کے دین کاغلبہ ہواوران کی نبوت شریفہ کااحیاء ہواوران کے اجرمیں اضافہ ہو، آپ علیہ السلام نے دنیاکی خاطردعانہیں کی تھی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۱:۷۵)
موروثی جانشینی کا عدم جوازآثار و اقوال کی روشنی میں
مولانا عون محمد سعیدی مصطفوی حفظہ اللہ تعالی بہاولپور لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس موضوع پر ہمارا پورا مقالہ موروثی جانشینی کا مکروہ سلسلہ موجود ہے ، تفصیلی کلام تو وہیں ملاحظہ ہو لیکن یہاں کچھ مزید آثار و اقوال پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ ہم اپنے اس موقف میں تنہا نہیں بلکہ پوری تاریخ اسلام ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ چند آثار و اقوال ملاحظہ ہوں:
(۱)… حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان شریف
(الف) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنِ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ عِصَابَۃٍ وَفِی تِلْکَ الْعِصَابَۃِ مَنْ ہُوَ أَرْضَی لِلَّہِ مِنْہُ فَقَدْ خَانَ اللَّہَ وخانَ رَسُولَہُ وخانَ الْمُؤْمِنِینَ۔
ترجمہ
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا :جس نے کسی شخص کو کسی جماعت پر امیر بنایا اور ان میں کوئی ایسا شخص بھی موجود تھا جو اس سے بڑھ کر (اپنے اعمال صالحہ سے)اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والا تھا تو اس نے اللہ تعالی، رسول کریمﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد (۴:۱۰۴)
(ب)عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ، قَالَ:قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، حِینَ بَعَثَنِی إِلَی الشَّامِ:یَا یَزِیدُ، إِنَّ لَکَ قَرَابَۃً عَسَیْتَ أَنْ تُؤْثِرَہُمْ بِالْإِمَارَۃِ، وَذَلِکَ أَکْبَرُ مَا أَخَافُ عَلَیْکَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِینَ شَیْئًا فَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ أَحَدًا مُحَابَاۃً فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللہِ، لَا یَقْبَلُ اللہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلا عَدْلًا حَتَّی یُدْخِلَہُ جَہَنَّمَ۔
ترجمہ
حضرت سیدنایزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ملک ِشام کا عامل بنا کر روانہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :اے یزید بن ابی سفیان!تیری رشتے داریاں بھی ہیں ، ممکن ہے کہ تو انہیں ذمے داریاں سپرد کرتے ہوئے ترجیح دے (جس کا میں تجھ سے خطرہ محسوس کرتا ہوں)تو سن لو!بے شک حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا :جس کو مسلمانوں کے معاملات سپرد کیے گئے ، پھر اس نے ان پر کوئی شخص اپنی ذاتی محبت والا مقرر کر دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ اس سے توبہ و فدیہ قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ اسے جہنم میں داخل کر دے گا۔
(۲)…حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ
جب حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیاتو فرمایا:سن لو !میں نے اپنے کسی رشتے دار کو نا مزد نہیں کیا (تاریخ طبری)
(۳)…حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
(الف)حدثنا اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر قال قال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ من استعمل رجلا لمودۃ او لقرابۃ لا یستعملہ الا لذلک فقد خان اللہ ورسولہ والمؤمنین۔
ترجمہ :حضرت سیدنااسماعیل بن ابراہیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:جس شخص نے کسی بندے کو صرف ذاتی محبت و قرابت کی وجہ سے امیر مقرر کر دیا تو بے شک اس نے اللہ تعالی ، رسول کریمﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کا ارتکاب کیا۔
(ب)عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ:قَالَ عُمَرُ:مَنْ أَسْتَخْلِفْ لَوْ کَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، فَأَیْنَ أَنْتَ مِنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ؟ فَقَالَ:قَاتَلَکَ اللَّہُ، وَاللَّہِ مَا أَرَدْتَ اللَّہَ بِہَذَا، أَسْتَخْلِفُ رَجُلًا لَیْسَ یُحْسِنُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بوقت وصال زخمی حالت میں اپنی جانشینی کے بارے میں مشاورت طلب کی تو ایک شخص نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے حضرت سیدناعبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہما کو جانشین کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے غصے سے فرمایا :خدا تجھے غارت کرے!تو مجھے کون سے راستے پہ لے جانا چاہتا ہے؟۔اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا:ما اردت اللہ بھذا۔ یعنی تم نے اس تجویز میں اللہ کی خوشنودی کو پیش نظر نہیں رکھا۔ ملخصاً
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی المعروف بابن سعد (۳:۳۴۳)
(ج) جب حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے امر خلافت کے لیے چھ افراد کی مجلس مقرر فرمائی تو ان میں اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو صرف مشورے کے لیے شامل فرمایا لیکن اس کے ساتھ یہ تاکید بھی کردی کہ انہیں خلیفہ مقرر نہیں کیا جائے گا۔ (عامہ کتب تاریخ)
(۴)…سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ
علامہ عبد اللہ بن عمر بن سلیمان الدمیجی لکھتے ہیں:
وکذلک عثمان رضی اللہ عنہ لم یعھد الی احد من اقاربہ مع ان اکثر المورخین یتھمونہ بحبہ لھم۔
ترجمہ
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے کسی رشتے دار کو ولی عہد مقرر نہیں کیا ، حالانکہ اکثر مورخین آپ کی ذات اقدس پر اقارب پروری کی تہمت لگاتے ہیں ۔
(الامامۃ العظمی عند اہل السنۃ و الجماعۃلشیخ عبداللہ بن عمربن سلیمان الدمیجی : ۲۹۱)
(۵)…سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ سے بوقت وصال جبکہ آپ شدید زخمی حالت میں تھے حضرت سیدناجندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:اگر آپ ہم سے جدا ہوجائیں تو کیا ہم حضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں؟۔ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جو شخص تمہیں پسند ہو اس کی بیعت کر لینا،میں مسلمانوں کو اسی حالت پر چھوڑوں گا جس پر حضورتاجدارختم نبوتﷺنے چھوڑا تھا۔ (عامہ کتب تاریخ)
موروثی جانشینی کا آغاز اور اجلہ صحابہ کرام کا رد عمل
(الف)اسلام کی تاریخ میں موروثی جانشینی کا آغاز یزید کی تقرری سے ہوا۔جب عامل مدینہ مروان نے لوگوں کو جمع کر کے یزید کی ولی عہدی کا حکم نامہ سنایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جیسے ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما نے اپنے جانشین مقرر کیے تھے اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔ اس پرسیدنا عبد الرحمن بن ابوبکر ،سیدنا عبد اللہ بن عمر ،سیدنا عبد اللہ بن زبیر اورسیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا :مروان !تم جھوٹ بولتے ہو، اس ولی عہدی میں امت محمدیہ کے لیے کوئی بھلائی نہیں، یہ تو سراسر بربادی ہے ، یہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی نہیں قیصر و کسریٰ کی سنت ہے کہ جب ان میں سے کوئی شخص مرا تو اس کی جگہ اس کا بیٹا جانشین ہوا۔ حضرت سیدناابو بکر و عمررضی اللہ عنہما نے اپنی اولاد میں سے کسی کو جانشین نہیں بنایا تھا۔۔ سنن کبریٰ نسائی میں ہے : {قال عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سنۃ ھرقل و قیصر}۔سیدنا عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہمانے کہا کہ یہ تو ہرقل اور قیصر کی سنت ہے۔
(ب)جب حضرت سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی ولی عہدی کے سلسلے میں مکہ و مدینہ کا دورہ فرمایا تو عبد الرحمن بن ابوبکر، عبد اللہ بن عمر ،عبد اللہ بن زبیر اور حسین ابن علی رضی اللہ عنہم سے یزید کی جانشینی کے متعلق بات چیت کی تو حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا:یا تو آپ حضور تاجدارختم نبوتﷺکی سنت پہ عمل کریں اور خلیفہ کی نامزدگی کو اہل حل و عقد پہ چھوڑ دیں ۔ اگر آپ کو یہ پسند نہیں تو سنت صدیقی پہ عمل کریں اور کسی ایسے شخص کو اپنا ولی عہد مقرر فرما دیں جو نہ تو آپ کی قوم کا ہو اور نہ ہی آپ کے خاندان کا۔ اگر آپ کو یہ بھی پسند نہیں تو آپ سنت فاروقی پہ عمل کریں اور ایسے چھ لوگوں کی مجلس بنا دیں جن کا آپ کے خاندان و قبیلے سے کوئی تعلق نہ ہو اور نہ ہی ان میں آپ کا بیٹا شامل ہو، وہ مجلس اپنے میں سے جس کو چاہے خلیفہ منتخب کر لے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ کوئی صورت نہیں جس پر ہم رضامند ہو سکیں ۔ باقی سب حضرات نے بھی اس کی تائید کی۔ (عامہ کتب تاریخ)
(۷)…سیدنا امام حسین کا موروثی جانشینی سے کھلا انکار
امام برحق امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے زندگی کے آخری سانس تک یزیدپلید کی بیعت نہ کر کے اس کی موروثی تقرری کو ببانگ دہل مسترد کردیا ۔وجہ اوپر وضاحت سے بیان ہو چکی کہ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مطابق یہ قیصر و کسریٰ کا طریقہ تھا، نہ کہ حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکا۔ آپ نے یزید کے خلاف باقاعدہ خروج کیا اور کربلا کے میدان میں جام شہادت نوش فرمانے تک اپنے برحق موقف پہ قائم و دائم رہے ۔آپ نے اپنی اور خانوادہ نبوت کی قربانی دینا تو قبول کرلی لیکن موروثی جانشینی کوکسی صورت قبول نہیں کیا۔
سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یزید کو مقرر کرنا معروضی حالات کے سبب مجبوراً تھا، وہ اس سلسلے میں معذور ہیں ، ان پر کوئی الزام نہیں۔ لیکن موقف حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا ہی سو فیصد درست اور بالکل برحق ہے، یعنی یزید کی موروثی تقرری بالکل غلط ہے۔ اگر یزید کی موروثی تقرری کو درست اور اسے امیر المومنین تسلیم کر لیا جائے تو پھر سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا خروج باطل قرار پائے گا،اور یہ نہ کہے گا مگر کوئی ناصبی۔
امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں یزید خبیث پر اجتماع اہل حل و عقد کب ہوا؟۔ ریحانہ رسول اللہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اس کے دست ناپاک پر بیعت نہ کرنے کے ہی باعث شہید ہوئے۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی الماتریدی ( ۲۹: ۲۱۹)
(۸)…علامہ ابن حزم الاندلسی رحمہ اللہ تعالی
علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
ولا خلاف بین احد من اھل الاسلام فی انہ لایجوز التوارث فیھا ۔
ترجمہ :اہل اسلام کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ خلافت میں وراثت جائز نہیں۔(الفصل فی الملل و النحل)
(۹)… علامہ ابو المعین النسفی رحمہ اللہ تعالی
معروف محقق علامہ ابو المعین النسفی لکھتے ہیں :اہل سنت کے نزدیک امامت و خلافت اہل عدل و صلاح کے انتخاب سے ثابت ہوتی ہے ، نہ کہ موروثی حیثیت سے۔
(تبصرۃ الادلۃ فی اصول الدین، انقرہ، ترکی)
(۱۰)… علامہ تقی الدین نبہانی رحمہ اللہ تعالی
اما انعقاد الخلافۃ بالتولیۃ و التعہد من قبل الخلیفۃ فیری النبہانی انہ امر ناشئی عن سوء فہم لما کان یجری فی الصدر الاول من تاریخ الاسلام۔
ترجمہ :علامہ تقی الدین نبہانی کی رائے یہ ہے کہ آج کے دور میں ولی عہدی والی خلافت کے انعقاد کو درست سمجھنا ان معاملات کی غلط فہمی کی وجہ سے ہے جو تاریخ اسلام کے صدر اول میں پیدا ہوئے تھے۔ (یعنی ولی عہدی والی خلافت کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا)
( الشخصیۃ الاسلامیۃ لعلامہ تقی الدین نبہانی دار الامۃ ، لبنان)
(۱۱)…تحقیق عبد اللہ بن عمر بن سلیمان الدمیجی
علامہ عبد اللہ بن عمر بن سلیمان الدمیجی اپنی زبردست تحقیقی کتاب الامامۃ العظمیٰ میں موروثی جانشینی کی شرعی حیثیت پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں تین اقوال ہیں۔ جن میں سے پہلا اورراجح قول عدم جواز کا ہے ۔عبارت کچھ یوں ہے:
الاول عدم جواز العہد الی اصول العاھد او فروعہ و ذلک لان العھد کاالشہادۃ و الحکم و لا تقبل شھادۃ الرجل لاصولہ و لا لفروعہ لوجود التھمۃ بحقہ الانسان بطبعہ یحب نفسہ و یوثرھا علی غیرھا فی اکثر الاحیان و یحب اصولہ و فروعہ لانہ جزء منھم و جزء منہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و المسلم مامور بالابتعاد عن الشبھات و مواقع التھم فانہ من اتقی الشبھات فقد استبرء لدینہ و عرضہ۔
ترجمہ : اپنے اصول و فروع کو ولی عہد بنانا ناجائز ہے ، کیونکہ ولی عہدی شہادت کی مانند ہے اور آدمی کی اپنے اصول و فروع کے لیے شہادت مقبول نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ یہ اس کے حق میں باعث تہمت ہے۔ ہر انسان طبعاً اپنی ذات سے محبت کرتا ہے اور اکثر اوقات اسے غیر پر ترجیح دیتا ہے۔ اور ہر انسان اپنے اصول و فروع سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کا جزء ہیں۔ہر مسلمان شبہات سے دور رہنے اور تہمت کے مواقع سے بچنے پر مامور ہے ، حدیث پاک کے مطابق جس نے اپنے آپ کو شبہات سے بچا لیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔
علامہ دمیجی عدم جواز کی دو وجوہ ترجیح بیان کرتے ہیں ۔
ایک تو یہ کہ اس میں خلفائے راشدین کی اقتداء ہے ۔
اور دوسرا یہ کہ امیر خواہ جتنا متقی پرہیزگار کیوں نہ ہو وہ بہرحال غیر معصوم انسان ہے ، فطری اور جبلی عوامل کی وجہ سے اس سے خطا سرزد ہو سکتی ہے،کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{انما اموالکم و اولادکم فتنۃ}۔
لہذا خلافت کی امانت اپنی اولاد کے سپرد کر کے اپنی ذات کو ہلاکت میں ڈالنا جائز نہیں ۔
(الامامۃ العظمی عند اھل السنۃ و الجماعۃ ، دار الطیبۃ ریاض)
( حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزیدکواپناجانشین اس لئے بنایاتھاکہ آپ رضی اللہ عنہ پہلے حالات دیکھ چکے تھے کہ اسی مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے بہت سے شہادتیں ہوئی تھیں ، آپ رضی اللہ عنہ کایہ عمل خالصتاًنیک نیتی پرمبنی تھااوررہایزیدپلیدکافسق وفجورتووہ بعد میں ظاہرہوااگرمان لیاجائے کہ یہ یزیدپہلے اعلانیہ فسق وفجورکامرتکب تھاتوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پراعتراض واردہوگاکہ انہوں ایسے پلیدشخص کی بیعت کیوں کی اورجولوگ یزیدکے حکمران بننے کے بعد اوراس کے فسق وفجورظاہرہونے کے بعد بھی یزیدپلیدکودرست اورخلیفہ برحق مانتے ہیں وہ سخت غلطی پرہیں کیونکہ اس طرح حضرت سیدناامام عالی مقام رضی اللہ عنہ کاغلطی ہونالازم آئے گالھذانظریہ وہ اپناناچاہئے جس میں حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ اورتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملے میں کسی بھی نقص کاشائبہ نہ ہو۔از فقیرضیاء احمدقادری رضوی عفی عنہ )
اشاعت اسلام میں رکاوٹ نااہل لوگوں کاجانشین بنناہے
جناب محمد طاہر لکھتے ہیں کہ بڑا بیٹا ہونے کے ناطے رواجی یا عُرفی جانشین سے بہرہ مند ہونا اور ہے ، اور کسی خانقاہ کے اجتماعی نظام کو آگے بڑھانے کے لیے کسی رفیع المرتبت شیخ کے کمالاتِ روحانیہ ، افکارِ علمیہ اور صفات عالیہ کو اپنا تے ہوئے، اس کے حقیقی فیوضات کا امین بن کر، اس کا صحیح جانشین بننا اور بات ہے،جس کے لیے ضروری ہے کہ صاحب سجادہ ، اپنے شیخ اور بالخصوص صاحبِ مزار کی تعلیمات کا مکمل امین اور علمبردار ہو۔ ایسا جانشین ہی ، سجادگی اور جانشینی کے صحیح معنی اور مفہوم کا خوبصورت اور جامع مظہر ہوسکتا ہے ۔عصرِ رواں میں خانقاہوں کے فیوض و برکات کے معدوم ہونے کی ایک اہم وجہ موروثی اور بے جان سجادگیاں بھی ہیں، تاہم اگر کسی مقام پر حقیقی اولاد اپنے شیخ بلکہ والد کے علوم ومعارف کی صحیح وارث بھی ہو، تو ایسا ہونا سونے پہ سہاگہ کے مترادف ہے ۔ برصغیر کی تاریخِ تصوف اس امر کی گواہ ہے کہ صوفیاء اور مشائخ طریقت کا سلسلہ ان کی اولاد کی بجائے ان کے خلفاء سے چلتا رہا ۔ان اولوالعزم ہستیوں نے دور دراز سے آئے ، مختلف قبائل اور نسب کے لوگوں کو اپنی جانشینی عطا کی، انہوں نے اپنے فیصلے خالصتاً اہلیت کی بنیاد پر کئے اور اس نظام کو، جسے انہوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا، اس پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ انہوں نے جہاں دیکھا کہ ان کا خلیفہ ان کی اولاد سے زیادہ مستحق اور اہلیت رکھتا ہے تو انہوں نے نظام کی بقا کے لیے اپنا خلیفہ اور جانشین اُن افراد کو مقرر فرمایا، جن میں وہ تمام خوبیاں اور صفات موجود تھیں، جو ایک نائب، خلیفہ اور جانشین میں ہونی چاہیے۔ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالی سے لے کرحضرت خواجہ فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی رحمہ اللہ تعالی تک، تمام مشائخ آپس میں دینی اور روحانی رشتے کے علاوہ کوئی خونی قرابت نہ رکھتے تھے، ان نفوسِ قُدسیہ کا سلسلہ طریقت خلفاء ہی سے چلا ،اولاد سے نہیں۔ اگرچہ متاخرین مشائخ طریقت میں یہ خوبصورت مثال بھی موجود ہے جہاں ایک بیٹا اپنے باپ کا خلیفہ اور جانشین بھی ہوا، اور وہ مولانا فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی ہیں، جو بارہویں صدی ہجری میں اپنے والدِ گرامی شیخ نظام الدین اورنگ آبادی کے خلیفہ اور جانشین بنے۔ سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالی کے خلیفہ اور جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ تعالی بنے، حالانکہ حضرت خواجہ کے تین صاحبزادے تھے، جن میں شیخ فخر الدین رحمہ اللہ تعالی جو سب سے زیادہ معروف ہوئے، اجمیر کے نواح میں باقاعدہ کھیتی باڑی کر کے گزر اوقات کرتے تھے۔ سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالی نے جانشینی اور سجادگی کے لیے جس اہلیت کو بنیاد بنایا، اس سے خواجہ قطب الدین رحمہ اللہ تعالی سرفراز ہوئے۔حضرت خواجہ قطب الدین رحمہ اللہ تعالی کے خلیفہ حضرت شیخ الاسلام والمسلمین فرید الدین مسعود گنج شکررحمہ اللہ تعالی ہیں، جن کی کثرتِ عبادات ومجاہدات سے متاثر ہو کر، حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ تعالی کو فرمایا تھا کہ قطب !اس نوجوان کو کب تک مجاہدوں اور ریاضتوں کی بھٹی میں پگھلاتے رہو گے، اس کو اصل حقیقت کی پہچان کراؤ تاکہ وصال کے صاف و شفاف آب حیات سے فیض یاب ہو سکے ۔ اور پھر آپ نے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ فرید الدین ہمارا وہ چراغ ہے جو ہمارے سلسلے کی روشنی کو زمین و آسمان تک پہنچا دے گا۔ یقینا یہ ارشاد حضرت سیدنافریدالدین مسعود رحمہ اللہ تعالی کے لیے سندِ اعزاز تھا، جس کی صداقت ہر دور میں تسلیم کی جاتی رہی ۔ بیعت کا یہ بندھن اس قدر مستحکم ہوا کہ حضرت خواجہ قطب الدین رحمہ اللہ تعالی کے وصال کے وقت آپ کے یہ مریدِ صادق اور خلیفہ ہانسی میں تھے۔ آپ رحمہ اللہ تعالی سے سوال ہوا کہ آپ رحمہ اللہ تعالی کے بعد آپ کی جانشینی کا شرف کسے میسر ہوگا؟، فرمایا: میرا خرقہ ، دستار، مصلی، چوبی جوتے اور میرا عصا فرید الدین تک پہنچا دینا ، وہی میرا جانشین اور خلیفہ ہوگا۔ حضرت سیدنا فریدالدین مسعودرحمہ اللہ تعالی کا فیض کئی روشن صورتوں میں آشکارا ہوا، لیکن جن کی ذات میں یہ فیوض نقطہ کمال کو پہنچے وہ آپ کے خلیفہ اور جانشین حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء تھے،جنہیں آپ نے خلافت سے سرفراز فرماتے ہوئے نظام الدین کا لقب عطا کیا۔آپ اگرچہ اپنے شیخ حضرت سیدنافریدالدین رحمہ اللہ تعالی کی وفات کے وقت موجود نہ تھے، مگر آپ رحمہ اللہ تعالی نے اپنا جامہ ، مصلیٰ ، عصا اور دیگر تبرکات اُن کو دیئے جانے کی وصیت فرمائی، یہ گویا بابا صاحب کی جانشینی اور خواجہ صاحب کے خصوصی مقام کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ تعالی ایک عرصہ ریاضت واطاعت کی زندگی گزار چکے تو بیمار رہنے لگے، احباب کو بلایا، ہدایات سے نوازا اور برصغیر کے مختلف علاقوں کی طرف روانہ کیا۔ وصال کے روز نماز عصر کے بعد حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کو بلایا، خرقہ ، عصا، مصلیٰ، تسبیح ، لکڑی کا پیالہ اور جو کچھ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکررحمہ اللہ تعالی سے ان کو ملا تھا سب شیخ نصیر الدین محمود کو عطا فرما دیا اور کہا تم کو شہر دہلی میں رہنا چاہیے اور لوگوں کے ظلم وجور برداشت کرنے چاہیئے۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی اپنے تبحر علمی کے سبب ابوحنیفہ ثانی کے لقب سے معروف ہوئے، بوقت وصال فرمایا:جب مجھے قبر میں رکھا جائے تو حضرت پیر و مرشد کا عطا کردہ خرقہ اور عصا میرے سینہ پر رکھ دینا، لکڑی کا پیالہ اینٹ کے بجائے میرے سر کے نیچے رکھ دینا، تسبیح میرے ہاتھ میں ڈال دینا اور جوتے قبر میں میرے قریب رکھ دینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضرت چراغ دہلوی نے بظاہر کسی کو جانشین نامزد نہ کیا ، لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا ان لوگوں کو کہہ دو اپنے ہی ایمان کی فکر کریں ، دوسروں کا بوجھ سر پر لینے سے کیا حاصل۔ اشاعت اسلام ، تبلیغِ دین اور تصوف و روحانیت کا اولین عہدجو تاریخ ہند میں ایک زریں دور سے تعبیر کیا جاتا ہے، حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کے وصال کے ساتھ اختتام کو پہنچا، خانقاہ اپنے مرکزی نظام کی بجائے انفرادی نظام میں ڈھل گئی ، تآنکہ خواجہ کلیم اللہ جہاں آبادی ، جن سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بزرگوں نے بھی استفادہ کیا ، نے اس کو دوبارہ عروج بخشا۔ آپ سے یہ سلسلہ شیخ نظام الدین اورنگ آبادی سے ہوتا ہوا ان کے بیٹے خواجہ فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی تک پہنچا۔ حضرت خواجہ فخر الدین شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی کے خاندان سے ازحد عقیدت رکھتے تھے ۔ یہاں تک کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی کے وصال کے بعد ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی کی دستاربندی حضرت فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی نے فرمائی۔ حضرت فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی کے بعد آپ کے سلسلے کی شہرت اور وسعت آپ کے خلیفہ خاص حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمہ اللہ تعالی کے ذریعہ عمل میں آئی اور اس طرح اس فیضان نے خطہ پنجاب کو سیراب کیا۔ خواجہ نور محمد مہاروی رحمہ اللہ تعالی سے خواجہ شاہ سلمان تونسوی رحمہ اللہ تعالی اور وہاں سے خواجہ شمس الدین سیالوی ر حمہ اللہ تعالی اور پھرفیض کا یہ سلسلہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی تک پہنچا۔ برصغیر کی اس ایک ہزار سالہ تاریخِ تصوّف میں سجادگی اور جانشینی کی تقرری اس قدراہلیت اور شفافیت کی علمبردار ہے کہ اس پر آج تک کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکا اور یہی وجہ ہے کہ ان خلفاء اور جانشینوں نے اپنے شیخ اور مرشد کے مشن کو جس انداز میں آگے بڑھایا وہ ہماری تاریخ کا زرّیں اور روشن باب ہے ۔
آج مشائخ کرام کے جانشین کتے لڑانے والے ، الیکشن لڑنے والے ، وزیرمشیربننے والے ، میلوں ٹھیلوں میں شرکت کرنے والے ، شراب کی بھٹیوں کے افتتاح کرنے والے ہوگئے ہیں ، آج مشائخ کرام کے جانشین صرف اورصرف ان کے مزارات پرپڑے ہوئے گلے صاف کرنے والے ہیں ۔ آ ج کے پیرکومرتے وقت دین نہیں بلکہ اپنی اولاد کی فکرہوتی ہے ۔ انہیں کی وجہ سے آج خانقاہی نظام کابیڑاغرق ہوچکاہے ۔
ف : اس موضوع پرمزیدپڑھنے کے لئے ہماری دوکتابیں جوکہ دونوں ضخیم ہیں ایک’’صوفیاء کرام کی مجاہدانہ زندگی اورموجودہ خانقاہی نظام ‘‘ا ورحضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مجاہدانہ زندگی اورموجودہ خانقاہی نظام ‘‘ کاضرورمطالعہ فرمائیں ۔