اہل اسلام کاسب سے بڑادشمن کون؟
{لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدٰوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ}(۸۲)
ترجمہ کنزالایمان:ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصارٰی ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصارٰی ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے ۔
شان نزول
وَہَذِہِ الْآیَۃُ نَزَلَتْ فِی النَّجَاشِیِّ وَأَصْحَابِہِ لَمَّا قَدِمَ عَلَیْہِمُ الْمُسْلِمُونَ فِی الْہِجْرَۃِ الْأُولَی حَسَبَ مَا ہُوَ مَشْہُورٌ فِی سِیرَۃِ ابْنِ إِسْحَاقَ وَغَیْرِہِ خَوْفًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَفِتْنَتِہِمْ، وَکَانُوا ذَوِی عَدَدٍ. ثُمَّ ہَاجَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَدِینَۃِ بَعْدَ ذَلِکَ فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلَی الْوُصُولِ إِلَیْہِ، حَالَتْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَرْبُ فَلَمَّا کَانَتْ وَقْعَۃُ بَدْرٍ وَقَتَلَ اللَّہُ فِیہَا صَنَادِیدَ الْکُفَّارِ، قَالَ کُفَّارُ قُرَیْشٍ: إِنَّ ثَأْرَکُمْ بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ، فَاہْدُوا إِلَی النَّجَاشِیِّ وَابْعَثُوا إِلَیْہِ رَجُلَیْنِ مِنْ ذَوِی رَأْیِکُمْ لَعَلَّہُ یُعْطِیکُمْ مَنْ عِنْدَہُ فَتَقْتُلُونَہُمْ بِمَنْ قُتِلَ مِنْکُمْ بِبَدْرٍ، فَبَعَثَ کُفَّارُ قُرَیْشٍ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ أَبِی رَبِیعَۃَ بِہَدَایَا، فَسَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمْرَو بْنَ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیَّ، وَکَتَبَ مَعَہُ إِلَی النَّجَاشِیِّ، فَقَدِمَ عَلَی النَّجَاشِیِّ، فَقَرَأَ کِتَابَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ دَعَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَالْمُہَاجِرِینَ، وَأَرْسَلَ إِلَی الرہبان والقسیسین فجمعہم ثم أمر جعفر أَنْ یَقْرَأَ عَلَیْہِمُ الْقُرْآنَ فَقَرَأَ سُورَۃَ (مَرْیَمَ) فَقَامُوا تَفِیضُ أَعْیُنُہُمْ مِنَ الدَّمْعِ، فَہُمُ الَّذِینَ أَنْزَلَ اللَّہُ فِیہِمْ۔
ترجمہ :یہ آیت کریمہ حضرت سیدنانجاشی رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ، جب اہل اسلام پہلی ہجرت میں ان کے پاس آئے جیساکہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں موجود ہے ، مشرکین کے خوف اورفتنہ کی وجہ سے ، یہ بہت سے افراد ہیں ، پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس کے بعدمدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تووہ آپ ﷺکے پاس پہنچنے پر قادرنہ ہوئے ، ان کے درمیان اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ کے درمیان جنگ حائل ہوگئی،جب جنگ بدرہوئی اوراللہ تعالی نے کفرکے سرداروں کو قتل کردیاتوکفارقریش نے کہاکہ تمھارابدلہ حبشہ کی زمین سے لیں گے ۔ پس حضرت سیدنانجاشی رضی اللہ عنہ کی طرف انہوںنے تحائف اوردوصاحب عقل لوگ بھیجے ، شایدوہ تمھیں وہ مسلمان دے دیں جو ان کے پاس ہیں ، پس تم ان کو ان کے بدلے میں قتل کردینا، جو تمھارے افراد جنگ بدرمیں قتل کردئیے گئے ہیں ، کفارقریش نے عمروبن العاص اورعبداللہ بن ابی ربیعہ کوحضرت سیدنانجاشی رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کیا، پس حضورتاجدارختم نبوتﷺنے یہ سناتوآپﷺنے عمروبن امیہ الضمری رضی اللہ عنہ کو بھیجااورانہیں حضرت سیدنانجاشی رضی اللہ عنہ کی طرف خط دے کرروانہ فرمایا۔ عمروبن امیہ الضمری رضی اللہ عنہ حضرت سیدنانجاشی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے توانہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکاخط پڑھا، پھرانہوںنے حضرت سیدناجعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ اورمہاجرین کو بلایااوراپنے راہبوں اوردرویشوںکو بلایا، پھران کو جمع کیا، پھرحضرت سیدناجعفررضی اللہ عنہ کو کہاکہ ان پر قرآن کریم کی تلاوت کرو!حضرت سیدناجعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سورۃ مریم شریف کی تلاوت کی، پس وہ کھڑے ہوئے توان کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے ۔ ان کے متعلق اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۶:۲۵۵)
کیاہرنصرانی اہل اسلام کاخیرخواہ ہے ؟
لَمْ یُرِدْ بِہِ جَمِیعَ النَّصَارَی لِأَنَّہُمْ فِی عَدَاوَتِہِمُ الْمُسْلِمِینَ کَالْیَہُودِ فِی قَتْلِہِمُ الْمُسْلِمِینَ وَأَسْرِہِمْ وَتَخْرِیبِ بِلَادِہِمْ وَہَدْمِ مَسَاجِدِہِمْ وَإِحْرَاقِ مَصَاحِفِہِمْ، لَا وَلَاء َ، وَلَا کَرَامَۃَ لَہُمْ، بَلِ الْآیَۃُ فِیمَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ مِثْلُ النَّجَاشِیِّ وَأَصْحَابِہِ، (وَقِیلَ:نَزَلَتْ فِی جَمِیعِ الْیَہُودِ وَجَمِیعِ النَّصَارَی، لِأَنَّ الْیَہُودَ أَقْسَی قَلْبًا وَالنَّصَارَی أَلْیَنُ قَلْبًا مِنْہُمْ، وَکَانُوا أَقَلَّ مُظَاہَرَۃً لِلْمُشْرِکِینَ مِنَ الْیَہُودِ۔
ترجمہ :امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں تمام نصاری مراد نہیں ہیں ، اس لئے کہ ان میں اکثرایسے ہیں جنہیں مسلمانوں سے دشمنی یہودیوں سے بھی بڑھ کرہے ، وہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مٹادیاجائے یاانہیں قیدکردیاجائے یاکم از کم ان کو ذلیل کیاجائے اوران کی مساجد کو شہیدکردیاجائے اوران کے قرآن کریم کو فناکردیاجائے ، اس بناپرنہ وہ مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں اورنہ ہی ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ یہ آیت کریمہ حضرت سیدنانجاشی اور ان کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ، اس لئے کہ حضرت سیدنانجاشی رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے پہلے ہی مسلمان ہوگئے اورفتح مکہ سے پہلے ہی وصال فرماگئے تھے ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی(۳:۸۵)
یہودی دنیاکی محبت کی وجہ سے بڑاذلیل ہے
وَأَمَّا الْیَہُودُ مَعَ أَنَّ کُفْرَہُمْ أَخَفُّ فِی جَنْبِ کُفْرِ النَّصَارَی طَرَدَہُمْ وَخَصَّہُمُ اللَّہ بِمَزِیدِ اللَّعْنِ وَمَا ذَاکَ إِلَّا بِسَبَبِ حِرْصِہِمْ عَلَی الدُّنْیَا، وَذَلِکَ یُنَبِّہُکَ عَلَی صِحَّۃِقَوْلِہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیئَۃٍ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نصرانیوں کاکفریہودیوں کے کفرسے زیادہ سخت تھاکیونکہ وہ اللہ تعالی کے بارے میں بھی غلط عقیدہ رکھتے تھے پھربھی اللہ تعالی نے یہودیوں کوزیادہ سخت دشمن قراردیااس لئے کہ یہودیوں میں دنیاکی محبت بہت زیادہ تھی ، دنیاکی محبت ان پر زیادہ لعنت کاذریعہ ہے ، اسی پر حضورتاجدارختم نبوتﷺکایہ فرمان شریف تنبیہ کرتاہے کہ (حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیئَۃٍ)کہ دنیاکی محبت ہر گناہ کی جڑہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۲:۴۱۴)
امام الرازی رحمہ اللہ تعالی کی اس بات سے معلوم ہواکہ جو قوم دنیاکی محبت میں جتنی زیادہ مبتلاہوگی اتنی زیادہ اہل اسلام کی دشمن ہوگی اورجب خود مسلمان ہی دنیاکی محبت میں گرفتارہوجائیں گے تووہ بھی دین کے دشمن بن جائیں گے جیساکہ آجکل ہمارے سامنے جتنے وڈیرے ، جاگیردارہیں سب کے سب دین کے دشمن ہیں الاماشاء اللہ ۔
یہودیوں کاذکرمشرکین کے ساتھ ہونے کی وجہ ؟
فَقَرَنَہُمْ فِی الْحِرْصِ بِالْمُشْرِکِینَ الْمُنْکِرِینَ لِلْمَعَادِ، وَالْحِرْصُ مَعْدِنُ الْأَخْلَاقِ الذَّمِیمَۃِ لِأَنَّ مَنْ کَانَ حَرِیصًا عَلَی الدُّنْیَا طَرَحَ دِینَہُ فِی طَلَبِ الدُّنْیَا وَأَقْدَمَ عَلَی کُلِّ مَحْظُورٍ وَمُنْکَرٍ بِطَلَبِ الدُّنْیَا، فَلَا جَرَمَ تَشْتَدُّ عَدَاوَتُہُ مَعَ کُلِّ مَنْ نَالَ مَالًا أَوْ جَاہًاَ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودیوں کاذکرمشرکین کے ساتھ ان دونوں کے حریص ہونے کی وجہ سے کیاگیاکیونکہ حرص تمام برے اخلاق کی کان ہے ، اس لئے کہ جوبھی شخص دنیاکاحریص ہوگاوہ اپنے دین کو پشت کے پیچھے پھینک دے گااوردنیاکی طلب میں ہر ممنوع اورمحظورکام کوبھی سرانجام دے دے گا، پس دنیاکاحریص ہر اس شخص کے ساتھ دشمنی رکھے گاجس کوبھی مال یاعزت ملے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۲:۴۱۴)
بحمداللہ تعالی پارہ سادس ۳شوال المکرم ۱۴۴۱ھ/۲۶مئی ۲۰۲۰ء) بروز منگل کو مکمل ہوا۔